احتساب عدالت نے اسحاق ڈآر بارے بڑا حکم جاری کر دیا

اسلام آباد (کرائم رپورٹر، مانیٹرنگ ڈیسک ) احتساب عدالت نے آمدن سے زائد اثا ثہ جات ریفرنس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو مفرور قرار د یتے ہو ئے انکو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کرنے کا حکم د یدیا،اسحاق ڈار کے ضامن احمد علی قدوسی کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے 24 نومبر تک تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا، عدالت نے ضامن سے استفسار کیا کہ کیوں نہ 50 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے ضبط کر لئے جائیں،سماعت 4 دسمبر تک کے لئے ملتوی کردی۔ منگل کو سماعت شروع ہوئی تو اسحاق ڈار کے وکیل حسین فیصل مفتی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسحاق ڈار نے ریحان رشید کے نام پاور آف اٹارنی بھجوایا اور انہیں اپنا نمائندہ مقرر کرنے کا اختیار دیا ہے، اگر ضرورت ہو تو اسحاق ڈار آڈیو یا وڈیو لنک پر دستیاب ہو سکتے ہیں۔ اسحاق ڈار کے وکیل کی جانب سے تیسری میڈیکل رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی گئی جس کے مطابق اسحاق ڈار کے دل کی ایک شریان درست کام نہیں کر رہی جس پر انہیں علاج کے لئے 27 نومبر کو دوبارہ طبی معائنے کے لئے بلایا گیا ہے۔اسحاق ڈار کے وکیل حسین فیصل مفتی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اب تک پیش کی گئی تینوں میڈیکل رپورٹس میں کوئی تضاد نہیں، ڈاکٹر نے اسحاق ڈار کو بین الاقوامی سفر سےمنع کیا ہے جس کا ذکر میڈیکل رپورٹ میں موجود ہے۔اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر عمران شفیق نے میڈیکل رپورٹ کی مخالفت کرتے ہوئے مقف اختیار کیا کہ برطانیہ کے ڈاکٹر کی میڈیکل رپورٹ برطانوی قوانین کے مطابق بھی نہیں ہے۔اسحاق ڈار کے وکیل نے کہا کہ عدالت نے 8 نومبر کو میڈیکل سرٹیفکٹ کی تصدیق کا حکم دیا جس پر عمل نہیں کیا گیا، میڈیکل رپورٹ کی برطانیہ سے تصدیق نہ کروانا نیب کی بدنیتی ظاہر کرتا ہے۔ اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ میڈیکل رپورٹ تصدیق کے لئے بذریعہ فارن آفس بھجوائی جا چکی ہے۔نیب کی جانب سے اسحاق ڈار کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کی رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی جس میں کہا گیا ہے کہ وارنٹ کی تعمیل کے لئے لاہور اور اسلام آباد میں رہائش گاہوں پر چھاپے مارے لیکن ملزم اہل خانہ کے ہمراہ بیرون ملک فرار ہو چکا ہے۔نیب رپورٹ میں بتایا گیا کہ گلبرگ لاہور میں اسحاق ڈار کی رہائش گاہ پر مالی کے سوا کوئی نہیں تھا جس نے اسحاق ڈار کے ذاتی مالی نے وارنٹ گرفتاری موصول کیے۔جج محمد بشیر نے سوال کیا کہ آپ نے لاہور میں اسحاق ڈار کے مالی کو وارنٹ کی اطلاع دی، کیا پتا تصور حسین مزید 10 گھروں کا مالی ہو۔جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ مالی نے بتایا کہ ڈھائی سال کے دوران کبھی اسحاق ڈار کو نہیں دیکھا۔احتساب عدالت کی جانب سے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے جانے کے بعد نیب نے ملزم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے وزارت داخلہ کو درخواست بھیجی ہے ۔نیب کی درخواست پر وزارت داخلہ کی تین رکنی کمیٹی کی جانب سے اسحاق ڈار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے سے متعلق فیصلہ آئندہ چند روز میں کئے جانے کا امکان ہے۔ جس پر احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف نیب کی جانب سے دائر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے ریفرنس کی سماعت کی۔عدالت نے اسحاق ڈار کو مفرور ملزم قرار دینے کی نیب کی استدعا منظور کرتے ہوئے ملزم کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کرنے کا حکم دیا۔احتساب عدالت نے اسحاق ڈار کے وکیل کی جانب سے حاضری سے استثنی اور اسحاق ڈار کی غیر حاضری میں نمائندہ مقرر کرنے کی درخواست بھی مسترد کردی۔فاض جج محمد بشیر نے اسحاق ڈار کے ضامن احمد علی قدوسی کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے 24 نومبر تک تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا، عدالت نے ضامن سے استفسار کیا کہ کیوں نہ 50 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے ضبط کر لئے جائیں۔عدالت نے اسحاق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی مزید سماعت 4 دسمبر تک کے لئے ملتوی کردی۔

 

بجلی کے منصوبے ریکارڈ مدت میں مکمل کرنے کا دعویٰ

لاہور (اپنے سٹاف رپورٹر سے) وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف سے نیدرلینڈ کی سفیر آر ڈی سٹوئس بریکن(Mrs. Ardi Stoios- Braken) نے ملاقات کی، جس میں باہمی دلچسپی کے امور، دوطرفہ تعلقات کے فروغ اور مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعلی محمد شہبازشریف نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان او رنیدرلینڈ کے مابین اچھے دوستانہ تعلقات موجو د ہیں اورنیدر لینڈ کو زراعت، لائیوسٹاک، ڈیری فارمنگ اور واٹر مینجمنٹ کے شعبوں میں خاص مہارت حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب ایک زرعی صوبہ ہے اور زرعی معیشت کا فروغ ہماری ترجیح ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین زرعی شعبہ میں تعاون بڑھانے کے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں بھی نیدرلینڈ کے ساتھ تعاون بڑھانے کے خواہاں ہیں۔ دونوں ممالک کو معاشی تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ہزاروں میگا واٹ کے توانائی کے منصوبے ریکارڈ مدت میں مکمل کئے ہیں اور ان منصوبوں کی تکمیل سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے 400میگا واٹ کے سولر پاور پلانٹس لگائے ہیںجبکہ 300میگا واٹ کے پاور پلانٹس پر کام جاری ہے۔ گیس کی بنیاد پر لگائے جانے والے بجلی کے کارخانوں سے ہزاروں میگا واٹ بجلی حاصل ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی اور انتہاءپسندی کے ناسور کو بڑی حدتک ختم کیا گیا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے لازوال قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاک افواج کے افسروں و جوانوں، پولیس کے افسروں و اہلکاروں، عام شہریوں اور زندگی کے ہر طبقے نے اس جنگ میں اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں اور ان قربانیوں کے باعث آج پاکستان ایک پرامن ملک بن چکاہے اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے بڑے مواقع موجود ہیں۔ پنجاب میں غیرملکی سرمایہ کاروں کو خصوصی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ نیدرلینڈ کی سفیر آر ڈی سٹوئس بریکن نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کے زرعی شعبے میں تعاون کے بہت مواقع موجود ہےں اورہم پنجاب کے ساتھ لائیوسٹاک اور ڈیری ڈویلپمنٹ کے شعبوں میں بھی اشتراک کار کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تجارتی وفود اور لوگوں کے باہمی تبادلوں سے دونوں ملکوں کے مابین تجارتی و معاشی تعلقات فروغ پائیں گے۔ پاکستان ایک پرامن ملک ہے اور پنجاب حکومت کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کے لئے اقدامات کریں گے۔ صوبائی وزیر خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا، سیکرٹری منصوبہ بندی و ترقیات،ایم ڈی لاہور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی اور متعلقہ حکام بھی اس موقع پر موجود تھے۔ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف کی زےرصدارت آج اعلی سطح کا اجلاس منعقد ہوا جس میں ”خادم پنجاب سکولز پروگرام“ کے تحت سکولوں مےں اضافی کمروں کی تعمےرکے منصوبے پر پےش رفت کا جائزہ لےاگےا۔ وزیر اعلی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کے ہزاروں سکولوں مےں 36ہزار اضافی کمروں کی تعمےر کے پروگرام پر عملدرآمد جاری ہے اورسکولوں مےں اضافی کمروں کی تعمےر سے طلبا ءو طالبات کو بہترےن تعلےمی سہولتےں ملےں گی۔ اضافی کمروں کی تعمےر سے طلباءو طالبات کو بہترتعلےمی ماحول ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ قوم کے نونہالوں کو زےور تعلےم سے آراستہ کرنے کےلئے ہرطرح کے وسائل حاضر ہےں ۔پنجاب حکومت سکولوں مےں اضافی کمروں کی تعمےر پر اربوں روپے وسائل خرچ کر رہی ہے اور قوم کے مستقبل کو بہتر تعلےمی سہولتوں کےلئے وسائل کی فراہمی سود مند سرماےہ کاری ہے۔

 

50دھرنے والے اڈیالہ جیل میں پہنچ گئے، حکومت اور تحریک لبیک یا رسول اللہ کی ” ضد“ برقرار

اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) راولپنڈی‘ اسلام آباد کے سنگم پر تحریک لبیک پاکستان کا دھرنا منگل کو 15ویں روز بھی جاری رہا، 6ہزار سیکورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کروڑوں روپے کے اخراجات وزیر داخلہ سمیت پوری کابینہ کی کوششوں اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے نوٹس کے باوجود دھرنا ختم کرنے کے انکار نے سپریم کورٹ کو بھی نوٹس لینے پر مجبور کر دیا۔ اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے عدالت عظمیٰ کے متحرک ہونے میں ریڈزون کو جانے والے تمام راستے کھول دیئے ،اسلام آباد پولیس کی طرف سے گرفتار کئے گئے 50مظاہرین کو منگل کو اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا جبکہ اسسٹنٹ کمشنر رورل کی ہدایت پر 29افراد کو چھوڑ دیا گیا ۔حکومت اور مذہبی جماعت کے درمیان دھرنا ختم کرنے کے حوالے سے ہونے والے تمام اجلاس بے سود رہے، دھرنے کے پرامن حل کیلئے علماءپر مشتمل نئی کمیٹی بنادی گئی ہے۔ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل ارباب عالم عباسی ، جوائنٹ سیکرٹری آصف علی تنولی اور اعظم خان پر مشتمل وفد نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو دھرنے سے پیدا ہونے والی صورتحال کے خلاف مزید درخواستیں پیش کیں تو فاضل جج نے انہیں ہدایت کی کہ وہ دھرنے میں جائیں اور علامہ خادم حسین رضوی کو ان کا پیغام پہنچائیں کہ دھرنا ختم کر دیں کیونکہ دھرنے سے عوام مشکلات سے دوچار ہیں ۔ جبکہ پیر گولڑہ شریف نے کہا ہے کہ مسئلہ ختم بنوت خالصتاً مذہبی مسئلہ ہے جس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس مسئلہ کو پر امن طریقے سے حل کریں اور تشدد سے گریز کیا جائے ،جبکہ دھرنا کے نتیجہ میںبے روزگار ہونے والے پبلک ٹرانسپورٹ ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں نے آئی جے پرنسپل روڈ پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ دھرنا دینے والے مذہبی رہنما ان کے بال بچوں پر ترس کھائیں اور اگر دھرنا جاری ہی رکھنا ہے تو پریڈ گراﺅنڈ میں چلے جائیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے بار کابینہ کو دھرنے والوں کو منانے کا ٹاسک سونپ دیا جبکہ حکومت نے مذاکراتی کمیٹی قائم کرتے ہوئے نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ دوسری طرف راجہ ظفرالحق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حلف نامے میں ترمیم زاہد حامد نہیں پوری کمیٹی کا فیصلہ تھا۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے اسلام آباد میں 16روز سے جاری دھرنے کا نوٹس لیتے ہوئے انتظامیہ سے دھرنے کے خاتمہ کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیلات طلب کر لیں۔ عدالت عظمیٰ نے سیکرٹری داخلہ‘ سیکرٹری دفاع‘ آئی جی پولیس اسلام آباد‘ اٹارنی جنرل‘ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد‘ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا ہے۔ سپریم کورٹ نے ایک وکیل کی جانب سے ایک کیس میں عدم تیاری کے موقف پر دھرنے کا نوٹس لیا۔ وکیل ابراہیم ستی نے عدالت سے کہا کہ دھرنے کے باعث وہ اپنے آفس نہیں پہنچ سکا جس کی وجہ سے کیس کی تیاری نہیں کی جا سکی۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کون سی شریعت راستے بند کرنے اور لوگوں کو تکلیف پہنچانے کی اجازت دیتی ہے؟ دھرنے میں استعمال کی گئی زبان کی کون سی شریعت اجازت دیتی ہے؟ دھرنے کے باعث آرٹیکل 14‘ 15اور 19کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔

سیاستدان اور علماءآنکھیں کھلی رکھیں، دشمن تاک میں ہے، سابق وزیر داخلہ رحمن ملک کی پروگرام“ضیا شاہد کے ساتھ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) سابق وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ ملکی حالات انتشار کے متحمل نہیں۔ حکومت اور علمائے کرام کو مشورہ دیتا ہوں کہ کچھ دو کچھ لو کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے اس دھرنے کو پرامن طور پر ختم کریں، دشمن ہر طرف سے تاک لگا کر بیٹھا ہے۔ اگر یہ دھرنا ختم نہ کیا گیا تو پھیلے گا جس سے ملکی حالات اس نہج پر پہنچ جائیں گے کہ جمہوریت کی بساط بھی لپیٹ دی جائے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے چینل ۵ کے پروگرام میں معروف تجزیہ کار، کہنہ مشق صحافی ضیا شاہد کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ دھرنا دینا، احتجاج کرنا ہر کسی کا بنیادی حق ہے۔ لیکن قانون ہر گز اجازت نہیں دیتا کہ دھرنے وغیرہ کے ذریعے عوام کی زندگی کو خراب کریں۔ میں نے اسٹینڈنگ کمیٹی میں ا س معاملہ پر ایکشن لیا اور آئی جی، کمشنر اور پولیس سے مکمل بریفنگ لی۔ اس وقت اسٹیٹ منسٹر صاحب بھی موجود تھے۔ اسٹیٹ منسٹری کے مطابق چار، پانچ سو افراد نے وہاں جا کر فاتحہ خوانی کرنے کی استدعا کی تھی لیکن وہاں جا کر انہوں نے واپس نہ جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے آگے حکومت کی پلاننگ چلنی تھی لیکن انہوں نے متبادل پلان نہیںرکھا اور حکومت انہیں ڈیل کرنے میں مکمل ناکام ہو گئی۔ پی پی پی دور میں لاکھوں کے دھرنے آئے لیکن عام آدمی متاثر نہ ہوا۔ اس وقت ڈیڈ لاک برقرار ہے۔ ہائیکورٹ نے دھرنا ختم کرنے کا حکم دےرکھا ہے۔ یہاں بھی حکومت فیل ہو چکی اور عدالتی احکامات پرعمل نہیں کروا سکی۔ آج سپریم کورٹ بھی درمیان میں آ گئی ہے۔ اور سو موٹو لے لیا ہے۔ معاملہ آسانی سے حل ہو سکتا ہے ”کچھ دو کچھ لو“ پر معاملات حل کر لئے جاتے ہیں۔ انہوں نے نہیں کیا۔ حکومت پارلیمنٹ علماءکو اس پر اعتماد میں لے کر چلتی تو اچھا ہوتا۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ آئین کی شق میں ترمیم کرنے والے ذمہ دار کو سامنے لایا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا قانون قوموں کو بدلتے ہیں۔ راجہ ظفر الحق کی رپورٹ کو پبلک کر دیا جائے تو بہت سی چیزیں کلیئر ہو جائیں گی۔ سپریم کورٹ کے سو موٹو کے بعد معاملہ اگلے چند دنوں میں ٹھیک ہو جائے گا۔ ڈر ہے یہ دھرنا تحریک بن کر پورے پاکستان میں نہ پھیل جائے۔ اگر راجہ ظفر الحق کی رپورٹ پبلک کر دی جاتی ہے تو ذمہ داری ایک سے زیادہ افراد پر آ جاتی ہے۔ زاہد حامد صاحب سمجھتے ہیں کہ ان کی ذمہ داری نہیں تھی اس لئے وہ استعفیٰ کیوں دیں۔ کچھ اور لوگ بھی تھے۔ حکومت انہیں سامنے لے آئے۔ غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ ملکی صورتحال کے پیش نظر حکومت کو کچھ دو کچھ لو کے تحت کام کرنا چاہئے۔ اس وقت ملکی حالات خراب ہیں بھارت اربوں روپے لگا کر مشرق میں اور بلوچستان میں بالخصوص ہمارے حالات خراب کرنے کے درپہ ہو چکا ہے حالات بہت نازک ہیں۔ بھارتمشرقی پاکستان والے حالات پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تمام فریقین کو مل کر بیٹھنا چاہئے اس مسئلے کو حل کرنا چاہئے۔ یہ اسلام یا پاکستان کی خدمت نہیں ہے۔ ان حالات سے دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ حکومت بھی لچک کا مظاہرہ کرے۔ یہ ریاست کا امتحان ہے۔ سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستانی اور سابق وزیر داخلہ ہونے کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ کون ہوتا ہے جو ہمیں ”ڈکٹیٹ“ کرے۔ وہ کون ہوتا ہے کہ ہمیں بتائے کہ قوانین کیسے بنائے جائیں۔ ہم کیا ان کو کہتے ہی ںکہ اپنا قانون تبدیل کر دیں۔ ٹرمپ کے ایک وزیر کا قول ہے کہ ”اسلام ایک کینسر ہے دنیا کیلئے“ اس کرسچین مشیر کو بائبل کا چیپٹر پڑھنا چاہئے جس میں ہمارے نبی کی آمد کاتذکرہ ہے۔ اگر وہ بائبل پر حلف لینے کے بعد اسے نظر انداز کر رہے ہیں۔ تو آپ کا مائنڈ سیٹ پاکستان اور اسلام کے متعلق کسی سے مخفی نہیں ہے۔ آپ نے القاعدہ بنایا۔ آپ نے ان کو دہشت گرد قرار دیا۔ آپ نے داعش بنائی۔ یہ خود چیزیں بناتے ہیں انہیں طاقتوربناتے ہیں پھر وہ انہیں ڈستے ہیں۔ پھر ہماری قوم اور اسلامی برادری کوڈستے ہیں۔ آپ امریکہ میں بیٹھ کر ایک ایس ایچ او کے طور پر کام کرنا چاہتے ہیں۔ تو پاکستانی قوم اسے ہرگز برداشت نہیں کرے گی۔ ختم نبوت کا قانون بہت پہلے بن چکا حکومت کو اس بات کی وضاحت کرنی پڑے گی کہ اس وقت جب کہ مودی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتا کہ پاکستان کے خلاف لابنگ کرے۔ سی پیک پر خود ڈونلڈ ٹرمپ کہتا ہے۔ ”ون روڈ ون بیلٹ“ قابل قبول نہیں ہے۔ یہ ساری چیزیں انہیں کرنے سے باز رہنا چاہئے انہیں اس کا حق حاصل ہی نہیں ہے۔ انسانی ناطے اور کسی بھی انٹرنیشنل قانون کے تحت انہیں یہ حق حاصل ہے پاکستان میں موجودہ تناﺅ کا فائدہ کوئی دشمن اٹھا سکتا ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارے علماءکرام کو قانون بنانے والے اشخاص کو پوری طرح آنکھیں کھول کر رکھنی چاہئیں۔ اور سوچنا چاہئے کہ ہمارا دشمن چاروں جانب سے نقب لگائے بیٹھا ہے۔ اگر ہم نے رسہ کشی کا خاتمہ نہ کیا تو ہم بہت لیٹ ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں پکنے والی اس کھچڑی کے بانی پاکستان میں موجود ہیں یادیو جیسے اور بھی عناصر یہاں موجود ہیں۔ یادیو پر آے والے مودی کے پیغامات اور افغانستان میں اس کا کردار دیکھنا چاہئے کس طرح اس نے ٹرائیکا بنا لیا ہے۔ امریکہ کو ساتھ ملا کر اس نے دھمکیدی کہ بلوچستان کےر استے پاکستان کو سبق سکھائیں گے اس نے بلوچستان سے بھاگے ہوئے افراد سےبات چیت کیاس کا متن بھی جاری کر دیا۔ تھوڑے عرصہ بعد ان کے وزیردفاع نے بیانات دے کر ہم پاکستان کوسبق سکھائیں گے۔ ان ہی دنوں یادیو بھی پکڑا گیا۔ اس کے علاوہ اور بھی خبریں ہیں ڈاکٹر اللہ نذر کس کے کہنے پر کام کر رہا ہے؟ وہاں کون پیسے تقسیم کر رہا ہے۔ وہاں کی سٹوڈنٹ فیڈریشن کو کون آگے لا رہا ہے؟چاہ بہار سے انٹیلی جنس ہو رہی ہے قندھار سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کو کس طرح بچانا ہے۔ اس کی حفاظت کس طرح کرنی ہے؟ پاکستان کونقصان پہنچانے والے عناصر سے ہم نے خود کو بچانا ہے۔آپ کی وساطت سے میں پرزور اپیل کروں گا۔ حکومت اور دھرنے والے دونوں سے۔ ان لوگوں سے بھی جو مصالحت کروانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ اس دھرنے کو ختم کریں ورنہ یہ دھرنا جمہوریت کو لپیٹتا ہوا نظر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم مودی نے جب اقتدار سنبھالا تھا۔ اسی دن سے وہ چالیں چل رہا ہے۔ اس نے ہماری حکومت کو چکما دیا اور ایسے ظاہر کیا کہ وہ نواز شریف کے دوست ہیں۔ ہو سکتا ہے دوستی ہو بھی۔ لیکن جس انداز سے اس نے پاکستان کے ساتھ چال چلی۔ اپنے ”ہوم فرنٹ“ پر ا ور ”فارن فرنٹ“ پر بھی۔ مودی کا امریکہ میں داخلہ ممنوع تھا۔ اس نے چالاکی سے اپنا نام وہاں سے مٹوایا اور پہلی مرتبہ اوباما سے ملا اور وہاں جا کر یہ باور کروایا کہ پاکستان دہشتگردی کرواتا ہے۔ پاکستان صحیح ملک نہیں ہے اور جو کچھ بھی افغانستان میں ہو رہا ہے وہ پاکستان کروا رہا ہے۔ وہ لوگ پہلے ہی پاکستان کے خلاف بغض رکھتے ہیں۔ انہوں نے اس کے نظریات کو فوراً قبول کیا۔ دوسری جانب دیکھیں ہمارے وزیر خارجہ جب وہاں گئے تو فارن آفس نے انہیں درست بریفنگ نہیں دی۔ کیونکہ حافظ سعید کے بارے کہا جا رہا تھا کہ وہ امریکہ گئے۔ حالانکہ وہ کبھی امریکہ نہیں گئے۔ میں انڈیا سے ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں کہ تم جھوٹے ہو۔ تم نے کبھی درست شواہد انٹرنیشنل کورٹ میں پیش نہیں کیے۔ میں نے بھارت کو بہت سے خطوط لکھے۔ اس کے وزیراعظم کو بھی اور اس وقت کے وزیر خارجہ کو بھی۔ بھارت نے پروگرام بنایا جس کے تحت بہت پیسے اکٹھے کیے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی اداروں سے ٹکراﺅ کی صورتحال جاری رہی تو جمہوریت کا جہاز ڈوب جائے گا۔ جس سمت میں یہ جا رہے ہیں وہ درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حدیبیہ کیس کا فیصلہ عدالت نے دینا ہے میں صرف اتنا کہوں گا کہ اگر حدیبیہ پیپر کیس اور حدیبیہ انجینئرنگ کیس کے چالان جو ایف آئی اے نے دئیے تھے اس وقت میں اس کا ڈائریکٹر تھا۔ اس کی سرپرستی میں نے کی۔ میری کسی سے دشمنی نہیں تھی۔ میں بیورو کریٹ تھا۔ اپی ڈیوٹی پوری کی میرے خیال میں ایف آئی اے کی تحقیقات کے مطابق جو بعد میں نیب کو بجھوا دی گئی تھیں۔ نواز شریف کی جائیداد جو بیرون ملک ظاہر ہوئی ہے اور دیگر لوگوں کے نام جو سامنے آئے ہیں کافی حد تک ان لوگوں کا تعلق ان سے نکل آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ حدیبیہ پیپر کیس سے نکلنے کےلئے شہباز شریف کو بہت محنت کرنی پڑے گی کیونکہ ان کا نام اس میں ہے۔ میں سب کا نام نہیں لینا چاہتا۔ اس وقت میں نے سب کے نام دئیے تھے۔ میں نے جے آئی ٹی کو تمام حقائق بیان کر دئیے تھے۔ میں نے انہیں طریقہ کار بھی بتایا کہ جس کے تحت اسے ”ری اوپن“ کیا جاسکتا تھا۔ وہ سمجھے کہ شاید میں ان کی فیور کر رہا ہوں۔ میں نے جو خط لکھا تھا۔ سپریم کورٹ کے سامنے جے آئی ٹی کا وہی خط ریکارڈ پر موجود ہے۔ اس میں جو کچھ لکھا وہ سپریم کورٹ تک پہنچا۔ کورٹ کی کارروائی شروع ہوئی تو سب سے معاملات میرے درست ثابت ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ براہمداغ بگٹی ہو یا کوئی بلوچ لیڈر ہو وہ انڈیا کے حکم کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے۔ میں نے براہمداغ سے بات کی۔ ہمارا تاجکستان میں ملنا طے ہوا انہوں نے کہا میں نیو دہلی جا رہا ہوں۔ نیا سال منا کر آپ کو تاجکستان ملوں گا۔ جب وہ واپس آیا تو میرے ذرائع نے بتایا کہ وہ کہتے ہیں انڈین کے مطابق اگر تم رحمن ملک سے ملے تو وہ مروا دے گا۔ اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ کتنا بھارت پر انحصار کرتے ہیں۔ اور بھارت ان کی کتنی فنڈنگ کر رہا ہے۔ 500 ملین ڈالر، مودی حکومت نے را کو دیا ہے جو اس نے بلوچستان میں گڑ بڑ کےلئے استعمال کرنا ہے۔ ڈاکٹر مالک نے اچھی کوشش کی حکومت کو ان کی بات ماننی چاہیے تھی۔ بھارت چاہے گا کہ صوبائیت کو ہوا ملے۔ پنجابی کو مارنا، بلوچی کو پکڑنا، سندھی کو قتل کرنا بھارت کا مین ایجنڈا ہے یہی کام اس نے مشرق پاکستان میں کروایا تھا۔ میڈیا اور دیگر لوگوں سے میری درخواست ہے کہ اسے روکیں کیونکہ بھارت یہی چاہتا ہے۔ دشمن ہمیشہ کمزور حصہ ٹارگٹ کرتا ہے۔ ایجنسیوں کو اور بہتر طریقہ سے کام کرنا ہوگا۔ سپریم کورٹ بلوچستان میں معاملے پر ”سوموٹو“ لے چکا ہے۔ بھارت بلوچستان میں ہر وہ کام کرے گا جس کے ذریعے وہ ہمارے یہاں سکیورٹی معاملات کو ہوا دے سکے۔

85سے زائدفلاحی ادارے بند، کرپشن کیخلاف سعودی عرب میں تاریخی کریک ڈاون جاری

لاہور (نیااخبار رپورٹ) سعودی عرب میں حکومت کی جانب سے مالی بدعنوانی اور دیگر الزامات کے تحت مختلف اداروں‘ کمپنیوں اور شخصیات پر عائد کی گئی پابندیوں کے اعدادوشمار سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ سعودی عرب میں امریکی دباﺅ پر ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ان مخیر شخصیات اور اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جو عرصے تک دنیا بھر کے لاکھوں غریب مسلمانوں اور بے یارومددگار محتاجوں کا سہارا بنے ہوئے تھے۔ اس مشکوک منصوبے کا تازہ شکار سلیمان الراجحی ہیں جو سعودی عرب کا امیرترین باشندہ ہیں۔ الراجحی خاندان کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ اس نے سعودی عرب میں واقع ایک ایسا کھجور کا باغ اللہ تعالیٰ کے نام پروقف کررکھا ہے جو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق دنیا کا سب سے بڑا کھجور کا باغ قرار پایا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سعودی بادشاہ کے حکم پر سکیورٹی فورسز نے سلیمان الراجحی کا بیٹا‘ ان کے وقف کردہ خیراتی اداروں کے نگران اور مکہ مکرمہ میں قائم الراجحی مسجد کے امام کو حراست میں لے کر بند کر دیا ہے۔ گرفتار ہونے والے عبداللہ الراجحی سلیمان الراجحی کے بیٹے ہیں۔ وہ اپنے والد کی طرح مخیر اور ان کے وقف کردہ اداروں‘ باغات اور دیگر امور کی نگرانی کر رہے ہیں۔ الراجحی کے وقف کردہ اداروں کے ناظم الامور شیخ صالح الہبدان اور الراجحی کے امام شیخ محمد الحسینی کو بھی گرفتاری کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق الراجحی خاندان کو دو سال قبل دنیا میں امیرترین شخصیات سے متعلق معلومات فراہم کرنے والے امریکی فوربز میگزین نے دنیا کی امیرترین شخصیات میں شامل کیا تھا۔ ان کی دولت کا اندازہ 5.9ارب ڈالر لگایا گیا تھا۔ سلیمان الراجحی نے اپریل 2017ءمیں ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ان کے وقف کردہ کھجور باغ کی آمدنی 60ارب ریال سے متجاوز کر گئی ہے۔ انہوں نے اپنی بیویوں‘ بیٹیوں اور بیٹوں کو ان کی جائیداد میں سے ا ن کا حصہ دیا ہے تاہم ان سب نے تین سال سے بھی کم عرصے میں حصے میں ملنے والی جائیدادوں کو الراجحی وقف میں شامل کرتے ہوئے اللہ کے نام پر وقف کردیا۔ سعودی عرب کے علاقے قصیم میں دنیا کے سب سے بڑے کھجور باغ سے حاصل ہونے والی کھجوریں مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں افطاری کیلئے پہنچائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک میں قدرتی آفات‘ خانہ جنگی اور دیگر مصائب کے شکار ہونے والے متاثرین کیلئے بھی اس باغ کی وقف کھجوریں بھیجی جاتی ہیں جو سعودی عرب کے دنیا بھر میں واقع سفارتخانوں کے ذریعے تقسیم کئے جاتے ہیں۔ الراجحی خاندان کے افراد کی مالی بدعنوانی کے الزام میں حراست پر سعودی عرب میں عوامی سطح پر تشویش ظاہر کی جا رہی ہے۔ اس تشویش کا اظہار سوشل میڈیا پر کیا جا رہا ہے۔ عرب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ الراجحی خاندان اور اس جیسے دیگر مخیر افراد اور خیراتی اداروں کے خلاف کرپشن کے الزامات لگانے اور انہیں حراست میں لئے جانے سے سعودی حکومت کے اس کریک ڈاﺅن کی اہمیت گر گئی ہے اور اسے اقتدار کی لڑائی اور مخالفین کو سائیڈلائن لگانا سمجھا جانے لگا ہے۔ الراجحی خاندان جو سالانہ اربوں ریال کی خیرات دیتا ہے‘ ملک میں متعدد بینکوں اور دنیا کے 110ممالک میں خیراتی ادارے چلاتا ہے ایسے خاندان کو کرپشن کی کیا ضرورت پڑے گی۔ رپورٹ کے مطابق الراجحی خاندان سے قبل سعودی عرب کی تاریخی تعمیراتی کمپنی بن لادن کے سربراہ بکربن لادن کو بھی مالی بدعنوانی کے الزام میں حراست میں لیا جا چکا ہے۔ بکر بن لادن مجموعہ بن لادن گروپ کے ایگزیکٹو سربراہ ہیں اور یہ خاندان بھی اپنے خیراتی اداروں اور فلاحی کاموں کے حوالے سے عالمگیر شہرت کا حامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند سال کے دوران سعودی حکومت نے 85سے زائد خیراتی اور فلاحی اداروں پر مختلف الزامات عائد کر کے پابندی عائد کی گئی ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے تاہم اس سے قبل گرفتاریاں نسبتاً کم اہم شخصیات تک محدود تھیں جس کے باعث اس کی خبریں باہر نہیں آ رہی تھیں‘ اب جب معاملہ عالمگیر سطح پر شہرت کے حامل افراد اور ادارے تک پہنچاتو اس کی جانب ذرائع ابلاغ اور عوامی حلقوں کی توجہ خودبخود مرکوز ہونے لگی۔

41ممالک کی اعلی عسکری قیادت سعودی عرب میں جمع ،عراق ، شام ، اور یمن، بارے کیا ہونے جا رہا ہے ، تہلکہ خیز خبر

ریاض(خصوصی رپورٹ)سعود ی عرب کی قیادت میں قائم ہونے والے 41 اسلامی ممالک کے عسکری اتحاد کے وزرائے دفاع کا پہلا اجلاس اتوار کو سعودی عرب میں منعقد ہوگا۔ اجلاس میں دہشت گردوں و سہولت کار ممالک سے نمٹنے کی حکمت عملی بنائی جائے گی۔ اسلامی ممالک کے عسکری اتحاد کا پہلا اجلاس اگلے ہفتے سعودی عرب میں منعقد ہوگا جس میں تمام ممالک کے وزرائے دفاع شرکت کریں گے اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل طے کریں گے۔سعودی پریس ایجنسی کے مطابق اسلامی عسکری اتحاد کا یہ اجلاس 26 نومبر کو ریاض میں منعقد ہورہا ہے جس میں سعودی عرب کی جانب سے تشکیل کردہ 41 ممالک کے فوجی اتحاد میں مزید پیش رفت ہوگی، دو ممالک کے سفارت خانوں نے اجلاس منعقد ہونے کی تصدیق کی ہے۔عرب نیوز کے مطابق اس وقت دنیا بھر کے بیشتر اسلامی ممالک کو دہشت گردی کا سامنا ہے ، یہ اجلاس ان ممالک کے درمیان ایک اہم ایک پیش رفت ثابت ہوگا جو دہشت گردی کا شکار ہیں اور اس کے خاتمے کے خواہاں ہیں، اجلاس میں وزرائے دفاع کے علاوہ سعودی عرب کی اعلی قیادت، عسکری اتحاد کے عہدے داران سمیت اتحاد میں شامل 41 ممالک کے سفیر اور سینئر سفارت کار بھی اپنے ممالک کی نمائندگی کریں گے۔سعودی پریس ایجنسی کے مطابق یہ اجلاس انتہائی اہمیت کا حامل ہے جو اس اتحاد کا اصل آغاز قرار پائے گا، اس اتحاد سے متعلق اعلامیہ رواں سال مئی میں ریاض میں ہونی والی عرب یو ایس اسلامک سمٹ میں جاری کیا گیا تھا۔ جس میں کہا گیا تھا اسلامی اتحاد کے تحت مختلف ممالک کے 34 ہزار فوجی عراق، شام اور دیگر جنگ زدہ علاقوں میں جانے کے لیے تیار ہیں۔خیال رہے کہ اس اسلامی اتحاد کا اعلان 2015 میں کیا گیا تھا تاہم اس باضابطہ طور پر تشکیل دیتے ہوئے دو برس کا وقت گزر چکا ہے، اس اتحاد کے سربراہ کے طور پر پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف نام سامنے آیا ہے۔

 

چئیرمین این۔ایچ۔اے کی پئرولنگ افسروں کو دھمکیاں، نوکری سے فارغ کروا دیا مقتدد حلقوں کا احتجاج

اسلام آباد (مظہر شیخ سے) وزیراعظم پاکستان سے حسن کارکردگی کا ایوارڈ وصول کرنے والے موٹروے پولیس افسر کو چیئرمین نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا چالان کرنا مہنگا پڑ گیا اعلیٰ افسران نے چیئرمین این ایچ اے کا چالان کرنے کی پاداش میں نوکری سے فارغ کر دیا پٹرولنگ افسران کو فرائض کی ادائیگی کا انعام دور افتادہ علاقوں میں تبادلوں کی صورت میں مل گیا۔تیز رفتاری اور نہ رکنے پر بحث و تکرار کرنے والے چیئرمین NHAاشرف تارڑ نے جرمانے کی رقم ادا کرنے کے بعد متعلقہ افسران کی شکایت IGموٹر وے سے کر کے دور افتادہ علاقوں میں تبادلے کروا دئیے افسران کا سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ۔تفصیلات کے مطابق 7ماہ قبل29اپریل کی صبح چیئرمین NHAشاہد اشرف تارڑ کی گاڑیGW-971تحت بائی کی طرف جارہی تھی برہان انٹرچینج کے قریب پٹرولنگ آفیسر کے اشارے پر یہ گاڑی نہ رکی پٹرولنگ آفیسرز کے وائرلیس پیغام کے بعد غازی انٹرچینج پر مذکورہ گاڑی کوروک لیا گیا اور قانون کی 2خلاف ورزیوں پر تیز رفتاری اور اشارہ کے باوجود نہ رکنے پر1250روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔گشتی آفیسر ضیا ءاللہ نے اپنی یومیہ رپورٹ میں بھی اس واقعے کودرج کیا چیئرمین NHAکے توہین آمیزرویہ اور دھمکیوں سے بھی آگاہ کیا الٹا چورکوتوال کو ڈانٹے مقولے کے مطابق یہ کہ چیئر مین NHA کے خلاف کارروائی ہوتی الٹا محکمہ نے 28اپریل کو ضیا ءاللہ ان کے ساتھی ذوالفقار علی اور دوسرا چالان کرنے والے افسران امجد علی اور واجدہ بیگم سے واقعے کی وضاحت طلب کر لی گئی ۔جبکہ محکمہ نے شکایت کنندہ کی نشاندہی بھی نہ کی اور تینوں افسران کا فوری طور پر دور افتادہ علاقہ گوادر میں تبادلہ کر دیا گیا اس تبادلے کو پٹرولنگ افسران نے فیڈرل سروسز ٹریبونل میں چیلنج کیا جس کا فیصلہ آنے کے بعد نیشنل ہائی وے پولیس ڈیپارٹمنٹ نے افسران کو سابقہ پوزیشنوں پر بحال کرنے کی بجائے ضیاءاللہ کا تبادلہ لاہور اور ذوالفقار علی کا فیصل آباد تبادلہ کر دیا گیا جبکہ حیرت انگیز طور پر پٹرولنگ افسر امجد علی جنہوں نے تبادلے کو چیلنج نہیں کیا تھا محکمہ نے اسے اس کی سابقہ پوزیشن پر بحال کر دیا ۔موٹر وے پولیس بالعموم ڈ رائیور حضرات سے ادب و احترام کے ساتھ پیش آتی ہے اور بلا تفریق ڈرائیوروں کو ان کی متعلقہ خلاف ورزیوں پر جرمانہ کرنے کے بارے میں اچھی شہرت رکھتی ہے تاہم وی آئی پی کلچر کے عادی حضرات کو جب جرمانہ کیا جاتا ہے تو وہ شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہیں اور سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیتے ہیں جس کی ایک واضح مثال موٹر وے پولیس کی طرف سے NHA کے چیئرمین شاہد اشرف تارڑ کا چالان ہے جس کے بعد مذکورہ افسران اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں واضح رہے کے ماضی میں سابقہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کا بھی لاہور سے اسلام آباد آتے ہوئے چالان ہوا تھا جسکی ادائیگی انہوں نے کی تھی اور موٹر وے پولیس کی کارکردگی کو سراہا تھا ۔شاہد اشرف تارڑ جوکہ NHA کے چیئرمین ہیں ان کو مذکورہ واقعہ میں موٹر وے پولیس افسران کی اپنے خلاف کیے جانے والے چالانوں پر شاباشی دینی چاہیے تھی لیکن اس کے برعکس محکمہ کے سربراہ کی مبینہ طور پر افسران کے خلاف شکایت اور ان کے تبادلے کروانے کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔

سابق وزیر حمید اللہ آفریدی کا قیمتی سرکاری اراضی پر قبضہ،اھم ترین رپوٹ

اسلام آباد (رپورٹ قسور کلاسرا) کراچی کے بعد اسلام آباد میں بھی اربوں روپے مالیت کی سرکاری اراضی پر چائنہ کٹنگ کا سلسلہ جاری، سابق وفاقی وزیر ماحولیات حمیداللہ جان آفریدی کی جانب سے اسلام آباد کے مہنگے ترین سیکٹر ایف 10میں 30کنال سرکاری اراضی پر قبضے کا انکشاف ہوا ہے۔ حمیداللہ جان آفریدی نے سی ڈی اے سے 2009 میں اپنی خوبصورتیکے نام پر 30کنال اراضی حاصل کی تاہم بعدازاں سی ڈی اے افسران کی ملی بھگت سے سرکاری اراضی پر تعمیرات کرلی گئیں۔ وزیراعظم سیکرٹریٹ نے سی ڈی اے کو ڈیڑھ ارب روپے مالیت سے زائد کی سرکاری اراضی فوری طور پر واگزار کرواکر رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کردی ہے۔ ممبر سی ڈی اے خوشحال خان اور ڈائریکٹر عشرت وارثی وزیراعظم سیکرٹریٹ اور عدالتی احکامات کے باوجود سرکاری اراضی کو واگزار کروانے میں لیت ولعل سے کام لیتے ہوئے درمیانی راستہ نکالنے میں مصروف ہیں۔ سرکاری دستاویز کے مطابق سابق وفاقی وزیر ماحولیات حمیداللہ جان آفریدی نے 2009 میں سیاسی اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے اسلام آباد کے پوش اور مہنگے ترین سیکٹر ایف 4/10میں اپنی رہائش گاہ ہاﺅس نمبر 294 گلی نمبر 56سے ملحقہ 30کنال سرکاری اراضی خوبصورتی کے نام پر سی ڈی اے سے مفت حاصل کی تھی۔ سی ڈی اے نے حمیداللہ جان آفریدی کو باغیچے کیلئے 30کنال اراضی مخصوص شرائط پر حوالے کی۔ سی ڈی اے کی تحریری شرائط کے مطابق خوبصورتی کے نام پر دی گئی اراضی عوام الناس کیلئے بند نہیں کی جائےگی۔ سرکاری اراضی پر باڑ، بیرئیر اور کسی بھی قسم کی تعمیرات نہیں کی جائیں گی۔ سی ڈی اے کسی بھی وقت خلاف ورزی یا کسی بھی قسم کی خلاف ورزی کے بغیر بھی سرکاری اراضی واپس لے سکتا ہے۔ اراضی واپس لینے کی صورت میں سی ڈی اے کے خلاف کسی بھی عدالت سے رجوع نہیں کیا جائے گا۔ حیران کن طور پر حمیداللہ جان آفریدی نے سرکاری اراضی پر ٹینس کورٹ، پارکنگ، کنکریٹ کی تعمیرات اور 30کنال اراضی کے داخلی راستے پر بیریئر لگاکر زمین پر قبضہ کرلیا۔ دستاویز کے مطابق حیمد اللہ جان آفریدی کی جانب سے شرائط کی خلاف ورزی پر سی ڈی اے نے این او سی منسوخ کردیا اور سرکاری اراضی واگزار کروانے کی کوشش کی۔ حمیداللہ جان آفریدی نے اربوں روپے مالیت کی سرکاری اراضی واپس کرنے کی بجائے عدالت سے رجوع کرلیا۔ ذرائع کے مطابق سی ڈی اے کے افسران حمیداللہ جان آفریدی کو حکم امتناعی حاصل کرکے مقدمہ کے ذریعے پر قبضہ برقرار رکھنے کی تجویزدی۔ حمیداللہ جان آفریدی نے سول کورٹ، سیشن اور اسلام آباد ہائیکورٹ سے مرحلہ وار رجوع کیا مگر عدالتوں سے سرکاری اراضی اور سی ڈی اے کے خلاف فیصلہ حاصل کرنے میں ناکام رہے مگر سی ڈی اے میں موجود حمیداللہ جان آفریدی منظور نظر افسران نے سرکاری اراضی پر قبضہ ختم نہ کروایا۔ دستاویز کے مطابق ایف 10/4کے رہائشی محمد حنیف نے حمیداللہ جان آفریدی کی جانب سے سرکاری اراضی پر قبضے اور عوام کو درپیش مشکلات کے باعث وزیراعظم کو درخواست بھیجی۔ درخواست کے ہمراہ قیمتی اراضی کی تفصیل اور عدالتی احکامات بھی لف کئے گئے جس پر بالآخر وزیراعظم سیکرٹریٹ سے سابق سی ڈی اے کو سابق وفاقی وزیر حمیداللہ جان آفریدی سے اربوں روپے مالیت کی 30کنال سرکاری اراضی واگزار کروانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھی سی ڈی اے کو سرکاری اراضی کے غلط استعمال روکنے کے تاریخی احکامات جاری کئے مگر حیران کن طور پرسی ڈی اے مخصوص افراد کے خلاف سرکاری اراضی واگزار کروانے کیلئے آپریشن کیا مگر بااثر سابق وفاقی وزیر حمیداللہ جان آفریدی سمیت سیاسی شخصیات کے خلاف تاحال کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔ سی ڈی اے کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے واضح احکامات پر نظر پوشی پر 20نومبر کو جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سماعت کی اور سی ڈی اے کے ڈائریکٹر عشرت وارثی سے جواب طلب کیا۔ ڈائریکٹر سی ڈی اے عشرت وارثی نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ آئندہ دو روز میں سابق وفاقی وزیر حمیداللہ جان آفریدی سے قیمتی اراضی واگزار کروالی جائے گی۔ سی ڈی اے کے دیانتدار انسپکٹر انفورسٹمنٹ نے 30کنال سرکاری اراضی پر حمید اللہ جان آفریدی کی جانب سے قبضے اور تعمیرات کی رپورٹ حکام بالا کو ارسال کردی ہے۔ انسپکٹر انفورسمنٹ نے سرکاری اراضی واگزار کروانے کیلئے بھاری مشینری، آلات اور افرادی قوت طلب کرلی ہے۔ ذرائع کے مطابق ممبر سی ڈی اے خوشحال خان سابق وفاقی وزیر ماحولیات حمیداللہ جان آفریدی کے سٹاف آفیسر رہ چکے ہیں۔ خوشحال خان انفورسمنٹ انسپکٹر کی رپورٹ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات اور وزیراعظم کی ہدایت کے باوجود سرکاری اراضی واگزار کروانے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

دھرنا ختم کرنا ہوگا رونہ یہ جمہوریت کی بساط لپیٹ دے گا:رحمن ملک

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) سابق وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ ملکی حالات انتشار کے متحمل نہیں۔ حکومت اور علمائے کرام کو مشورہ دیتا ہوں کہ کچھ دو کچھ لو کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے اس دھرنے کو پرامن طور پر ختم کریں، دشمن ہر طرف سے تاک لگا کر بیٹھا ہے۔ اگر یہ دھرنا ختم نہ کیا گیا تو پھیلے گا جس سے ملکی حالات اس نہج پر پہنچ جائیں گے کہ جمہوریت کی بساط بھی لپیٹ دی جائے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے چینل ۵ کے پروگرام میں معروف تجزیہ کار، کہنہ مشق صحافی ضیا شاہد کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ دھرنا دینا، احتجاج کرنا ہر کسی کا بنیادی حق ہے۔ لیکن قانون ہر گز اجازت نہیں دیتا کہ دھرنے وغیرہ کے ذریعے عوام کی زندگی کو خراب کریں۔ میں نے اسٹینڈنگ کمیٹی میں ا س معاملہ پر ایکشن لیا اور آئی جی، کمشنر اور پولیس سے مکمل بریفنگ لی۔ اس وقت اسٹیٹ منسٹر صاحب بھی موجود تھے۔ اسٹیٹ منسٹری کے مطابق چار، پانچ سو افراد نے وہاں جا کر فاتحہ خوانی کرنے کی استدعا کی تھی لیکن وہاں جا کر انہوں نے واپس نہ جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے آگے حکومت کی پلاننگ چلنی تھی لیکن انہوں نے متبادل پلان نہیںرکھا اور حکومت انہیں ڈیل کرنے میں مکمل ناکام ہو گئی۔ پی پی پی دور میں لاکھوں کے دھرنے آئے لیکن عام آدمی متاثر نہ ہوا۔ اس وقت ڈیڈ لاک برقرار ہے۔ ہائیکورٹ نے دھرنا ختم کرنے کا حکم دےرکھا ہے۔ یہاں بھی حکومت فیل ہو چکی اور عدالتی احکامات پرعمل نہیں کروا سکی۔ آج سپریم کورٹ بھی درمیان میں آ گئی ہے۔ اور سو موٹو لے لیا ہے۔ معاملہ آسانی سے حل ہو سکتا ہے ”کچھ دو کچھ لو“ پر معاملات حل کر لئے جاتے ہیں۔ انہوں نے نہیں کیا۔ حکومت پارلیمنٹ علماءکو اس پر اعتماد میں لے کر چلتی تو اچھا ہوتا۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ آئین کی شق میں ترمیم کرنے والے ذمہ دار کو سامنے لایا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا قانون قوموں کو بدلتے ہیں۔ راجہ ظفر الحق کی رپورٹ کو پبلک کر دیا جائے تو بہت سی چیزیں کلیئر ہو جائیں گی۔ سپریم کورٹ کے سو موٹو کے بعد معاملہ اگلے چند دنوں میں ٹھیک ہو جائے گا۔ ڈر ہے یہ دھرنا تحریک بن کر پورے پاکستان میں نہ پھیل جائے۔ اگر راجہ ظفر الحق کی رپورٹ پبلک کر دی جاتی ہے تو ذمہ داری ایک سے زیادہ افراد پر آ جاتی ہے۔ زاہد حامد صاحب سمجھتے ہیں کہ ان کی ذمہ داری نہیں تھی اس لئے وہ استعفیٰ کیوں دیں۔ کچھ اور لوگ بھی تھے۔ حکومت انہیں سامنے لے آئے۔ غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ ملکی صورتحال کے پیش نظر حکومت کو کچھ دو کچھ لو کے تحت کام کرنا چاہئے۔ اس وقت ملکی حالات خراب ہیں بھارت اربوں روپے لگا کر مشرق میں اور بلوچستان میں بالخصوص ہمارے حالات خراب کرنے کے درپہ ہو چکا ہے حالات بہت نازک ہیں۔ بھارتمشرقی پاکستان والے حالات پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تمام فریقین کو مل کر بیٹھنا چاہئے اس مسئلے کو حل کرنا چاہئے۔ یہ اسلام یا پاکستان کی خدمت نہیں ہے۔ ان حالات سے دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ حکومت بھی لچک کا مظاہرہ کرے۔ یہ ریاست کا امتحان ہے۔ سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستانی اور سابق وزیر داخلہ ہونے کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ کون ہوتا ہے جو ہمیں ”ڈکٹیٹ“ کرے۔ وہ کون ہوتا ہے کہ ہمیں بتائے کہ قوانین کیسے بنائے جائیں۔ ہم کیا ان کو کہتے ہی ںکہ اپنا قانون تبدیل کر دیں۔ ٹرمپ کے ایک وزیر کا قول ہے کہ ”اسلام ایک کینسر ہے دنیا کیلئے“ اس کرسچین مشیر کو بائبل کا چیپٹر پڑھنا چاہئے جس میں ہمارے نبی کی آمد کاتذکرہ ہے۔ اگر وہ بائبل پر حلف لینے کے بعد اسے نظر انداز کر رہے ہیں۔ تو آپ کا مائنڈ سیٹ پاکستان اور اسلام کے متعلق کسی سے مخفی نہیں ہے۔ آپ نے القاعدہ بنایا۔ آپ نے ان کو دہشت گرد قرار دیا۔ آپ نے داعش بنائی۔ یہ خود چیزیں بناتے ہیں انہیں طاقتوربناتے ہیں پھر وہ انہیں ڈستے ہیں۔ پھر ہماری قوم اور اسلامی برادری کوڈستے ہیں۔ آپ امریکہ میں بیٹھ کر ایک ایس ایچ او کے طور پر کام کرنا چاہتے ہیں۔ تو پاکستانی قوم اسے ہرگز برداشت نہیں کرے گی۔ ختم نبوت کا قانون بہت پہلے بن چکا حکومت کو اس بات کی وضاحت کرنی پڑے گی کہ اس وقت جب کہ مودی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتا کہ پاکستان کے خلاف لابنگ کرے۔ سی پیک پر خود ڈونلڈ ٹرمپ کہتا ہے۔ ”ون روڈ ون بیلٹ“ قابل قبول نہیں ہے۔ یہ ساری چیزیں انہیں کرنے سے باز رہنا چاہئے انہیں اس کا حق حاصل ہی نہیں ہے۔ انسانی ناطے اور کسی بھی انٹرنیشنل قانون کے تحت انہیں یہ حق حاصل ہے پاکستان میں موجودہ تناﺅ کا فائدہ کوئی دشمن اٹھا سکتا ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارے علماءکرام کو قانون بنانے والے اشخاص کو پوری طرح آنکھیں کھول کر رکھنی چاہئیں۔ اور سوچنا چاہئے کہ ہمارا دشمن چاروں جانب سے نقب لگائے بیٹھا ہے۔ اگر ہم نے رسہ کشی کا خاتمہ نہ کیا تو ہم بہت لیٹ ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں پکنے والی اس کھچڑی کے بانی پاکستان میں موجود ہیں یادیو جیسے اور بھی عناصر یہاں موجود ہیں۔ یادیو پر آے والے مودی کے پیغامات اور افغانستان میں اس کا کردار دیکھنا چاہئے کس طرح اس نے ٹرائیکا بنا لیا ہے۔ امریکہ کو ساتھ ملا کر اس نے دھمکیدی کہ بلوچستان کےر استے پاکستان کو سبق سکھائیں گے اس نے بلوچستان سے بھاگے ہوئے افراد سےبات چیت کیاس کا متن بھی جاری کر دیا۔ تھوڑے عرصہ بعد ان کے وزیردفاع نے بیانات دے کر ہم پاکستان کوسبق سکھائیں گے۔ ان ہی دنوں یادیو بھی پکڑا گیا۔ اس کے علاوہ اور بھی خبریں ہیں ڈاکٹر اللہ نذر کس کے کہنے پر کام کر رہا ہے؟ وہاں کون پیسے تقسیم کر رہا ہے۔ وہاں کی سٹوڈنٹ فیڈریشن کو کون آگے لا رہا ہے؟چاہ بہار سے انٹیلی جنس ہو رہی ہے قندھار سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کو کس طرح بچانا ہے۔ اس کی حفاظت کس طرح کرنی ہے؟ پاکستان کونقصان پہنچانے والے عناصر سے ہم نے خود کو بچانا ہے۔آپ کی وساطت سے میں پرزور اپیل کروں گا۔ حکومت اور دھرنے والے دونوں سے۔ ان لوگوں سے بھی جو مصالحت کروانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ اس دھرنے کو ختم کریں ورنہ یہ دھرنا جمہوریت کو لپیٹتا ہوا نظر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم مودی نے جب اقتدار سنبھالا تھا۔ اسی دن سے وہ چالیں چل رہا ہے۔ اس نے ہماری حکومت کو چکما دیا اور ایسے ظاہر کیا کہ وہ نواز شریف کے دوست ہیں۔ ہو سکتا ہے دوستی ہو بھی۔ لیکن جس انداز سے اس نے پاکستان کے ساتھ چال چلی۔ اپنے ”ہوم فرنٹ“ پر ا ور ”فارن فرنٹ“ پر بھی۔ مودی کا امریکہ میں داخلہ ممنوع تھا۔ اس نے چالاکی سے اپنا نام وہاں سے مٹوایا اور پہلی مرتبہ اوباما سے ملا اور وہاں جا کر یہ باور کروایا کہ پاکستان دہشتگردی کرواتا ہے۔ پاکستان صحیح ملک نہیں ہے اور جو کچھ بھی افغانستان میں ہو رہا ہے وہ پاکستان کروا رہا ہے۔ وہ لوگ پہلے ہی پاکستان کے خلاف بغض رکھتے ہیں۔ انہوں نے اس کے نظریات کو فوراً قبول کیا۔ دوسری جانب دیکھیں ہمارے وزیر خارجہ جب وہاں گئے تو فارن آفس نے انہیں درست بریفنگ نہیں دی۔ کیونکہ حافظ سعید کے بارے کہا جا رہا تھا کہ وہ امریکہ گئے۔ حالانکہ وہ کبھی امریکہ نہیں گئے۔ میں انڈیا سے ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں کہ تم جھوٹے ہو۔ تم نے کبھی درست شواہد انٹرنیشنل کورٹ میں پیش نہیں کیے۔ میں نے بھارت کو بہت سے خطوط لکھے۔ اس کے وزیراعظم کو بھی اور اس وقت کے وزیر خارجہ کو بھی۔ بھارت نے پروگرام بنایا جس کے تحت بہت پیسے اکٹھے کیے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی اداروں سے ٹکراﺅ کی صورتحال جاری رہی تو جمہوریت کا جہاز ڈوب جائے گا۔ جس سمت میں یہ جا رہے ہیں وہ درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حدیبیہ کیس کا فیصلہ عدالت نے دینا ہے میں صرف اتنا کہوں گا کہ اگر حدیبیہ پیپر کیس اور حدیبیہ انجینئرنگ کیس کے چالان جو ایف آئی اے نے دئیے تھے اس وقت میں اس کا ڈائریکٹر تھا۔ اس کی سرپرستی میں نے کی۔ میری کسی سے دشمنی نہیں تھی۔ میں بیورو کریٹ تھا۔ اپی ڈیوٹی پوری کی میرے خیال میں ایف آئی اے کی تحقیقات کے مطابق جو بعد میں نیب کو بجھوا دی گئی تھیں۔ نواز شریف کی جائیداد جو بیرون ملک ظاہر ہوئی ہے اور دیگر لوگوں کے نام جو سامنے آئے ہیں کافی حد تک ان لوگوں کا تعلق ان سے نکل آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ حدیبیہ پیپر کیس سے نکلنے کےلئے شہباز شریف کو بہت محنت کرنی پڑے گی کیونکہ ان کا نام اس میں ہے۔ میں سب کا نام نہیں لینا چاہتا۔ اس وقت میں نے سب کے نام دئیے تھے۔ میں نے جے آئی ٹی کو تمام حقائق بیان کر دئیے تھے۔ میں نے انہیں طریقہ کار بھی بتایا کہ جس کے تحت اسے ”ری اوپن“ کیا جاسکتا تھا۔ وہ سمجھے کہ شاید میں ان کی فیور کر رہا ہوں۔ میں نے جو خط لکھا تھا۔ سپریم کورٹ کے سامنے جے آئی ٹی کا وہی خط ریکارڈ پر موجود ہے۔ اس میں جو کچھ لکھا وہ سپریم کورٹ تک پہنچا۔ کورٹ کی کارروائی شروع ہوئی تو سب سے معاملات میرے درست ثابت ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ براہمداغ بگٹی ہو یا کوئی بلوچ لیڈر ہو وہ انڈیا کے حکم کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے۔ میں نے براہمداغ سے بات کی۔ ہمارا تاجکستان میں ملنا طے ہوا انہوں نے کہا میں نیو دہلی جا رہا ہوں۔ نیا سال منا کر آپ کو تاجکستان ملوں گا۔ جب وہ واپس آیا تو میرے ذرائع نے بتایا کہ وہ کہتے ہیں انڈین کے مطابق اگر تم رحمن ملک سے ملے تو وہ مروا دے گا۔ اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ کتنا بھارت پر انحصار کرتے ہیں۔ اور بھارت ان کی کتنی فنڈنگ کر رہا ہے۔ 500 ملین ڈالر، مودی حکومت نے را کو دیا ہے جو اس نے بلوچستان میں گڑ بڑ کےلئے استعمال کرنا ہے۔ ڈاکٹر مالک نے اچھی کوشش کی حکومت کو ان کی بات ماننی چاہیے تھی۔ بھارت چاہے گا کہ صوبائیت کو ہوا ملے۔ پنجابی کو مارنا، بلوچی کو پکڑنا، سندھی کو قتل کرنا بھارت کا مین ایجنڈا ہے یہی کام اس نے مشرق پاکستان میں کروایا تھا۔ میڈیا اور دیگر لوگوں سے میری درخواست ہے کہ اسے روکیں کیونکہ بھارت یہی چاہتا ہے۔ دشمن ہمیشہ کمزور حصہ ٹارگٹ کرتا ہے۔ ایجنسیوں کو اور بہتر طریقہ سے کام کرنا ہوگا۔ سپریم کورٹ بلوچستان میں معاملے پر ”سوموٹو“ لے چکا ہے۔ بھارت بلوچستان میں ہر وہ کام کرے گا جس کے ذریعے وہ ہمارے یہاں سکیورٹی معاملات کو ہوا دے سکے۔

 

چیئر مین نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا چالان کرنیوالاموٹر وے پولیس افسر نوکری سے فارغ

اسلام آباد (مظہر شیخ سے) وزیراعظم پاکستان سے حسن کارکردگی کا ایوارڈ وصول کرنے والے موٹروے پولیس افسر کو چیئرمین نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا چالان کرنا مہنگا پڑ گیا اعلیٰ افسران نے چیئرمین این ایچ اے کا چالان کرنے کی پاداش میں نوکری سے فارغ کر دیا پٹرولنگ افسران کو فرائض کی ادائیگی کا انعام دور افتادہ علاقوں میں تبادلوں کی صورت میں مل گیا۔تیز رفتاری اور نہ رکنے پر بحث و تکرار کرنے والے چیئرمین NHAاشرف تارڑ نے جرمانے کی رقم ادا کرنے کے بعد متعلقہ افسران کی شکایت IGموٹر وے سے کر کے دور افتادہ علاقوں میں تبادلے کروا دئیے افسران کا سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ۔تفصیلات کے مطابق 7ماہ قبل29اپریل کی صبح چیئرمین NHAشاہد اشرف تارڑ کی گاڑیGW-971تحت بائی کی طرف جارہی تھی برہان انٹرچینج کے قریب پٹرولنگ آفیسر کے اشارے پر یہ گاڑی نہ رکی پٹرولنگ آفیسرز کے وائرلیس پیغام کے بعد غازی انٹرچینج پر مذکورہ گاڑی کوروک لیا گیا اور قانون کی 2خلاف ورزیوں پر تیز رفتاری اور اشارہ کے باوجود نہ رکنے پر1250روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔گشتی آفیسر ضیا ءاللہ نے اپنی یومیہ رپورٹ میں بھی اس واقعے کودرج کیا چیئرمین NHAکے توہین آمیزرویہ اور دھمکیوں سے بھی آگاہ کیا الٹا چورکوتوال کو ڈانٹے مقولے کے مطابق یہ کہ چیئر مین NHA کے خلاف کارروائی ہوتی الٹا محکمہ نے 28اپریل کو ضیا ءاللہ ان کے ساتھی ذوالفقار علی اور دوسرا چالان کرنے والے افسران امجد علی اور واجدہ بیگم سے واقعے کی وضاحت طلب کر لی گئی ۔جبکہ محکمہ نے شکایت کنندہ کی نشاندہی بھی نہ کی اور تینوں افسران کا فوری طور پر دور افتادہ علاقہ گوادر میں تبادلہ کر دیا گیا اس تبادلے کو پٹرولنگ افسران نے فیڈرل سروسز ٹریبونل میں چیلنج کیا جس کا فیصلہ آنے کے بعد نیشنل ہائی وے پولیس ڈیپارٹمنٹ نے افسران کو سابقہ پوزیشنوں پر بحال کرنے کی بجائے ضیاءاللہ کا تبادلہ لاہور اور ذوالفقار علی کا فیصل آباد تبادلہ کر دیا گیا جبکہ حیرت انگیز طور پر پٹرولنگ افسر امجد علی جنہوں نے تبادلے کو چیلنج نہیں کیا تھا محکمہ نے اسے اس کی سابقہ پوزیشن پر بحال کر دیا ۔موٹر وے پولیس بالعموم ڈ رائیور حضرات سے ادب و احترام کے ساتھ پیش آتی ہے اور بلا تفریق ڈرائیوروں کو ان کی متعلقہ خلاف ورزیوں پر جرمانہ کرنے کے بارے میں اچھی شہرت رکھتی ہے تاہم وی آئی پی کلچر کے عادی حضرات کو جب جرمانہ کیا جاتا ہے تو وہ شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہیں اور سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیتے ہیں جس کی ایک واضح مثال موٹر وے پولیس کی طرف سے NHA کے چیئرمین شاہد اشرف تارڑ کا چالان ہے جس کے بعد مذکورہ افسران اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں واضح رہے کے ماضی میں سابقہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کا بھی لاہور سے اسلام آباد آتے ہوئے چالان ہوا تھا جسکی ادائیگی انہوں نے کی تھی اور موٹر وے پولیس کی کارکردگی کو سراہا تھا ۔شاہد اشرف تارڑ جوکہ NHA کے چیئرمین ہیں ان کو مذکورہ واقعہ میں موٹر وے پولیس افسران کی اپنے خلاف کیے جانے والے چالانوں پر شاباشی دینی چاہیے تھی لیکن اس کے برعکس محکمہ کے سربراہ کی مبینہ طور پر افسران کے خلاف شکایت اور ان کے تبادلے کروانے کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔