تازہ تر ین

قادیانیوں کا پاکستان میں اقلیت کی بجائے مسلمان کی حیثیت سے الیکشن لڑنے کا منصوبہ :ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد“ کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے مصحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا کہ میں نے لندن اور بیلجیم میں اپنے دوستوں سے پوچھا اور دوسرے ملکوں سے بھی دوستوں سے پوچھا کہا جاتا ہے کہ قادیانی حضرات کی لیز کردہ ربوہ کی زمین کی مدت 2030 میں ختم ہونے والی ہے۔ یہ خبر گرم ہے پنجاب حکومت نے کسی مقام پر ان کے لئے جگہ مختص کر دی ہے یہ پیسے دے دیں گے اور وہاں سے سلسلہ شروع کر دیں گے اگر ان کو ربوہ سے جاری رکھنے کی اجازت نہ ملی تو بحرحال اس کا لیز 2030ءمیں ختم ہو گا۔ مراکش کے بارے کہا جاتا ہے کہ ایک لبرل ملک ہے۔ اسرائیل نے فارمولا بنایا کہ دھڑا دھڑ پیسے دو، زمینیں خریدو اور بعد میں وہ چوڑے ہو گئے کہ یہ ہمارا ملک ہے۔ اگر معلومات غلط ہیں تو احسن اقبال، رانا ثناءاللہ اور دیگر صاحبان اس کی تردید کر دیں میں مان لوں گا۔ معلومات یہ ہے کہ مراکش میں ایک علاقے میں بنی بنائی زمین، مکانات بلکہ ”ڈویلپ“ علاقہ قادیانی حضرات خرید رہے ہیں۔ نقد اور زیادہ پیسے دے کر خرید رہے ہیں۔ وہی فارمولا ہے جس کے تحت ”طل ابیب“ کو خریدا گیا تھا۔ قادیانی وہاں بسنا چاہتے ہیں۔ افواہ پھیلی ہوئی ہے کہ پاکستانی کچھ سیاسی جماعتیں ان کے ساتھ رابطے میں ہیں اور وہ 2018ءکے الیکشن میں ان سیاسی پارٹیوں کی مدد کریں گی قادیانی اقلیت ہے لیکن ان کاکوئی نمائندہ اسمبلی میں نہیں ہوتا۔ ملک بشیر الدین اور ان کے بھائی قادیانی سیٹ پر ایک مرتبہ الیکشن لڑے تھے۔ وہ کامیاب بھی ہو گئے تھے۔ اس کا اخبار جو ربوہ سے چھپتا تھا۔ اس میں تردید کیگئی کہ قادیانیو ںکی جماعت نے انہیں کھرا نہیں کیا۔ وہ اپنے طور پر کھڑے ہوئے۔ قادیانیوں کیکوشش تھی۔ پاکستان کی کچھ سیاسی جماعتوں کو اور کچھ سیاستدانوں کو پیش کش کی کہ آپ ہماری مدد کریں کہ ہم پر (غیر مسلم) کا یہ لیبل ختم کیا جائے۔ بقول ان کے وہ مسلمان ہیں۔ ہمیں مسلمان شہری کی حیثیت سے الیکشن لڑنے کا موقع دیا جائے۔ ان کی بات پر میں یقین نہیں رکھتا۔ معاف کیجئے جو کچھ اسمبلی میں ہوا۔ وہ درست نہیں تھا۔ میری تحقیق کے مطابق جو کچھ میں نے لندن سے نیو یارک سے معلومات حاصل کیں، اسی تحقیق کی وجہ سے یہ ساری معلومات میرے پاس آئیں۔ اگر خدانخواستہ یہ ترمیم پاس ہو جاتی اور اس کی مخالفت سامنے آتی تو یہی دعویٰ درست ثابت ہو جاتا۔ اگر غلط ہے تو اس کی تردید کر دیں۔ میں قبول کر لوں گا۔ راناثناءاللہ نے ہمارے پروگرام میں کہا کہ تردید کی کہ میں نے یہ نہیں کہا کہ مسلمان اور قادیانیوں میں فرق نہیں، ہمارا کام سچ کی تلاش ہے۔ میں نے تسلیم کیا کہ احسن اقبال کی فیملی پس منظر رکھتی ہے نواز شریف صاحب شہباز شریف صاحب ان کے والد محترم میاں شریف کو قریب سے دیکھا ہے۔ وہ دینی طور پر بہت سختی کرتے تھے۔ اپنے بچوں پر کہ صوم و صلوٰة کی پابندی کریں۔ وہ خود صبح کی نماز کے بعد اتفاق مسجد میں درس قرآن کے بعد دوپہر کے کھانے تک مسجد میں قیام کرتے تھے۔ شریف فیملی اور بالخصوص نواز شریف اور شہباز شریف خود دینی نظریات کے پکے حامی ہیں وہ کس طرح اس معاملے میں پھنس گئے۔ آپ تحقیق کریں وہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہماری ان سیاستدانوں کے ساتھ ڈیل ہوئی تھی۔ اس سے بڑی خبر یہ ہے کہ انہوں نے معاہدہ کیا تھا کہ ہم 2018ءکے الیکشن میں شریک نہیں ہونگے۔ لیکن جو جماعتیں ہماری مدد کریں گی ہم مالی طور پر ان کی پوری مدد کریں گے۔ انہیں ووٹ بھی دیں گے۔ حکومتی پارٹی اس بات کی تحقیق کروائے کہ ساری دنیا میں یہ معاملہ اس وقت عام ہو چکا ہے۔ پارلیمنٹ میں ایسا کیوں ممکن ہوا۔ انوشہ رحمن، لاءگریجویٹ ہے اور اس کی فیملی بھی مذہبی بیک گراﺅنڈ رکھتی ہے۔ میں نے سنا انوشہ رحمن کو ایک ڈرافٹ موصول ہوا۔ کہ قادیانیوں کو کلیئر کریں۔ وہ مسلمان ہیں۔ انہیں اقلیت میںنہ ٹھونسا جائے۔ انہیں اوپن الیکشن میں حصہ لینے دیا جائے۔ پارٹی ٹکٹ پر یا آراد حیثیت سے الیکشن لڑنے دیا جائے۔ یہ ڈرافٹ انوشہ رحمن کے سپرد ہوا۔ لیکن یہ کیسے ہوا کہ شریف فیملی، احسن اقبال، زاہد حامد جو دینی پس منظر رکھتے ہیں۔ وہ اس میں آگئے۔ شازیہ مری کا انٹرویو چھپا ہے کہ میں پارلیمانی کمیٹی کی ممبر تھی۔ وہ کہتی ہیںکہ زاہد حامد نے کہا یہ پوائنٹ چھوڑیں اس پر بات ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا اس کے منٹ موجود ہیں ہمیں اس کی ریکارڈنگ دیکھ کر بتایا جائے۔ مسلم لیگ ن کے نظام الدین سیالوی نے کہا ہے کہ پارٹی کے لیڈران دونوں صورتحال میں ذمہ دار ہیں، اگر ان سے پوچھا نہیں گیا تو بھی ذمہ داری اور اگر پوچھ کر ایسا کیا گیاتو بھی وہ ذمہ دار ہیں۔ جو اشخاص اس میں ملوث ہیں انکوائری ہونی چاہیے اور ذمہ داران کو سزا ملنی چاہیے۔ ہم دھرنے والوں کی حمایت کرتے ہیں لیکن ہم نے کسی بھی در پردہ سازش کا حصہ نہ بننے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ ہمارا ایک پوائنٹ ایجنڈا ہے۔ وہ ہے ناموس رسالت کے حوالے سے جو بھی ذمہ دار ہے اسے سزا ملنی چاہیے۔ یہ خالصتاً ایمان کا معاملہ ہے۔ اس میں سیاست کا ایشو ہی نہیں ہے۔ یہ ایشو اب پرانا ہو گیا۔ وزیرقانون پنجاب کی طرف سے بھی بیانات آتے رہے۔ بلکہ ہر سال کوئی نیا بیان سامنے آ جاتا ہے۔ اس وجہ سے ہم کافی تشویش کا شکار رہتے ہیں جس سے ہم اپنی لیڈرشپ کو آگاہ کرتے رہے ہیں۔ لیکن شاید وہ اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ وہ واپس جانا ہی نہیں چاہتے۔ کچھ نہ کچھ ہمیں کرنا تھا۔ وہ کچھ کرنے کے موڈ میں نہیں تھے۔ اسمبلی میں اس پر ڈیبیٹ ہوئی کہ قادیانیوں کو سکول دئیے گئے ہیں۔ میرے دادا نے 1992ءمیں بیان دیا تھا کہ قادیانیوں کو کسی بھی اہم عہدے پر نہیں ہونا چاہیے۔ ہم بھی اسی مو¿قف پر ہیں۔ وہ غیرمسلم ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی قادیاتی کو کسی ادارے کا ہید نہیں ہونا چاہیے۔ میں پچھلے نو دس سال سے پارٹی سے جڑا ہوا ہوں۔ جو بھی اس عرصہ میں متنازعہ چیز سامنے آئی ہے اس کے پیچھے رانا ثناءاللہ کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain