تازہ تر ین

علامہ اقبال پاکستان کے نام سے الگ وطن ہی نہیں مسلم دو لت مشترکہ بنانا چاہتے تھے : ضیا شاہد حیدر

کراچی (وقائع نگار خصوصی) معروف صحافی اور کل پاکستان اخبارات کے ایڈیٹرز کی تنظیم سی پی این ای کے صدر ضیا شاہد نے کہا ہے کہ علامہ اقبال نے خطبہ الٰہ آباد میں مسلمانوں کی الگ آزاد ریاست کا تصور دیا تھا جس پر انی پاکستان قائداعظم نے عمل کرتے ہوئے 1940ءکی قرارداد کے دوران پاکستان کا مطالبہ کیا اور 14 اگست 1947ءکو پاکستان بن گیا لیکن یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال کو مصور پاکستان اور قائداعظم کو بانی پاکستان کہا جاتا ہے۔ تاہم برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی غالب آبادی رکھنے والے حصوں کو پاکستان کے نام سے آزادی دلانا علامہ اقبال کی آخری منزل نہیں تھی کیونکہ وہ اپنی نظم میں واضح طور پر کہتے ہیں کہان تازہ خداﺅں میں بڑا سب سے وطن ہےجو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہےعلامہ اقبال پاکستان کی مغربی سرحدوں کے اندر ایک وطن کے قیام کے مخالف تھے بلکہ وہ کہتے ہیں چین و عرب ہمارا، ہندوستان ہمارامسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہماراکے قائل تھے۔ ضیا شاہد نے علامہ کی نظم اور اشعار سے ثابت کیا کہ وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی دولت مشترکہ قائم کرنا چاہتے تھے جس کی تعبیر میں انہوں نے اپنا شعر کہا کہایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئےنیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغرضیا شاہد نے کہا کہ آج کی دنیا پر نظر ڈالی جائے اور غور کریں کہ پاکستان ایٹمی ملک ہے، ایران سعودی عرب تیل کی دولت سے مالا مال، لیبیا میں یورینیم کے ذخائر، مسلمان ممالک میں کہیں تانبے کہیں سونے کے۔ غرض اگر ان ممالک کے وسائل دولت مشترکہ کی صورت میں ایک جگہ جمع کر لئے جائیں تو الگ الگ مملکتیں بھی دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے طور پر سامنے آ سکتی ہیں۔ شاہ فیصل شہید نے اسلامی کانفرنس لاہور میں یہی خواب دیکھا۔ بھٹو صاحب نے بھی پاکستانی ایٹمی بم کو اسلامی بم کہا۔ اس وقت جو فیصلے ہوئے تھے ان میں مسلمان طاقتوں کا عالمی مشترکہ بینک، مشترکہ نیوز ایجنسی اور باہمی تجارت کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی تھی لیکن اتنے برس گزرنے کے باوجود نہ بینک بنا نہ مشترکہ نیوز ایجنسی ورنہ مسلمان حکمرانوں اور امراءکی دولت سوئٹزرلینڈ، برطانیہ اور امریکہ کے بینکوں میں نہ سڑ رہی ہوتی اور ہم کسی بھی مسلمان ملک کے بارے میں صورتحال جاننے کیلئے بی بی سی، وائس آف امریکہ اور اے ایف پی جیسی نیوز ایجنسیوں کے محتاج نہ ہوتے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ علامہ اقبال ذات برادری اور رنگ و نسل کو نہیں مانتے تھے۔ قائداعظم نے صوبہ پرستی کو لعنت قرار دیا، لیکن اب پورا ملک گھٹنوں گھٹنوں رنگ و نسل اور ذات برادری میں تقسیم در تقسیم کا شکار ہو چکا ہے۔ قائداعظم نے ملک لے کر دیا جسے 1971ءمیں آدھا توڑ دیا۔ علامہ اقبال نے جدید مسلم معاشرے کا خواب دکھایا اور اسلامی بلاک کی پیش گوئی کی۔ شاہ فیصل شہید کو یہی خواب دیکھنے کی بنا پر شہید کر دیا گیا اور آج ہم مسلم ممالک ایک ایک کر کے ٹوٹ رہے ہیں یا توڑے جا رہے ہیں۔ ضیا شاہد نے کہا کہ مذہبی طور پرہمارے رہنما صرف اور صرف رسول پاک کی ذات مبارکہ ہے۔ سیاسی طور پر ہمارے لیڈر قائداعظم ہیں۔ جنہوں نے کہا تھا کہ مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہئے جس میں غریب کو چھت، محروم کو روٹی اور مظلوم کو انصاف نہ ملے۔ خبریں کے چیف ایڈیٹر نے کہا کہ جی ایم سید ان دنوں مسلم لیگ میں تھے ایک الیکشن میں انہوں نے قائداعظم سے اجازت طلب کی کہ مسلم لیگی امیدوار کے مقابلے دو مضبوط امیدوار ہیں۔ ایک سے سودا ہو گیا ہے وہ کچھ پیسے لے کر دستبردار ہونے کو تیار ہے۔ آپ کی اجازت درکار ہے۔ قائداعظم نے انہیں خط لکھا جس کے انگریزی کے الفاظ کا ترجمہ یہ ہے۔ میں سیٹ ہارنا پسند کروں گا بجائے اس کے کہ مسلم لیگ پیسے دے کر سیٹ خریدے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ قائداعظم کی ذاتی زندگی انتہائی دیانتدارانہ تھی وہ اصرار کرتے تھے کہ مسلم لیگ کو کوئی چارآنہ کا بھی چندہ دے تو اس کی رسید جاری کی جائے۔ مسلم لیگ کے فنڈ میں سے انہوں نے زندگی بھر اپنی خاطر کچھ نہ لیا اور اپنے پرسنل سیکرٹری کے ایچ خورشید کا ٹکٹ یا سفری خرچہ بھی وصول نہ کیا اور جب انتقال ہوا تو اپنی ساری جائیداد کا ٹرسٹ بنا کر سکولوں اور کالجوں کو دے گئے۔ تقریر اور بیان بازی کو چھوڑیں ان کے عمل کو دیکھیں آپ کو آج کی سیاست میں گندگی نظر آ جائے گی۔آخر میں انہوں نے کہا کہ جو لوگ مغربی جمہوریت کو ایمان کا درجہ دیتے ہیں وہ سن لیں کہ علامہ نے کہا تھا۔
مہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میںبندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
ضیا شاہد نے کہا کہ برطانیہ میں جمہوریت اس لئے کامیاب ہوئی وہاں تعلیم کی شرح 90,80 فیصد ہے اور وہاں معاشی مسئلہ سرے سے نہیں اور نہ وہاں مذہب کے نام پر، نہ کوئی جاگیرداری کی دھونس انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں نظریہ پاکستان ٹرسٹ نے مجھے ”خود دار پاکستان“ کے موضوع پر لیکچر کے لئے بلایا میں نے کہا کہ خود داری کے لئے خود کفالت ضروری ہے۔ چین کے ابتدائی دور کی طرح غیر ملکی امداد سے نجات پاﺅ جب تک تم اپنے پاﺅں پر کھڑے نہیں ہو جاتے۔ کیونکہ قومیں خود کفیل ہوتی ہیں تو خود دار بن سکتی ہیں انہوں نے کہا کہ یہاں تقریریں ہوتی ہیں کہ ایکسپورٹ کم اور امپورٹ بڑھ گئی ہے۔ آج ہر شہر میں سبزیاں اور پھل بھی امپورٹڈ ملتی ہیں۔ سوئی سے کار تک ہر چیز ہم باہر سے منگواتے ہیں کہ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو گئے اور سالانہ بجٹ بنانے کے لئے پھر سے قرضہ مانگنا پڑے گا۔ صرف موجودہ حکومت کے دور میں کئی گنا قرضہ ہمارے سروں پر ہے اور اب پھر سات سو بلین سے زیادہ قرضہ مانگا جا رہا ہے کہ ایک سال کا بجٹ بنانے کے لئے بھی پیسہ نہیں ہے جب کہ ملک سے پیسہ باہر لے جا کر لوگوں نے محلات کھڑے کر لئے۔ انہوں نے آخر میں علامہ اقبال کا ایک شعر سناتے ہوئے کہا کہ علامہ نے اپنے کلام میں جا بجا خودی اور خودداری کا درس دیا۔ سادہ زندگی بسر کر کے غیر ملکی قرضوں سے نجات پائیں اور علامہ کا یہ
اے میرے فقیر فیصلہ تیرا ہے کیا
خلعت انگریز یا پیرہن چاک چاک


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain