ملتان (سپیشل رپورٹر) 2014ءکے دھرنے کے دوران پی ٹی آئی کی کمر میں چھرا گھونپ کر اس پارٹی کے قیام سے آج تک سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والے جاوید ہاشمی بالآخر ”پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا“ کے مصداق ، واپس مسلم لیگ (ن) میں باقاعدہ شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ یوں تو جاوید ہاشمی نے مسلم لیگ (ن) چھوڑی ہی نہ تھی بلکہ ایک منصوبے کے تحت الگ ہوئے تھے لیکن اب وہ باقاعدہ فوٹو سیشن کے بعد اپنی اصل جگہ پہنچ جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف کوئٹہ سے واپسی پر ملتان میں مختصر قیام کرکے جاوید ہاشمی کو رسمی دعوت دیں گے اور چار سال سے طے شدہ ڈیل اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے گی۔ اس شمولیت سے جو اصل پیغام دیا جا رہا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ اب مسلم لیگ (ن) کی عدلیہ اور فوج کے خلاف محاذ آرائی میں تیزی آ جائے گی کیونکہ جاوید ہاشمی بظاہر نیوٹرل رہ کر گزشتہ 3 سال سے عدلیہ اور فوج کو رید رہے ہیں اور ہر موقع پر سخت ترین بیانات انہی کی طرف سے سامنے آتے رہے ہیں۔ واقفان حال کے مطابق واپسی ڈیل میں یہ بات شامل ہے کہ وہ عدلیہ اور فوج کے خلاف سخت موقف رکھتے ہوئے یہی کہیں گے کہ یہ ان کا ذاتی موقف گزشتہ تین سال سے ہے اور پارٹی میں آنے سے ان کا موقف تبدیل نہیں ہوا کیونکہ نواز شریف نے تو بہت بعد میں یہ لائن لی جبکہ انکے ذریعے ہاشمی کھیل تو عرصہ سے کھیلا جا رہا ہے۔ اب ہاشمی واضح طور پر یہی کہیں گے ان کا 2014ءسے ایک موقف ہے جس پر وہ قائم ہیں۔ جاوید اختر سے جاوید ہاشمی اور پھر مخدوم جاوید ہاشمی بننے والے جنوبی پنجاب کے اس سیاستدان نے اپنی سیاست کا آغاز اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے کیا اور 1974ءتک طلبہ سیاست کی۔ اس کے بعد فخر امام نواز شریف اور جاوید ہاشمی نے پاکستان تحریک استقلال میں شمولیت اختیار کی اور آئی جے آئی کی طرف سے 1977 کے الیکشن میں ہاشمی تحریک استقلال کے کوٹے سے صوبائی اسمبلی کی ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس دوران انہوں نے لاہور میں معروف تجزیہ کار جناب مجیب الرحمن شامی کے ساتھ پارٹنر شپ کی۔ سابق کور کمانڈر ملتان میجر جنرل اعجاز عظیم جاوید ہاشمی پر خاص توجہ دیتے تھے اور انہیں جنوبی پنجاب سے لانچ کرنا چاہتے تھے۔ ضیاءالحق نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے نوجوانوں کو سیاست میں لانے کا فیصلہ کیا اور ازخود جاوید ہاشمی کے علاوہ زکریہ یونیورسٹی ملتان کے سابق صدر فاروق تسنیم سے بھی ملاقات کی۔ فاروق تسنیم شدید مالی مسائل کا شکار تھے لہٰذا انہوں نے محض کسٹم کی نوکری سے اکتفا کیا اور اپنے مالی حالات درست کرلیے۔ البتہ جاوید ہاشمی سابق کور کمانڈر ملتان میجر جنرل اعجاز عظیم کی طرف سے د یجانے والی بریفنگ کی روشنی میں ضیاءالحق سے مارشل لاءچھتری تلے وزارت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور انہیں کھیل اور ٹورازم کی وفاقی وزارت ملی، حالانکہ ایم پی اے کا الیکشن ملتوی ہونے پر پنجاب اسمبلی کے رکن بھی نہ بن سکے جبکہ عام شہری کی حیثیت سے مارشل لا کی چھتری تلے وفاقی کابینہ میں شمولیت اختیار کی۔ فوج کی چھتری تلے پہلی کامیابی جاوید ہاشمی کو اس وقت ملی جب 1983ءکے بلدیاتی انتخابات میں انہوں نے فخرامام کے ساتھ گروپ بنا کر حامد رضا گیلانی کو شکست دے دی اور اس اینٹی گیلانی گروپ نے پہلی مرتبہ ضلع ملتان میں اپنی شناخت بنائی جو اس وقت خانیوال اور لودھراں پر مشتمل تھا۔ اس کامیابی کے بعد جنرل ضیاءالحق نے چیئرمین ضلع کونسل ملتان فخر امام کو براہ راست وفاقی وزیر بلدیات بنا لیا اور 1985ءکے الیکشن میں ہاشمی اور فخرامام گروپ نے ملتان میں قومی اسمبلی کی دس میں سے پانچ سیٹوں پر کامیابی حاصل کرلی۔ اس گروپ کے کامیاب اراکین قومی اسمبلی میں سید فخرامام‘ جاوید ہاشمی‘ شیخ رشید‘ بابو فیروز الدین انصاری اور آفتاب ڈاہا شامل تھے۔ اب جاوید ہاشمی کو اسٹیبلشمنٹ کی چتھری کی ضرورت نہ رہی تھی۔ لہٰذا ممبر قومی اسمبلی کا حلف اٹھاتے ہی انہوں نے قومی اسمبلی میں انڈی پینڈنٹ پارلیمانی گروپ جسے آئی پی جی کا نام دیا گیا تھا قائم کیا اور خواجہ صفدر کے مقابلے میں فخرامام کو سپیکر قومی اسمبلی کامیاب کرا دیا۔ اس گروپ میں سیدہ عابدہ حسین‘ حاجی سیف اللہ‘ شیخ رشید احمد بھی شامل تھے۔ تحریک استقلال کے دور میں نوازشریف سے دوستی انہیں مسلم لیگ میں اوپر لاتی گئی اور نوازشریف کی بیرون ملک موجودگی کے بعد انہوں نے پارٹی سنبھالے رکھی مگر نوازشریف کے واپس آنے کے بعد 2012ءمیں پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں خواجہ آصف اور چودھری نثار علی خان نے ہاشمی کی سب کی موجودگی میں بے عزتی کی اور یہ ساری کارروائی نوازشریف کے سامنے ہوئی۔ جاوید ہاشمی پارلیمانی لیڈر یا پھر پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی لینا چاہتے تھے جو انہیں نہ ملی اور فاصلے بڑھتے گئے حتیٰ کہ متعدد مرتبہ جاوید ہاشمی یہ کھلے عام کہا کرتے تھے کہ ان کے کہنے پر تو ایس ایچ او مخدوم رشید بھی بات نہیں سنتا بلکہ ملتان کی ساری انتظامیہ اور پولیس ان کیخلاف چلتی ہے حالانکہ ہاشمی کی فریاد پر نوازشریف نے انہیں رسمی طور پر پارٹی کا سینئر نائب صدر بنا رکھا تھا مگر مکمل طور پر وہ بے اختیار تھے۔ اس دوران خواجہ سعد رفیق نے مسلم لیگی لیڈروں کی پشت پناہی میں ایک کھیل کھیلا اور ہاشمی جو پہلے ہی ڈپریشن کا شکار تھے کو اعتماد میں لے کر پی ٹی آئی میں شمولیت کروا دی اور وعدے کے باوجود خود سعد رفیق پی ٹی آئی میں نہ گئے۔ جاوید ہاشمی چونکہ مسلم لیگ ن میں سینئر نائب صدر تھے لہٰذا یہ بھی سیاسی تاریخ میں کم ہی ہوا ہوگا کہ پارٹی میں شمولیت اختیار کرتے ہی کسی کو پارٹی صدر کا عہدہ دے دیا گیا ہو۔ جاوید ہاشمی جنوبی پنجاب کے ایسے سیاستدان ہیں جن کے کریڈٹ پر کوئی ایک بھی بڑا فلاحی اور عوامی منصوبہ نہیں بلکہ چند ایکڑ ترکہ اراضی کے مالک جاوید ہاشمی کی ملتان اور مخدوم رشید میں ایکڑوں پر مشتمل کوٹھیاں ہیں اور بطور وزیر صحت ان پر ایک مشہور جنسی دوائی کی پاکستان میں فروخت کی اجازت دینے کا الزام بھی تھا۔ جتنا عرصہ بھی جاویدہاشمی وفاقی وزیر صحت رہے‘ ابدالی روڈ پر ملتان کے اکلوتے تھری سٹار ہوٹل کے کمرے ملک بھر کی ادویہ ساز کمپنیوں کے نمائندوں سے بھرے رہتے تھے۔ انہی دنوں جاویدہاشمی نے اپنے نام کے ساتھ مخدوم لکھوانا شروع کیا تھا۔ پی ٹی آئی میں شمولیت واقفان حال کے مطابق ایک طے شدہ منصوبے کے تحت تھی۔ پہلے خواجہ آصف کا انہیں پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ میں بے عزت کرنا اور یہ کہنا کہ تم عالمی لیڈر بنے پھرتے ہو‘ اپنی سیٹ تو جیت نہ سکے۔ خیرات پر ملنے والی سیٹ پر نوازشریف نے تمہیں جتوایا اور چلے تم مسلم لیگ کی قومی اسمبلی میں قیادت لینے۔ اس اجلاس کے بعد ایک اخبارنویس اور خواجہ سعدرفیق نے جاویدہاشمی پر ورک کرنا شروع کر دیا اور بالآخر وہ پی ٹی آئی میں شامل کروا دیئے گئے۔ جاویدہاشمی کی تمام تر ہمدردیاں پی ٹی آئی کی صدارت سنبھالنے کے بعد بھی (ن) لیگ کے ساتھ رہیں حتیٰ کہ انہوں نے تحریک انصاف کا صدر ہوتے ہوئے بھی قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں کہا تھا کہ نوازشریف میرا لیڈر ہے۔ واقفان حال کے مطابق پی ٹی آئی میں جاویدہاشمی کی شمولیت کے بعد پارٹی کی انتہائی اہم میٹنگز کے فیصلے بھی مسلم لیگ (ن) کے علم میں ہوتے اور خواجہ سعدرفیق کے ذریعے تمام معلومات مسلم لیگ کو مل جاتیں حتیٰ کہ آئندہ کی حکمت عملی بھی۔ اس دوران 2013ءکے الیکشن میں جنوبی پنجاب کی بہت سی سیٹیں جن پر پی ٹی آئی کی کامیابی یقینی تھی مسلم لیگ نے حاصل کر لیں اور جاویدہاشمی پر پارٹی ٹکٹ فروخت کرنے کا نہ صرف الزام لگا بلکہ عمران خان کی طرف سے قائم کی جانے والی کمیٹی میں بہت سے شواہد سامنے آ گئے۔ قبل اس کے کہ وہ رپورٹ سامنے آتی‘ دھرنا جاری تھا اور دھرنے کے دوران پی ٹی آئی نے رپورٹ خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس میں ٹکٹ فروشی کے الزامات کے ثبوت مل چکے تھے۔ اس رپورٹ کو دھرنے کے بعد منظرعام پر لانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ جاویدہاشمی کو بھی اس کا اندازہ تھا اور چند چیزیں میڈیا پر اس حوالے سے سامنے بھی آ چکی تھیں‘ مگر دھرنے کے دوران ہی اچانک ہاشمی نے پی ٹی آئی پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے پارٹی چھوڑ دی اور پھر قومی اسمبلی کی سیٹ بھی۔ اب اگر عمران خان رپورٹ سامنے لاتے تو بے اثر ہوتی۔ ہاشمی اپنا پتا کھیل چکے تھے۔ انہوں نے تب سے فوج اور عدلیہ کے خلاف سخت مو¿قف اختیار کئے رکھا ہے اور وہی باتیں مسلسل کہہ رہے ہیں جو حقیقت میں مسلم لیگ (ن) کے مو¿قف کو سپورٹ کرتی تھیں۔ اب واپسی اور فوٹو سیشن کا وقت آ گیا ہے ورنہ جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ کبھی مسلم لیگ (ن) سے الگ نہ ہوئے تھے۔ انہوں نے عمران پر مارشل لاءلگوانے کا الزام لگا کر تحریک انصاف کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ پی ٹی آئی سے علیحدہ ہونے کے بعد اپنے گھر انتظار میں بیٹھے رہے اور وقتاً فوقتاً اپنے دوستوں سے یہ شکوہ کرتے تھے کہ میں انتظار کر رہا ہوں کہ (ن) لیگ مجھے بلاتی نہیں‘ لہٰذا وہ اکثر و بیشتر ملتان پریس کلب میں اور دیگر فورمز پر فوج اور عدلیہ کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے (ن) لیگی قیادت کو بار بار یہی پیغام دیتے رہے ”اب تو بلا لے“ بالآخر وہ وقت آ گیا۔ اب پی ٹی آئی سے علیحدہ ہو کر ”باغی سے داغی“ قرار دیئے جانے والے جاوید ہاشمی جن کا ملتان نماز جمعہ کیلئے مساجد میں داخلہ مشکل ہوگیا تھا کہ عمران خان کے ٹائیگر ان پر ”باغی سے داغی“ کی آوازیں لگاتے۔ اسی وجہ سے وہ شدید ذہنی دباﺅ کا شکار تھے۔ اب پھر جاویدہاشمی کو مسلم لیگ (ن) کا پلیٹ فارم مل رہا ہے کہ وہ کھل کر عدلیہ اور فوج پر تنقید کریں اور نوازشریف کی خوشنودی حاصل کریں۔ معاوضہ لینے کا وقت آ گیا ہے لہٰذا پی ٹی آئی کے علاوہ ملتان میں عوام کی طرف سے ”باغی سے داغی“ قراردیئے جانے والے جاویدہاشمی کھل کر عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیں گے۔
جاوید ہاشمی