جسٹس شوکت عزیز وزیر داخلہ پر بر ہم ، دھرنے والے بھی ڈٹ گئے

اسلام آباد (کرائم رپورٹر) اسلام آباد ہائیکورٹ نے عدالتی حکم کے باوجود فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت کا دھرنا ختم نہ کرائے جانے پر انتظامیہ کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کردیا ہے ۔ پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے مذہبی جماعتوں کے دھرنے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی اس موقع پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس اسلام آباد، چیف کمشنر اور ڈپٹی کمشنر عدالت میں پیش ہوئے ۔سماعت کے دور ان دھرنا ختم نہ کر انے پر سخت برہمی کا اظہار کیا جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ سیاسی قیادت مظاہرین سے خود مذاکرات کر رہی ہے جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ 4 سے 5 ہزار افراد تمام شہریوں کے حقوق سلب کر رہے ہیں اور وہ کیا مطالبہ لے کر بیٹھے ہیں اس سے متعلق سوچنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام نہیں، اصل مسئلہ صرف امن و امان کا ہے۔جسٹس شوکت عزیز نے ریمارکس دیے کہ لاکھوں افراد کے حقوق سلب ہونے نہیں دیں گے۔ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ کچھ باتیں ہیں جو اوپن کورٹ میں نہیں کی جا سکتیں۔جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ جو بات کرنی ہے اوپن کورٹ میں کریں، جو بات ہے اس پر قوم کو اعتماد میں لیا جائے۔انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 8 لاکھ شہریوں کے حقوق کو نظرانداز نہیں کرسکتے، انہوں نے حکومت سے استفسار کیا کہ تاجروں، مریضوں، طلبہ اور ملازمین کا کیا قصور ہے؟جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ یہ انتظامیہ کی نااہلی اور ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔انہوں نے کہا کہ بتایا جائے ابھی تک عدالتی احکامات پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا گیا؟عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ علیحدگی میں کیا بات کریں گے یہی کہِیں گے کہ دھرنے والوں کے پاس اسلحہ ہے۔اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ دھرنے والوں سے مذاکرات چل رہے ہیں۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ قوم کو اعتماد میں لیں اور قوم سے خطاب کرکے بتائیں کہ دھرنا ختم کرنے میں کیا مشکلات ہیں۔جس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے عدالتی حکم کے باوجود دھرنے کے شرکاءکو فیض آباد سے نہ ہٹانے پر حکومت پر برہمی کا اظہار کیا اور وزیر داخلہ احسن اقبال کو ساڑھے 11 بجے تک طلب کیا۔عدالت کی جانب سے طلبی پر وزیر داخلہ احسن اقبال عدالت کے روبرو پیش ہوئے تو فاضل جج نے سوال کیا کہ عدالتی احکامات پر عمل کیوں نہیں ہوسکا؟اس موقع پر احسن اقبال نے بتایا کہ عدالتی احکامات پر عملدرآمد کیا جارہا ہے تاہم طاقت کے استعمال سے خونریزی کا خدشہ ہے۔وفاقی وزیر داخلہ نے دھرنا پرامن طریقے سے ختم کرانے کے لئے 48 گھنٹے کی مہلت کی استدعا کی اور کہا کہ خدشہ ہے کہ تمام معاملات آئندہ انتخابات کے لیے ہو رہے ہیں، ہمیں 2 روز کی مہلت دی جائے۔ جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ عدالتی احکامات کی نافرمانی کے بعد مزید وقت نہیں مانگا جاسکتا، آپ اس معاملے میں بے بس ہیں۔اس پر وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا کہ اسلام آباد انتظامیہ میرے زیرنگرانی ہے اور میں نے ہی انتظامیہ سے کہا کہ پرامن طریقے سے حل نکالنا ہے جس کی ذمے داری قبول کرتا ہوں۔جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دئیے کہ بطور جج لاکھوں لوگوں کے بنیادی حقوق کا محافظ ہوں، دھرنے والے اتنی اہم جگہ تک کیسے پہنچے ¾یہ سمجھ سے بالا تر ہے، غرض نہیں دھرنے والے سیاسی، سیکولر یا مذہبی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں ¾عدالت کو صرف غرض ہے کہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ کیسے کیا جائے۔جسٹس شوکت عزیز نے ریمارکس دیے کہ ناموس رسالتپوری ا±مت کا مسئلہ ہے جس پر سمجھوتا نہیں ہوسکتا لیکن یہ کسی ایک گروہ کا مسئلہ نہیں ¾ یہ محض مذہبی جماعت نہیں سیاسی پارٹی بھی ہے جو الیکشن میں حصہ لے چکی ہے۔جسٹس شوکت عزیز نے کہا کہ اسلام آباد لاک ڈاو¿ن کرنے کی دھمکی پر عدالت نے بہت محنت سے چند حدود متعین کیں تھیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہو رہا، عدالت جو حدود متعین کرچکی ہے اس پر عمل کیا جائے۔فاضل جج نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی سے کسی کو نہیں روکیں گے، یہ ان کا آئینی حق ہے تاہم دھرنا دینے والوں کو احتجاج کے لیے مختص جگہ پر بھیجا جائے۔عدالت نے سماعت جمعرات 23 نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد، چیف کمشنر اور وفاقی سیکرٹری داخلہ کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹس جاری کردئیے۔

قومی اسمبلی بجلی پر سر چارج لگانے کا حکومتی اختیار مستر د زائدبل بھیجنے پر 3سال قید

اسلام آباد (این این آئی) قومی اسمبلی نے برقی توانائی کی پیداوار ‘ ترسیل اور تقسیم کو منضبط کرنے کے (ترمیمی) بل 2017ءکی منظوری دے دی ہے جس کے تحت اوور بلنگ کے ذمہ دار عملہ کو تین سال تک سزا دی جاسکے گی‘ نیپرا کو مستحکم کرنے اور اسے تحقیقات کا اختیار ہوگا۔ پیر کو قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر سردار اویس احمد خان لغاری نے تحریک پیش کی کہ رولز کو معطل کرکے ترجیحی بنیادوں پر یہ بل لیا جائے جس پر ایوان سے رائے لے کر رول معطل کرکے یہ بل قائمہ کمیٹی کی پیش کردہ صورت میں زیر غور لانے کی تحریک پیش کی۔ تحریک کی منظوری کے بعد ایوان سے شق وار منظوری کا عمل شروع ہوا تو پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید نوید قمر اور تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس بل سے اصولی طور پر ہمیں کوئی اختلاف نہیں ¾یہ ایک اچھی کاوش ہے لیکن اچھا کام عجلت میں نہ کیا جائے جس پر وفاقی وزیر اویس خان لغاری نے کہا کہ پورے ملک میں صارفین کو اس وقت اوور بلنگ کا سامنا ہے‘ اس بل کے تحت اوور بلنگ میں ملوث افسران اور سٹاف کو تین سال تک قید کی سزا دی جاسکے گی۔ قائمہ کمیٹی نے یہ بل متفقہ طور پر منظور کیا ہے۔ اگر یہ بل منظور ہوتا ہے تو بجلی کے شعبہ میں درپیش مشکلات کا ازالہ ممکن ہوگا۔ اگر آج بل منظور نہیں ہوا تو اس کی منظوری میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بل سے موجودہ فریم ورک کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔ ریگولیٹر کی حدود متعین ہوں گی تو نیپرا کو مضبوط کرنے میں مدد ملے گی۔ نیپرا کے ممبران کے لئے اہلیت اور قابلیت کا معیار طے کیا گیا ہے۔ قانونی معاملات نمٹانے کے لئے ٹریبونل قائم کرنے کی تجویز بل میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ بل کی منظوری میں عجلت سے بچنے کے لئے اسے منظور کیا جائے۔ اس کے بعد ایوان سے شق وار منظوری کا عمل شرو ع ہوا جس کے بعد وفاقی وزیر بجلی اویس لغاری نے بل ایوان میں منظوری کے لئے پیش کیا جسے اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔ اس بل کے تحت کوئی بھی شخص کسی خریدار کو برقی توانائی کی فراہمی اتھارٹی کی جانب سے لائسنس کے بغیر نہیں کر سکے گا۔ اپوزیشن کی جانب سے وفاقی حکومت کی جانب سے سرچارج لگانے کی شق پر اعتراض کیا جس پر اویس لغاری نے کہا کہ اس شق کو بل سے نکال دیا جائے‘ اسے بعد میں منظور کرا لیا جائے گا جس کے بعد شق 40 مسترد ہوگئی۔ اس بل کے تحت پیداواری کمپنیوں کے فرائض میں شامل ہوگا کہ وہ ترسیلی لائنز بچھانے‘ اسے چلانے اور برقرار رکھیں گی۔ اس بل کے تحت قومی برقیاتی پالیسی و منصوبہ مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری سے وفاقی حکومت بنائے گی۔ اس بل کے تحت ایک ٹریبونل قائم کیا جائے گا جس کا چیئرمین عدالت عالیہ کا سابق جج ہوگا۔ اس کی مدت تین سال ہوگی جبکہ اس میں چاروں صوبوں سے نمائندے اور وفاقی حکومت کا ایک نمائندہ شامل ہوگا۔ بعد ازاں شق 50 میں بھی اپوزیشن کی ترمیم شامل کرلی گئی۔ بعد ازاں انہوں نے بل ایوان میں منظوری کے لئے پیش کیا جسے اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔اجلاس کے دور ان قومی یونیورسٹی برائے ٹیکنالوجی بل 2017ءپر قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کی رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کردی گئی۔ شائستہ پرویز ملک نے سپیکر کے کہنے پر یہ رپورٹ ایوان میں پیش کی۔ شیر اکبر خان اور دیگر کے پیسکو پشاور کو تخفیف نقصانات ‘ توانائی اور تقسیم برقی توانائی کے فنڈز جاری نہ کئے جانے سے متعلق توجہ دلاﺅ نوٹس کے جواب میں وفاقی وزیر اویس احمد خان لغاری نے کہا کہ 2017ءمیں پیسکو کو کہا گیا تھا کہ اپنی ایڈیشنل ڈیمانڈ دے‘ ایک ارب روپے سے زائد اضافی مانگے گئے۔ بجٹ میں 8.6 ارب روپے کی ضرورت تھی۔ 2016-17ءکی دو ارب روپے اسینشل تھی۔ چھ ماہ میں 1.1 روپے کی اسینشل تھی۔ انہوں نے بتایا کہ 2017-18ءاکتوبر تک پیسکو کے 1.3 ارب روپے استعمال کئے جو 13 فیصد بنتا ہے۔ یہ اپنے ترقیاتی اہداف سے بہت پیچھے ہیں۔ اس کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ شیر اکبر کے بیان پر انہوں نے بتایا کہ نئے قانون کے تحت مزیڈ ڈسٹری بیوشن کمپنیاں آئیں گی اور صارفین کو بجلی فراہم کر سکیں گی۔ انہوں نے کہا کہ اوور بلنگ کے خاتمے کے لئے مسلم لیگ (ن) کے اقدامات لائق مستحسن ہیں۔ لوگ اب حلف دے رہے ہیں۔ اوور بلنگ کو بہتر کر رہے ہیں۔ سفارش پر تقرر و تبادلے نہیں ہو سکیں گے ۔ جب ایس ڈی او کی کارکردگی درست نہیں ہوگی تو اسے عہدہ پر نہیں رکھا جائے گا۔ انقلابی سوچ پر ہم یہ کر رہے ہیں۔ صارف کو اس ماہ اس کے اثرات نظر آئیں گے۔ ساجدہ بیگم کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ملازمین کو بجلی کی مفت فراہمی ختم کرنے کی تجویز بورڈ کو ارسال کردیں گے۔قبل ازیں اجلاس کے دور ان نواب یوسف تالپور‘ شازیہ مری‘ سید نوید قمر‘ ڈاکٹر عذرا فضل اور عبدالستار بچانی کے توجہ مبذول نوٹس کے جواب میں وفاقی وزیر پانی جاوید علی شاہ نے کہا کہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے‘ پانی نہ صرف زراعت کے استعمال‘ بجلی کے حصول بلکہ انسان اور انسانیت کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانی کی کمی کی وجہ بارش کم ہونا ہے۔ ہمارا اندازہ تھا کہ 20 سے 21 فیصد پانی کی کمی ہوگی۔ تاہم اس وقت 36 فیصدپانی کی کمی کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانی کا مجموعی اخراج 43.2تک پہنچ چکا ہے۔ توقع ہے کہ بارشوں کا سلسلہ شروع ہونے سے پانی کی قلت میں کمی آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کے ذخیرہ سے بھی پانی استعمال کرنا پڑا ہے۔ اس مسئلے کا اصل حل پانی کے ذخائر بنانے میں موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیامر بھاشا ڈیم منصوبہ تیار ہے اس پر فنڈنگ ہو تو کام شروع ہو سکتا ہے۔ اسی طرح مہمند ڈیم سمیت کئی چھوٹے ڈیم کے پی کے ‘ بلوچستان میں ہیں جن پر پانی ذخیرہ کے لئے فنڈنگ ہو جائے تو آنے والے وقت میں پانی کی قلت میں بہت حد تک کمی آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ بہت بڑا مسئلہ ہے اس پر صرف باتیں نہیں عملی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد کچھ چیزیں صوبوں کے پاس چلی گئی ہیں۔ وفاق اور صوبے فنڈنگ کا مسئلہ حل کر دیں تو یہ معاملہ حل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گوادر میں پانی صاف کرنے کا پلانٹ بھی لگانا تھا اس پر کام شروع ہونا چاہیے۔ نواب یوسف تالپور نے کہا کہ پانی کی کمی صرف ایک صوبے کے لئے ہے یا پورے پاکستان کے لئے ہے۔ تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح 1530 فٹ پر آتی ہے تو یومیہ دو فٹ بھرتے تھے۔ بعد ازاں نومبر میں ایک فٹ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ڈیم بھر نہیں سکا اور بلوچستان کو 11 فیصد اضافی پانی دیا جارہا ہے۔ وزیر پانی و بجلی جاوید علی شاہ نے اس نکات کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ منگلا ڈیم‘ تربیلا ڈیم‘ دریائے سندھ‘ دریائے جہلم‘ دریائے کابل میں پانی کا بہائہ بہتر ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 35000 کیوسک‘ سندھ کو درکار ہے اور یومیہ اتنا پانی فراہم کیا جارہا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے ہدایت دی کہ پانی کی قلت کا مسئلہ انتہائی اہم ہے۔ توجہ دلاﺅ نوٹس میں شامل اراکین قومی اسمبلی اور جو ممبران دلچسپی رکھتے ہوں ان کے لئے وزارت پانی (کل) بدھ کو خصوصی بریفنگ کا انتظام کرے۔ عبدالستار بچانی کے سوال پر وفاقی وزیر آبی امور سید جاوید علی شاہ نے کہا کہ سندھ کو فراہم ہونے والے پانی میں کسی قسم کا کٹ نہیں لگایا گیا۔ جتنی طلب ہے وہ پوری کی جارہی ہے۔ شازیہ مری کے سوال پر وفاقی وزیر نے کہا کہ تربیلا ڈیم سے 3.456 ملین ایکڑ فٹ اخراج ہے۔ سید نوید قمر کے سوال پر انہوں نے کہا کہ گدو بیراج پر دو اطراف سے پانی مل رہا ہے‘ ایک طرف چشمہ دوسری طرف پنجند سے آرہا ہے۔ پانی کی جو کمی ہوئی ہے وہ چشمہ سے پانی لے کر کمی پوری کی۔ سندھ کو پورا پانی فراہم کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر عذرا فضل کے سوال پر انہوں نے کہا کہ تربیلا سے پانی چشمہ اور چشمہ سے گدو میں آتا ہے اور اگر کوئی کمی رہ جائے تو تونسہ سے پانی پورا کرکے ارسا سندھ کو پانی دے رہی ہے۔بعد ازاں قومی اسمبلی نے قومی یونیورسٹی برائے ٹیکنالوجی بل 2017ءکی اتفاق رائے سے منظوری دے دی وزیر مملکت برائے سائنس و ٹیکنالوجی میر دوستین ڈومکی نے قائمہ کمیٹی کی پیش کردہ صورت میں بل زیر غور لانے کی تحریک پیش کی جس کی ایوان نے منظوری دے دی جس کے بعد ڈپٹی سپیکر نے ایوان سے بل کی شق وار منظوری لی۔ بعد ازاں وزیر مملکت نے بل ایوان میں منظوری کے لئے پیش کیا جس کی اتفاق رائے سے منظوری دے دی گئی۔

باکسر محمد وسیم کا پاکستانی شہریت چھوڑنے پر غور

کراچی ( ویب ڈیسک)کراچی میں ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے محمد وسیم نے کہا کہ میں مالی مشکلات کا شکار ہوں، اپنے ملک پاکستان کے لیے کھیلنا چاہتا ہوں، تاہم مالی مشکلات کی وجہ سے شہریت ترک کرنے پر غور کررہا ہوں اور کوریا یا امریکا کی شہریت کے لیے درخواست دے سکتا ہوں۔محمد وسیم نے کہا کہ اسپانسر نہ ہونے کے باعث بہت مسائل کا شکار ہوں، عالمی ٹائٹل کے لیے جلد ایک انٹرنیشنل فائٹ میں حصہ لوں گا جو شاید پاکستان کےلیے میری آخری فائٹ ہو۔ باکسر محمد وسیم کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کی شہریت ترک کرنا اور ملک کی نمائندگی کو چھوڑنا نہیں چاہتے لیکن مالی مشکلات کی وجہ سے مجبور ہیں۔واضح رہے کہ محمد وسیم نے 8 پروفیشنلز فائٹ کھیلی ہیں اور سب مقابلوں میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اب محمد وسیم ڈبلیو بی سی فلائی ویٹ کی ورلڈ رینکنگ میں نمبر ون پوزیشن برقرار رکھنے کے لیے امریکا روانہ ہورہے ہیں جہاں وہ کولمبیا کے باکسرز سے مقابلہ کریں گے۔

 

پاکستان میں 2 سے 3 سال میں انٹرنیشنل کرکٹ مکمل بحال ہوجائے گی

پاکستان(ویب ڈیسک) سپورٹس فیڈریشنز کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس کے دوران ہارون رشید نے بریفنگ دی۔ اس موقع پر پی سی بی کے ڈائریکٹر آپریشنز کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہو رہی ہے جب کہ سیکیورٹی سے متعلق کرکٹ فیڈریشن آف کرکٹ ایسوسی ایشن کے تمام تحفظات دور کردیے ہیں۔ہارون رشید نے بریفنگ کے دوران بتایا کہ ہوم سیریز کے لئے مختلف کرکٹ بورڈز کے ساتھ بات چیت جاری ہے اور 2 سے 3 سال میں پاکستان میں مکمل طور پر انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہوجائے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ کرکٹ کا ڈھانچہ بدلنے کا جائزہ لے رہے ہیں جس کے لئے کھلاڑیوں کی ملازمت کا تحفظ بھی ضروری ہے۔ سینیٹ کمیٹی نے 27 نومبر کو ہونے والے آئندہ اجلاس میں صوبائی وزرا اور سیکریٹریز کھیل کو بھی بریفنگ کے لئے طلب کرلیا۔

دپیکا اور سنجے لیلا بھنسالی کے سرکی قیمت 10 کروڑ مقرر

 ممبئی(ویب ڈیسک) بی جے پی رہنما نے دپیکا اور سنجے لیلا بھنسالی کے سر کی قیمت 10 کروڑ مقرر کرتے ہوئے رنویر سنگھ کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی ہے۔بھارتی فلم ’پدماوتی‘ کی ریلیز میں مشکلات ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھتی جارہی ہیں، پہلے راجپوت برادری نے فلم کی ریلیز کی صورت میں پرتشدد رویہ اختیار کرنے اور دپیکا پڈوکون کو ناک کاٹنے کی دھمکی سمیت ہدایت کار سنجے لیلا بھنسالی کے سر کی قیمت 5 کروڑ بھی مقرر کی تھی، جس کے بعد سنسر بورڈ نے بھی فلم کے سرٹیفکیٹ کے لیے دی گئی درخواست کو فلم ساز کو واپس کردیا۔گزشتہ روز فلم کو ریلیز کرنے والی پروڈکشن کمپنی ’’ویا کوم 18‘‘ نے خود ہی فلم کی ریلیز روکنے کا اعلان کیا تھا تاہم اب بی جے پی رہنما نے دپیکا پڈوکون اور سنجے لیلا بھنسالی کے سر کی قیمت 10 کروڑ مقرر کردی ہے جب کہ رنویر سنگھ کی ٹانگیں توڑنے کی بھی دھمکی دی ہے۔بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ ہریانہ سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے میڈیا کوآرڈینیٹر سورج پال امو نے اعلان کیا ہے کہ جو کوئی بھی دپیکا پڈوکون اور سنجے لیلا بھنسالی کا قتل کرے گا اس کو 10 کروڑ روپے انعام دیا جائے۔ صرف یہی نہیں بی جے پی رہنما نے مزید کہا کہ اداکار رنویر سنگھ نے ہدایت کار سنجے لیلا بھنسالی کی معاونت کی لہذا اگر انہوں اپنے الفاظ واپس نہیں لیے تو رنویر سنگھ کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔بی جے پی رہنما سورج پال امو کے بیان پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے وضاحت طلب کرلی ہے۔ دوسری جانب مدھیا پردیش کے وزیراعلیٰ شوراج سنگھ چوہان نے ریاست میں فلم پدماوتی کی ریلیز پر پابندی لگاتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست میں فلم کسی صورت ریلیز نہیں ہونے دی جائے گی۔