بیت المقدس کو اسرائیلی صدر مقام تسلیم کرنے کے امریکی فیصلے پر دنیا بھر میں احتجاج:ضیا شاہد

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ طاہر القادری نے ملاقات کے دوران مجھے کہا تھا کہ ہم اب قانونی جنگ لیں گے سڑکوں پر نہیں آئے گے۔ لیکن پریس کانفرنس میں انہوں نے شک کا اظہار کیا ہے کہ رپورٹ میں سے کچھ حصوں کو نکال دیا گیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ بیورو کریسی کی طرف سے ملنے والی یہ کاپی مکمل نہیں ہے۔ جب انہیں عدالت سے کاپی ملے گی تو شاید وہ مطمئن ہوں گے۔ اس لئے وہ اپنا پریشر بڑھا رہے ہیں۔ اخبارات کی لیڈ سٹوری کے مطابق پنجاب حکومت اتنی بھی معصوم نہیں۔ وکلاءکی آرا کے مطابق پی اے ٹی کی کوشش ہو گی کہ وہ پنجاب حکومت کے کردار کو لے کر ضرور عدالت میں سوال اٹھائے۔ رانا ثناءاللہ کا کہنا بھی درست ہے کہ رپورٹ میں کسی جگہ پر شہباز شریف کا رول متعین نہیں کیا گیا، نہ ہی ان کے بارے شکایت کی گئی ہے۔ میڈیا نمائندگان، سفیر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ بھی چاہیں گے کہ مصدقہ نقول انہیں مل جائیں اور دیکھیں کہ پنجاب حکومت کا نام کیوں استعمال کیا جا رہا ہے ایک بات تو ثابت ہے کہ رکاوٹیں ہٹانے کا حکم رانا ثناءاللہ کی جانب سے آیا تھا۔ اس کے بعد گولی چلانے کا حکم کس نے دیا تھا۔ اس پر ساری بحث کا دارومدار ہے۔ پولیس افسران موجودہ حکومت کے خلاف بیان دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے جب تک کہ وہ ریٹائر نہ ہو جائیں یا انہیں عدالت بلا کر نہ پوچھے۔ رانا ثناءاللہ قبول کرتے ہیں کہ وزیراعلیٰ کے سیکرٹریٹ میں ہونے والی میٹنگ کے دوران انہوں نے تجاوزات ہٹانے کا حکم دیا۔ دوسری جانب شہباز شریف کہتے ہیں کہ آپریشن ہوتا رہا اور مجھے علم ہی نہیں ہوا۔ ماہر قانون دان خالد رانجھا سے پوچھتے ہیں کہ کیا توقیر شاہ جو کہ دوسرے ملک میں سفیر مقرر ہیں ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا واقعی انہیں وزیراعلیٰ نے حکم دیا تھا کہ ایکشن کیا جائے؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ معاملات نچلی عدالتوں سے شروع ہوں گے یا ہائیکورٹ سے اسے شروع کیا جائے گا۔ اگر کسی کو تسلی نہ ہو تو براہ راست سپریم کورٹ اس معاملے کو اپنے ذمہ لے لے۔ قانون کے مطابق ایک ایس ایچ او بھی وزیراعلیٰ سے تفتیش کر سکتا ہے۔ جے آئی ٹی کی اصطلاح اس طرح سے متعارف ہوئی کہ پولیس کے دو بندے اور دوسری ایجنسیوں کے دو بندے۔ سمجھا جاتا ہے کہ جے آئی ٹی اچھا پرفارم کر سکتی ہے۔ لیکن نوازشریف صاحب کے کیس میں جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کروائی تھی کہ اتنے بڑے کیس میں ہمیں آزادی سے کام کرنے نہیں دیا جا رہا۔ نامعلوم طاہر القادری اب کیا ڈیمانڈ کریں گے۔ لیکن اس بات میں جان ہے کہ سپریم کورٹ سو موٹو ایکشن لے لے۔ بڑا مشکل لگتا ہے کہ صوبے کا وزیر قانون تو کم از کم اس معاملے میں ملوث دکھائی دیتا ہے ایسی صورت میں جے آئی ٹی کی تشکیل آسان کام نہیں ہو گا۔ جسٹس خلیل الرحمن کی ایک اور رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نجفی رپورٹ بالکل ناقص ہے اس میں غلطیاں ہی غلطیاں ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ خلیل الرحمن کو پنجاب حکومت نے ہی کہا تھا۔ ان کے صاحبزادے پنجاب حکومت کے ایڈووکیٹ جنرل ہیں۔ دوسری رپورٹ ساتھ ہی جاری کرنے کا کیا مقصد تھا؟ جو پچھلی کی نفی کرتی ہو؟ جسٹس (ر) خلیل الرحمن تو کافی عرصہ سے ریٹائر ہو چکے ہیں؟ کیا ان سے پہلے کہا گیا تھا کہ رپورٹ کے بارے دوسری رپورٹ تیار کریں۔ اسرائیل کا مقصد تل ابیب سے اپنے دارالحکومت کو بیت المقدس شفٹ کرنے کا یہ ہے کہ وہ کافی فاصلے پر تھا وہ اپنا کنٹرول موثر بنانے کے لئے ایسا کرنا چاہتے ہیں دوسرے نمبر پر یہ کہ مسلمان اپنے قبلہ اول پر حملہ کرنے سے پہلے بہت سوچیں گے۔ سارے مسلمان ممالک بھی اس لئے اس فیصلے کے خلاف ہیں۔ امید یہ تھی کہ امریکہ بھی اس کی مخالفت کرے گا۔ مگر اس نے اس کو تسلیم کر لیا ہے جس پر دنیا بھر میں شدید احتجاج ہو گا۔ رانا ثناءایک بہادر راجپوت ”رانا“ ہیں۔ ان کی مونچھوں کا اسٹائل بتاتا ہے کہ وہ کسی سے ڈرتے ورتے نہیں ہیں۔ شاید وہ یہ سلسلہ اسی طرح چلاتے رہیں۔انہیں سکون نصیب نہیں میں نے حافظ سعید سے ملاقات کے دوران انہیں اپنی تینوں کتابیں پیش کی ہیں۔ انہوں نے مجھے کہا کہ نظر بندی کے دور میں مجھے ایک کتاب ملی ہے۔ ”امی جان“ وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے شروع سے آخر تک کتاب ایک ہی سیٹنگ میں ختم کی۔ انہوں نے مجھ سے پانی کے مسئلے کے بارے پوچھا۔ میں نے انہیں سندھ طاس معاہدے کے بارے وضاحت کی جو 1960ءمیں ہوا۔ اس کی رو سے بھارت نے جن دریاﺅں کا پانی مکمل طور پر روک رکھا ہے۔ وہ اس کا مجاز نہیں ہے۔ اس پر حافظ صاحب نے کہا کہ میں اور میرے ساتھ آپ کی بات کو ”انڈوز“ کرتے ہیں۔ یہ معاملہ بہت اہم ہے۔ ماہر قانون دان، خالد رانجھا نے کہا ہے کہ پی اے ٹی اگر چاہتے تو آسانی سے مصدقہ کاپی حاصل کر سکتی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ شائع شدہ رپورٹ میں سے کوئی چیز نکالی گئی ہو گی۔ رپورٹ سے یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ پنجاب حکومت نے طاہر القادری کے بندوں کو ”پھینٹی“ لگانے کا حکم دیا۔ ہو سکتا ہے پولیس نے تجاوز کیا ہو لیکن اسے پنجاب حکومت کی جانب سے حکم دیا گیا۔ گواہیاں اگر جھوٹی ہوں تو ملزم کے گلے پڑ جاتی ہیں۔ اس بات کے شواہد رپورٹ میں کہیں نہیں مل رہے کہ وزیراعلیٰ نے انہیں روکنے کا حکم دیا ہو۔ اس بات کے شواہد بھی موجود نہیں کہ چیف منسٹر کے سیکرٹری نے پولیس کو روکنے کا حکم دیا ہو۔ شرم کی بات ہے کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد کمیشن کی رپورٹ شائع کی گئی ہے۔ اس معاملے کا حل یہ ہے کہ سپریم کورٹ ماڈل ٹاﺅن پر جے آئی ٹی بنا دے اور اس کی تفتیش ان کے سپرد کر دے اور وہ وقت کے ساتھ تعین کرے کہ کون کون اس سانحہ میں ملزم ہے۔ معاملے کا سادہ حل یہی ہے کہ سپریم کورٹ ایک ایسی جے آئی ٹی بنائے جس پر فریقین کو اعتماد ہو۔ ماہر قانون دان جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا ہے کہ نجفی رپورٹ کے جج صاحب ابھی حیات ہیں۔ اگر رپورٹ میں سے کچھ اجزاءنکالے گئے ہیں تو ان سے پوچھا جا سکتا ہے۔ عدالت سے جانا ایک آسان بات ہے کہ جناب یہ وہ رپورٹ نہیں ہے جو جج صاحب نے لکھی تھی۔ اس میں سے کچھ اجزاءخارج کئے گئے ہیں۔ جج صاحب سے مصدقہ نقل حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ رپورٹ فیصلہ تو نہیں ہے لیکن ایک ہائی لیول کے جج نے وقوع کو ”ایگزامن“ کیا۔ جس میں شہباز شریف صاحب نے حلف نامہ کی جمع کروایا۔ جس وقت یہ معاملات عدالت میں کھلیں گے۔ تو دونوں جانب کو سمن کیا جا سکے گا۔ فیصلہ تو نہیں ہے لیکن ایک اہم رپورٹ ہے۔ ماہرقانون دان اکرم شیخ نے کہا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن پر 2014ءمیں دو ایف آئی آر درج ہوئیں۔ تفتیش کے دوران جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بھی مقرر کر دی گئی اس کے بعد حکومت پنجاب نے چیف جسٹس کو خط لکھا کہ جوڈیشل ٹربیونل بنا دیا جائے تا کہ واقعات دوبارہ نہ ہو سکیں۔ بھٹو دور میں شکیل الرحمن صاحب کا ایک کمیشن بنا تھا۔ وہ کمیشن بھی سیکشن (3) کے تحت بنایا گیا تھا۔ اس میں احمد رضا قصوری صاحب مدعی تھے۔ ان پر جرح کی اجازت طلب کی گئی۔ کورٹ نے قبول کیا کہ اس قسم کی رپورٹوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔ نہ یہ تنازع طے کرتی ہیں نہ ان کی جوڈیشل پروسیڈنگ کی حیثیت ہوتی ہے اس لئے باقر نجفی صاحب کی رپورٹ ایک رپورٹ ہی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے اس طرح جسٹس (ر) خلیل الرحمن صاحب نے جو رپورٹ دی ہے۔ وہ ان کی اپنی رائے ہے ان کی رائے بھی قابل احترام ہے۔ باقر نجفی کی رپورٹ میں کچھ بھی نہیں ہے اگر یہ رپورٹ کہہ بھی دیتی کہ فریقین یوں کریں! یوں کریں! تب بھی فریقین اس کے پابند نہیں تھے۔ اسے ”نان بائنڈنگ رپورٹ“ کہہ سکتے ہیں۔ خلیل الرحمن کی رپورٹ میں ایک منتق ہے۔ ایک سوچ ہے اور ملکی قانون کی تاریخ کے عین مطابق ہے۔ نجفی رپورٹ میں کچھ بھی نہیں ہے اس نے کسی کو مجرم یا ملزم ثابت نہیں کیا۔ یہ واقعات بیان کرتی ہے اور پنجاب تک پہنچ جاتی ہے۔ میرا نوازشریف صاحب سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص فیس دینے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو میں اس سے فیس کی ڈیمانڈ نہیں کرتا۔

ڈرائیونگ کے شوقین بندر

لاہور(خصوصی رپورٹ)یوں تو آپ نے کئی منچلوں کو گاڑی چلاتے ہوئے دیکھا ہی ہوگا لیکن جناب یہاں تو جانور بھی ڈرائیونگ کے شوقین نکلے ۔ یقین نہیں تو ویڈیو میں نظر آنیوالے ان شرارتی بندروں اور ننھے کتے کو ہی دیکھ لیں جواپنی ریموٹ کنٹرول گاڑی میں بیٹھے ڈرائیونگ کے مزے لینے میں مصروف ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین بندروں اور کتے نے اپنی منی کار پر بیٹھ کر شہر کی خوب سیر کی جبکہ اس دوران راستے میں آنے والی گاڑی کو اپنی ننھی گاڑی سے خوب ٹکریں بھی ماریں۔یوں ریموٹ کنٹرول گاڑی پر آزادی سے گھومتے بندروں اور کتے کو دیکھ کر جہاں لوگ خوب محظوظ ہوئے وہیں سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی یہ ویڈیو وائرل ہو چکی ہے جسے اب تک لاکھوں افراد دیکھ چکے ہیں۔

سانتا کلاز کا روپ دھارے ہوئے ننھے پینگوئنز کی پریڈ

لاہور(نیٹ نیوز)کرسمس کی آمد آمد ہے دنیا میں جوش و خروش عروج پر پہنچ چکا ہے ،ایسے میں انسانوں کے ساتھ ساتھ جانور بھی خوشیاں مناتے دکھائی دے ر ہے ہیں ، اب ان ننھے پینگوئنز کو ہی دیکھ لیں جنہوں نے سانتا کلاز کا روپ دھار کر پریڈ کی تو دیکھنے والے حیران رہ گئے ۔ جاپان کے چڑیا گھر میں پینگوئنز نے انوکھی کرسمس پریڈ میں حصہ لیا ۔فلاحی مقاصد کیلئے منعقد کی گئی اس پریڈ میں پینگوئنز کو سانتا کلاز کا مخصوص لال و سفید لباس پہنایا گیا اور کوٹ کے ساتھ گلے میں ننھی گھنٹیاں بھی باندھی گئیں جو پینگوئنز کے چلتے ہی مدھر آواز بکھیرتے ہوئے حاضرین کومحظو ظ کر رہی تھیں۔اس دلچسپ پریڈ کو دیکھنے کیلئے ہزاروں کی تعداد میں شائقین نے چڑیا گھر کا رخ کیا اور پینگوئنز کے ساتھ پوز دیکر تصاویر بنوائیں۔

کام میں مدد کر نے والا روبوٹ

لاہور(نیٹ نیوز)جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں مشینوں نے انسانی زندگی میں آسانیاں پیدا کی ہیں وہیں روبوٹس نے بھی بہت سے کاموں کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھالی ہے ۔ اسی سلسلے میں امریکی سائنسدان نے ایک ایسا روبوٹ تیار کرلیا ہے جو نہ صرف آپ سے باتیں کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ آپ کے بچو ں کو کہانیاں بھی پڑھ کر سنا سکتا ہے ۔ جیبونامی یہ روبوٹ گھر کے کاموں میں مدد کرنے کے ساتھ ساتھ فون کالز اور تفریح فراہم کرنے کیلئے رقص کرنے کی بھی صلاحیت سے مالا مال ہے ۔اس جدید روبوٹ میں کیمرا بھی نصب کیا گیا ہے جس کے ذریعے کسی بھی تقریب میں با آسانی تصاویر لی جاسکتی ہیں۔ واضح رہے اس جدید فرینڈلی روبوٹ کی قیمت عالمی مارکیٹ میں600ڈالر کے قریب ہے ۔

چین : آئس اینڈ سنو فیسٹیول کی تیاریاں

لاہور (خصوصی رپورٹ) چین کے سرد ترین شہر ہربن میں 34 ویں سالانہ آئس اینڈ سنو فیسٹیول کی تیاریوں کا آغاز ہو گیا ہے جسکے دروازے عوام کیلئے 24 دسمبر سے کھول دئیے جائینگے ۔ برف کا یہ منفرد میلہ دنیا کے 4 عظیم سنو فیسٹیولز میں سے ایک ہے جس میں ہر سال چین اور دنیا بھر سے برف کے سینکڑوں مجسمہ ساز خوبصورت شاہکار تخلیق کرتے ہیں یہ برفانی میلہ ہر سال تقریبا ڈیڑھ سے دو ماہ تک جاری رہتا ہے ۔

بنکاک میں دلہنوں کی دلچسپ ریس

لاہور(خصوصی رپورٹ) تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک میں بین الاقوامی برائیڈ ریس کا منفرد مقابلہ منعقد کیا گیا جس میںمختلف ممالک سے تعلق رکھنے والی تقریبا 300 خواتین نے حصہ لیا۔ سفید رنگ کے روایتی عروسی لباس زیب تن کئے مکمل دلہن کی طرح تیار ہوکر مقررہ فاصلہ عبور کرتے ہوئے نہوں نے خوب دوڑ لگائی، اس ریس میں خواتین کے شوہروں نے بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا۔منفرد نوعیت کی اس سالانہ ریس میں مالدیپ کی سیر و تفریح کا ریٹرن ٹکٹ جیتنے کی کوشش میں جہاں عروسی لباس خواتین کیلئے مشکل بنا رہا وہیں ایک جوڑا با آسانی فینشنگ لائن تک پہنچ گیا۔

انسان کے بعد کتا سب سے ذیادہ ذہین مخلوق

برازیلیا(نیٹ نیوز)برازیل کے وفاقی دارالحکومت میں واقع یونیورسٹی آف دا ریو میں ہونے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ انسانوں کے بعد سب سے زیادہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کتوں میں ہوتی ہے ۔تحقیق کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ انسانوں کے دماغ میں 16 ارب خلیات (سیلز) جبکہ کتے کے جسم میں 5 کروڑ 30 لاکھ اور بلی کے جسم میں اس کے آدھے سیلز موجود ہیں۔طبی ماہرین کے مطابق نیورونز اعصابی نظام کے اکائی حصے کو کہتے ہیں جو دماغ کے پیغام کو جسم کے دیگر حصوں تک پہنچانے کا کام سرانجام دیتا ہے اور اسے طب کی زبان میں گرے سیلز بھی کہا جاتا ہے ۔محقق پروفیسر سوزانا کا کہنا ہے مجھے یقین ہے کہ جانوروں کے جسم میں موجود خلیات انہیں ارد گرد کے ماحول اور تبدیلیوں کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں اور وہ اسی بنیاد پر کوئی بھی حرکت کرتے ہیں۔