اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) بھارتی آبی جارحیت کے بعد افغانستان نے بھی جارحانہ رویہ اپناتے ہوئے 2پاکستان دریائے چترال پر بنائے جانے 1188 میگاواٹ پیداواری صلاحیت کے 12 سے زائد پن بجلی اور پانی ذخیرہ کرنے کے منصوبوں پر بھارت کی مدد سے تعمیر اتی کاموں کو تیز کر دیا جس سے مستقبل قریب میں مہمند ایجنسی اور گردونواح کے علاقوں کو خشک سالی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وزارت آبی وسائل کے ایک سینئر افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط بھارتی سرکاری تعمیراتی کمپنی نیشنل پراجیکٹس کنسٹرکشن کارپوریشن لمیٹڈ افغانستان میں بھارت کی مدد سے بنائے جانے والے پن بجلی منصوبوں کی تعمیر میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے ۔ ان منصوبوں پر مجموعی لاگت کا تخمینہ 8.9 ارب امریکی ڈالر لگایا گیا جس میں بیرونی امداد کے مالیاتی ادارے عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے علاوہ بھارت کی جانب سے بھی فنڈز کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق عالمی بینک افغانستان کو ان 12 پن بجلی منصوبوں کی تعمیر کے لئے 70 ملین امریکی ڈالر کی ابتدائی مالی معاونت فراہم کرے گا۔ پاکستان کے شمال مشرق میں چیانتر (Chiantar) گلیشئر سے یہ دریا جاتا ہے یہ دریا چترال کا ہے ۔ اندر شمال سے جنوب کی طرف سفر کرتا ہے۔ راستے میں 32 معاون ندیوں کو اپنی آغوش میں لیکر آرناوی (اراندو) کے مقام پر افغانستان کے صوبے کنٹر میں داخل ہوتا ہے کنٹر اور ننگر ہار سے گذر کر مہمند ایجنسی میں واپس پاکستان کے اندر داخل ہو جاتا ہے اور ورسک کے مقام پر وادی پشاور کو اپنا جلوہ دکھاتا ہے۔ وزارت پانی و بجلی اور اسکے ذیلی اداروں کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ افغانستان حکومت نے بغیر کسی آبی معاہدے کے بھارت کی اشیر آباد کے ساتھ 20,000 میگاواٹ سے زائد پن بجلی کی پیداواری صلاحیت کے حامل پاکستان کے دریائے چترال پر 12 کے قریب پن بجلی منصوبے بنانے کے تعمیراتی کام میں تیزی ااگئی ہے جبکہ متعلقہ ادارے ابھی تک موجودہ معاملے سے لاعلمی کا اظہار کر رہے ہیں۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد سے اب تک حکمرانوں اور افسر شاہی کے مزے لوٹنے والے حکام نے سندھ طاس معاہدے کے علاوہ آبی ذخائر کے استعمال کے حوالے سے ایک بھی قانونی دستاویز کی تیاری کے حوالے سے کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ جس کے اثرات آج افغانستان کے پاکستانی دریا پر منصوبوں کی غیر قانونی تعمیر کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔