سری لنکا سے ون ڈے سیریز، روہت شرما بھارتی کپتان مقرر

مبئی (ویب ڈیسک) بھارت نے سری لنکا کے خلاف ہوم ون ڈے سیریز میں قیادت کی ذمہ داری روہت شرما کو سونپ دی۔سری لنکا کے خلاف ون ڈے سیریز میں کپتان ویرات کوہلی کو آرام دے دیا اور ان کی جگہ قیادت کی ذمہ داری روہت شرما کو سونپی گئی ہے۔ واضح رہے کہ چند روز قبل کوہلی نے نان اسٹاپ کرکٹ پر اپنے ملکی کرکٹ بورڈ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ون ڈے اسکواڈ میں 2نئے کھلاڑیوں کو بھی شامل کیا گیا، ان میں بیٹسمین شریاس آئیر اور فاسٹ بولر سدھارت کاؤل شامل ہیں۔ٹیسٹ سیریز میں آرام پانے والے آل راؤنڈر ہردیک پانڈیا اور شادی کیلیے رخصت پر جانے والے بھونیشور کمار کی بھی 10 دسمبر سے دھرم شالا میں شروع ہونے والی سیریز میں واپسی ہوگئی جب کہ ٹوئنٹی 20 سیریز کیلیے ٹیم کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ایک روزہ اسکواڈ میں کپتان روہت شرما، شیکھر دھون، اجنکیا راہنے، آئیر، منیش پانڈے، کیدر جادھیو، دنیش کارتھک، دھونی، ہردیک پانڈیا، اکشر پٹیل، کلدیپ یادیو، یوزوندرا چاہل، جسپریت بمرا، بھونیشور کمار اورسدھارت شامل ہیں۔

عراقی دارالحکومت میں 2 خودکش حملے، 17 افراد ہلاک

 بغداد(ویب ڈیسک) عراقی دارالحکومت کے مضافاتی علاقے میں 2 خودکش حملوں کے تیجے 17 افراد ہلاک جب کہ 28 زخمی ہو گئے۔بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق بغداد کی پرہجوم مارکیٹ میں 2 خودکش حملہ آوروں نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس کے نتیجے میں 17 افراد ہلاک اور 28 زخمی ہوگئے، زخمیوں کو طبی امداد کیلیے اسپتال منتقل کردیا گیا ہے جب کہ خودکش حملوں کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کرلی ہے۔عراقی وزارت داخلہ کے مطابق 3 خودکش حملہ آوروں نے پرہجوم مارکیٹ میں شہریوں پر فائرنگ کی جس کے بعد بغدادی پولیس کی جانب سے جوابی کارروائی کے نتیجے ایک حملہ آور مارا گیا جب کہ 2 حملہ آوروں نے خود کو بم سے اڑا لیا۔

ابوظہبی آنے والے اب ایئرپورٹ پر ہی ویزا حاصل کریں

ابوظہبی(ویب ڈیسک) حکومت نے ابوظہبی آنے والے تمام ممالک کے شہریوں کو سیاحتی ویزا دینے کا اعلان کردیا جس کے لیے ایئرپورٹ پر کاؤنٹر قائم کردیا گیا ہے۔عرب میڈیا کے مطابق ابوظہبی آنے والے افراد کو چار دن کے لیے سیاحتی ویزا دیا جائے گا اور یہ ویزا ابوظہبی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ہی محض 15 تا 30 منٹ میں جاری کردیا جائے گا، اس ضمن میں امیگریشن حکام نے ابوظہبی ایئرپورٹ کے ٹرمینل تھری (ٹرانزٹ ایریا) پر نیا کاؤنٹر قائم کردیا ہے تاکہ ٹرانزٹ ویزا اور نئے آنے والوں کو فوری ویزا دیا جاسکے۔یہ کاؤنٹر مختلف اقسام کے ویزے جاری کررہا ہے جس میں نئے آنے والے افراد کو سیاحتی ویزوں کا اجرا بھی شامل ہے ، ابوظہبی ایئرپورٹ پہنچنے والا کسی بھی ملک کا شہری اس کاؤنٹر پر جاکر سیاحتی ویزا حاصل کرسکتا ہے جو کہ اسے آدھے گھنٹے میں مل جائے گا، سیاحتی ویزا براہ راست ابوظہبی پہنچنے والے افراد کے ساتھ ساتھ ایسے افراد بھی حاصل کرسکتے ہیں جو  ٹرانزٹ ویزا پر ابوظہبی پہنچے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کا ٹرانزٹ ویزا سیاحتی ویزا میں تبدیل کردیا جائے۔قبل ازیں ایئرپورٹ پر ٹرانزٹ ویزا محض چند ممالک کے شہریوں کے لیے دستیاب تھا جب کہ دیگر ممالک کے شہریوں کو  ٹرانزٹ ویزا کے لیے رائج طریقہ کار کے تحت وہاں آنے سے پہلے درخواست دینی پڑتی تھی۔

لندن:اور سیز پاکستانیز کمیشن کی عدلیہ کے وفد کو دھوکہ دینے کی کوشش ناکام

لندن (وجاہت علی خان سے) چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس منصور علی شاہ نے اوورسیز پاکستانیز کمیشن پنجاب کی طرف سے عدلیہ کے وفد کو دھوکہ دینے کی سازش ناکام بنادی۔ تفصیلات کے مطابق پنجاب کا 9 رکنی وفد جسٹس منصور علی شاہ کی قیادت میں ایک معلوماتی دورہ پر ان دنوں سرکاری طور پر برطانیہ میں ہے۔ جہاں وفد نے پاکستانی و برطانوی جوڈیشری کے طریقہ کار پر معلومات کا تبادلہ کرنا ہے وفد میں جسٹس مامون الرشید، جسٹس علی اکبر قریشی، جسٹس عائشہ، جسٹس فرخ عرفان خان بھی شامل ہیں، خبریں ذرائع کے مطابق 22نومبر کو ”او پی ایف“ پنجاب کے کمشنر نے اوورسیز پاکستانیوں کیلئے کام کرنے کا دعویٰ کرنے والی ایک مقامی تنظیم کے ساتھ مل کر ذاتی طور پر ایک عشائیہ ترتیب دیا اور چیف جسٹس اور ان کے وفد کو اس تقریب کا ایجنڈا بتائے بغیر مدعو کرلیا انہیں صرف بتایا گیا کہ تقریب میں انہیں بس مقامی وکلا اور کمیونٹی لیڈرز سے ملوایا جائے گا۔ چیف جسٹس کے وفد میں شامل ایک ذریعے نے بتایا کہ ہمیں قطعی علم نہیں تھا کہ او پی ایف کے کمشنر اپنے مقامی دوستوں کے ساتھ مل کر ہماری موجودگی میں کسی قسم کے ”ایم او یو“ پر دستخط کرنے جارہے ہیں او رکمیونٹی کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ اس ”ایم او یو“ کو چیف جسٹس اور ان کے ہمراہ آنے والے عدلیہ کے اعلیٰ سطحی وفد کی تائید و حمایت حاصل ہے۔ چنانچہ اس کھلی دھوکہ دہی سے آگاہی ہوتے ہی چیف جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خطاب میں واضح کردیا کہ اوورسیز پاکستانیز کمیشن کی طرف سے یہ تاثر دینا انتہائی غلط ہے کہ عدلیہ ہمارے یا یہاں دستخط کئے جانے والے کسی ایم او یو کے ساتھ ہے انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے صاف کہا کہ او پی ایف ایک علیحدہ ادارہ ہے اور ہم عدلیہ ہیں۔ ہمیں ہر فیصلہ آزاد رہ کر میرٹ پر کرنا ہوتا ہے ہم اوورسیز پاکستانیوں کی بیرون ملک رہ کر محنت کرنے اور زرمبادلہ اپنے ملک بھیجنے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کون کتنا پیسہ بھیجتا ہے عدلیہ ایک آزاد ادارہ ہے ہم اوورسیز پاکستانیوں کے مقدمات کو سپیڈی ضرور کرسکتے ہیں چیف جسٹس نے کہا یہاں یہ تاثر دیا جانا درست نہیں کہ اوورسیز پاکستانیز کمیشن یا کسی مقامی تنظیم سے ہمارا کوئی تعلق ہے ہم لندن صرف برطانوی عدلیہ کے ساتھ انٹریکشن کیلئے آئے ہیں۔ لندن میں کام کررہی اوورسیز پاکستانیوں کی ایک تنظیم کے چیئرمین نے ”خبریں“ کو بتایا کہ اوپی ایف کے کمشنر نے ڈبلیو کوپ نام کی ایک تنظیم کے ساتھ ایم او یو پر دستخط کرکے قانون کی صریحاً خلاف ورزی کی ہے اس قسم کے ایم او یو کی کوئی قانونی حیثیت نہیں بلکہ قبضہ گروپس کے ہاتھوں پہلے سے پریشان بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جیبوں پر مزید ڈاکہ مارنے کیلئے ایک اور دکان کھولنے کے مترادف ہے انہوں نے کہا او پی ایف کمشنر نے وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف سمیت کسی متعلقہ شخص ادارے یا ارکان بورڈ سے کسی قسم کی اجازت نہیں لی اس کے علاوہ مذکورہ تقریب میں یو کے میں موجود 375 پاکستانی مرکزی کونسلرز، 12 ارکان برٹش پارلیمنٹ، ایم پی یورپی پارلیمنٹ اور بیسیوں پاکستانی میئرز میں سے بھی کوئی موجود نہیں تھا حتی کہ پاکستان کے برطانیہ میں ہائی کمشنر سید ابن عباس یا ہائی کمیشن کا کوئی نمائندہ بھی یہاں موجود نہ تھا ذرائع کا کہنا تھا کہ دنیا کا یہ پہلا ایم او یو ہوگا جسے خفیہ رکھا گیا اور پڑھ کر بھی سنایا نہیں گیا جس طرح جسٹس نجفی کی رپورٹ آج تک خفیہ ہے انہوں نے کہا اس ایم او یو کو نہ تو برطانیہ میں مقیم ہماری کمیونٹی تسلیم کریگی اور نہ پاکستان کے اداروں کی اس نام نہاد ایم او یو کو حمایت حاصل ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ منصور علی شاہ نے مذکورہ عشائیہ میں بھی واضح طور پر کہا کہ ہم نے پنجاب کے 24اضلاع میں عدالتوں میں اوورسیز ڈیسک قائم کردیئے ہیں جہاں اوورسیز پاکستانیوں کے مقدمات سرعت سے نبٹائے جاتے ہیں۔

 

فوج نے قوم کو بحران سے نکالا اسکا کردار قابل تعریف

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے پروگرام ”کالم نگار“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی رحمت علی رازی نے کہا ہے کہ نوازشریف کو اس حالت تک پہنچانے میں کردار اداکرے والے عرفان صدیقی کے عزیزجسٹس نے جوزبان استعمال کی وہ عدلیہ کی نہیں نواز کی زبان تھی، جج صاحب کو ایسی بات کرتے ہوئے اپنی اور عدلیہ کی عزت کا ہی خیال رکھ لیناچاہئے تھا، فوج نے بڑی توجہ کیساتھ ملک کو انتشار سے بچایاہے، دھرنے کے باعث عوام مشکل میں تھی اور حکومت مکمل بے بس ہوچکی تھی، ایسے حالات میں حسن توجہ سے کام لینے والے ادارے کو خراج تحسین پیش کرنے کی بجائے ان ڈکٹیشن زدہ زبان استعمال کی جارہی ہے، حکومت سیاسی طور پر مکمل ناکام ہوچکی ہے ، یہ پیاز اور جوتے دونوں کھا رہی ہے ، وزیراعظم خاقان عباسی اپنے عہدے سے مذاق کررہے ہیں اور جو انہیں لکھ کردیاجاتا ہے بول دیتے ہیں، جن لوگوں نے ڈان لیکس والی خبر چلائی تھی وہی ختم نبوت ترمیم کے بھی پیچھے ہیں، سندھ کی سیاست میں جی ڈی اے کے بڑے جلسے نے ہلچل پیداکی ہے ، عمران خان بھی وہاں فعال ہیں، پیپلزپارٹی کو سیاسی طور پر نقصان ہوگا، سینئرصحافی امجد اقبال نے کہا کہ فوج دھرنا اٹھانے یا گولی چلانے کیلئے نہیں بلکہ ضمانتی کے طور پر گئی ، فوج کو عوام کے جان و مال کی حفاظت اور فساد کی صورت میں صرف گولی چلاسکتی ہے ، عدلیہ کو جذباتی ریمارکس نہیں دینے چاہئیں، صرف فیصلے اور ان پر عملدرآمد کرانا چاہئے، حکومت نے دھرنے کے معاملے میں فوج سے رابطہ کیا اور فوج نے جو کیا ملک و قوم کے مفاد میں کیا، اس میں کسی کی جیت یا ہار نہیں ہے ، فوج آج بھی ایسا ادارہ ہے جس پر پاکستانی عوام آنکھیں بند کرکے اعتماد کرتے ہیں، دھرنے والوں میں بھی دو گروپ سامنے آگئے ہیں، یہ الیکشن سے پہلے سیاسی نادانیاں ہوتی ہیں، حکومت کو لوگوں کو منانااور فنڈز دینا پڑتے ہیں، خمت نبوت ترمیم کے وقت تمام جماعتوں کے نمائندے موجودتھے اس لئے صرف ن لیگ کو نشانہ بنانا درست نہیں ہے، تحریک انصاف اندرون سندھ کام کررہی ہے ، جے یو آئی (ف) بھی متحرک ہے، جی ڈی اے ایک بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب رہی، پیپلزپارٹی کیلئے بڑی الارمنگ صورتحال ہے ، فوج کی ملک و قوم کیلئے قربانیوں پر خراج تحسین پیش کرنا چاہئے، سینئر تجزیہ کار سجاد بخاری نے کہا کہ ن لیگ کی قیادت میں یاتو عقل نہیں ہے یا پھر کسی کی بات نہیں سنتے ، اپنے ہی لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دی ہیں، صرف یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ زاہد حامد کا کوئی قصور نہیں تو پھر جسکا قصور ہے اسے سامنے لائیں، طے شدہ معاملے کو چھیڑنے کی ضرورت کیاتھی، ملک میں یہ تاثر ہے کہ حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے ، جس حکومت کا وزیر داخلہ یہ کہے کہ عدلیہ اور انتظامیہ نے آپریشن کیا اس کے عہدے پر بیٹھے رہنے کا کیا جواز بنتا ہے ، احسن اقبال کی عقل پر حیرت ہوتی ہے ، پیپلزپارٹی عوام کی توقعات پر پورا اترنے میں یکسر ناکام رہی ہے ، زرداری کے آنے کے بعد تو عام ورک کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہی، بدقسمتی ہے کہ کرپشن کلچر یہاں پروان چڑھ چکا ہے ، جس میں سیاسی و مذہبی سب رہنما شامل ہیں، فوج کی پاکستانی بڑی عزت کرتے ہیں ، ہر جوان کی خواہش ہوتی ہے کہ شہادت حاصل کرے ، تجزیہ کار مکرم خان نے کہا کہ جسٹس صدیقی نے جو ریمارکس دیئے میڈیا پر ڈسکس ہورہے ہیں، عوام کی رائے ہے کہ جج صاحب نے اپنے حفظ مراتب سے تجاوز کیا ہے ، دھرنے کا معاملہ بخیر و خوبی نمٹانے پر فوج کو خراج تحسین پیش کرنے کی بجائے بعض عناصر کی جانب سے حدف تنقید بنایاجارہاہے، ن لیگ میں دراڑیں واضح نظر آنے لگی ہیں، بہاولنگر میں 3لیگی ایم این اے عالم داد لالیکا ، طاہر بشیر چیمہ اور اصغر شاہ ن لیگ کو چھوڑ چکے ہیں، نارووال میں یہ صورتحال ہے کہ احسن اقبال شاید اس بار الیکشن کمیشن بھی نہ کرسکیں، پیپلزپارٹی نے سندھ میں جو کریشن کی ہے اس کی شاید دیگر صوبوں میں مثال نہیں ملتی، گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس ایک بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب رہا، سندھی عوام کو اپنے نمائندے سوچ سمجھ کر منتخب کرنے چاہیں جو ان کے مسائل حل کرسکیں، بدقسمتی سے پاک فوج بارے بعض عناصر بڑی بے سروپا باتیں کرتے ہیں ، قوم کو اس پر کان نہیں دھرنے چاہئیں، رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج اس وقت تاریخ کے بدترین مورال پر ہے جس کی وجہ ذات پات کا نظام، عوامی سہولیات غیر معیاری رکھنا ہے ، ایمرجنسی پر سستی بڑھ رہی ہے خودکشیاں بڑھ رہی ہیں ، افسرا و ماتحت میں مارپیٹ عام ہوچکی ہے ۔

قادیانیوں کا پاکستان میں اقلیت کی بجائے مسلمان کی حیثیت سے الیکشن لڑنے کا منصوبہ :ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد“ کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے مصحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا کہ میں نے لندن اور بیلجیم میں اپنے دوستوں سے پوچھا اور دوسرے ملکوں سے بھی دوستوں سے پوچھا کہا جاتا ہے کہ قادیانی حضرات کی لیز کردہ ربوہ کی زمین کی مدت 2030 میں ختم ہونے والی ہے۔ یہ خبر گرم ہے پنجاب حکومت نے کسی مقام پر ان کے لئے جگہ مختص کر دی ہے یہ پیسے دے دیں گے اور وہاں سے سلسلہ شروع کر دیں گے اگر ان کو ربوہ سے جاری رکھنے کی اجازت نہ ملی تو بحرحال اس کا لیز 2030ءمیں ختم ہو گا۔ مراکش کے بارے کہا جاتا ہے کہ ایک لبرل ملک ہے۔ اسرائیل نے فارمولا بنایا کہ دھڑا دھڑ پیسے دو، زمینیں خریدو اور بعد میں وہ چوڑے ہو گئے کہ یہ ہمارا ملک ہے۔ اگر معلومات غلط ہیں تو احسن اقبال، رانا ثناءاللہ اور دیگر صاحبان اس کی تردید کر دیں میں مان لوں گا۔ معلومات یہ ہے کہ مراکش میں ایک علاقے میں بنی بنائی زمین، مکانات بلکہ ”ڈویلپ“ علاقہ قادیانی حضرات خرید رہے ہیں۔ نقد اور زیادہ پیسے دے کر خرید رہے ہیں۔ وہی فارمولا ہے جس کے تحت ”طل ابیب“ کو خریدا گیا تھا۔ قادیانی وہاں بسنا چاہتے ہیں۔ افواہ پھیلی ہوئی ہے کہ پاکستانی کچھ سیاسی جماعتیں ان کے ساتھ رابطے میں ہیں اور وہ 2018ءکے الیکشن میں ان سیاسی پارٹیوں کی مدد کریں گی قادیانی اقلیت ہے لیکن ان کاکوئی نمائندہ اسمبلی میں نہیں ہوتا۔ ملک بشیر الدین اور ان کے بھائی قادیانی سیٹ پر ایک مرتبہ الیکشن لڑے تھے۔ وہ کامیاب بھی ہو گئے تھے۔ اس کا اخبار جو ربوہ سے چھپتا تھا۔ اس میں تردید کیگئی کہ قادیانیو ںکی جماعت نے انہیں کھرا نہیں کیا۔ وہ اپنے طور پر کھڑے ہوئے۔ قادیانیوں کیکوشش تھی۔ پاکستان کی کچھ سیاسی جماعتوں کو اور کچھ سیاستدانوں کو پیش کش کی کہ آپ ہماری مدد کریں کہ ہم پر (غیر مسلم) کا یہ لیبل ختم کیا جائے۔ بقول ان کے وہ مسلمان ہیں۔ ہمیں مسلمان شہری کی حیثیت سے الیکشن لڑنے کا موقع دیا جائے۔ ان کی بات پر میں یقین نہیں رکھتا۔ معاف کیجئے جو کچھ اسمبلی میں ہوا۔ وہ درست نہیں تھا۔ میری تحقیق کے مطابق جو کچھ میں نے لندن سے نیو یارک سے معلومات حاصل کیں، اسی تحقیق کی وجہ سے یہ ساری معلومات میرے پاس آئیں۔ اگر خدانخواستہ یہ ترمیم پاس ہو جاتی اور اس کی مخالفت سامنے آتی تو یہی دعویٰ درست ثابت ہو جاتا۔ اگر غلط ہے تو اس کی تردید کر دیں۔ میں قبول کر لوں گا۔ راناثناءاللہ نے ہمارے پروگرام میں کہا کہ تردید کی کہ میں نے یہ نہیں کہا کہ مسلمان اور قادیانیوں میں فرق نہیں، ہمارا کام سچ کی تلاش ہے۔ میں نے تسلیم کیا کہ احسن اقبال کی فیملی پس منظر رکھتی ہے نواز شریف صاحب شہباز شریف صاحب ان کے والد محترم میاں شریف کو قریب سے دیکھا ہے۔ وہ دینی طور پر بہت سختی کرتے تھے۔ اپنے بچوں پر کہ صوم و صلوٰة کی پابندی کریں۔ وہ خود صبح کی نماز کے بعد اتفاق مسجد میں درس قرآن کے بعد دوپہر کے کھانے تک مسجد میں قیام کرتے تھے۔ شریف فیملی اور بالخصوص نواز شریف اور شہباز شریف خود دینی نظریات کے پکے حامی ہیں وہ کس طرح اس معاملے میں پھنس گئے۔ آپ تحقیق کریں وہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہماری ان سیاستدانوں کے ساتھ ڈیل ہوئی تھی۔ اس سے بڑی خبر یہ ہے کہ انہوں نے معاہدہ کیا تھا کہ ہم 2018ءکے الیکشن میں شریک نہیں ہونگے۔ لیکن جو جماعتیں ہماری مدد کریں گی ہم مالی طور پر ان کی پوری مدد کریں گے۔ انہیں ووٹ بھی دیں گے۔ حکومتی پارٹی اس بات کی تحقیق کروائے کہ ساری دنیا میں یہ معاملہ اس وقت عام ہو چکا ہے۔ پارلیمنٹ میں ایسا کیوں ممکن ہوا۔ انوشہ رحمن، لاءگریجویٹ ہے اور اس کی فیملی بھی مذہبی بیک گراﺅنڈ رکھتی ہے۔ میں نے سنا انوشہ رحمن کو ایک ڈرافٹ موصول ہوا۔ کہ قادیانیوں کو کلیئر کریں۔ وہ مسلمان ہیں۔ انہیں اقلیت میںنہ ٹھونسا جائے۔ انہیں اوپن الیکشن میں حصہ لینے دیا جائے۔ پارٹی ٹکٹ پر یا آراد حیثیت سے الیکشن لڑنے دیا جائے۔ یہ ڈرافٹ انوشہ رحمن کے سپرد ہوا۔ لیکن یہ کیسے ہوا کہ شریف فیملی، احسن اقبال، زاہد حامد جو دینی پس منظر رکھتے ہیں۔ وہ اس میں آگئے۔ شازیہ مری کا انٹرویو چھپا ہے کہ میں پارلیمانی کمیٹی کی ممبر تھی۔ وہ کہتی ہیںکہ زاہد حامد نے کہا یہ پوائنٹ چھوڑیں اس پر بات ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا اس کے منٹ موجود ہیں ہمیں اس کی ریکارڈنگ دیکھ کر بتایا جائے۔ مسلم لیگ ن کے نظام الدین سیالوی نے کہا ہے کہ پارٹی کے لیڈران دونوں صورتحال میں ذمہ دار ہیں، اگر ان سے پوچھا نہیں گیا تو بھی ذمہ داری اور اگر پوچھ کر ایسا کیا گیاتو بھی وہ ذمہ دار ہیں۔ جو اشخاص اس میں ملوث ہیں انکوائری ہونی چاہیے اور ذمہ داران کو سزا ملنی چاہیے۔ ہم دھرنے والوں کی حمایت کرتے ہیں لیکن ہم نے کسی بھی در پردہ سازش کا حصہ نہ بننے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ ہمارا ایک پوائنٹ ایجنڈا ہے۔ وہ ہے ناموس رسالت کے حوالے سے جو بھی ذمہ دار ہے اسے سزا ملنی چاہیے۔ یہ خالصتاً ایمان کا معاملہ ہے۔ اس میں سیاست کا ایشو ہی نہیں ہے۔ یہ ایشو اب پرانا ہو گیا۔ وزیرقانون پنجاب کی طرف سے بھی بیانات آتے رہے۔ بلکہ ہر سال کوئی نیا بیان سامنے آ جاتا ہے۔ اس وجہ سے ہم کافی تشویش کا شکار رہتے ہیں جس سے ہم اپنی لیڈرشپ کو آگاہ کرتے رہے ہیں۔ لیکن شاید وہ اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ وہ واپس جانا ہی نہیں چاہتے۔ کچھ نہ کچھ ہمیں کرنا تھا۔ وہ کچھ کرنے کے موڈ میں نہیں تھے۔ اسمبلی میں اس پر ڈیبیٹ ہوئی کہ قادیانیوں کو سکول دئیے گئے ہیں۔ میرے دادا نے 1992ءمیں بیان دیا تھا کہ قادیانیوں کو کسی بھی اہم عہدے پر نہیں ہونا چاہیے۔ ہم بھی اسی مو¿قف پر ہیں۔ وہ غیرمسلم ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی قادیاتی کو کسی ادارے کا ہید نہیں ہونا چاہیے۔ میں پچھلے نو دس سال سے پارٹی سے جڑا ہوا ہوں۔ جو بھی اس عرصہ میں متنازعہ چیز سامنے آئی ہے اس کے پیچھے رانا ثناءاللہ کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔

 

آصف زرداری ،بے نظیر کرپٹ ،پاپا مرتضیٰ کو کس نے قتل کیا ؟ فاطمہ نے زبان کھول دی،سنسنی خیز انکشافات

لاہور(خصوصی رپورٹر) مرتضیٰ بھٹو کی صاحبزادی فاطمہ بھٹو نے اپنی پھوپھی بینظیر بھٹو پر کڑی تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے والد کے قتل کا مقصد خاندان کے اصل وارث کوراہ سے ہٹاناتھا، انہوں نے کہا آصف زرداری کی کرپشن میں انکی پھوپھی بھی برابر کی شریک تھیں، فاطمہ بھٹو نے اپنی کتاب میں اپنے والد، دادا، پھوپھی کے علاوہ خاندانی معاملات پر بہت کچھ لکھا ہے ، SONG OF BLOOD AND SWORD (لہو اور تلوار کے گیت )حال ہی میں شائع ہوئی ہے ، کتاب میں انہوں نے اپنے والد، انکے معاشقے کے بارے میں بھی تفصیل سے لکھا ہے اور والد کو دہشتگردی کے الزامات سے بری الذمہ قراردلوانے کی کوشش کی ہے ، فاطمہ بھٹو نے کتاب کے آغاز سے لے کر آخر تک انہوں نے بینظیر بھٹو کو ایک چال باز اور گھناﺅنی شخصیت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ فاطمہ بھٹو چودہ برس کی تھیں جب بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں ان کے والد کو کراچی میں ان کے گھر کے باہر ہلاک کر دیاگیا۔ فاطمہ بھٹو کا الزام ہے کہ ان کے والد کے قتل کا مقصد دراصل بھٹو خاندان کے اصلی جانیشن کو راہ سے ہٹانا تھا۔ ان کی پھوپھی بینظیر بھٹو جسے وہ’وڈی بوا’ کہتی ہیں، بچپن سے ہی ان کے والد میر مرتضیٰ پر غلبہ پانے اور بھٹو خاندان کی سیاسی وارث بننے کی کوشش کرتی رہیں۔وہ لکھتی ہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے کراچی میں ’آپریشن کلین اپ’ کے نام پر قتل عام کیا۔آصف زرداری کی’ کرپشن’ ان کا انفرادی فعل نہیں ہے ۔فاطمہ بھٹو اپنے والد کی ہلاکت کے واقع سے پہلے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ وہ بطور ’ممبر پارلیمنٹ’ حق رکھتے تھے کہ جب چاہیں کسی بھی تھانے میں جا کر وہاں مقید لوگوں کو رہا کرا سکیں۔ مرتضیٰ بھٹو لاڑکانہ سے صوبائی اسمبلی کے ممبر تھے ۔فاطمہ بھٹو نہ چاہتے ہوئے بھی تاثر پیدا کر رہی ہیں کہ مرتضیٰ بھٹو اپنے باڈی گارڈوں کی فوج کے ہمراہ کراچی شہر میں دندناتے پھرتے تھے۔حکومتِ وقت کا بھی یہی موقف تھا کہ سکیورٹی اداروں نے مرتضی بھٹو کو ان کے باڈی گارڈوں کےحصار سے نکالنے کی کوشش کی تھی۔فاطمہ بھٹو لکھتی ہیں کہ انہیں اپنے والد کی موت کی خبر کی تصدیق پرائم منسٹر ہاو¿س سے ہوئی جہاں نے انہوں نے اپنی پھوپھی کو فون کیا لیکن ان کے شوہر آصف زرداری نے یہ کہہ کر بینظیر بھٹو سے بات کرانے سے انکار کر دیا کہ وہ بھائی کی موت کا سن کر ہیجان کی کیفیت میں ہے۔اپنے خاندان کے بارے میں لکھتے ہوئے فاطمہ بھٹو لکھتی ہیں کہ ان کے دادا ذولفقار علی بھٹو جب بیرون ملک سے تعلیم حاصل کر کے پاکستان لوٹے تو انہیں ایک نئی دلہن کی سوجھی اور اسی دوران ان کی ملاقات ممبئی کی ایک ایرانی نژاد صابن بیچنے والے ’صبونچیے‘ کی خوبصورت بیٹی نصرت سے ہوئی جس کی وساطت سے وہ سکندر مزرا تک پہنچ گئے اور پھر حکومت میں شامل ہوگئے۔کتاب کا ایک بڑا حصہ فاطمہ بھٹو نے اپنے والد کی گرل فرینڈ ڈیلا رونک پر صرف کر دیا ہے۔ مرتضیٰ بھٹو کو اپنے والد کی پھانسی کی خبر بھی اس وقت ملی جب وہ ڈیلا کے ہمراہ تھے۔فاطمہ بھٹو اپنی خاندانی جاگیر کا فخریہ انداز میں ذکر کرنے کے فوراً بعد معذرت خواہانہ رویہ اپنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ ان کے والد مرتضیٰ بھٹو جاگیردارانہ سوچ نہیں رکھتے تھے کیونکہ ان کی پرورش لاڑکانہ میں نہیں بلکہ راولپنڈی میں ہوئی تھی۔فاطمہ لکھتی ہیں کہ مرتضیٰ بھٹو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کو رہا کرانے کیلئے لندن سے پرامن جہدوجہد کر رہے تھے کہ انہیں اچانک والد کی طرف سے ایک خط ملا جس میں انہیں ہدایت کی گئی کہ اگر انہیں ہلاک کر دیا گیا تو دونوں بھائی مسلح جہدوجہد شروع کر دیں۔ فاطمہ بھٹو کے بقول اس خط میں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے بیٹوں کو کہا کہ’اگر تم بھائیوں نے میرا بدلہ نہ لیا تو میں سمجھوں گا کہ تم میری اولاد ہی نہیں ہو‘۔فاطمہ بھٹو لکھتی ہیں کہہ انہوں نے یہ خط خود نہیں پڑھا اور نہ ہی ان کے والد نے ان کو اس بارے میں بتایا بلکہ انہیں اس خط کا علم اپنے والد کی یونانی گرل فرینڈ ڈیلا رونک سے ہوا۔ وہ لکھتی ہیں کہ ڈیلا یونانی جنرل روفوگالس کی بیوی تھی ۔ جنرل کی حراست کے دوران وہ مرتضی بھٹو کی دوست بن گئیں اور دوست بھی اتنی قریبی کے مرتضیٰ بھٹو ڈیلا کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ فاطمہ بھٹو اپنی افغان ماں فوزیہ اور ان کی بہن ریحانہ سے اپنے باپ اور چچا شاہنواز کی دوستی کا بھی تفصیلی ذکر کرتی ہیں۔ جب وہ کتاب لکھ رہی تھیں تو وہ فرانس میں اس وکیل سے ملیں جس نے شاہنواز بھٹو کے قتل کا مقدمہ لڑا تھا۔ فاطمہ کہتی ہیں کہ اس وقت ان کا بدن کانپنے لگا جب اسی سالہ وکیل ڑاک ورجس نے انہیں بتایا کہ بینظیر بھٹو نے شاہنواز بھٹو کے قتل کو دبانے کے لیے دباو¿ ڈالا ورنہ میر مرتضیٰ اس کو سکینڈل بنانا چاہتے تھے۔ فاطمہ بھٹو کے خیال میں بینظیر بھٹو سی آئی اے اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھیں۔وہ لکھتی ہیں کہ ان کے والد یہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھے کہ شاہنواز بھٹو نے خود کشی کی ہے کیونکہ وہ ایک کامیاب، دلیر اور معاشی طور پر آسودہ شخص تھا۔فاطمہ بھٹو کا کہنا ہے کہ ان کے والد آصف زرداری کو ہمیشہ ’چور‘ کہتے تھے۔ وہ لکھتی ہیں کہ آصف علی زرداری نے میر مرتضیٰ بھٹو سے اپنی دوسری ملاقات کے دوران ان کو رشوت کی ترغیب دی اور کہا کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں ایک ’ڈیل‘ کر رہے ہیں اور اگر مرتضیٰ چاہیں تو وہ ان کو بھی حصہ دار بنا سکتے ہیں۔میرے باپ نے آصف زرداری کو جواب دیا’ زرداری بھٹو ایسا نہیں کرتے۔‘فاطمہ کا دعویٰ ہے کہ آصف علی زرداری کی کرپشن اس کا انفرادی فعل نہیں تھا بلکہ ان کی ’وڈی بوا‘ بھی مکمل شریک تھیں۔پیپلز پارٹی کے ایک سابق سیکرٹری جنرل ڈاکٹر غلام حسین کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ جب انہوں نے بینظیر بھٹو کو آصف علی زرادی کی کرپشن کے بارے میں آگاہ کرنا چاہا تو جواب ملا ’ڈاکٹر صاحب ہمارا جن سے مقابلہ ہے ان کے پاس ٹنوں کے حساب سے پیسہ ہے‘۔ وہ لکھتی ہیں کہ بینظیر بھٹو شاید شریف خاندان کا مقابلہ کرنے کے لیے دولت اکٹھی کر رہی تھیں۔فاطمہ بھٹو کو یہ بھی شکایت ہے کہ جب ان کے والد نے شام سے واپس پاکستان آنے کا فیصلہ کیا تو صدر حافظ الاسد نے انہیں اپنے خصوصی طیارے کے ذریعے پاکستان بھیجنے کی پیشکش کی لیکن ان کی’ وڈی بوا‘ کی حکومت نے صدر اسد کے طیارے کو پاکستانی حدود میں داخل ہونے سے روک دیا۔فاطمہ بھٹو کی بینظیر بھٹو سے نفرت اس وقت انتہا پر نظر آتی ہے جب وہ اپنے چچا شاہنواز بھٹو کی ہلاکت کا ذکر کرتی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ اس وقت ان کی عمر صرف تین برس تھی اور وہ دمشق سے اپنے والدین کے ہمراہ فرانس کے شہر وینس میں شاہنواز بھٹو کے ہاں ٹھہری ہوئی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھائے جانے کے بعد سارا بھٹو خاندان فرانس میں اکھٹا ہوا تھا۔وہ لکھتی ہیں کہ جب بھٹو خاندان ساحل سمندر پر باربی کیو کے بعد رات گیارہ بجے فلیٹ پر پہنچا تو شاہنواز بھٹو اور ان کی افغان بیوی ریحانہ میں کشیدگی عروج کو پہنچ چکی تھی۔ ریحانہ کی ناراضی اتنی بڑھی کہ اس نے مرتضیٰ بھٹو اور اس کے خاندان کو فوراً فلیٹ سے نکل جانے کا مطالبہ کیا اور فلیٹ سے نکال کر دم لیا۔اسی رات شاہنواز بھٹو وفات پا گئے۔ فاطمہ بھٹو لکھتی ہیں کہ شاہنواز بھٹو کے پاس ایسی پینٹراکس زہر بھی موجود تھی جو انہیں مسلح جہدوجہد کی تربیت دینے والوں نے دی تھی تاکہ وہ جنرل ضیاالحق کے چنگل میں جانے کی ذلت سے بچنے کے لیے خود کو ہلاک کر لیں۔فاطمہ بھٹو لکھتی ہیں کہ جب بینظیر بھٹو نے 1988 میں وطن واپسی کا فیصلہ کیا تو اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے ضیا الحق کو یہ کہہ کر مطمئن کر دیا کہ وہ حکومت کے لیے نہیں بلکہ ایم آر ڈی کے لیے خطرہ ہوں گی۔فاطمہ بھٹو بتاتی ہیں کہ ان کے والد کو شام اور لبیا سے کتنے ہتھیار ملے اور ایک ایسا موقع بھی تھا کہ جب ان کے والد اسلحہ سے بھرا ہوا جہاز لے کر کابل پہنچے۔ وہ لکھتی ہیں کہ دبئی کے بادشاہ شیخ زید بن سلطان النہیان نے ان کے والد کو مسلح جدوجہد کرنے سے منع کیا اور صرف دس ہزار ڈالر کی امداد کی۔ ان کے والد شیخ زید بن سلطان کی رقم کو اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتے تھے اسی لیے اس رقم سے اپنی گرل فرینڈ ڈیلا رونک کے لیے رولیکس گھڑی کا تحفہ خرید لیا۔الذولفقار نامی تنظیم کی طرف سے پی آئی اے کا طیارہ اغوا کرنے کے بارے میں کہتی ہیں کہ سلام اللہ ٹیپو ہمیشہ سے مشکوک تھے اور وہ اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ کابل میں الذولقفار کے تربیتی کیمپ میں مرتضیٰ بھٹو سے مل چکے تھے۔فاطمہ بھٹو لکھتی ہیں کہ سلام اللہ ٹیپو نے دو مرتبہ پی آئی اے کا طیارہ اغوا کرنے کی تجویز پیش کی لیکن ان کے والد نے ہر بار یہ تجویز مسترد کر دی۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے والد کو پی آئی اے کے طیارے کے اغوا کا پتہ اس وقت چلا جب انہیں کابل ہوائی اڈے کے ائر کنٹرول ٹریفک سے کال موصول ہوئی۔وہ لکھتی ہیں کہ طیارہ اغوا کرنے کا فیصلہ ان کے والد کا نہیں بلکہ سلام اللہ ٹیپو کا ذاتی تھا۔فاطمہ بھٹو طیارے کے اغوا سے پیدا ہونے والی مشکلات کا الزام بھی بینظیر بھٹو کو دیتی ہیںجنہوں نے طیارے کے اغوا کی خبر پر خوشی کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ’ ہمارے لوگوں نے یہ کارنامہ کر دکھایا ہے۔‘۔ فاطمہ بھٹو لکھتی ہیں کہ انہوں نے جب بھی ’وڈی بوا‘ کے دوستوں سے طیارے کے اغوا کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کی تو جواب ملا:’ نہیں نہیں بینظیر تو ہمیشہ پرامن سیاسی جہدوجہد پر یقین رکھتی تھیں۔‘ یہ بتائے بغیر کہ وہ بینظیر بھٹو کی کس دوست سے ملیں وہ اپنا فیصلہدیتی ہیں کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں۔وہ لکھتی ہیں کہ جب ان کے والد واپس پاکستان پہنچ گئے اور انہیں تمام الزمات سے باعزت بری کر دیا گیا تب بھی ان کی پھوپھی انہیں جیل سے رہا نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ فوج کی طرف سے مرتضیٰ بھٹو کو ’ہیرو’ نہ بنانے کے مشورے پر رہا کیا گیا۔فاطمہ بھٹو جب اپنے باپ کی موت کا احوال بیان کرتی ہیں تو اس وقت ان کا انداز بیان زوردار اور جذباتی ہو جاتا ہے اور وہ بتاتی ہیں کہ ستر کلفٹن کے باہر جب ان کے والد کے قافلے پر پولیس نے حملہ کیا تو وہ زخمی ضرور ہوئے لیکن ہلاک نہیں ہوئے اور پولیس نے ان کو اپنی ایک گاڑی میں ڈال کر گولی ماری اور پھر کراچی کے مڈایسٹ ہسپتال کے دروزے پر پھینک دیا۔ وہ لکھتی ہیں کہ مڈایسٹ ہسپتال میں ایمرجنسی کے کیسز سے نمٹنے کا تجربہ تھا نہ ہی یقین تھا۔فاطمہ بھٹو نے پاکستان کے سابق صدر فاروق احمد لغاری کے حوالے سے لکھا ہے کہ آصف زرداری نے انہیں کہا تھا کہ اس ملک میں یا میں رہ سکتا ہوں یا مرتضیٰ بھٹو۔کتاب میں فاطمہ بھٹو اپنی زندہ پھوپھی صنم بھٹو کا صرف ایک بار ہلکا سا ذکر کرتی ہیں اور بینظیر بھٹو کی اولاد کا وہ سرے سے نام لینا بھی پسند نہیں کرتیں۔

ن لیگ کو بڑا جھٹکا….! 3 ارکان اسمبلی نے علم بغاوت بلند کر دیا

بہاولنگر(نمائندہ خصوصی)معتبر ذرائع نے بتایا ہے کہ بہاولنگر سے قومی اسمبلی کے تین ن لیگی ارکان قومی اسمبلی نے پارٹی پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے بغاوت کافیصلہ کیا ہے ، جس سے ضلع کی سیاست میں ہلچل پیدا ہوگئی ہے، ان ارکان میں چشتیاں سے طاہربشیر چیمہ، منچن آباد سے اصغر شاہ اور عالم دادلالیکا شامل ہیں، بتایاگیا ہے کہ طاہر بشیر چیمہ عرصہ دراز سے پارٹی کی پالیسیوں اور سینئر قیادت سے نالاں تھے، انکا نام ان اراکین پارلیمنٹ کی فہرست میں شامل تھاجن پر مبینہ طور پر دہشتگردوں سے روابط کا الزام تھا ، انہوں نے اس پر شدید احتجاج کیا تھا، یزمان سے رکن قومی اسمبلی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل طارق بشیر چیمہ ایم این اے کے چھوٹے بھائی طاہر بشیر چیمہ ایم پی اے ، چشتیاں اور تحصیل ناظم بھی رہے ہیں ، گذشتہ چار برسوں میں انہوں نے اپنے گروپ کو ضلع بھر میں مضبوط کیا اورگذشتہ بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے ہی مخالف دھڑے کا صفایا کردیاتھا،حالیہ سیاسی بحران سے قبل ہی انہوں نے اپنے سیاسی دھڑے کو بتادیاتھا کہ میان نوازشریف کی نااہلیت پر وہ انکی حمایت نہیں کرینگے، انہوں نے اسمبلی میں ووٹ بھی نہیں دیا جس کی وجہ سے اختلافات شدت اختیار کرگئے، ان سے وضاحت بھی طلب کی گئی ہے لیکن تحفظ ختم نبوت پر انہوں نے برملا حکومت کی پالیسی سے اختلاف کیا ہے ، منچن آباد سے ایم این اے اصغر شاہ آزاد حیثیت سے انتخاب جیت کر مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے تھے، لیکن مسلسل بے اعتنائی کی وجہ سے صوبائی ، مرکزی قیادت سے اختلافات کی وجہ سے آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کا حصہ نہیں ہونگے، وہ چیئرمین ضلع کونسل قلندر حسین شاہ کے قریبی عزیز ہیں ،بہاولنگر سے ایم این اے عالم داد لالیکا جوکہ پرانے پارلیمنٹرین اور وفاقی وزیر عبدالستار لالیکا مرحوم کے صاحبزادے ہیں اور پہلی مرتبہ مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے وہ بھی اپنی راہیں جدا کرچکے ہیں، تین اراکین قومی اسمبلی کے مسلم لیگ (ن) سے راہیں جدا کرنے کے اثرات صوبائی حلقوں پر بھی مرتب ہورہے ہیں، بلدیاتی سیاست میں انکا مضبوط گروپ موجود ہے ، یاد رہے کہ چیئرمین ضلع کونسل بہاولنگر قلندر حسین شاہ ان تینوں کی حمایت سے جیتے تھے، ان تین اراکین قومی اسمبلی کے مسلم لیگ (ن) چھوڑنے کے فیصلے سے ضلع بھر کی سیاست میں ہلچل برپا ہوگئی ہے ۔ جنوبی پنجاب میں اہم سیاسی تبدیلیاں متوقع ہیں۔وہ آئندہ کس سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرینگے، اس کا فیصلہ چند ہفتوں میں سیاسی صورتحال کا جائزہ لیکر کرینگے۔

 

مشہورشخصیت تحریک انصاف میں شامل

لاہور: (ویب ڈسیک) کراچی سے تعلق رکھنے والی مشہور ڈیزائنر عائشہ وارثی نے عمران خان سے ملاقات میں پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ عائشہ وارثی کا اس موقع پر کہنا تھا کہ کرپٹ سسٹم کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے، عمران خان کے ویژن کی وجہ سے پی ٹی آئی کو جوائن کیا۔ان کا کہنا تھا کہ وہ عمران خان کی قیادت میں کام کریں گی، اور ملک کو درپیش چیلنجز سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کریں گی۔