اسلام آباد(وقائع نگار خصوصی‘ مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعظم کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کے ایک اجلاس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ مشورہ قبول کرلیا گیا ہے کہ مظاہرین کے خلاف فوج استعمال نہ کی جائے، جنرل باجوہ نے کہا تھا کہ عوام فوج سے محبت کرتے ہیں، فوج کو عوام کے خلاف استعمال نہیں کرسکتے، حکومت مسئلے کا حل پرامن طریقے سے مذاکرات کے ذریعے نکالے، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں ہونے والے اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ فوج وفاقی دارالحکومت میں سرکاری تنصیبات کی حفاظت پر مامور رہے گی اور دھرنے کیخلاف آپریشن میں حصہ نہیں لے گی۔ وزیر اعظم ہاو¿س میں اس مشاورتی اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیر داخلہ احسن اقبال، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ وزیر داخلہ احسن اقبال نے وزیراعظم اور شرکا کو دھرنا مظاہرین کے خلاف کارروائی، گرفتاریوں اور ملکی داخلی صورتحال کے حوالے سے بریفنگ دی۔ذرائع کے مطابق اجلاس میں طے پایا کہ آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو طلب کیا گیا ہے اور پاک فوج سرکاری تنصیبات کی حفاظت کے لیے موجود رہے گی تاہم اس کا دھرنے کے خلاف آپریشن سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ مظاہرین کو منتشر کرنے کی ذمہ داری پولیس اور سول سیکیورٹی اداروں کی ہے، انتظامیہ اور ضلعی پولیس کا کام ہے کہ وہ دھرنے والوں سے مذاکرات کریں اور مظاہرین کو پرامن طریقے سے منتشر کیا جائے۔اجلاس میں آرمی چیف نے وزیراعظم کو تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے عوام کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کرسکتے، پاکستانی عوام فوج سے محبت اور اس پر اعتماد کرتے ہیں اور معمولی فوائد کے بدلے اس اعتماد کو نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا، ختم نبوت ترمیم کے ذمہ دار افراد کی نشاندہی کرکے انہیں سزا دی جانی چاہیے، ملک میں بدامنی اور انتشار کی صورت حال ٹھیک نہیں کیونکہ اس سے دنیا میں پاکستان کی ساکھ متاثر ہوگی۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ہمیں متحد رہنا ہے، پاک فوج حکومت کے ماتحت ہے اور سونپی گئی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے تیار ہے، لیکن تمام آپشنز کو بروئے کار لانے کے بعد فوج آخری آپشن ہونا چاہیے، ریاست کو خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں فوج کو طلب کیا جانا چاہیے، جبکہ اسلام آباد میں اضافی نفری تعینات نہیں کی جائے گی اور صرف پہلے سے موجود جوانوں کو سرکاری عمارتوں کی حفاظت پر مامور کیا جاسکتا ہے۔آرمی چیف نے یہ بھی تجویز دی کہ الیکٹرانک میڈیا پر پابندی ختم کی جائے اور صرف مخصوص حالات میں مختصر مدت کے لئے پابندی لگائی جائے۔ آرمی چیف کی تمام تجاویز کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے منظور کرکے ان پر عمل درآمد کا حکم دے دیا ۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے مطابق انہوں نے ختم نبوت کے حلف نامہ میں تبدیلی سے متعلق راجا ظفرالحق کی رپورٹ منظر عام پر لانے کی تجویز بھی پیش کی۔ملاقات کے دوران آرمی چیف نے کہا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے فوج کو اسلام آباد میں سول اتھارٹی کی مدد کے لئے کہا گیا جس پر وضاحت کی ضرورت تھی، آرمی چیف نے بتایا کہ وزارت داخلہ کے نوٹی فکیشن میں حساسیت ہے جس کی وضاحت کی ضرورت ہے۔ملاقات میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور آرمی چیف نے دھرنے کا معاملہ افہام و تفہیم سے طے کرنے اور دھرنا ختم کرنے کے لیے طاقت کا استعمال نہ کرنے پر اتفاق کیا۔اس سے قبل وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت ہونے والے اعلی سطح کے اجلاس کے دوران فیض آباد دھرنے کے شرکا کے خلاف آپریشن کے بعد کی صورتحال اور آئندہ کی حکمت عملی پر مشاورت کی گئی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ معاملے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لئے دھرنا مظاہرین سے مذاکرات دوبارہ شروع کیے جائیں گے۔