اسلام آباد اور گردو نواح میں زلزلے

اسلام آباد(ویب ڈیسک) وفاقی دارالحکومت اور گردو نواح میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کئے گئے ہیں۔ریکٹر اسکیل پر زلزلے کی شدت 5 اعشاریہ صفر ریکارڈ کی گئی جبکہ زیر زمین اس کی گہرائی 28 کلومیٹر تھی۔ زلزلے کا مرکز افغانستان اور تاجکستان سرحدی علاقہ تھا۔

نیوزگیٹ سکینڈل, کاروائیوں بارے اہم انکشاف

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) حکومت نے نیوز گیٹ اسکینڈل سے سبق سیکھ لیا، اب ساری سرکاری کارروائیاں خفیہ رکھی جائیں گی، وزیر اعظم کی ہدایت پر وفاقی حکومت کا کڑا منصوبہ تیار کرلیا۔ واٹس ایپ اور ای میل کے ذریعے معلومات کے تبادلے پر پابندی عائد کردی گئی ہے، دوسری جانب کابینہ سیکرٹری نے تمام وزارتوں اور محکموں کو ہدایات جاری کر دیں۔ نیوز گیٹ کی حکومت کو محتاط طرزعمل کی سوجھی اور آئندہ اہم ملاقاتوں کی کوئی بات لیک نہیں ہو سکے اس وجہ سے وزیراعظم کی ہدایت پر معلومات کو خفیہ رکھنے کا لیک پروف منصوبہ سامنے ا?گیا۔ کیبنٹ سیکرٹری کی جانب سے تمام وزارتوں اور محکموں کو بھجوائے جانے والے مراسلے کے بعد کلاسیفائڈ انفارمیشن کو خفیہ رکھنے کے نئے ایس او پیز پر عمل شروع کر دیا گیا۔ میڈیا کو حساس معلومات سے دور رکھنے کا خصوصی حکم بھی دیا گیا ہے۔ منصوبے کے تحت سرکاری حکام پر واٹس ایپ اور ای میل کے ذریعے معلومات کے تبادلے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ احکامات کو ہوا میں اڑانے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔

پاکستانی کرکڑ محمد عرفان کی والدہ انتقال کر گئی

لاہور(ویب ڈیسک) چند ماہ قبل ہی والد کے انتقال کے صدمے سے دوچار ہونے والے قومی ٹیم کے دراز قد فاسٹ بولر محمد عرفان کی والدہ بھی انتقال کر گئیں محمد عرفان ان دنوں آسٹریلیا کے خلاف ون ڈے سیریز میں پاکستانی اسکواڈ کا حصہ ہیں اور قومی ٹیم کے ساتھ برسبین میں موجود ہیں، محمد عرفان کو آسٹریلیا میں ہی والدہ کے انتقال کی خبر دی گئی تاہم ان کی وطن واپسی سے متعلق ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا ہے۔

آف شور کمپنیوں بارے بڑا فیصلہ, اہم منصوبہ سامنے آگیا

اسلام آباد (آن لائن‘مانیٹرنگ ڈیسک) عالمی سطح پر ٹیکس چوری کے خلاف شروع ہونے والے کریک ڈاو¿ن کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت ایک ایسے ایمنسٹی پیکیج پر کام کررہی ہے جو ایک فرد کو اجازت دے گا کہ وہ اس کی مدد سے اپنی آف شور اور آن شور کمپنیوں کو قانونی شکل دے سکے۔ مذکورہ ایمنسٹی اسکیم پاکستانیوں کی جانب سے اپنے آف شور فنڈز کو ملک میں واپس لانے کیلئے ایک آسان طریقے کے طور پر دیکھی جارہی ہے اور ایک ایسے وقت میں پیش کیے جانے کا امکان ہے جب عالمی سطح پر ٹیکس چوروں کے خلاف دوہرے ٹیکس سے بچنے کے خلاف دو طرفہ انتظامات یا ایک کثیر جہتی ٹیکس کنونشن کے حوالے سے آپریشن متوقع ہے۔ آرگنائزیشن آف اکنامک کارپوریشن اینڈ ڈوپلمنٹ (او ای سی ڈی) کے 104 اراکین 2017 میں ایک خود ساختہ نظام کے تحت ایک ایسے ریکارڈ کا تبادلہ کرنے کا آغاز کردیں گے، جو عالمی سطح پر ٹیکس چوروں کے خلاف مربوط کریک ڈاو¿ن کا حصہ ہے تاکہ ٹیکس نادہندہ افراد کو بے نقاب کیا جاسکے۔ ایک سینئر ٹیکس افسر نے بتایا کہ رواں سال میں پاکستانیوں کے فنڈز بیرون ملک موجود ہونے کے حوالے سے پاکستان کو معلومات ملنا شروع ہوجائیں گی اور جس کے جواب میں جولائی 2018 سے پاکستان کی جانب سے ایسے غیر ملکیوں کی معلومات، جن کا پیسہ یہاں کے بینکس میں موجود ہے، تبادلے کا آغاز ہوجائے گا۔ اس عمل کا آغاز پاکستان میں بہت دیر سے ہورہا ہے کیونکہ پاکستان او ای سی ڈی میں شامل ہونے والا آخری رکن ملک ہے۔ غیر رہائشی افراد کی تفصیلات کے تبادلے کیلئے جولائی 2017 سے جون 2018 کی مدت مقرر کی گئی ہے۔ اسی طرح مذکورہ مدت کے دوران 105 ملکوں میں موجود پاکستانیوں کے اثاثوں کی تفصیلات پاکستان کو فراہم کی جائیں گی۔ اس بات اور دیگر دو طرفہ انتظامات کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت ایک ایسی ایمنسٹی اسکیم متعارف کرانے پر کام کررہی ہے جس کی مدد سے کم سے کم جرمانے کی ادائیگی سے لوگ بیرون ملک موجود اپنے کالے دھن کو سفید کرسکیں۔ خیال رہے کہ اس حوالے سے وزیراعظم نواز شریف نے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرس آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے 40 ویں ایکسپورٹ ایوارڈز تقریب کے دوران خطاب کرتے ہوئے اشارہ دیا تھا کہ آف شور اور آن شور کمپنیوں کے مالکان کے اثاثوں کو ٹیکس دہارے میں لانے کیلئے ایک ایمنسٹی اسکیم لائی جاسکتی ہے۔ 15 دسمبر 2016 کو منقعد ہونے والی تقریب میں وزیراعظم نے اس حوالے سے تجاویز بھی طلب کی تھیں۔ جس کے بعد تجویز کی جانے والی دو ایمنسٹی اسکیموں کے مطابق جن کو اپنی دولت ظاہر کرنے کا کہا جائے گا انھیں 3 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایف بی آر کی جانب سے 6 ماہ کیلئے متعارف کرائی جانے والی ایک اسکیم کو 2 ماہ کیلئے 3 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلے دو ماہ میں اپنی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد ظاہر کرنے والے افراد کو ان کے اثاثوں کا 5 فیصد ادا کرنا ہوگا، جبکہ آئندہ 2 ماہ کیلئے 7 فیصد اور آخری دو ماہ میں 10 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ اس حوالے سے وزیر خزانہ کی جانب سے بھی ایک اسکیم تجویز کی گئی ہے جس کی مدت 9 ماہ مقرر کی گئی ہے۔ تجویز کی جانے والی اس اسکیم کے تحت اثاثوں کی وطن واپسی کی صورت میں یا بصورت دیگر مختلف ٹیکس ریٹ لاگو ہوں گے، تاہم اس طرح کی تفریق ایف بی آر کی جانب سے تجویز کی گئی ٹیکس اسکیم میں نہیں ہے۔ درافٹ کی جانے والی اس اسکیم کے تحت اگر اثاثے پاکستان منتقل کیے جائیں گے تو پہلے 3 ماہ میں 5 فیصد ٹیکس لاگو ہوگا جبکہ اثاثوں کو وطن منتقل نہ کرنے کی صورت میں 10 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ آئندہ 3 ماہ میں وطن منتقل کیے جانے والے اثاثوں کو قانونی شکل دینے کیلئے 7 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا، جبکہ اثاثوں کو وطن منتقل نہ کرنے کی صورت میں 10 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ تجویز کردہ اسکیم کے مطابق آخری 3 ماہ میں وطن منتقل کیے جانے والے اثاثوں پر 10 فیصد ٹیکس لاگو ہوگا جبکہ وہ اثاثے جو وطن منتقل نہیں کیے جائیں گے ان پر 20 فیصد ٹیکس لاگو ہوگا۔ خیال رہے کہ انڈیا میں یکم جون 2016 کو آمدنی ظاہر کرنے کی ایک اسکیم متعارف کرائی گئی تھی۔ اس اسکیم کے تحت جن لوگوں نے ٹیکس چوری کی تھی انھیں ایک مہلت دی گئی تھی کہ وہ سزا سے بچنے کیلئے جرمانہ اور ٹیکس ادا کریں جو مجموعی طور پر ظاہر نہ کی گئی آمدنی کا 45 فیصد تھا۔ اس اعلان کے بعد اکتوبر 2016 تک 64275 ہندوستانیوں نے تقریبا 97.5 ارب ڈالر کے اثاثے ظاہر کیے تھے جس سے 44.8 ارب ڈالر کا ریونیو حاصل ہونے کی ا±مید پیدا ہوئی۔ اسی طرح کی ایک اسکیم انڈونیشیا کی حکومت کی جانب سے بھی متعارف کرائی گئی تھی، جس کے پہلے مرحلے میں ستمبر 2016 تک 366757 افراد نے اپنے 277 ارب ڈالر کے اثاثے ظاہر کیے تھے جس سے حکومت کو 7.45 ارب ڈالر کی آمدنی حاصل ہوئی۔

”ناانصافی ،بیروزگاری ملک کا سب سے بڑا مسئلہ جنوبی پنجاب میں نیا صوبہ ضروری“ نامور صحافی ضیاشاہد کی ”خبریں“ کے زیراہتمام تقریب میں گفتگو

ملتان (اہتمام:مظہر جاوید+اکمل وینس‘ رپورٹ: عبدالستار قمر+طارق اسماعیل‘ تصاویر:خالد اسماعیل) روزنامہ ”خبریں“ کی 24ویں سالگرہ کے سلسلے میں ملتان میں ہونے والی تقریب ”مکالمہ بعنوان پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟“ میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ وفاق کی اکائیوں پر توازن پیدا کرنے کے لئے نئے صوبوں کا قیام وقت کی ضرورت ہے اور اس سے وفاق مضبوط ہوگا۔ ملتان کے ایک ہوٹل میں ہونے والی تقریب میں تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے نمائندہ افراد نے شرکت کی۔ ”خبریں“ گروپ آف نیوز پیپرز کے چیف ایڈیٹر اور سی پی این ای کے صدر جناب ضیا شاہد نے میزبانی کے فرائض انجام دیئے۔ تقریب میں کہا گیا کہ ہمیں قائداعظم محمدعلی جناحؒ کے فرمان کے مطابق ایسا پاکستان چاہیے جس میں عوام کو چھت‘ مظلوم کو انصاف اور غریب کو روٹی مل سکے۔ روزنامہ ”خبریں“ کی منفرد تقریب میں شرکاءنے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی اور عوامی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے صوبے اور انتظامی یونٹ قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ بعض شرکاءنے پاکستان کو درپیش مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ کرپشن اور قانون پر عمل نہ ہونا قرار دیا اور اسے تمام برائیوں کی بنیاد ٹھہرایا جبکہ بیشتر شرکاءکا کہنا تھا کہ بیروزگاری اور ناانصافی اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ کسی شخص کو میرٹ پر کوئی چیز نہیں ملتی۔ سابق وزیراعظم اور پی پی پی کے مرکزی رہنما سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ وفاق میں صوبوں کو فنڈز دینے کے لئے این ایف سی ایوارڈ دیا جاتا ہے اسی طرح پراونشل فنانس ایوارڈ بھی ہونا چاہیے تاکہ تمام اضلاع کو آبادی کی بنیاد پر ترقیاتی فنڈز مل سکیں۔ انہوں نے کہا کہ گر ہمارے پاس قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت ہوتی تو ہم صوبے کے حق میں ووٹ حاصل کرلیتے مگر ہمارے پاس 142 ووٹ تھے جبکہ ضرورت 172ووٹوں کیتھی جبکہ سینٹ سے ہم نے متفقہ طور پر قرارداد منظور کرالی حالانکہ سینٹ میں جنوبی پنجاب کی صرف ایک سنیٹر خالدہ محسن قریشی تھیں۔ انہوں نے کہاکہ وہ پہلے وزیراعظم تھے جنہوں نے کہا کہ سرائیکی صوبہ ہوگا۔ صدر مملکت آصف زرداری نے بھی کہا کہ ہم صوبہ بنائیں گے لیکن آئینی مجبوری تھی کہ جس صوبے کی تقسیم ہونا ہو اس کی ا سمبلی قرارداد منظور کرے۔ ہم نے کمیشن بنایا‘ ماہرین اقتصادیات‘ ماہرین زراعت اور دانشوروں سے مشاورت کی تو انہوں نے کہا کہ دو صوبوں کا قیام پریکٹیکل نہیں ہے صرف ایک صوبہ ہوسکتا ہے۔ بہاولپور صوبہ بنالیں یا ملتان صوبہ۔ انہوں نے جناب ضیا شاہد کی کاوشوں کو سراہا کہ انہوں نے تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کرکے تاریخی بحث کرائی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی‘ دوسرا بجلی اور تیسرا معیشت ہے۔ یہ قومی سطح کے مسائل ہیں جبکہ دہشت گردی عالمی ایشو ہے اس کا حل بھی گلوبل ہوگا۔ دہشت گردی کی اصل وجہ غربت اور ناخواندگی ہے۔ جنوبی پناجب میں دونوں عوامل موجود ہیں۔ پاکستان نے 30ہزار لوگوں کی قربانی دی ہے۔ اس میں بیگناہ شہری زخمی‘ فوجی‘ پولیس والے بھی شامل ہیں۔ دہشت گردی کی وجہ سے ملکی معیشت بری طرح متاثر ہوئی کیونکہ جس ملک میں امن نہیں ہوگا وہاں کوئی سرمایہ کاری نہیں کرے گا۔ سب سے زیادہ سمندر پار پاکستانی متاثر ہوتے ہیں جو ہمیں سالانہ اربوں روپے کے ترسیلات زر بھجواتے ہیں۔ امریکہ‘ برطانیہ‘ کینیڈا میں کام کرنیوالے پاکستانی سخت مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ انہیں نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ وہ اداروں کو مضبوط بنانے کے حق میں ہیں۔ 1973ءکا آئین منظور ہوا جسے تمام جماعتوں نے مل کر بنایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ مضبوط ہوگی تو ادارے مضبوط ہونگے۔ پارلیمنٹ میں وزیراعظم کی موجودگی ضروری ہے۔ جب میرا کوئی وزیر کسی سوال کا جواب نہیں دے پاتا تھا تو وہ خود جواب دیدیتے۔ تمام ادارے پارلیمنٹ کو جوابدہ ہیں مگر اب ایسی مثالیں نہیں ملتیں۔ سابق سپیکر قومی اسمبلی سید فخرامام نے کہا کہ قائداعظم محمدعلی جناحؒ کی ایک سوچ تھی۔ میں جب ان کی تقاریر کو پڑھتا ہوں اور ان کے بنائے ہوئے پاکستان کو دیکھتا ہوں تو واضح فرق لگتا ہے۔ بانی پاکستان کے فرمودات کو فراموش کرنے‘ ان کے فلسفے پر عملدرآمد نہ کرنے کی وجہ سے بنگلہ دیش بنا۔ حکمران اور حکمرانی کے کچھ تقاضے ہیں۔ گڈگورننس بھی ہمارا مسئلہ ہے۔ ہم کون سا نظام چلارہے ہیں‘ پاکستان ایک سکیورٹی رسک سٹیٹ ہے۔ ایکسٹرنل اور انٹرنل دہشت گردی ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے مقروض ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ جب تک ہر شہری پر فوکس نہیں ہوگا‘ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے جائیں گے اور ہر شعبہ زندگی میں رول ماڈل پیدا نہیں کئے جائیں گے۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں پر توجہ نہیں دی جائے گی‘ بیروزگاری کا خاتمہ نہیں ہوگا‘ ہمارے مسائل حل نہیں ہونگے۔ اگر ذاتی مفاد کے لئے سیاست کرنی ہے تو جتنی مرضی آئین سازی کرلیں‘ قانون بنائیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ جب تک پاور فل ایلیٹ کا محاسبہ نہیں ہوگا یہ قائداعظمؒ کا پاکستان نہیں بنے گا۔ چین نے اپنی ایلیٹ کا محاسبہ کیا وہ آج کہاں کھڑا ہے۔ سینئر سیاسی رہنما مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا کہ سپریم کورٹ کو نیب کا چیئرمین نامزد کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔ پرویز مشرف کی بنائی ہوئی نیب کو وہ ہمیشہ عیب ہی کہتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر شخص کو انصاف ملنا چاہیے اور سب کا احتساب ہونا چاہیے۔ اختیارات کی ڈی سنٹرلائزیشن ہونی چاہیے۔ جب تک نئے صوبے نہیں بنتے اور ڈی سنٹرلائزیشن نہیں ہوتی پاکستان کے وجود کیلئے خطرات ختم نہیں ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کو صوبے دینے پڑیں گے۔ کوئی اور جماعت صوبہ نہیں بناسکی‘ مسلم لیگ (ن) کو بنانا ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) دوتہائی اکثریت سے آئین میں ترمیم کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملتان صوبہ رائے ونڈ سے ملتا تھا۔ اس کے بعد صوبہ قصور تھا۔ انہوں نے کہا کہ بدلتے ہوئے حالات میں انتظامی یونٹس بنائے جائیں اور انہیں تمام اختیارات بھی دیئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ بلدیاتی ادارے بحال ہوگئے ہیں مگر منتخب نمائندوں کو اختیارات دینے کے بجائے پچھلے اختیارات کو بھی چھینا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہزارہ‘ پوٹھوہار‘ فاٹا‘ سندھ اور سرائیکی وسیب کے لوگ صوبہ چاہتے ہیں تو نئے صوبے بنانے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ لاہور کو الگ صوبہ بنانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ محرومیاں اس لئے جنم لیتی ہیں کہ صوبے کا وزیراعلیٰ بھی لاہور کا اور چیف جسٹس بھی لاہور کا۔ بلوچستان میں بھی جنگ‘ سرحدم میں بھی جنگ‘ صوبہ نے بنائے تو خطرات بڑھیں گے۔ امریکہ نے اپنی چھوٹی سے چھوٹی ریاست کو بھی ووٹ کا حق دیا تھا۔ اگر امریکہ ایسی غلطی کرتا تو بکھر جاتا۔ بلوچستان میں چار بار ملٹری ایکشن ہوا۔ بھٹو نے بھی آپریشن کرایا۔ وہ کب تک ہماری توپوں کے گولے کھاتے رہیں گے۔ حکمران صوبے خوشدلی سے دیدیں۔ انہوں نے کہا کہ جو صوبے کا وزیراعلیٰ بن جاتا ہے وہ اپنے حلقہ اختیار کو کم کرنے پر رضامند نہیں ہوتا۔ وہ چاہتا ہے کہ اٹک کے پل سے ریتی تک اس کی حکومت ہو۔ انہوں نے واضح کہا کہ اردو اور پنجابی بولنے والوں کی سپورٹ کے بغیر صوبہ نہیں بن سکتا۔ سرائیکی تو کوہاٹ‘ لاڑکانہ میں بھی بولی جاتی ہے بلکہ لاڑکانہ میں سرائیکی بولنے والے 48 فیصد ہیں۔ انتظامی یونٹس چھوٹے ہونگے تو اقتدار بھی لمبا ہوگا۔ گڈ گورننس ہوگی۔ میری ماں کی زبان بھی سرائیکی ہے۔ یہ میری پیاری زبان ہے۔ اہل لاہور نے انہیں چار بار ایم این اے منتخب کیا میں ان کا احسان مند ہوں۔ عوامی راج پارٹی کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی جمشید خان دستی نے بیوروکریٹس‘ سیاستدانوں اور عدلیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک کو تجربہ گاہ بنادیا گیا۔ مالی دہشت گردی کی وجہ سے کسی کو انصاف ملتا ہے نہ ریلیف۔ قومی مجرم پکڑے جاتے ہیں تو انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ وہ جب سے پارلیمنٹ میں گئے ہیں وہاں کی برائیوں اور خرابیوں کے بارے میں آگاہ ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام سے ووٹ لینے والے ایوانوں اور اسمبلیوں میں جاکر اندھے ہوجاتے ہیں اور اپنے ووٹرز کو بھول جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بنگالیوں کو حقیر سمجھا گیا اس لئے بنگلہ دیش الگ ہوا۔ جماعت اسلامی کے 80/90 سالہ بزرگوں نے پاکستان کیلئے قربانیاں دیں مگر کسی نے احتجاج نہیں کیا۔ تخت لاہور سرائیکی وسیب کے ساتھ مسلسل زیادتیاں کررہا ہے۔ ہمارے لوگوں کو تھانے اور پٹواری کی سیاست میں الجھایا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”خبریں“ واحد اخبار ہے جو صحیح معنوں میں آزاد ہے جہاں ہر چھوٹی بڑی خبر لگتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی سید جاوید علی شاہ نے کہا کہ ایک سیاسی ورکر کی حیثیت نے ان کا یہ مشاہدہ ہے کہ پاکستان کو صحیح سیاسی ماڈل میسر نہیں آسکا۔ بار بار مارشل لاءکی وجہ سے کوئی ادارہ نہیں بن سکا۔ انہوں نے کہا کہ جہاں سوسائٹی نہ ہو وہاں جنگل ہوتا ہے۔ صحیح پولیٹیکل سسٹم میں معیشت کی جڑیں ہوتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم گورے کی قید سے نکل کر کالے کی غلامی میں قید ہیں۔ ڈبل سٹینڈرڈ اور بے یقینی میں صحیح ڈیموکریسی کیسے آئے گی۔ لوگ دیانت داری سے کام کیسے کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے بااختیار سیاسی ادارے بنائے جائیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ جو مارشل لاءکی جھولی میں پروان چڑھتے ہیں وہ عوام کو ڈیلیور نہیں کرسکتے۔ ضلع کونسل ملتان کے چیئرمین دیوان محمد عباس بخاری نے کہا کہ اس وقت ملک کا مسئلہ ایجوکیشن اور ہیلتھ ہے۔ عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی بھی مسائل میں اضافے کا باعث ہے۔ این جی اوز کو عوام کی فلاح و بہبود کے لئے آگے آنا چاہیے۔ ممبر ضلع کونسل سید مجاہد علی شاہ نے کہا کہ پیسٹی سائیڈز اس قدر ناقص اور ملاوٹ شدہ آرہی ہیں کہ اب کپاس کے کیڑوں کو ختم کرنے کیلئے 14سپرے کرنا پڑتے ہیں۔ پہلے ایک ہی سپرے سے تیلے‘ سفید مکھی اور دیگر کیڑے مکوڑے مرجاتے تھے۔ پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبل یجاوید اختر انصاری نے کہا کہ حکومت مخالفین کے ساتھ سوتیلی ماں کا سا سلوک کررہی ہے۔ پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز نہیں دیئے جارہے ہیں۔ ان کے علاقے میں لوگ سیوریج کا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ تمام گلیاں جوہڑ کا نقشہ پیش کرتی ہیں جنازہ بھی نہیں لے کر جاسکتے۔ جماعت اسلامی کے رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر وسیم اختر نے کہا کہ قرآن کے نظام کو نافذ کرنے سے ہمارے تمام مسائل حل ہوجائینگے۔ آئین پاکستان کا تقاضا ہے کہ ایماندار اور راست گو قیادت کو آگے لایا جائے۔ چور‘ ڈاکو قیادت سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ قرآن احکامات پر عمل کریں گے تو آسمان سے رزق برسے گا۔ یہ تمام نعمتیں رب نے پیدا کی ہیں۔ تحریک استحکام کی چیئرپرسن ساجدہ احمد لنگاہ نے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپٹ سیاستدان ہیں۔ چند سیاسی گھرانوں نے ملک کو یرغمال بنارکھا ہے۔ اگر انہوں نے ڈلیور کیا ہوتا اور اداروں کے تقدس کا خیال رکھا جاتا تو نہ صرف ادارے مضبوط بلکہ عوام کو بھی ریلیف ملتا۔ اسی طرح اگر برابری کی سطح پر حقوق کی تقسیم کا کام کیا ہوتا تو آج ملک کی حالت تبدیل ہوگی مگر ان سیاستدانوں نے صرف اپنی جیبیں بھرنے کی خاطر ملک کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بار بار فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنا پڑا۔ اگر یہ سیاستدان ایمانداری سے کام کررہے ہوتے تو آج حالات مختلف ہوتے۔ ان کے جانے پر عوام مٹھائیاں تقسیم نہ کرتے۔ میرے نزدیک تمام تر مسائل کی جڑ سیاستدان ہیں یہ ٹھیک ہوجائیں اور ایماندار لوگ سامنے آجائیں تو ملک کے تمام مسائل حل ہوجائینگے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما ابوبکر اعوان نے کہا کہ کھیلوں کو فروغ دیا جائے اور کھیلوں کے میدانوں کو بھرا جائے تا کہ نوجوانوں کو غیرنصابی سرگرمیوں میں دلچسپی پیدا ہو۔ ان کے ذہن کھلیں اور پاکستان کا بہتر مستقبل ثابت ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مزید کھیلوں کے میدان بنائے جائیں اور ویران میدانوں کو آباد کیا جائے۔ سیاسی ورکر محمد اکرم کنہوں نے کہا کہ جلالپور پیروالہ کے علاقے میں زیرزمین پانی کی سطح بہت نیچے چلی گئی ہے اور اکثر جگہوں پر پانی نمکین ہوگیا ہے جس کی وجہ سے کھیتی باڑی بھی مشکل ہوگئی ہے ان کے علاقے میں آبپاشی کا انتظام کیا جائے۔ وفاق المدارس کے سیکرٹری جنرل قاری حنیف جالندھری نے کہا کہ پاکستان دراصل مسائلستان ہے اس کا ہر مسئلہ بڑا مسئلہ ہے۔ یہ ملک چاروں جانب سے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل نہ کرنے اور من پسند معنی اخذ کرنے سے خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ آئین کی طرف توجہ کرنی چاہیے نئی جنریشن اس بات سے واقف نہیں ہے کہ یہ ریاست کیوں وجود میں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آئین سے دور چلے گئے ہیں۔ انہوں نے آئین کی بالادستی پر زور دیا۔ پاکستان سرائیکی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل محمد اکبر انصاری نے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قیام پاکستان سے اب تک احساس کا فقدان ہے۔ دو قومی نظریے کی غلط تشریح کی جارہی ہے جس کی وجہ سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت پڑجاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں رہنے والوں کی شناخت کی نفی کی جارہی ہے۔ حالانکہ قیام پاکستان کے وقت تمام قوموں کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ان کی شناخت کا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا ان کو برابری کے حقوق ملیں گے۔ اب پاکستانی ہونے کے باوجود انہیں شیلٹر نہیں مل رہے ہیں۔ سرائیکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین رانا فراز نون نے کہا کہ حکمرانوں نے اختیارات اور وسائل کو سنٹرلائز کردیا ہے جس کی وجہ سے احساس محرومی بڑھتا جارہا ہے۔ اختیارات کی ڈی سنٹرلائزیشن کی ضرورت ہے۔ ماضی میں ون یونٹ بناکر اختیارات کو سنٹرلائز کیا گیا تو پاکستان کا ایک حصہ الگ ہوگیا۔ ہم ایک بار پھر اسی روش پر گامزن ہیں۔ سرائیکیوں کی پرامن آواز کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ علیحدہ صوبے کسی سرائیکی کا مسئلہ نہیں یہ سب کی آوز ہے۔ صوبہ کا مطالبہ پورا کیا جائے ہمیں انڈیا کا ایجنٹ یا غدار نہ کہا جائے۔ سرائیکی دانشور ظہور دھریجہ نے کہا کہ پنجاب کا صوبہ 62فیصد آبادی کا صوبہ ہے جبکہ 38فیصد آبادی پاکستان کے تین صوبوں میں رہتی ہے جس کی وجہ سے وفاق عدم توازن کا شکار ہے۔ اگر چ ھوٹے صوبے یہ مطالبہ کردیں کہ اسمبلی میں تمام صوبوں کے برابر ارکان ہونے چاہئیں تو پھر کیا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس خطے کے عوام کو دوسرے درجے کا شہری نہ سمجھا جائے۔ سرائیکی عوام کے حقوق کا تحفظ کیا جائے اور انہیں الگ صوبہ دیا جائے۔ ایس ڈی پی (شعبہ خوتین) کی مرکزی صدر عابدہ بخاری نے کہا کہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ میٹرو بس پراجیکٹ کا عملہ بھی اپر پنجاب سے بھیجا جارہا ہے اور مقامی لوگوں کو یکسر نظرانداز کیا جارہا ہے۔ اس علاقے میں بیروزگاری‘ غربت بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے خودکشیوں کی شرح میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ تخت لاہور کے حکمران انہیں آگے بڑھنے نہیں دیتے۔ سرائیکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما مطلوب حسین بخاری نے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ناانصافی اور احتساب سے انکار ہے۔ اگر ہم اپنا احتساب خود کریں اور اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو تمام مسائل خودبخود حل ہوجائیں گے۔ پاکستان سرائیکی پارٹی کے ترجمانملک جاوید چنڑ نے کہا کہ میڈیسن کمپنیاں جعلی ادویات سپلائی کررہی ہیں جس کی وجہ سے مریض موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ جعلی اور مضرصحت ادویات سپلائی کرنے والوں کو قرارواقعی سزا دی جائے۔ سخت قوانین بنائے جائیں اور ان پر گرفت کی جائے۔ معروف سرائیکی شاعر شاکر شجاع آبادی نے کہا کہ معاشرے میں احساس ہمدردی ہو تو مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سائنس کی ترقی میں بندہ پروری نہیں ہے۔ شاکر نے کہا کہ مسائل حل کرنے کے لئے بندہ پروری کا احساس ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے حکمرانوں میں اب شناخت اور احساس ہمدردی کا عنصر ہو تو دہشت گردی کا خاتمہ بھی ممکن ہے۔ سرائیکی شاعر نذر فرید بودلہ نے کہا کہ موجودہ حکومت اور حکمرانوں کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ادب و ثقافت پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔تحریک صوبہ ملتان کے رہنما رانا تصویر احمد نے کہا کہ پاکستان میں اردو کا نفاذ کردیا جائے تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ قومی زبان ہونے کے باوجود ابھی تک اردو کو اس کا مقام نہیں مل سکا۔ ایوان تجارت و صنعت ملتان کے صدر خواجہ جلال الدین رومی نے کہا کہ جنوبی پنجاب کاٹن ایریا ہے۔ معیاری بیج دستیاب نہ ہونے کی بنا پر کپاس کی پیداوار میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ کسی بھی غیرملکی کمپنی کے ساتھ مل کر اچھا بیج تیار کیا جاسکتا ہے جس سے پیداوار میں اضافہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک منصوبے کے تحت جنوبی پنجاب میں ایک انڈسٹری زون بنایا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار مل سکے۔ ہیلتھ انشورنس کے نظام کو پورے ملک میں متعارف کرایا جائے۔ تمام پاکستانی جن کی ماہانہ آمدنی 20ہزار روپے تک ہو انہیں اس سکیم میں شامل کیا جائے۔ انہوں نے ٹیکسٹائل کی برآمدات میں کمی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ معروف صنعت کار ذوالفقار علی انجم نے گندم‘ مکئی اور دیگر اجناس کی ویلیو ایڈیشن پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ا س طرح پاکستان قیمتی زرمبادلہ کماسکے گا۔ انہوں نے کہا کہ آر ایل این جی کی درآمد اور بجلی کی بلاتعطل فراہمی سے صورتحال میں بہتری آءیہے۔ بیروزگاری کا مسئلہ حل ہوا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ سمال انڈسٹری پر خصوصی توجہ دی جائے۔ زراعت پر خصوصی توجہ دی جائے اور زرعی ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ہائی بریڈ بیج کے استعمال کو فروغ دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت 90فیصد خوردنی تیل باہر سے منگوایا جارہا ہے۔ اس میں پاکستان کو خودکفالت حاصل کرنی چاہیے۔ مکئی کا تیل نکالیں‘ دودھ کی پیداوار میں اضافہ کرنے کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں اور دودھ کی بھی ویلیو ایڈیشن کرنی چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ کمایا جاسکے۔ تاجر رہنما خواجہ محمد شفیق نے کہا کہ 2017ءکو ہم نے تمام منافرتوں کو ختم کرکے ایک متحد قوم بننا ہے۔ آپس میں محبت اور پیار کو شیئر کرنا ہے۔ 20کروڑ عوام کو ایک مربوط شکل میں سامنے آنا ہے۔ اس وقت ہم ایک قوم نہیں بلکہ ہجوم بن چکے ہیں۔ مختلف مذہبی‘ نسلی‘ علاقائی گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ کوئی منزل ہے نہ کوئی آگے بڑھنے کیلئے سمت کا تعین ہے۔ ہمیں برادری ازم سے بالاتر ہوکر ایک قوم کی شکل میں آگے بڑھنا ہے۔ تاجر رہنما خواجہ سلیمان صدیقی نے کہا کہ پچھلے ڈیڑم سال سے تاجروں پر ودہولڈنگ ٹیکس کی تلوار لٹکی ہوئی ہے جس کی وجہ سے بینکوں کے ذریعے ین دین نقصان کا باعث بن رہا ہے۔ وہ ایک لاکھ روپے لینے جاتے ہیں تو 400 روپے کاٹ لئے جاتے ہیں۔ بینکوں کو بھی نقصان ہورہا ہے۔ انہوں نے یوسف رضا گیلانی کو مخاطب کرتے ہوئے کاہ کہ آپ نے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے ملتان کو بگ سٹی قرار دینے کا اعلان تو کرادیا مگر ابھی تک ملتان بگ سٹی نہیں بن سکا۔ کم از کم ملتان کو بگ سٹی قرار دیدیا جائے۔ میاں عبدالرﺅف قریشی نے کہا کہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے الیکشن کیلئے امیدوار کا گریجوایٹ ہونا ضرویر ہے تو ووٹ دینے والے کیلئے میٹرک پاس ہونا ضروی ہو۔ جاہل آدمی کو تو گھر والے بھی مشورے میں شامل نہیں کرتے تو اسے ایک پارلیمنٹیرین منتخب کرنے کا اختیار کیسے دیا جاسکتا ہے۔ معروف سماجی رہنما اظہر بلوچ نے کاہ کہ گزشتہ 55برسوں کے دوران کوئی مخلصانہ قیادت نہیں آئی اگرچہ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے تاہم ہیلتھ اور ایجوکیشن پر کوئی کمپرومائز نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ فوڈ اتھارٹی کا اب معرض وجود میں آنا انتہائی بے حسی کی علامت ہے۔ ہم لوگ 67برسوں سے کیا کھاتے رہے ہیں‘ ادویات خالص ہیں نہ پیسٹی سائیڈز۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو ان مسائل پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ کسان اتحاد کے چیئرمین خالد محمود کھوکھر نے کہا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر دالیں‘ سبزیاں بھارت سے آرہی ہیں کیونکہ پاکستان میں پیداواری لاگت بڑھ چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ 69سال بعد زرعی پالیسی بن رہی ہے۔ ملک میں زرعی ایمرجنسی نافذ کی جائے۔ ہمارے پاس 50لاکھ نئی گندم پڑی ہوئی ہے مگر کوئی لینے والا نہیں کہ بھارت اپنی گندم افغانستان‘ ایران اور دیگر ممالک کو بھجوارہا ہے کیونکہ وہاں پیداواری لاگت کم ہے۔ یوریا کی بوری 455روپے میں ملتی ہے جو پاکستان میں 1500روپے کی ہے۔ ہمارے دودھ سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کا پانی زیادہ مہنگا ہے۔ مینگو گروورز ایسوسی ایشن کے صدر زاہد حسین گردیزی نے کہا کہ ملک کو فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ درپیش ہے۔ حکمران زراعت پر توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ آبادی میں اضافہ ہورہا ہے۔ موسموں میں تبدیلی اور فضائی آلودگی کی وجہ سے پیداوار آدھی رہ گئی ہے مگر حکمران اس کے باوجود تھرمل پاور سٹیشنوں کو فروغ دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یورپ نے موسموں کی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے انتظامات کرلئے ہیں۔ ان کی پیداوار دگنی ہوجائے گی جبکہ پاکستان کی پیداوار آدھی رہ گئی ہے۔ زیرزمین پانی کی سطح اور نیچے چلی گئی ہے جوکہ خطرناک ہے۔ پرائیڈ آف پرفارمنس محترمہ ثریا ملتانیکر نے کہا کہ امیر اور غریب کیلئے ایک ہی سکول ہونا چاہیے۔ اس وقت تعلیم بہت مہنگی ہے۔ سکولوں کے ذریعے طبقات پیدا کئے جا رہے ہیں۔ ہمارے زمانے میں یکساں تعلیمی نظام تھا اور سب کو ایک جیسی تعلیم دی جاتی تھی۔ آج کل کرپشن کا دور دورہ ہے۔ سینئر آرٹسٹ نعیم الحسن ببلو نے کہا کہ وہ اپنے لئے خود ایک مسئلہ ہیں۔ اگرچہ ان کی آواز قومی ترانے میں شامل ہے جس کا کریڈٹ جناب ضیاشاہد کو جاتا ہے مگر یونیورسٹی کی انتظامیہ نے میوزیکالوجی کا شعبہ بند کر دیا۔ گورنر پنجاب کے احکامات کے باوجود انہیں بحال نہیں کیا گیا بلکہ ان کی جگہ ایک 70سالہ شخص کو نوکری پر بحال کر دیا گیا۔ سینئر آرٹسٹ ریڈیو پاکستان مسرت جہاں نے کہا کہ ان سمیت آرٹسوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ہم بیمار ہو جائیں تو علاج نہیں کروا سکتے۔ ویسے ہمیں قوم کا سرمایہ کہا جاتا ہے۔ مر جائیں تو ہماری یاد میں ایک شام منعقد کی جاتی ہے۔ سینئر پروڈیوسر ریڈیو پاکستان نسرین فرید نے کہا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ نشہ ہے۔ گٹکا سپاری اور پان کے نام پر نوجوانوں میں نشے کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ہمارے بچے تباہ ہو رہے ہیں تعلیمی ادارو کے قریب دکانوں میں نشہ فروخت ہو رہا ہے مگر کوئی ادارہ انہیں روکنے والا نہیں۔ دانشور اور آرٹسٹ قیصر نقوی نے کہا کہ منتخب لوگوں میں کوئی مسئلہ ہے یا ان کو منتخب کرنے والوں میں کوئی مسئلہ ہے اسی وجہ سے معاملات الجھے ہوئے ہیں۔ معروف کالم نگار اور دانشور سجاد جہانیہ نے کہا کہ حکومت نے 20ہسپتالوں کے قیام کا اعلان کر دیا ہے مگر جعلی ادویات، مضر صحت خوراک اور ملاوٹ شدہ دودھ اور دیگر اشیائے خوردونوش کے تدارک کیلئے بھی کوشش کرنی چاہیے اور میڈیا کو بھی انسانیت سے ہمدردی کرتے ہوئے ملاوٹ کے خلاف آواز اٹھانا ہوگی۔ منصور بلوچ کالم نگار نے کہا کہ کرپٹ سیاستدان کسی پڑھے لکھے نوجوان کو سامنے نہیں آنے دیتے۔ جب سیاست دان ڈیلیور نہیں کرتے تو مارشل لاءلگتا ہے 70 سال ہو چکے ہیں نظام بدلا ہے نہ چہرے بدلے ہیں۔ چند خاندانوں کی سیاست میں اجارہ داری ہے۔ بیرونی قرضے لیکر قوم کو مقروض کرتے جا رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی زاہدہ خان نے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں قانون بنانے والے اور اس پر عملدرآمد کرانے والے دونوں سنجیدہ نہیں ہیں۔ گزشتہ سال کے دوران 14ہزار881 خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا مگر کسی کو سزا ملی نہ تشدد کا خاتمہ ہوا۔ میروالہ کی مختار مائی نے کہا کہ قوانین موجود ہیں مگر اس کے باوجود انسان کو انسان نہیں سمجھا جاتا۔ خواتین پر تشدد اور ان کے ساتھ زیادتی کا مسئلہ کم ہوا ہے نہ خواتین کو انصاف ملتا ہے۔ انہوں نے اپنے معاملے کو پوری دنیا میں روشناس کرانے پر جناب ضیاشاہد کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے بتایا کہ جناب ضیاشاہد ایک بار ”خبریں“ ٹیم اور دوسری بار وزیر قانون کے ہمراہ ان کے گھر میروالہ آئے تھے۔ معروف سماجی رہنما سید علی رضا نے کہا کہ سرکاری میڈیکل کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے والوں سے بانڈ لکھوانا چاہیے کہ وہ مریضوں کے علاج سے انکار نہیں کریں گے اگر وہ ہڑتال کریں گے تو انہیں تمام اخراجات ادا کرنا پڑیں گے جو حکومت نے ان کی تعلیم پر کئے۔ شیخ نصراللہ نے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ تعلیم اور صحت ہے۔ غریبوں کو دونوں میسر نہیں۔ ملتان آرٹس کونسل کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر فواد رفیق نے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ناقص منصوبہ بندی ہے جس کی وجہ سے تمام مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ این جی او کی شائستہ بخاری نے کہا کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے جو تمام برائیوں کی جڑ ہے اور اس کی وجہ سے انصاف بھی نہیں ملتا۔ بہاءالدین زکریا ملتان شعبہ علوم اسلامیہ کے پروفیسر ڈاکٹر عبدالقدوس صہیب نے کہا کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ تعلیمی نظام کے نصاب میں موجود فکری خلاءکو ختم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں 4سے زائد مختلف تعلیمی نظام چل رہے ہیں جس سے ملک میں فکری خلاءبڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں تعلیم کیلئے 5 فیصد مختص کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم کا نظام بہتر کرکے ہم اپنے بنیادی مسائل حل کر سکتے ہیں۔ خواجہ نور مصطفی ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس وقت سب سے بڑا ایشو بےروزگاری ہے۔ مڈل اور ہائی سکولوں کے ساتھ ساتھ ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹس بھی بنائے جائیں تاکہ ہنر مند بچے معاشرے پر بوجھ نہ بنیں اور ان کے لئے روزگار کا مسئلہ پیدا نہ ہو۔ محمود فوزی ہاشمی (آرکٹیکٹ) نے کہا کہ عام آدمی کی فلاح وبہبود کیلئے کام کرنا چاہیے۔ نادرا کے نظام سے استفادہ کرتے ہوئے لوگوں کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرکے ان کی بہتری کیلئے کام کرنا چاہیے۔ پریس کلب ملتان کے صدر شکیل انجم نے کہا کہ حصول انصاف ملک کا سب سے بڑا مسئل ہے اگر ہمارا عدالتی نظام درست ہو جائے تو ہمارے بہت سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ اس وقت جو عدالتی نظام ہے ماتحت عدالتوں سے لیکر اعلیٰ عدالتوں تک لاکھوں کی تعداد میں لوگ آج بھی انصاف کے منتظر ہیں بہت سے مسائل اور جرائم لوگوں کو انصاف نہ ملنے کی وجہ سے جنم لے رہے ہیں۔
مکالمہ

گھریلو ملازمہ طیبہ بازیاب, پولیس کو سراغ کیسے ملا؟, اہم انکشاف

اسلام آباد، کمالیہ (نمائندگان خبریں) طیبہ تشدد کیس میں پولیس کی تیار کردہ رپورٹ میں پولیس کی مبینہ ملی بھگت اور بددیانتی سامنے آگئی۔ گرم راڈ کے ذریعے کم ہے کو جلانے کا ذکر بھی گول کردیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق پولیس رپورٹ میں تشدد کا نشانہ بننے والی بچی طیبہ کی کمر پر نشانات کا بتایا گیا گرم راڈ کے ذریعے کم داغنے کا بھی کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ طیبہ کو 5روز لاپتہ رہنے کے بعد بازیاب کرایا گیا۔ 5روز کے دوران بچھی کے زیادہ تر زخم مندمل ہوچکے تاہم ہاتھ کا زخم موجود ہے طیبہ کو کمر پر گرم راڈ سے جلایا گیا تاہم پولیس رپورٹ میں اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ بچی کو پہلے پولیس منتقل کیا گیا تاہم دوبارہ مجسریٹ کے حکم پر کرائسز سنٹر بھجوادیا گیا ہے۔
گھریلو ملازمہ طیبہ کوپولیس اورقانون نافذ کرنےوالے اداروں کی جانب سے بازیاب کرالیا،پولیس نے تشدد زدہ بچی کو بحفاظت اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔تفصیلات کے مطابق پولیس کا کہنا تھا کہ طیبہ کو اسلام آباد کے مضافاتی علاقے سے بازیاب کرایاجبکہ بچی کے والدین کو بھی تحویل میں لے لیا ہے۔طیبہ کو اب پولیس کی جانب سے محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا ،اس معاملے میں پولیس کو انٹیلی جنس اداروں کی معاونت بھی حاصل تھی۔پولیس کا کہنا تھا کہ طیبہ بیمار اور تھکی ہوئی تھی،طبعی امداد کے لئے اسے ڈاکٹر کے پاس لے جایا جائے گا۔ طیبہ تشدد کیس میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے بدھ کے روز از خودروپوش فیملی کو عدالت عظمیٰ میں پیش کرنے کا بندوبست مکمل کرلیا ہے میڈیا کا رخ موڑنے کیلئے طیبہ کی پھوپھی کو حراست میں لینے کا ڈھونگ رچایا گیا۔ ایس آئی ٹی نے اپنی تفتیش کا دائرہ بڑھاتے ہوتے جج سمیت ان کے اہل خانہ سے بھی پوچھ گچھ کا سلسلہ آج پیر سے شروع کریگی۔ طیبہ تشدد کیس میں،لڑکی کی ماں کی دعویدار کوثر بی بی نے کہاہے کہ مجھے ملزمان کی سزا سے نہیں اپنی بیٹی سے غرض ہے۔ پوری قوم کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ اگر میری بیٹی مجھے دے دی جائے تو میں کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کروں گی۔ بیٹی سے ہونے والی ظلم و تشدد کی داستان نے مجھے میری بیٹی سے ملا دیا تو میں سمجھوں گی کہ میری ساری خوشیاں لوٹ آئیں۔ اہل خانہ میں ملنے والی خوشیوں سے ثنا بھول جائےگی کی کبھی اس نے دکھ سے آنسو بھی بہائے تھے۔ اگر صرف کاروائی کی بنیاد پر ملزمان آج تک رو پوش ہیں تو وہ ایک ماں کے وعدہ کو اہمیت دیتے ہوئے میری بیٹی مجھے واپس کردیں۔ تفصیلات کے مطابق طیبہ تشدد کیس میں آئے روز آنے والی خبریں کہ تا حال طیبہ کا کوئی پتا نہیں چلا ، حوصلوں کو پست کررہا ہے۔ انہوں نے اس کیس سے متعلقہ تمام لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اس بات پر یقین رکھیں اور طیبہ جس کا اصل نام ثنا ہے کو کسی بھی ذریعے سے عدالت یا میرے حوالے کر دیں میں یقین دلاتی ہوں کہ میں کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کروں گی۔
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) ایڈیشنل سیشن جج کی اہلیہ کا تشدد کا نشانہ بننے والی طیبہ کو وکیل راجہ ظہور کی نشان دہی پر برآمد کیا گیا۔ نجی ٹی وی کے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ وکیل راجہ ظہور نے طیبہ کو لہتراڑ روڈ پر ایک گھر میں رکھا ہوا تھا۔ راجہ ظہور نے طیبہ کے والدین اور جج کے درمیان صلح بھی کرائی۔ پولیس نے راجہ ظہور کے گرد گھیرا تنگ کیا تو اس نے سب کچھ بتا دیا۔ پولیس نے طیبہ اور والدین کو تحویل میں لیکر محفوظ مقام پر پہنچا دیاے۔ ذرائع کے مطابق طیبہ کو میڈیا سے دور رکھنے کیلئے وکیل راجہ ظہور نے اسے غائب کیا۔ طیبہ کے والدین ہونے کے دعویداروں کے بلڈ سیمپل لے لیے گئے۔ آج ڈی این اے ٹیسٹ ہوگا جس کے بعد دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔

پاک آسٹریلیا پہلا ون ڈے ،پاکستان کی جوش ہیزل وڈ سے جان چھوٹ گئی

برسبین (آئی این پی)پہلے ون ڈے کے لئے میزبان ٹیم نے اپنے ایک اہم فاسٹ بولر کو آرام دے دیا۔پاکستان کے خلاف جمعے کو شیڈول پہلے ون ڈے میچ میں جوش ہیزل وڈ شریک نہیں ہوں گے، انہیں ٹیسٹ سیریز میں مسلسل بولنگ کی وجہ سے ایک ون ڈے میں آرام دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔رواں آسٹریلوی ہوم سیزن کے دوران ہیزل ووڈ نے تمام 6 ٹیسٹ اور تین ون ڈے میچز کھیلے ہیں، اس دوران انہوں نے مجموعی طور پر 300.1 اوورز کئے ہیں جبکہ مچل اسٹارک نے اس عرصے کے دوران 292.2 اوورز کئے ہیں۔کوچ ڈیرن لی مین کا کہنا ہے کہ ہیزلے ووڈ کو کوئی انجری لاحق نہیں ہے، وہ ان گرمیوں میں کام کا بہت زیادہ بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے رہے، اس لئے انہیں ایک میچ میں آرام دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

نواز شریف پکڑ میں آچکے, جیل بھجوائیں گے, کپتان کا بڑا اعلان

بہاول پور(نمائندہ خصوصی، مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہاہے کہ میں پریکٹس کر کر کے اچھا کھلاڑی بنا اور نواز شریف 30سال میں کرپشن کر کر کے کرپشن کا ماہر بن گیا ،،ہم 200 سال بھی کوشش کرتے تو پتہ نہیں چلتا کہ شریف خاندان نے اربوں روپے کی جائیدادیں کس طرح بنائیںلیکن پاناما لیکس کا معاملہ سامنے آنے کے بعد نوازشریف اللہ کی پکڑ میں آ چکے ہیں، جھوٹ بول بول کر موٹو گینگ کے چہرے اتنے بدل گئے ہیںکہ ان کے ماں باپ بھی انہیں نہیں پہچانتے،، نوازشریف کا بیٹا پیسے چوری کر کے ملک سے باہر لے گیا ہے، 1999 میں وہ طالبعلم تھا اور صرف 2 سال میں اربوں روپے کما لیا۔پہلے دھرنے کے بعد سے ملک کی تقدیربدل چکی اور قوم میں شعور پیدا ہو چکا ہے ،کوئی بھی طاقت پاکستان کو عظیم ملک بننے سے نہیں روک سکتی۔وہ اتوار کو یہاں بہاول پور میں جلسہ عام سے خطاب کررہے تھے ۔عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد اور پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے بھی جلسے سے خطاب کیا ۔اس موقع پر عمران خان نے کہاکہ بہاولپور میں شاندار استقبال کرنے پر عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں،ڈھائی سال پہلے پاکستان کی جمہوریت کی تاریخ کا بڑا فیصلہ دھرنے کا کیا تھا،دھرنے نے قوم میں شعور پیدا کیا،پاکستان آج بدل چکا ہے،کوئی طاقت پاکستان کو عظیم ملک بننے سے نہیں روک سکتی،موٹو گینگ کو اب ان کے والدین بھی نہیں پہچانتے،موٹو گینگ کی شکلیں جھوٹ بول بول کر بدل گئی ہیں،عمران خان نے سوال کیا کہ کیا نوازشریف پانامہ میں پاکستان کا پیسہ چوری کرکے گئے؟۔عمران خان نے دوسرا سوال کیا کہ کیا ہم بڑے بڑے لیڈروں کو جیلوں میں ڈالیں گے؟۔انہوں نے کہاکہ میں اچھا کھلاڑی تھا کیوں کہ میں پریکٹس کرتا تھا،نوازشریف نے 30سال کرپشن میں اتنی محنت کی کہ ماہر ہوگیا،لوگوں میں شعور آچکا ہے پانامہ میں ٹیکس کا پیسہ چوری کرکے لے جایا گیا،ایک شخص نے موزیک فونیسکا کی ای میلز چرا کر صحافیوں کو دے دیں،ہم لاکھ کوشش کرتے تو نوازشریف کی کرپشن کا پتہ نہ چلتا،بھلا ہو پانامہ میں کام کرنے والے ایک ایماندار آدمی کا جس نے ای میلز چرا کر صحافیوں کو دیں،نوازشریف کہتے ہیں میرے بچوں نے لندن میں محنت کی۔عمران خان نے کہاکہ آج سے 18سال پہلے نوازشریف کے مے فیئر فلیٹس کے خلاف مظاہرہ کیا،2006میں لندن کے چار فلیٹس کی قیمت 400کروڑ روپے تھی۔انہوں نے کہاکہ پھر کہا گیا کہ حسین نوازکے فلیٹس ہیں،مریم نوا کے نہیں حسین نواز99میں پڑھائی کر رہا تھا اور دو سال میں ارب پتی بن گیا،سارا کیس یہ ہے کہ نوازشریف نے مریم نواز کے نام پر جائیداد بنائی،ہمیں بتائیں دو کمپنیوں کے مالک کون ہیں؟نوازشریف چوری کا پیسہ باہر لے کر گئے اور بچوں کے نام پر باہر رکھا۔انہوں نے کہاکہ اگر اس کیس میں انصاف ملتا ہے تو ملک کی تقدیر بدل جائے گی،پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ ہونے جارہا ہے کسی طاقتور کی جرات نہیں ہوگی کہ پیسا چوری کرکے باہر لے جائے،جب قوم کا پیسہ چوری ہو کر باہر جاتا ہے تو ملک چلانے کیلئے قرضوں کی ضرورت پڑتی ہے،کیا یہ چھوٹا سا ٹولہ پاکستان کو لوٹے گا،پیسہ باہر لے کر جائے گا؟،جب کرپشن ہوتی ہے تو قوم غریب ہوجاتی ہے،آج ہر پاکستانی پر ایک لاکھ20ہزار روپے قرض چڑھ چکا ہے،جب پیسہ ہی نہیں تو تعلیم پر پیسہ کہاں سے خرچ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ میں نے سنا ہے فضل الرحمان نوازشریف کے ایجنٹ بنے ہوئے ہیں،فضل الرحمان آپ جو مرضی کرلیں آپ سونامی سے نہ اپنے آپ کو بچا سکیں گے نہ نوازشریف کو ۔انہوں نے کہاکہ بڑے لوگوں کے بچے اتنا کھاتے ہیں کہ انہیں ٹرینر سے وزن کم کرنا پڑتا ہے،اس چھوٹے طبقے کو فکر ہوتی ہے کہ ان کے بچے کھا کھا کر موٹے ہوگئے ہیں،غریبوں کے بچوں کو خوراک نہیں ملتی۔انہوں نے کہاکہ خواجہ آصف نے کہا پانامہ پاکستان کے لوگوں کا مسئلہ نہیں،اگر پاکستان کے عوام کا مسئلہ نہیں تو کیا بھارت کے لوگوں کا ہے،عوام کا پیسہ چھوٹے سے ٹولے کے پاس جارہا ہے،عوام پر خرچ ہونے والا پیسہ مگر مچھوں کی جیبوں میں جارہا ہے،نچلے طبقے کی مدد نہ کی تو پاکستان کا کوئی مستقبل نہیں۔عمران خان نے کہاکہ کرکٹ ٹیم اس لیے نہیں ہارتی کہ ٹیلنٹ موجود نہیں،ملک میں ٹیلنٹ ہے لیکن کرکٹ اسٹرکچر موجود نہیں،حکومت آئی تو قومی کرکٹ ٹیم کو ٹھیک کرکے دکھاﺅں گا۔گھرمیں چوری ہوتو گھر کے افراد غریب ہوجاتے ہیں،پیسہ باہر جانے سے پہلے ملک مقروض ہورہا ہے،ملک کے بڑے بڑے لیڈروں کو جیلوں میں ڈالیں گے،پنجاب کا 57فیصد بجٹ لاہور میں خرچ کیا جارہا ہے،جنوبی پنجاب کے لوگ پیچھے رہ گئے،ملتان میں میٹرو پیسہ کمانے کیلئے بنائی جارہی ہے،کرپشن کی وجہ سے قوم غریب ہورہی ہے۔

ایک کپتان کی ’عمر‘ پانچ برس ہوتی اس کے بعد زوال کا شکار ہوجاتا ہے

کراچی(بی این پی )ماضی کے نامور کرکٹ کھلاڑی رمیز راجہ کہتے ہیں کہ ایک کپتان کی ’عمر‘ پانچ برس ہوتی ہے اس کے بعد زوال کا شکار ہوجاتا ہے، مصباح بھی اپنا وقت پورا کرچکے ہیں۔یہی بہتر ہے کہ وہ با عزت طریقے سے ریٹائر منٹ کا اعلان کر دیں۔ رمیز راجہ نے کہاکہ میں سمجھتا ہوں کہ مصباح کا وقت پورا ہوچکا، ہر کھلاڑی کو اس مرحلے سے گزرناپڑتا ہے، کپتان تو ویسے ہی کافی وقت گزار چکے، اب انھیں آگے بڑھنا چاہیے، اس عرصے میں وہ اپنا سب کچھ دے دیتا اور اس کے بعد کارکردگی میں زوال آنے لگتا ہے، حریف اس کی حکمت عملی اچھی طرح جان لیتے ہیں، مصباح نے شان وشوکت سے وقت گزارا، اپنی اننگز عمدگی سے کھیلی اور پاکستان کے سب سے کامیاب کپتان بنے، میرے خیال میں انھیں آسٹریلیا میں بولنگ نے مایوس کیا جبکہ فیلڈ سیٹنگ بھی مناسب نہیں تھی۔

سلطان راہی کی 21ویں برسی ”کل“منائی جائیگی

لاہور(شوبزڈیسک)پنجابی اور اردو فلموں کی کامیابی سمجھے جانیوالے سلطان راہی کی 21 ویں برسی 9جنوری کو دنیا بھر میں منائی جائیگی۔ سلطان راہی بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع مظفر نگر بجناور میں 1938 ءمیں پیدا ہوئے ، تقسیم ہند کے وقت وہ گوجرانوالہ آ گئے ،سلطان راہی نے 1955 ءمیں اپنے کیریئر کا آغاز سٹیج ڈرامے سے کیا جس میں ان کا نام ”نادر شاہ درانی“ رکھا گیا، انہوں نے 4سال تک سٹیج پر کام کیا پھر 1959ءمیں بننے والی فلم ”باغی“میں ایکسٹر ا ادا کار کی حیثیت سے کام کیا ، 1972 ءان کے کیریئر میں ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا ،اس سال ان کی تین فلموں کی ڈائمنڈ جوبلی منائی گئی۔ انہوں نے زیادہ تر مسعود رانا اور یونس ملک جیسے ڈائر یکٹروں کے ساتھ کام کیا جبکہ انجمن ، صائمہ،نرگس وغیرہ ان کی ہیروئین بنیں، انکے کیریئر کی بہترین فلمیں ”وحشی گجر، بشیرا، گارڈ فادر، کالے چور، شیر خان ،چن وریام ، مولا جٹ“ جوآج بھی فلم بینوں کے دلوں پر راج کر رہی ہیں۔ انہیں 160 فلم ایوارڈز سے نوازا گیا انہوں نے 813فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے جن میں 703پنجابی او ر110اردو شامل ہیں۔