نواز شریف کو بچانے سے انکار ،خبر میں تہلکہ خیز انکشافات

لاہور (ضیاشاہد سے) پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید احمد المالکی نے کہا ہے کہ میری حکومت پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کےلئے کوئی این آر او نہیں کرا رہی اور ہم اس بارے میں بالکل خاموش ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور سابق سنیٹر محمد علی درانی کے عشائیہ میں اخبارات کے چند سینئر ایڈیٹروں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ کھانے کی میز پر ہونے والی اس بات چیت میں سعودی سفیر نے کہا کہ ان پر پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں میں مالی مقدمات چل رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف اسلامی فوج کا منصوبہ جاری و ساری ہے اور نومبر کے آخر میں اس بارے میں کوئی واضح شکل سامنے آ جائے گی۔ پاکستان کے سابق آرمی چیف راحیل شریف کے بارے میں متعدد سوالوں کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ بڑی محنت سے کام کر رہے ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ ایک طرف سعودی حکومت اور اس کے اعلیٰ عہدیداروں کے علاوہ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے تمام امام حضرات نے سختی سے دہشتگردی کی مذمت کی ہے اور ایک مسلمان کے خون کو دوسرے مسلمان کےلئے حرام قرار دیا ہے۔ برسوں پہلے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے کلیدی ملزمان میں سے بعض کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔ یہی نہیں بلکہ اس دور میں عالمی سطح پر دہشتگردوں کا سرغنہ قرار دئیے جانے والے اسامہ بن لادن بھی آپ ہی کے ملک سے تعلق رکھتے تھے۔ اس سوال پر سعودی سفیر نے ہنستے ہوئے کہا کہ آپ کے ملک پاکستان میں ہزاروں بے گناہ اور معصوم لوگ دہشتگردی کا شکار بنے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ملک سے ان گنت لوگ دہشتگردی کی تحریکوں میں شامل رہے اور فوج کی تمام تر کوششوں کے باوجود آج بھی پاکستان میں خودکش حملہ آور موجود ہیں اور آئے دن ان کی طرف سے خوفناک کارروائیاں کی جاتی رہی ہیں۔ نیویارک ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بارے میں شریک مجلس کے ایک سابق فوجی افسر نے کہا کہ کیا اتنی بڑی عمارت ایک جہاز کے ٹکرانے سے تباہ ہو سکتی ہے تو سعودی سفیر نے کہا کہ اس کے بارے میں بھی بہت بحث ہوتی رہی ہے تاہم یہ حقیقت ہے کہ اس روز تین ہزار سے زیادہ یہودیوں کو پیشگی علم کیسے ہو گیا اور انہوں نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی عمارت خالی کر دی۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا امریکہ کی طرف سے اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد سے گرفتاری کے بعد یہ امریکی دعویٰ تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اسامہ کی نعش سمندر میں پھینک دی تو انہوں نے کہا اس مسئلہ کو بھی متنازعہ سمجھا جاتا ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ سعودی عرب کی تاریخ میں شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے شہزادوں اور دوسرے قریبی لوگوں کی کرپشن میں گرفتاری پہلا واقعہ ہے جبکہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہاں انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جس پر سفیر محترم نے کہا یہ درست نہیں کہ سعودی عرب میں حکمران خاندان کے لوگوں کو ہر جرم کی چھٹی رہی ہے۔ ان کے خلاف قانون حرکت میں آتا رہا ہے لیکن ایسے واقعات الگ الگ پیش آتے رہے ہیں مگر اس طرح کی اجتماعی مہم سامنے نہیں آئی تھی۔ یمن کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ مسئلہ مکمل طور پر ختم ہو گیا ہے۔ چونکہ پاکستان کے شمالی علاقوں اور افغانستان کے اندر انتہا پسندوں اور دہشتگردوں کا طرز زندگی قبائلی ہے اور یمن میں بھی مختلف قبائل کے اندر بھی یہی مشکل پائی جاتی ہے۔ قبائلی جنگ کا مکمل طور پر خاتمہ مشکل ہوتا ہے اس کا اندازہ آپ افغانستان کے اندر کابل حکومت کے باغی قبائلی افراد سے لگا سکتے ہیں جو دنیا کی بڑی فوجی قوت اور سپر طاقت کے علاوہ مختلف اتحادی ممالک کی فوج سے بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے لیکن سعودی عرب کی کوشش جاری ہے اور انشاءاللہ ہم کامیاب ہونگے۔ ان سے سوال کیا گیا کہ داعش ہو یا دہشتگردی اور انتہاپسندی میں ملوث تنظیمیں حال ہی میں عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے یہ امر سامنے آیا ہے کہ سعودی عرب خفیہ طور پر اسرائیل سے تعلقات بڑھا رہا ہے۔ جس پر سفیر نے کہا کہ یہ سو فیصد جھوٹ اور بے بنیاد بات ہے۔ دراصل یہ اکثر مسلمان ممالک کی مستحکم حکومتوں کے خلاف دہشتگرد جماعتوں کا پراپیگنڈا ہے کہ وہ اپنے لئے مختلف مسلم ممالک کے عوام کی ہمدردیاں حاصل کر سکیں۔ قبل ازیں محمد علی درانی کی طرف سے خیر مقدمی الفاظ میں سعودی حکومت کی پاکستان سے محبت اور برسہا برس سے پاکستانی عوام اور حکومت کےلئے ان کی نیک خواہشات کا اعتراف کیا اور توقع ظاہر کی کہ نئے سعودی سفیر کی محنت، سرگرمی اور ایمان کی حد تک پہنچے ہوئے خلوص اور دیانتدارانہ کوششوں سے پاکستان اور سعودی عرب کے عوام میں دوستی، محبت اور بھائی چارے کے مزید جذبات پیدا ہونگے۔ جس کے جواب میں سعودی سفیر نے بھی عشائیہ کے شرکاءسے اظہار خیال کرتے ہوئے اپنی اور حکومت کی طرف سے بھرپور تعاون اور خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کیا۔ عشائیہ کا گلبرگ کے ایک ہوٹل میں اہتمام کیا گیا تھا جس میں زندگی کے ہر شعبہ کے نمائندہ افراد نے شرکت کی۔

 

وزیراعظم نے ناراض اراکین اسمبلی کو بڑی دعوت دے ڈالی

لاہور (خصوصی رپورٹ) مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ارکان کی کم تعداد سینٹ میں حلقہ بندیوں کے حوالے سے آئینی ترمیم کی عدم منظوری کے بارے میں دلچسپ انکشافات ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق جمعرات کو پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں 110ارکان کی شرکت سے حکمران جماعت کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی اور حکومت کے اہم ارکان کو محسوس ہوا کہ سرکاری ارکان کی عدم دلچسپی کی وجہ سے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ختم ہونے کے بعد جب وزراءاجلاس میں پہنچے تو پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کے ارکان جو پہلے سے موجود تھے‘ نے اعتراض کیا کہ جب آپ کے ارکان پورے نہیں اور آپ کی دلچسپی کا یہ عالم ہے تو ہمیں کیوں بٹھا رکھا ہے جس کے بعد سعد رفیق اور دیگر وزراءنے بھاگ دوڑ شروع کی اور ٹیلیفونک رابطوں کے علاوہ پارلیمانی ہاسٹل سے 16ارکان کو منت سماجت کر کے اجلاس میں آنے پر آمادہ کیا۔ مسلم لیگ (ن) کے 22ارکان اسمبلی ایسے تھے جو اجلاس میں شرکت کیلئے اسلام آباد پہنچے ہی نہیں جبکہ 28ناراض ارکان بھی غیرحاضر رہے‘ جبکہ 23ارکان قومی اسمبلی میں آئے اور ووٹ ڈالے بغیر ہی چلے گئے‘ جب اعلیٰ سطح پر ان ارکان سے بازپرس کی گئی کہ اجلاس میں عدم شرکت نظم و ضبط کی خلاف ورزی ہے‘ ان کے خلاف کارروائی بھی ہو سکتی ہے تو ان کا جواب تھا کہ پہلے حمزہ شہبازشریف کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اطلاعات کے مطابق وزیراعلیٰ شہبازشریف اور حمزہ شہباز نے دو درجن سے زائد ارکان کو چائے پر بلایا لیکن انہیں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے پر قائل کرنے کی بجائے فرمائش کی کہ وہ اپنے حلقوں میں جلسوں‘ اجتماعات اور ریلیوں کا اہتمام کریں جن میں وہ شریک ہوں گے۔ یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ناراض ارکان کو پیر کے روز ظہرانے پر ملاقات کی دعوت دی ہے۔ بیشتر ارکان نے شرکت کی حامی بھر لی لیکن یہ وعدہ نہیں کیا کہ وہ حکومتی ہدایت کی پابندی کریں گے۔ سینٹ کے ناراض ارکان یہ یقین دہانی کرانے پر تیار نہیں کہ وہ حلقہ بندیوں کے بارے میں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیں گے۔
وزراءکی دوڑیں

چیرمین نیب کا پنجاب حکومت کی 56 کمپنیوں میں اربوں کی کرپشن کی تحقیقات کا حکم

 اسلام آباد: قومی احتساب بیورو کے چیرمین نے پنجاب حکومت کی 56 کمپنیوں میں اربوں کی کرپشن کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔تفصیلات  کے مطابق چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے پنجاب حکومت کی 56 پبلک لمیٹڈ کمپنیوں میں بدعنوانی اور من پسند بھرتیوں سے متعلق شکایات کا نوٹس لے لیا۔ چیرمین نیب کے مطابق پبلک لمیٹڈ کمپنیوں میں بدعنوانی، وسائل کے بے دریغ استعمال اور پراکیورمنٹ (سامان کی خریداری) میں بے قاعدگیوں سمیت دیگر شکایات مل رہی تھیں۔چیئرمین نیب نے شکایات کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی جی نیب لاہور کو متعلقہ 56 پبلک لمیٹڈ کمپنیوں کے معاملات کی انکوائری کرنے کا حکم دے دیا۔ چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے ہدایت کی کہ نیب کی انکوائری کی وجہ سے کسی بھی کمپنی کو کام سے نہ روکا جائے اور اس وقت تک کام کرنے دیا جائے جب تک ان کے خلاف ثبوت اکٹھے نہ ہوجائیں، اس سلسلہ میں تمام قانونی تقاضوں کو مدنظر رکھا جائے۔

واضح رہے کہ پنجاب حکومت کی کمپنیوں میں 80 ارب روپے کی میگا کرپشن کیخلاف دائر درخواست پر لاہور ہائیکورٹ میں سماعت بھی جاری ہے۔ عدالت نے اس سلسلے میں تمام کمپنیوں کے سربراہوں اور فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے پنجاب حکومت سے وضاحت بھی طلب کی ہے۔

اسامہ بن لادن بارے سعودی عرب کی سوچ کیا ہے

لاہور (ضیاشاہد سے) پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید احمد المالکی نے کہا ہے کہ میری حکومت پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کےلئے کوئی این آر او نہیں کرا رہی اور ہم اس بارے میں بالکل خاموش ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور سابق سنیٹر محمد علی درانی کے عشائیہ میں اخبارات کے چند سینئر ایڈیٹروں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ کھانے کی میز پر ہونے والی اس بات چیت میں سعودی سفیر نے کہا کہ ان پر پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں میں مالی مقدمات چل رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف اسلامی فوج کا منصوبہ جاری و ساری ہے اور نومبر کے آخر میں اس بارے میں کوئی واضح شکل سامنے آ جائے گی۔ پاکستان کے سابق آرمی چیف راحیل شریف کے بارے میں متعدد سوالوں کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ بڑی محنت سے کام کر رہے ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ ایک طرف سعودی حکومت اور اس کے اعلیٰ عہدیداروں کے علاوہ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے تمام امام حضرات نے سختی سے دہشتگردی کی مذمت کی ہے اور ایک مسلمان کے خون کو دوسرے مسلمان کےلئے حرام قرار دیا ہے۔ برسوں پہلے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے کلیدی ملزمان میں سے بعض کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔ یہی نہیں بلکہ اس دور میں عالمی سطح پر دہشتگردوں کا سرغنہ قرار دئیے جانے والے اسامہ بن لادن بھی آپ ہی کے ملک سے تعلق رکھتے تھے۔ اس سوال پر سعودی سفیر نے ہنستے ہوئے کہا کہ آپ کے ملک پاکستان میں ہزاروں بے گناہ اور معصوم لوگ دہشتگردی کا شکار بنے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ملک سے ان گنت لوگ دہشتگردی کی تحریکوں میں شامل رہے اور فوج کی تمام تر کوششوں کے باوجود آج بھی پاکستان میں خودکش حملہ آور موجود ہیں اور آئے دن ان کی طرف سے خوفناک کارروائیاں کی جاتی رہی ہیں۔ نیویارک ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بارے میں شریک مجلس کے ایک سابق فوجی افسر نے کہا کہ کیا اتنی بڑی عمارت ایک جہاز کے ٹکرانے سے تباہ ہو سکتی ہے تو سعودی سفیر نے کہا کہ اس کے بارے میں بھی بہت بحث ہوتی رہی ہے تاہم یہ حقیقت ہے کہ اس روز تین ہزار سے زیادہ یہودیوں کو پیشگی علم کیسے ہو گیا اور انہوں نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی عمارت خالی کر دی۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا امریکہ کی طرف سے اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد سے گرفتاری کے بعد یہ امریکی دعویٰ تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اسامہ کی نعش سمندر میں پھینک دی تو انہوں نے کہا اس مسئلہ کو بھی متنازعہ سمجھا جاتا ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ سعودی عرب کی تاریخ میں شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے شہزادوں اور دوسرے قریبی لوگوں کی کرپشن میں گرفتاری پہلا واقعہ ہے جبکہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہاں انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جس پر سفیر محترم نے کہا یہ درست نہیں کہ سعودی عرب میں حکمران خاندان کے لوگوں کو ہر جرم کی چھٹی رہی ہے۔ ان کے خلاف قانون حرکت میں آتا رہا ہے لیکن ایسے واقعات الگ الگ پیش آتے رہے ہیں مگر اس طرح کی اجتماعی مہم سامنے نہیں آئی تھی۔ یمن کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ مسئلہ مکمل طور پر ختم ہو گیا ہے۔ چونکہ پاکستان کے شمالی علاقوں اور افغانستان کے اندر انتہا پسندوں اور دہشتگردوں کا طرز زندگی قبائلی ہے اور یمن میں بھی مختلف قبائل کے اندر بھی یہی مشکل پائی جاتی ہے۔ قبائلی جنگ کا مکمل طور پر خاتمہ مشکل ہوتا ہے اس کا اندازہ آپ افغانستان کے اندر کابل حکومت کے باغی قبائلی افراد سے لگا سکتے ہیں جو دنیا کی بڑی فوجی قوت اور سپر طاقت کے علاوہ مختلف اتحادی ممالک کی فوج سے بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے لیکن سعودی عرب کی کوشش جاری ہے اور انشاءاللہ ہم کامیاب ہونگے۔ ان سے سوال کیا گیا کہ داعش ہو یا دہشتگردی اور انتہاپسندی میں ملوث تنظیمیں حال ہی میں عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے یہ امر سامنے آیا ہے کہ سعودی عرب خفیہ طور پر اسرائیل سے تعلقات بڑھا رہا ہے۔ جس پر سفیر نے کہا کہ یہ سو فیصد جھوٹ اور بے بنیاد بات ہے۔ دراصل یہ اکثر مسلمان ممالک کی مستحکم حکومتوں کے خلاف دہشتگرد جماعتوں کا پراپیگنڈا ہے کہ وہ اپنے لئے مختلف مسلم ممالک کے عوام کی ہمدردیاں حاصل کر سکیں۔ قبل ازیں محمد علی درانی کی طرف سے خیر مقدمی الفاظ میں سعودی حکومت کی پاکستان سے محبت اور برسہا برس سے پاکستانی عوام اور حکومت کےلئے ان کی نیک خواہشات کا اعتراف کیا اور توقع ظاہر کی کہ نئے سعودی سفیر کی محنت، سرگرمی اور ایمان کی حد تک پہنچے ہوئے خلوص اور دیانتدارانہ کوششوں سے پاکستان اور سعودی عرب کے عوام میں دوستی، محبت اور بھائی چارے کے مزید جذبات پیدا ہونگے۔ جس کے جواب میں سعودی سفیر نے بھی عشائیہ کے شرکاءسے اظہار خیال کرتے ہوئے اپنی اور حکومت کی طرف سے بھرپور تعاون اور خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کیا۔ عشائیہ کا گلبرگ کے ایک ہوٹل میں اہتمام کیا گیا تھا جس میں زندگی کے ہر شعبہ کے نمائندہ افراد نے شرکت کی۔

بوریا بستر لپیٹنے کی تیاریاں؟شریف خاندان نے کتنے ارب کی پراپرٹی بیچ دی، جان کر آپ بھی دنگ رہ جائینگے

اسلام آباد(ویب ڈیسک)شریف خاندان نے ملک میں اپنا بوریا بستر لپیٹنا شروع کر دیا ہے، اثاثے فروخت کر رہے ہیں،اثاثے منجمد نہیں ، نواز شریف نے لاہور میں 400ایکڑپر محیط قیمتی قطعہ اراضی بڑے بزنس ٹائیکونکو بیچ دی، لندن میں سودا طے پایا، 15سے 20ارب روپے سودے کی پیمنٹ وصول کر چکے ہیںجبکہ زمین اس بزنس ٹائیکون کے نام ٹرانسفر ہو چکی ہے،سینئر صحافی چوہدری غلام حسین کے انکشافات۔ تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی چوہدری غلام حسین نے انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ شریف خاندان کے اثاثے منجمد نہیں انہوں نے ملک سے جانے سے پہلے اپنے اثاثے فروخت کرنا شروع کر دئیے ہیں۔ نواز شریف نے لاہور میں 400ایکڑ پر محیط ایک قطعہ اراضی ایک بڑے بزنس ٹائیکون کو بیچا ہے جس کا سودا لندن میں طے پایا۔ نواز شریف اس بزنس ٹائیکون سے سودے کے 15سے 20ارب روپے وصول کر چکے ہیں جبکہ زمین بھی اس کے نام ٹرانسفر کی جا چکی ہے۔ چوہدری غلام حسین کا کہنا تھا اثاثے منجمد ہونے کے باوجود یہ سرگرمی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ اثر و رسوخ کی بنیاد پر یہ کام کروایا گیا ہے جو کہ غیر قانونی ہے۔