ملتان (نمائندہ خصوصی) نیشنل ہائی وے اتھارٹی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق اس کے زیرانتظام پنجاب میں 34، سندھ میں 18، کے پی کے میں 7 اور بلوچستان میں 12 ٹول پلازے نیشنل ہائی ویز پر ہیں اور اس طرح نیشنل ہائی وے پر کل تعداد 71 ہے جبکہ لاہور، اسلام آباد موٹروے پنڈی بھٹیاں، فیصل آباد ودیگر برانچ روڈ سمیت ٹال پلازوں کی تعداد 28 ہے۔ اس طرح نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی اپنی ویب سائٹ پر ان ٹال پلازوں کا ذکر نہیں ہے جس کی نشاندہی روزنامہ ”خبریں“ میں ایک روز قبل کی گئی۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی ویب سائٹ میں ترتیب وار جن ٹال پلازوں کا ذکر ہے ان کی ترتیب میں خانیوال کے بعد خان بیلے کا ذکر تو ہے لیکن بستی ملوک کا ذکر نہیں ہے جس کے بارے میں روزنامہ ”خبریں“ نے لکھا کہ جس کا 2برسوں سے غیرقانونی ٹیکس وصول کررہا ہے۔ اسی طرح ویب سائٹ کی تفصیل میں سیریل نمبر19 پر اپر سندھ کا پہلا ٹال پلازہ اباڑو ہے جوکہ سیریل نمبر32 میں جاتا ہے۔ اس میں نہ تو ٹھٹھہ والا شامل ہے نہ سیہون شریف والا شامل ہے اور نہ ہی میہڑ والا ٹول پلازہ شامل ہے۔ اسی طرح کے پی کے ٹول پلازوں کی فہرست حسن ابدال سے شروع ہوتی ہے جس کا سیریل نمبر38 ہے۔ اس سیٹ میں نہ تو بالاکوٹ شامل ہے نہ بپی نوشہرہ والا شامل ہے نہ حویلیاں والا شامل ہے نہ چک درہ اور نہ ہی خوشحال گڑھ والا شامل ہے۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی اپنی ویب سائٹ یہ ظاہر کررہی ہے کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی ان 10ٹول پلازوں کو اپنی لسٹ میں شامل نہیں کررہی جن سے 2015ءسے مسلسل پیسے وصول کررہی ہے۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی شق 16 کے مطابق اتھارٹی 35 کلومیٹر سے 60کلومیٹر کے فاصلے کے درمیان ٹیکس وصول کرتی ہے اور اگر ٹریفک کا حجم زیادہ ہو تو یہ فاصلہ کم بھی کیا جاسکتا ہے جس کی مثال لاہور فیصل آباد نیشنل ہائی وے، نیشنل ہائی وے اتھارٹی سیکشن 10 (2) VII کے تحت ٹول ٹیکس جمع کرنے کا اختیار رکھتی ہے اور رقم سڑک کی بحالی پر خرچ ہوتی ہے۔ مقامی وکیل ملک امتیاز نے بستی ملوک ٹیکس پلازے کو ملتان ہائی کورٹ اور باقی پلازوں کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کررکھا ہے کہ یہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ این ایچ اے ان 10غیرقانونی پلازوں کو تسلیم کرنے کے باوجود عدالت میں ان کا تحفظ کررہی ہے اور عدالت میں نیب کو بھی پارٹی بتایا گیا ہے مگر نیب نے اربوں کے فراڈ کو ٹیک اَپ نہیں کیا۔ ہائی کورٹ نے 25مئی 2017ءکو حکم جاری کیا کہ عدالت کے روبرو ان غیرقانونی ٹیکس پلازوں کے منٹس اگر بورڈ کی میٹنگ میں موجود ہیں تو وہ پیش کئے جائیں۔ ہائی کورٹ کے جج نے واضح احکامات جاری کئے مگر 6ماہ گزرنے کے باوجود 25مئی 2017 کے حکم نامے پر عمل نہ ہوسکا اور عدالت بورڈ کی میٹنگ کے منٹس فراہم کرنے کے بجائے باری باری کی بنیاد پر وکلاءکی چھٹیوں کی درخواستیں وصول ہورہی ہیں۔ بعدازاں این ایچ اے کے جنرل منیجر ریونیو اعجاز احمد باجوہ نے اپنی طرز کا ایک منفرد حکم نامہ جاری کیا کہ منٹس بورڈ کی میٹنگ میں منظور نہ ہونے کے باوجود ان دس کے دس پلازوں کو منظور شدہ ہی سمجھا جائے اور اس طرح این ایچ اے نے ایک گول مول حکم نامہ جاری کرکے عدالت کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جو لاہور ہائی کورٹ کے معزز جج کے واضح احکامات کے مطابق نہ ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ 22دسمبر 2015ءکو تقریباً 23ماہ قبل ہائی کورٹ کے معزز جج نے یہ حکم بھی دیا تھا کہ این ایچ اے کے بورڈ آف ممبرز کی منظوری کا ریکارڈ پیش کیا جائے مگر 23ماہ گزرنے کے باوجود پیش نہ کیا جاسکا اور اس طرح 27جنوری 2015ءکی میٹنگ کے منٹس ابھی تک معمہ بنے ہوئے ہیں جن میں ان غیرقانونی ٹال پلازوں کی منظوری کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ان تمام غیرقانونی ٹال پلازوں کا ٹھیکہ چن کر ایسے افراد کو دیا گیا جن کی سیاسی سرپرستی تھی اور وہ اپنے اپنے علاقوں میں سماج دشمن عناصر ہونے کے ناطے منفرد پہچان بھی رکھتے تھے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بستی ملوک کے لوگ اپنے شناختی کارڈ دکھاکر یا پھر گاڑی کا شیشہ نیچے کرکے محض ایک لفظ ”مقامی“ کہہ کر گزر جاتے ہیں اور یہ سہولت پاکستان کے کسی اور ٹول پلازے پر نہیں ہے۔ صرف انہی 10پلازوں پر ہے۔
