لاہور (خصوصی رپورٹ) مسلم لیگ ن میں فارورڈ بلاک بننے کی صورت میں شریف خاندان کا سینٹ کے الیکشن سے پہلے اسمبلیاں توڑ دینے پر غور شروع کردیا۔ سینٹ انتخابات میں اسی صورت میں جایا جائے گا اگر پارٹی کے اندر بڑا فارورڈ بلاک نہ بنا۔ فارورڈ بلاک بننے کی صورت میں سینٹ انتخابات سے پہلے ہی اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں گی۔ باوثوق ذرائع کے مطابق دو حکومتی خفیہ اداروں نے اپنی رپورٹ میں یہ کہا کہ حدیبیہ کیس کھلنے کی صورت میں ارکان قومی اسمبلی کی طرح پنجاب کے اندر بھی پنجاب اسمبلی کے بہت زیادہ ارکان حکومت کا ساتھ چھوڑ سکتے ہیں اور وہ کسی اور پارٹی میں جانے کی بجائے بڑا فارورڈ بلاک بناسکتے ہیں اور یہ فارورڈ بلاک بناسکتے ہیں اور یہ فاروڈ بلاک سینٹ انتخابات میں حکومتی امیدوار کو ووٹ نہیں دے گا۔ جس سے سینٹ میں (ن) لیگ کی اکثریت نہیں بن سکے گی۔ رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صرف پنجاب ہی نہیں اس حوالے سے بلوچستان کے اندر بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ اسی وجہ سے ارکان پنجاب اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں حکومتی ہدایات کے باوجود حصہ نہیں لے رہے۔ رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے جلد فارورڈ بلاک کی صورتحال سامنے آ جائے گی اور بہت سے ارکان نپجاب اسمبلی جن کی تعداد 100 سے زائد ہو چکی ہے، کھل کر سامنے آ سکتے ہیں اور وہ پارٹی چھوڑنے کی بجائے پارٹی کے اندر ہی نئی قیادت کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ اور ایسی صورت بننا شروع ہو جائے گی کہ سینٹ انتخابات کی صورت میں حکمران جماعت کو سب سے زیادہ مخالفت کا سامنا اپنے ہی ارکان کا کرنا پڑے گا۔ رپورٹ میں یہ بھی خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اچانک اتنے زیادہ استعفے بھی آ سکتے ہیں کہ جس سے غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق ن لیگ نئی حکمت عملی کے تحت ان رپورٹس اور موجودہ صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے اس تجویز پر عملدرآمد کا فیصلہ حالات کو دیکھ کرے گی۔ ذرائع کے مطابق بلوچستان کے اندر بھی اس پر کام ہو چکا ہے اور بہت سے ارکان اسمبلی جو بظاہر ن لیگ کے حمایتی نظر آتے ہیں وہ کسی بھی وقت کھل کر مخالفت میں جاسکتے ہیں۔ باوثوق ذرائع کے مطابق ایک اہم لیگی رہنما نے ایک نجی محفل میں اس بات کا اظہار بھی کیا کہ اگر پنجاب میں ارکان کی زیادہ تعداد ہمارا ساتھ چھوڑ گئی تو پھر فوری اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں گی۔ دریں اثناءمسلم لیگ (ن) میں فارورڈ بلاک کی تیاری کے شواہد منظر عام پر آنے لگے ہیں اور پارٹی میں توڑ پھوڑ شروع ہوگئی ہے جبکہ ارکان کی ناراضی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ وزیراعظم، وفاقی وزراءاور پارٹی رہنماﺅں کی جمعرات کو اسمبلی پہنچنے کی کالز، ضلعی انتظامیہ کی طرف سے دباﺅ،اعلیٰ سطح کے رابطوں اور منت سماجت کے باوجود گزشتہ روز 78 ارکان قومی اسمبلی نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کی ، بعد میں انتظامیہ کے دباﺅ اور پارٹی رہنماﺅں کی منت سماجت کے بعد بھی صرف مزید 16ارکان قومی اسمبلی میں آئے اور ووٹنگ میں حصہ لیا۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں 110اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں 126 لیگی ارکان آئے۔ ذرائع کے مطابق نوازشریف کی نااہلی کے باوجود پارٹی صدر بننے کیخلاف سینیٹ سے پاس ہونیوالی ترمیم کے قومی اسمبلی میں پیش ہونے کے وقت بھی (ن) لیگ کے 70 سے زائد ارکان اسمبلی حاضر نہیں ہونگے کیونکہ ان ارکان کا ماننا ہے کہ نوازشریف کو اب پارٹی کی سربراہی چھوڑ دینی چاہئے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ اس صورتحال کو پارٹی کے اندر ایمرجنسی کے طور پر لیا جارہا ہے ، کچھ ارکان کا کہنا ہے کہ خطرے کی گھنٹی بج چکی، ن لیگ کو اندر سے ہی مزاحمت کا سامنا ہے۔ ارکان وزیر خزانہ اور گزشتہ 4سال میں رکھے گئے رویے سے نالاں ہیں۔ کچھ کا ماننا ہے کہ پارٹی کو شدت پسند نہیں بلکہ مفاہمتی اور مصالحتی پالیسی کی ضرورت ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ حکمران جماعت کے پاس قومی اسمبلی میں 188 ارکان ہیں لیکن پارلیمانی پارٹی میں صرف 110 نے شرکت کی۔ وزیراعظم نے غیر حاضر ارکان کی حاضری یقینی بنانے کیلئے وزراءکی ڈیوٹی لگائی کہ وہ ان کو فون کریں، زیادہ تر غیر حاضرارکان کے فون بند پائے گئے جبکہ جن سے رابطہ ہوا انہوں نے بتایا کہ وہ راولپنڈی آئے تھے دھرنے کی وجہ سے پہنچنے میں تاخیر ہوگئی۔کچھ نے کہا وہ ضروری کام سے شہر سے باہر ہیں، جبکہ کچھ کا کہنا تھا کہ وہ اپنے حلقہ میں ہیں۔ وزیراعظم نے پارلیمانی امور کے وزیر مملکت آفتاب شیخ کو ارکان سے رابطہ کرنے اور ان کی غیر حاضری کی وجہ جاننے کیلئے ہدایت جاری کردی۔ اجلاس میں ن لیگ کے ارکان کل اتنی بڑی تعداد میں اہم بل پاس ہونے کے دن ایوان سے غیر حاضری پر کئی سوالات اٹھائے گئے۔ ن لیگ کے غیر حاضر رہنے والے ارکان قومی اسمبلی سے وزیر کھیل ریاض پیزادہ، خسروبختیار، وزیر صحت سائرہ افضل تارڑ، وزیر خارجہ آصف، وزیر تجارت پرویز ملک، وزیر دفاع خرم دستگیر،شائستہ پرویز، نجف سیال، اظہر شاہ گیلانی، محمد خان ڈاھا، جعفر لغاری، حفیظ الرحمن خان دریشک، مخدوم علی حسن گیلانی، سیدایازعلی شاہ، طاہر چیمہ، ممتاز ٹمن، خادم حسین سمیت دیگر کئی ارکان کو خفت اٹھانی پڑی۔ دوسری جانب ن لیگی ارکان کے علاوہ کئی اہم ترین سینئر ارکان اسمبلی جن میں اپوزیشن لیڈر خورشیدشاہ ، سابق وزیراعظم ظفراللہ جمالی، جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی غیر حاضر رہے۔