تازہ تر ین

تین شوگر ملیں بند،باقی کا گٹھ جوڑ،گنے کا کا شتکار بے یارومددگار،حکومت غا فل

ملتان (سپیشل رپورٹر) شوگر ملوں کے اتحاد نے گنے کے کاشتکار کا کچومر نکال کر رکھ دیا ہے۔ تین ملیں بند ہونے سے باقی تمام ملوں نے آپس میں اتحاد کرکے ایک تو کرشنگ سیزن دیر سے شروع کیا اور اوپر سے ملیں پوری استعداد پر چلائی نہیں جارہیں۔ کبھی مرمت کے نام پر بند کردی جاتی ہیں اور کبھی حکومتی مداخلت کا بہانہ بنادیا جاتاہے۔اس وقت گنے کا سرکاری ریٹ تو 180روپے من ہے مگر ضلع رحیم یار خان میں بعض ملیں ٹاﺅٹ مافیا کے ذریعے 80سے 120روپے من گنا خرید رہی ہیں اور اس پر ہر ٹرالی پر 70سے 80 من کٹوتی بھی کی جارہی ہے جوکہ سراسر غیرقانونی ہے۔ جنوبی پنجاب میں تمام شوگر ملوں کے باہر گنے کی ٹرالیوں کی کئی کئی کلومیٹر طویل قطاریں لگی ہوتی ہیں اور ایک ایک شوگر مل کے سامنے 700سے لے کر ایک ہزار ٹرالی داخلے کی منتظر ہے۔ کپاس کی کاشت کے حوالے سے پنجاب کے سب سے بڑے ضلع رحیم یار خان میں گنے کی فصل کی کاشت اس رپورٹ کی روشنی میں شروع ہوئی جس میں یہ بتایا گیا کہ ضلع رحیم یار خان کے گنے میں مٹھاس کی شرح پنجاب میں سب سے زیادہ ہے اور جو شرح پتوکی‘ گوجرانوالہ‘ سرگودھا میں 13سے 15 فیصد ہے جبکہ گنے کا ریٹ ملک بھر میں یکساں تھا۔ اس وقت صورتحال یوں ہے کہ 180روپے من گنا بمطابق سرکاری ریٹ اگر مٹھاس کے حوالے سے دیکھا جائے تو رحیم یار خان کا ریٹ 240روپے من بنتا تھا۔ یہی وہ ترغیب تھی جس کی وجہ سے محض تین دہائیوں میں رحیم یار خان اور اس کے گردونواح میں نہ صرف 11شوگر ملیں لگادی گئیں بلکہ شوگر مل کی منتقلی پر سخت پابندی کے باوجود اپر پنجاب سے شوگر ملیں غیرقانونی طور پر ضلع رحیم یار خن کے اردگرد منتقل کردی گئیں جن پر ہائیکورٹ نے پابندی عائد کرکے انہیں واپس لے جانے کا حکم دیدیا اور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد موجودہ کرشنگ سیزن کے لئے یہ تینوں ملیں بند کروادی گئیں۔ دوسری طرف ان ملوں کی استعداد کو دیکھتے ہوئے ضلع رحیم یار خان‘ علی پور‘ مظفر گڑھ اور دیگر علاقوں میں زمینداروں نے زائد گنا کاشت کرلیا۔ اس وقت صورتحال یوں ہے کہ ضلع رحیم یار خان کے کاشتکاروں نے گزشتہ سال 2016ءکے مقابلے میں 2017ءمیں تقریباً چار ہزار ایکڑ گنا بھی زیادہ کاشت کرلیا اور اوپر سے گنے کی فصل بھی گزشتہ سال کی نسبت بہتر ہوگئی جبکہ تین ملیں بند ہونے کی وجہ سے کاشتکار تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا۔ سال 2016ءمیں ضلع رحیم یارخان میں 4لاکھ 87ہزار 390 ایکڑ رقبہ پر گنا کاشت ہوا جبکہ گزشتہ سال 12ملوں نے کرشنگ کی اور اس سال حکمران خاندان کی تین شوگر ملیں غیرقانونی طور پر جنوبی پنجاب میں منتقل کئے جانے کے باعث بند ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے 12ملوں کے گنے کی پیداوار کا بوجھ 9ملوں پر آگیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ان تمام مل مالکان نے اپنی شوگر ملوں کی استعداد اتنی بڑھالی ہے کہ ایک ایک مل کی استعداد دو سے تین گنا ہوچکی ہے مگر گنے کی خریداری میں التوائی حربے استعمال کرکے کاشتکار کو رسوا کیا جارہا ہے۔ حکمران خاندان کی جو تین ملیں بند کردی گئی ہیں ان میں چودھری شوگر مل کوٹ سمابہ ضلع رحیم یار خان‘ چنی گوٹھ شوگر مل ضلع بہاولپور اور تحصیل علی پور میں واقع ہیں۔ یہ تینوں ملیں غیرقانونی طور پر اپر پنجاب سے شفٹ کی گئیں اور اس کا مقصد صرف اور صرف رحیم یارخان کے زیادہ مٹھاس والے گنے کا حصول تھا جس سے چینی ہر 100من گنے سے 4سے 6کلو زائد بنتی ہے۔ ضلع رحیم یار خان میں اس وقت پانچ شوگر ملیں چل رہی ہیں جبکہ تین شوگر ملیں ضلع رحیم یار خان کے گنے کے لالچ میں پنجاب اور سندھ کے بارڈر پر لگی ہیں جس میں سے ایک مل ایشیا کی سب سے بڑی شوگر مل شمار کی جاتی ہے اور اس میں بھی پاکستان کے سابق اور پنجاب کے موجودہ حکمران خاندان کی شراکت داری ہے۔ عدلیہ کے فیصلہ کے بعد ان تینوں ملوں کے بند ہونے پر دیگر ملوں پر دباﺅ ڈال کر کرشنگ کا سیزن 15 سے 20دن لیٹ کیا گیا اور پھر خریداری میں کاشتکار کو سرکاری ریٹ نہیں مل رہا۔ چالیس ایکڑ گنے کے کاشتکار کو محض ایک پرمٹ پر ٹرخایا جارہا ہے اور تمام ملیں ٹاﺅٹوں کے ذریعے 500من گنے کی ٹرالی فی پرچی 420من کاٹ رہی ہیں اور اس طرح 80من فی ٹرالی کٹوتی کی جارہی ہے جبکہ پورے جنوبی پنجاب میں ایک بھی مل نے ایک من گنا بھی سرکاری قیمت جوکہ 180روپے من ہے پر نہیں خریدا اور تمام بااثر مل مالکان دونوں ہاتھوں سے گنے کے کاشتکار کو لوٹ رہے ہیں۔ حکمران خاندان کی مظفر گڑھ‘ بہاولپور اور رحیم یار خان کے اضلاع میں غیرقانونی طور پر منتقل ہونے والی ملوں کی عدلیہ کے حکم پر بندش کے خلاف حکمران خاندان اپنے قریبی رشتے دار کے ذریعے بھرپور مہم چلارہا ہے اور کاشتکاروں کا احتجاج جاری ہے جبکہ شوگر ملوں پر دباﺅ ڈال کر کرشنگ کے عمل کو بھی متاثر کرایا جارہا ہے تاکہ عدلیہ سے کم از کم موجودہ کرشنگ سیزن کے لئے ان ملوں کو چلانے کی اجازت حاصل کی جاسکے اور عدالت سے عارضی ریلیف حاصل کرلیا جائے۔ اس حوالے سے باقاعدہ ایک تشہیری مہم بھی چلائی گئی۔ مظاہرے کرائے گئے مگر حکومت نے کسی بھی مل کو انتظامیہ کے ذریعے پابند نہیں کیا کہ وہ سرکاری ریٹ 180روپے من کے حساب سے کاشتکاروں کو ادائیگی کرے اور غیرقانونی طور پر ٹرالیوں سے وزن کرتے وقت کٹوتیاں نہ کرے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملوں کے باہر ہزاروں ٹرالیاں کروڑوں من گنا لئے کئی کئی دن سے دھوپ میں گنے کا وزن کم کررہی ہیں اور اوپر سے کہر پڑنا شروع ہوئی تو ملیں کہر شدہ گنا خریدنے سے یکسر انکاری ہوجاتی ہیں۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain