چیئر مین این ایچ اے کی ہائیکورٹ میں حا لت پتلی ، دیکھنے والے محظوظ ہو تے رہے

لاہور(رازش لیاقت پوری سے)این ایچ اے کی ایک اور بڑی نا اہلی سامنے آگئی،نیشنل ہائی وے سیکشن 4.5کوٹ سبزل تا بہاولپورسڑک کے توسیعی منصوبے کے 70فیصد متاثرین کو15 سال گزرنے کے باوجود ان کی زمینوں کا معاوضہ نہیں دیا،کچھ متاثرین اگلے جہان چلے گئے تو کچھ ابھی تک ریونیوڈیپارٹمنٹ اور این ایچ اے دفاتر رحیم یار خان ، بہاولپور اورملتان میں جوتیاں چٹخانے پر مجبورہیں،لینڈ ایکوزیشن کلرک اور ریونیوڈیپارٹمنت ابھی تک اسسمنٹ لگانے تک محدودہے ، تفصیل کے مطابق میاںمحمد نواز شریفنے اپنے دور اقتدار میں کراچی تا ملتان کے ایل پی روڈ کے توسیعی منصوبے کا اعلان کیا تھا،اس سڑک کو دورویہ بنانے کا منصوبہ بنا،یہ منصوبہ2001 سے شروع ہوااور2004 میںمکمل ہوااس توسیعی منصوبے کے لیے مقامی لوگوں کی زمینیں بھیحاصل کی گئیں، سندھ میں تو متاثرین کو ادائیگی ہوگئی مگر کوٹ سبزل سے بہاولپور تک تقریبا250کلومیٹر کے 70فیصد متاثرین کو ابھی تک ادائیگیاں نہیں ہوئیں،مثاترین کی بڑی تعداد ضلع بہاولپور اور ضلع رحیم یار خان کے علاوہ این ایچ اے دفاتر ملتان ،بہاوپور اور رحیم یار خان میں بھی رلتی رہی، اہلکاروں سے معاملات طے ہونے کے باعث کچھ لوگوں کو تومعاوضہمل گیا مگر زیادہ متاثرین ابھی تک محروم ہیں،اس حوالے سے نیشنل ہائی وے متاثرین کمیٹی کے چئیرمین ویونین ناظم کچی محمد خان اور ملک خالد محمود نائچ نے خبریں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ این ایچ اے کے خلاف ترنڈہ محمد پناہ کی ثوبیہ اسلم نے ہائیکورٹ کے بہاولپوربنچ میں جسٹس امیرحسین بھٹی کی عدالت میں ایک کیس بھی دائر کیا تھا کہ اسے این ایچ اے سے معاوضہ دلوایا جائے جس پر معزز جج صاحب نے نوٹس لے کر چیئرمین این ایچ اے اشرف تارڑ کی سرزنش کی تھی اور اسے معاوضہ دلوایا تھاانہوں نے کہا کہ اب سارے لوگ تو عدالت میں نہیںجاسکتے ، ہم این ایچ اے اور محکمہ ریونیوکے درمیان شٹل کاک بنے ہوئے ہیں،ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم ابھی تک اسسمنٹ کر رہے ہیں،انہوں نے ”خبریں “کو بتایاکہ این ایچ اے دیکھنے میں جتنا بڑا ادارہ ہے اس میں اتنے ہی کرپٹ لوگ بیٹھے ہیں یہ تو پندرہ سال پرانا معاوضہ نہیں دے رہے یہ سی پیک کے متاثرین کو کیسے اکاموڈیت کریں گے،میری جناب ضیاشاہد سے اپیل ہے کہ پورے ملک میں این ایچ اے متاثرین کی داد رسی کروائی جائے کیونکہ پورے ملک میں این ایچ اے کام کررہا ہے مگر اس ادارے میں موجود کرپٹ عناصر لوگوں کو ان کے جائز معاوضے بھی نہیں دیتے ،انہوں نے این ایچ اے سربراہ اشرف تارڑ کی بے حسی اور وزیر مواصلات مولوی عبدالکریم کی سستی پر بھی تنقید کی۔

سڑک کے متاثرین رل گئے، چیئرمین این ایچ اے کی ہائیکورٹ میں سرزنش

لاہور(رازش لیاقت پوری سے)این ایچ اے کی ایک اور بڑی نا اہلی سامنے آگئی،نیشنل ہائی وے سیکشن 4.5کوٹ سبزل تا بہاولپورسڑک کے توسیعی منصوبے کے 70فیصد متاثرین کو15 سال گزرنے کے باوجود ان کی زمینوں کا معاوضہ نہیں دیا،کچھ متاثرین اگلے جہان چلے گئے تو کچھ ابھی تک ریونیوڈیپارٹمنٹ اور این ایچ اے دفاتر رحیم یار خان ، بہاولپور اورملتان میں جوتیاں چٹخانے پر مجبورہیں،لینڈ ایکوزیشن کلرک اور ریونیوڈیپارٹمنت ابھی تک اسسمنٹ لگانے تک محدودہے ، تفصیل کے مطابق میاںمحمد نواز شریف نے اپنے دور اقتدار میں کراچی تا ملتان کے ایل پی روڈ کے توسیعی منصوبے کا اعلان کیا تھا،اس سڑک کو دورویہ بنانے کا منصوبہ بنا،یہ منصوبہ2001 سے شروع ہوااور2004 میںمکمل ہوااس توسیعی منصوبے کے لیے مقامی لوگوں کی زمینیں بھیحاصل کی گئیں، سندھ میں تو متاثرین کو ادائیگی ہوگئی مگر کوٹ سبزل سے بہاولپور تک تقریبا250کلومیٹر کے 70فیصد متاثرین کو ابھی تک ادائیگیاں نہیں ہوئیں،مثاترین کی بڑی تعداد ضلع بہاولپور اور ضلع رحیم یار خان کے علاوہ این ایچ اے دفاتر ملتان ،بہاوپور اور رحیم یار خان میں بھی رلتی رہی، اہلکاروں سے معاملات طے ہونے کے باعث کچھ لوگوں کو تومعاوضہمل گیا مگر زیادہ متاثرین ابھی تک محروم ہیں،اس حوالے سے نیشنل ہائی وے متاثرین کمیٹی کے چئیرمین ویونین ناظم کچی محمد خان اور ملک خالد محمود نائچ نے خبریں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ این ایچ اے کے خلاف ترنڈہ محمد پناہ کی ثوبیہ اسلم نے ہائیکورٹ کے بہاولپوربنچ میں جسٹس امیرحسین بھٹی کی عدالت میں ایک کیس بھی دائر کیا تھا کہ اسے این ایچ اے سے معاوضہ دلوایا جائے جس پر معزز جج صاحب نے نوٹس لے کر چیئرمین این ایچ اے اشرف تارڑ کی سرزنش کی تھی اور اسے معاوضہ دلوایا تھاانہوں نے کہا کہ اب سارے لوگ تو عدالت میں نہیںجاسکتے ، ہم این ایچ اے اور محکمہ ریونیوکے درمیان شٹل کاک بنے ہوئے ہیں،ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم ابھی تک اسسمنٹ کر رہے ہیں،انہوں نے ”خبریں “کو بتایاکہ این ایچ اے دیکھنے میں جتنا بڑا ادارہ ہے اس میں اتنے ہی کرپٹ لوگ بیٹھے ہیں یہ تو پندرہ سال پرانا معاوضہ نہیں دے رہے یہ سی پیک کے متاثرین کو کیسے اکاموڈیت کریں گے،میری جناب ضیاشاہد سے اپیل ہے کہ پورے ملک میں این ایچ اے متاثرین کی داد رسی کروائی جائے کیونکہ پورے ملک میں این ایچ اے کام کررہا ہے مگر اس ادارے میں موجود کرپٹ عناصر لوگوں کو ان کے جائز معاوضے بھی نہیں دیتے ،انہوں نے این ایچ اے سربراہ اشرف تارڑ کی بے حسی اور وزیر مواصلات مولوی عبدالکریم کی سستی پر بھی تنقید کی۔

خبریں میں خبروں کی اشاعت پر نیب نے نیشنل ہائی وے کیخلاف تحقیقات کا حکم دیا

ملتان (نمائندہ خصوصی) نیب نے ”خبریں“میں خبروں کی اشاعت پر نیشنل ہائی وے اتھارٹی کےخلاف تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔اس ضمن میں ایک درخواست نیب ملتان اور دوسری درخواست نیب اسلام آباد کو دے دی گئی۔ان درخواستوں میں مو¿قف اختیار کیا گیاہے کہ روزانہ کی بنیاد پر ایک ٹول پلازہ سے تقریباً 16لاکھ روپے ان ٹال پلازوں کے قریبی مقامی بینکوں میں بے نامی اکاﺅنٹ میں پیسے جمع کروائے جاتے ہیں جس کا نیشنل ہائی وے کے پاس کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ان کے خلاف انکوائری کرکے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اور ذمہ دار افراد کا تعین کرکے ملک و قوم سے لوٹی ہوئی رقم برآمد کرکے قرار واقعی سزادی جائے۔نیب نے درخواست موصول ہوتے ہی نیشنل ہائی وے اتھارٹیز کےخلاف تحقیقات کا آغاز کردیاہے۔

این ایچ اے میں چینل ۵ کی ٹیم کو یرغمال بنانے کی کوشش

ملتان (نمائندہ خصوصی) نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی طرف سے ملک بھر کی مختلف شاہرات پر بنائے گئے غیرقانونی ٹال پلازوں کی تعداد 10سے بڑھ کر 14ہوگئی ہے اور مزید انکشافات بھی سامنے آرہے ہیں۔نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی ویب سائیٹ سے ہٹ کر جن چار مزید ٹال پلازوں کے غیرقانونی طور پر کام کرنے کی تصدیق ہوئی ہے ان میں فاضل پور ضلع راجن پور، گھوٹکی سندھ، ہیڈ محمد والا، کنڈو یارو شامل ہیں۔ چیئرمین نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے فوری حکم پر ملتان میں این ایچ اے کے ریجنل آفس میں سکیورٹی سخت کرتے ہوئے تمام صحافیوں کا داخلہ بند کردیاگیاہے اور سختی سے عملے کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ کسی بھی اخبار نویس یا میڈیا پرسن سے کسی بھی قسم کا رابطہ نہ رکھیں۔گزشتہ روز روٹین میں ملتان کے بعض رپورٹرز ہفتہ وار بریفنگ لینے پہنچے تو گیٹ سے انہیں اندر ہی داخل نہ ہونے دیاگیا اور بتایا گیا کہ چیئرمین نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے حکم پربریفنگ کا سلسلہ روک دیاگیاہے۔روزنامہ خبریں کو بتایا گیا ہے کہ غیر قانونی ٹال پلازوں کا انکشاف 6اپریل 2015ءمیں اتھارٹی کو ہوا تو چیئرمین نے فوری طور پر افسران سمیت عملے کے 11ارکان کو معطل کردیا جبکہ 8کو ٹرانسفر کردیا مگر حیران کن طور پر ان غیرقانونی ٹال پلازوں میں سے کسی کو نہ تو بند کیا اور نہ ہی ان کو قانونی شکل دینے کے لیے اجلاس سے منظوری لی گئی۔روز نامہ خبریں کو رحیم یارخان کے ایک گڈز ٹرانسپورٹ کے مالک ملک ارشد نے بتایا کہ ان ٹول پلازوں کے عملے نے اپنے کیبن میں جعلی کرنسی بھی رکھی ہوئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ قطب پور ، جہانیاں کے ٹال پلازہ پر جب ان کو ڈرائیور نے ایک ہزار روپے کا نوٹ دیا جو پرانا نوٹ تھا تو وہاں بیٹھے عملے کے رکن نے نوٹ جان بوجھ کر کیبن کے اندر زمین پر پھینک دیا اور پھر زمین پر سے ایک ہزار روپے کا نیا نوٹ اٹھاکر کہاکہ تم نے جعلی نوٹ دیا ہے پھر ڈرائیور کو تشدد کا نشانہ بنایا اور ایک ہزار کا نوٹ بھی رکھ لیا جبکہ 240روپے بھی اضافی وصول کرلیے۔انہوں نے بتایا کہ ہائی وے پولیس بھی ٹول پلازے کے عملے کے ساتھ ہوتی ہے اور ظلم میں شریک ہوجاتی ہے۔روزنامہ خبریں کو معلوم ہوا کہ ان غیرقانونی ٹال پلازوں میں سے ایک رانی پور کے پیروں کے خاص مریدین کے پاس جوکہ علاقے میں خوف و ہراس پھیلائے رکھتے ہیں۔اس طرح بستی ملوک والا بھی ایک رکن قومی اسمبلی کے قریبی لوگ ایک سال تک چلاتے رہے۔بعد میں اس پر ٹھیکہ کسی اور نے لے لیا اور ان غیرقانونی ٹھیکیداروں کا بھی نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ریکارڈ میں کوئی ذکر نہیں۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی ہی کے ایک سابق آفیسر نے روزنامہ خبریں کو بتایا کہ اگر کبھی کوئی ادارہ یا نیب ملک بھر میں ان کے تشہیری بورڈ کی تعداد اور ان کا تمام ریکارڈ قبضے میں لیکر تحقیقات کرے تو ایک اور پانامہ سامنے آجائے گا۔بتایا گیا کہ سیکرٹری این ایچ اے کا عہدہ بھی ڈیڑھ سال تک چیئرمین کے پاس رہا اور اس دوران اربوں روپے کی گرانٹس جاری کی گئیں۔اسی سلسلہ میں بستی ملوک کے غیرقانونی ٹال پلازہ پر احتجاج کیاگیا کہ اربوں روپے کھانے والے افسران کےخلاف فوری کارروائی کی جائے۔

 

نوابزادہ غضنفر گل پیپلز پارٹی چھوڑ کر ن لیگ میں شامل

اسلام آباد (آئی این پی) پیپلز پارٹی کے دست راست سابق وفاقی وزیر نوابزادہ غضنفر گل نے پیپلز پارٹی سے تیس سالہ تعلق توڑ کر پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شمو لیت کا اعلان کرتے ہوئے پیپلز پارٹی چھوڑنے کا ذمہ دار زرداری کو قرار دے دیا اور کہا ہے کہ میں پیپلز پارٹی سے ناراض نہیں ہوں، پیپلز پارٹی اب کمرشل اور اسٹیبلشمنٹ کی سرنگ میں گھسنے کی کوشش کر رہی ہے،تیس سال پیپلز پارٹی کے ساتھ سڑک پر رہا۔تھوڑی سی زندگی باقی ہے ن لیگ کے ساتھ سڑک پر گزار لونگا۔ تفصیلات کے مطابق پیپلز پارٹی کے دست راست سابق وفاقی وزیر نوابزادہ غضنفر گل نے پیپلز پارٹی سے تیس سالہ تعلق توڑ کر پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شمو لیت کا اعلان کر دیا ہے انہوں نے پیپلز پارٹی چھوڑنے کا ذمہ دار زرداری کو قرار دے دیا اور کہا کہ میں پیپلز پارٹی سے ناراض نہیں ہوں۔ بس اب وہاں فٹ نہیں ہوتا کیو نکہ پیپلز پارٹی اب کمرشل ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا گڑھی کا مجاور ہوں۔ نواب شاہ کا درباری نہیں بن سکتا۔ تیس سال پیپلز پارٹی کے ساتھ سڑک پر رہا۔تھوڑی سی زندگی باقی ہے ن لیگ کے ساتھ سڑک پر گزار لونگا۔ میں ن لیگ میں ہوں اب۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح چوہدری برادران اور بی بی کے قاتلوں کو ساتھ ملا کر پیپلز پارٹی کو پنجاب میں ختم کرالیا اب اسی طرح پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی بنی تو سندھ میں بھی ختم ہو جائے گی۔ نوابزادہ غضنفر گل نے کہا اگلے سیاسی سفر کا اعلان کر دیا باضابط اعلان کی کیا ضرورت ہے کوئی نکاح تھوڑی پڑھوانا ہے۔نواز شریف انٹی اسٹیبلشمنٹ پارٹی بن کر ابھر رہا ہے۔پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی سرنگ میں گھسنے کی کوشش کر رہی ہے۔

2010ء سے تاحال ملک بھر میں پولیس میں تشددکے واقعات

لاہور (شعےب بھٹی سے) پاکستان میںپولیس کی جانب سے ملزموں اور بے گناہ افراد پرتشدد کرناکوئی نئی بات نہیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے جبکہ بعض اوقات متاثرہ افراد تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق بھی ہو جاتے ہیں ۔ پولیس تشدد کے واقعات میں پنجاب پولیس پہلے نمبر پر ہے جبکہ سندھ پولیس دوسرے نمبر پر ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں تحقیق اور جدید سائنسی طریقوں میں پولی گرافک ٹیسٹ کے متعا رف کے با وجود 2010سے رواں سال کے10ما ہ کے دوران پاکستان بھر سے پولیس تشدد کے کل29584واقعات رپورٹ ہوئے ہیں ۔ خبرےں کی تحقےقات ر پو رٹ کے مطابق 26 جون 1987ءکو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے زیر حراست ملزمان پر قبول جرم کے لیے بہیمانہ تشدد، انسانیت سوز اور توہین آمیز برتاﺅ کے خلاف کنونشن کی منظوری دی تھی۔ جون 2010ءمیں حکومت پاکستان نے بھی اس کنونشن کی توثیق کر دی تھی۔ مگر ملک میں تھانہ کلچر تبدیل نہ ہونے کی وجہ سے ہماری ریاست کا سیاسی، سماجی اور انتظامی ڈھانچہ پولیس تشددکی وجہ سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے پولیس تشدد کا شکار بیشتر لوگ ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ دوران تفتیش زیرحراست افراد پرتھرڈ ڈگری تشدد کے اس قدر ظالمانہ اور سفاکانہ طریقے اختیارکئے جاتے ہیں کہ جن کے ذکر سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جن میں”چھترمارنا” ,ڈانگ پھیرنا، چھت سے لٹکانے کے مختلف طریقے، رسہ پر چڑھانا، پنکھا چلانا، پاﺅں اور سر کو رسی سے باندھ کر ایک کر دینا، شلوار میں چوہے چھوڑنا، ٹائر ڈالنا،گوبر لگانا، ٹانگیں رسی سے باندھ کر چوڑی کرنا، جسم کے نازک حصوں کو مختلف طریقوں سے ضرب دے کر تکلیف پہنچا نا،پان لگانا، سگریٹ سے داغنے کے علاوہ غلیظ گالیاں دینا مقدمہ میں ملوث افراد کے اہل خانہ کو گرفتار کر کے ان کی تذلیل و بے حرمتی کرنا، خواتین ملزموں کے ساتھ ذےا تی جیسے طریقے شامل ہیں۔ پولیس تشدد کے واقعات میں پنجاب پولیس پہلے نمبر پر ہے جبکہ سندھ پولیس دوسرے نمبر پر ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں تحقیق اور جدید سائنسی طریقوں کے متعارف کیے جانے کے بعد یہ تصور ابھرا کہ کسی جرم کی تفتیش اور اقبالِ جرم کے لیے مشکوک فرد یا افراد پر تشدد کے علاوہ دیگرسائنسی طریقے جیسے پولی گرافک ٹیسٹ اور نفسیاتی طریقے بھی اختیار کیے جا سکتے ہیںجو خاصی حد تک کامیاب ہیں پاکستان میں جہاں پوراریاستی ڈھانچہ جوابدہی کے جھنجٹ سے آزاد ہے پولیس کو کھل کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے ۔ نوآبادیاتی دور کے انتظامی ڈھانچے،میرٹ کی جگہ کوٹے، قابلیت کی جگہ سفارش اور اہلیت کی جگہ رشوت اور سیاسی تقرریوں کی وجہ سے پولیس عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے حکمرانوں اور با اثر افراد کی آلہ کار بن گئی۔تشدد پولیس کے پاس ایک ایسا حربہ ہے جس کے ذریعے کسی بھی ملزم سے کوئی جرم منوایا جا سکتا ہے۔ پنجاب پولیس کے تربیتی اداروں میں بھی پولیس افسروں اور اہلکاروں کو تفتیش کیلئے سائنسی بنیادوں پر تربیت دینے کی بجائے روایتی طریقوں سے تشدد اور بد تمیزی کا سبق دیا جاتاہے۔ فیلڈ میں پولیس اہلکار اپنے بڑوں سے تفتیش کا ایک ہی گر سیکھتے ہیں کہ دوران تفتیش مغز ماری اور محنت کرنے کی بجائے ملزم کو تشدد لگاﺅ اور اس سے اپنی مرضی کا بیان لیکر اور جرم منوا کر چالان کر دو۔ مقدمہ کے اندارج کے بعد تفتیشی افسر جب ملزم کو گرفتار کر کے اس کا جسمانی ریمانڈلیتا ہے تو ہمارے ہاں جسمانی ریمانڈ تفتیش کا ایک ہی گر سیکھتے ہیں کہ دوران تفتیش مغز ماری اور محنت کرنے کی بجائے ملزم کو تشدد لگاﺅ اور اس سے اپنی مرضی کا بیان لیکر اور جرم منوا کر چالان کر دو۔ مقدمہ کے اندارج کے بعد تفتیشی افسر جب ملزم کو گرفتار کر کے اس کا جسمانی ریمانڈلیتا ہے تو ہمارے ہاں جسمانی ریمانڈ کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ اب پولیس کو ملزم پر تشدد کرنے کا قانونی حق مل گیا ہے۔ حالانکہ پولیس کو کسی بھی زیر حراست ملزم پر تشدد اور خاص طور پر سرعام تشدد کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ تفتیشی افسر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی پیشہ وارانہ مہارت سے جرام کا سراغ لگائے۔بااثر افراد کے قائم کیے ہوئے عقوبت خانے طاقت کے اظہار کا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں، اس لیے حکمرانوں، سیاستدانوں اور مراعات یافتہ طبقے کی شہ پر پولیس نے بھی تھانوں میں عقوبت خانے قائم کیے ہوئے ہیں، جہاں مختلف تعزیرات کو بنیاد بنا کر ملزمان پر اقبال جرم کے لیے بدترین تشدد کیا جاتا ہے۔ اس تشدد کے نتیجے میں اندرونی چوٹوں کی تاب نہ لاتے ہوئے کئی ملزمان اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ مگر ایسا بہیمانہ تشدد کرنے والوں کو کبھی عدالت کے کٹہرے میں پیش نہیں کیا جاتا۔ عدالتی مداخلت اور میڈیا سمیت سول سوسائٹی کی تھانوں تک رسائی پر پولیس نے اپنے رویے تبدیل کرنے کے بجائے ان عقوبت خانوں کو تھانوں سے باہر نجی مقامات پر منتقل کر دیا ہے۔جہاں ملزمان کو عدالت میں پیش کیے بغیر کئی کئی روز تک بدترین اور بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور انھیں اقبال جرم پر مجبور کیا جاتا ہے۔ تشدد کے نتیجے میں ملزم کے مر جانے کی صورت میں اس کی لاش کسی ویرانے میں پھینک دی جاتی ہے۔جبکہ یہاں بے گناہ شہریوں کو ہراساں کر کے ان سے رقم بٹوری جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نجی طور پر قائم کردہ پولیس کے عقوبت خانے اوپر سے نیچے تک پولیس افسران اور اہلکاروں کی ناجائز آمدنی کا ذریعہ بن چکے ہیں۔پاکستان پینل کوڈ اور کرمنل پروسیجر کوڈ پولیس کو پابند کرتا ہے کہ وہ کسی بھی جرم کے شک میں گرفتار کیے گئے ملزم کو 24 گھنٹوں کے اندر فوجداری عدالت کے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر کے اس سے تفتیش کے لیے ریمانڈ حاصل کرے، مگر بیشتر کیسوں میں ایسا نہیں کیا جا رہا۔ پولیس ایکٹ کی دفعہ156کے تحت تشدد کرنے والے پولیس ملازمین کو 3سال کی قید ہو سکتی ہے جبکہ تعزیرات پاکستان کے تحت پولیس تشدد، زخم لگانے یا حبس بے جا میں رکھنے کی سزا بھی موجود ہے اورکسی بھی زیر حراست یا گرفتار ملزم پر تشدد قابل دست اندازی پولیس جرم ہے۔ اورذمہ دار پولیس افسر یا اہلکار کو پانچ سال قید اور جرمانہ کی سزا دی جا سکتی ہے تا ہم تشدد کا جرم قابل راضی نامہ ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منظور کیے گئے چارٹر کے مطابق ہر وہ شخص (ملزم) بے گناہ اور معصوم ہے، جب تک کہ عدالت اس پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے اسے اس جرم کا مرتکب قرار نہیں دے دیتی۔ پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے کسی بھی ادارے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ عدالتی ریمانڈ کے بغیر کسی بھی شہری کو اپنی تحویل میں 24 گھنٹے سے زائد عرصے کے لیے رکھے۔ایک رپورٹ کے مطابق جن خاص خاص شہروںمیں پولیس تشدد کے سب سے زیادہ واقعات رونماہوئے ان میںلاہورسر فہرست رہا اس کے بعدملتا ن ، فیصل آباد، سیالکوٹ، کراچی، سکھر، خےرپور، نواب شاہ ، حےدرآباد اور گجرانوالہ شامل ہےں۔ذرا ئع کے مطا بق2010سے رواں سال کے10ما ہ کے دوران پاکستان بھر سے پولیس تشدد کے کل29584واقعات رپورٹ ہوئے۔ اعداد و شمار کے سالانہ جائزے کے مطابق 2010 میں 931 ، 2011 میں1855 ، 2012 میں1996، 2013 میں 8238، 2014 میں2980، 2015 میں3356، 2016 میں4662، 2017 کے 10ما ہ کے دوران 5566 واقعات ہوئے جبکہ ہر سال ان واقعات کی تعداد میں اضافہ ہو رہاہے ۔ذرائع کے مطابق ملک بھر میں پولیس تشدد کی ہر ماہ سےنکڑوں شکایات موصول ہوتی ہیں۔ سابق گورنر سلمان تاثیر کو لاہور کے مصطفیٰ آباد تھانے میںتشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ نیلام گھر والے طارق عزیز کو پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ وزیر قانون رانا ثنا اللہ کو فیصل آباد کے ایک تھانے میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ سابق صدر آصف علی زرداری پر کراچی میں پولیس تشدد ہوا ۔ جاوید ہاشمی، ملک قاسم ، رانا نذر الرحمان پر تشدد کیا گیا۔ جبکہ لاتعداد سیاسی ورکروں کوتشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ مہذب معاشرے میں قانون کی حفاظت کرنے والوں سے اس طرح کی قانون شکنی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

سودخور سودسمیت وصولیوں کے باوجو دزمینوں پر قابض غریب سے بیٹیاں مانگ لیں

شہر سلطان‘ علی پور‘ بھنڈی کورائی‘ مانہ احمدانی‘ خیر پور ڈاہا‘ خان پور نورنگا‘ احسان پور (نمائندگان) سودخوروں کے ستائے متاثرین ”خبریں“ کو آخری سہارا سمجھتے ہوئے رابطے کرنے لگے۔ ظالم سودخور اصل زر سود سمیت وصولیوں کے باوجود رقبوں پر قبضے‘ بیٹیوں کے رشتے مانگنے لگے‘ محنت کش کی مشینری کوٹھی پر منگواکر دینے سے انکار‘ غریب کے گھر میں فاقے ہونے لگے۔ شہر سلطان سے نامہ نگار کے مطابق بیربند کے رہائشی خلیل احمد نے پریس کلب شہر سلطان میں میڈیا کو بتایا کہ اس نے علاقہ کے رہائشی جلال احمد سے 30ہزار لئے اور ایک لاکھ بیس ہزار وصول کرنے کے باوجود مزید 78ہزار کا تقاضا کررہاہے۔ میرے خالی کاغذات پر انگوٹھے لگواکر اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ کاغذات واپس کرائے جائیں۔ اس سلسلہ میں آر پی او ڈیرہ غازی خان‘ ایس پی مظفر گڑھ کو بھی درخواست گزاری ہے جبکہ اس سلسلہ میں جگنو موڑ کے منیجر بلال احمد نے بتایا کہ خلیل احمد نے قرض حسنہ نہیں سی ڈی 125 موٹرسائیکل اپنی بیوی کے سامنے ایک لاکھ اٹھائیس ہزار میں قسطوںپر لیا۔ 50ہزار ادائیگی کے بعد نیت میں فتور آگیا۔ رقم دینے کے بجائے کارروائی کی دھمکیاں دینے لگا ہے۔ علی پور سے نمائندہ خبریں کے مطابق محلہ فاروقیہ کے شیخ شہباز علی نے بتایا کہ ضرورت کاروبار چلانے کے لئے شیخ محمد یوسف سے پانچ لاکھ کی رقم سود پر لی۔اور ہر ماہ تیس ہزار کی رقم سود کی مد میں ادائیگی کرتا رہا۔پانچ لاکھ کی رقم پر سات لاکھ سود کی ادائیگی کر چکا اور اصل زر پانچ لاکھ بھی مبینہ سود خور یوسف کو ادا کر دیئے لیکن شیخ یوسف نے مزیدپندرہ لاکھ کا تقاضا کردیا۔ اسے معززین کے ہمراہ سمجھایا مگر اس نے تھانہ سٹی علی پور میں بلینک چیک پر پندرہ لاکھ کی رقم لکھ کر اس پر جعلی چیک کا مقدمہ درج کرا دیا۔شہباز علی متاثرہ نے مزید بتایا کہ وہ اپنے بچوں کا پیٹ موجودہ پوزیشن میں بڑی مشکل سے بھر رہا ہے۔تمام جمع پونجی مذکورہ سود خور نے اینٹھ لی۔ اب وہ اتنی بڑی رقم دینے کے قابل نہیں رہا ہے۔لیکن سودخور اسے پولیس کی جانب سے ہراساں کر رہا ہے۔ اس نے عبوری ضمانت کرارکھی ہے۔ڈی پی او مظفرگڑھ‘ آر پی او ڈیرہ غازیخان‘ آئی جی پنجاب پولیس نوٹس لیتے ہوئے سود خور کے جھوٹے مقدمہ سے حقائق پر تحقیقات کرکے اس کی جان بخشی کرائیں ۔اور چیک کا جھوٹا مقدمہ خارج کراتے ہوئے اس کے دیگر دستاویزات بھی سودخور سے واپس دلائیں۔رابطہ پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ معاملہ کو باریک بینی سے دیکھ رہے ہیں۔معاملہ جعلی چیک کا نظر نہیں آتا۔میرٹ پر مقدمہ کو یکسو کریں گے۔بھنڈی کورائی سے نمائندہ خبریں کے مطابق بیٹ میرہزار خان کے سود خور پنوں طہرانی نے لنڈی پتافی کے سیلاب متاثرہ سلیم سے 3لاکھ روپے کے بدلے 12لاکھ روپے بٹور لئے۔سلیم نے ”خبریں“ کو بتایا کہ 2010ءمیں اس کا لنڈی پتافی میں مکان سیلاب کی وجہ سے گر گیا تو اس نے مکان بنانے کیلئے سود خور سے رقم ادھار لی سود خور نے مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رقم پر سود لگانا شروع کر دیا جس کے عوض اس نے 12لاکھ بٹور لئے۔ متاثرہ نے بتایا کہ میں نے اپنا زرعی رقبہ فروخت کرکے سود خور کو رقم ادا کی جس کی وجہ سے اب بیٹھنے کیلئے میرے پاس جگہ بھی نہیں ہے۔سود خور نے مجھے کنگال کردیا ہے ۔متاثرہ سلیم نے کہا روزنامہ” خبریں” مظلوم کی آواز بن چکا ہے۔ متاثرہ سلیم نے ڈی پی او مظفر گڑھ سے مطالبہ کیا ہے کہ سود خور پنوں طہرانی سے میری لوٹی گئی رقم واپس دلوائی جائے۔مانہ احمدانی سے نامہ نگار کے مطابق مانہ احمدانی کی نواحی بستی سہارن کےرہائشی قاسم سہارن نے 8سال قبل بیوی کی ڈلیوری کےلئے قاسم نتکانی سے3700روپے ادھار لئے۔ قاسم نتکانی نے بطور گارنٹی بلینک پرونوٹ پر دستخط اور شناختی کارڈ کی کاپی لے لی تھی۔ مظلوم قاسم سہارن نے6ماہ بعداس کو 4000رقم واپس کردی تھی جب پرونوٹ واپسی لینے کا مطالبہ کیاتووہ آج کل پرٹرخاتا رہا۔ واپس نہ کیا بعد میں ٹریکٹر ڈرائیور قاسم سہارن مزدوری کے سلسلے میں سعودی عرب چلاگیا،پیچھے قاسم نتکانی نے اسی بلینک پرونوٹ پر30لاکھ روپے کی لکھ کرزرنقد کا دعویٰ عدالت میں کردیا۔عدالت سے یکطرفہ 30 لاکھ ڈگری کرواکر10کنال رقبہ 13لاکھ میں اپنے نام کروادیا۔باقی 17لاکھ ڈگری رقم میں جب قاسم سہارن سعودی عرب سے واپس آیا تواس کو 17-9-12کوگرفتارکروادیاہے،تقریبا ڈیڑھ ماہ سے گھرکاواحدکفیل قاسم سہارن جیل میں بندہے۔اب قاسم نتکانی کاکہناہے کہ باقی 17لاکھ میں 2بیٹیاں دےدو ورنہ آپ کا شوہرقاسم سہارن ساری زندگی جیل میں رہے گا۔ قاسم ڈرائیور کی بوڑھی والدہ پھاپھل مائی جوکہ فالج کی مریضہ ہے کا کہنا ہے قاسم ڈرائیورکے چھوٹے 5بچے ہیں اب نوبت فاقوں تک آگئی ہے‘ ہماری زمین 10کنال ہے وہ ڈگری کرواکراپنے نام کروائی ہے۔ متاثرہ خاندان نے اعلیٰ حکام سے انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔ خیر پور ڈاہا سے نامہ نگار کے مطابق خیر پور ڈاہا کے نواحی موضع ودھنور کے رہائشی اللہ ڈتہ ولد محمد کالو نے اہالیان علاقہ کے ہمراہ احتجاج کرتے ہوئے بتایا کہ سودخور عبدالعزیز ولد خدا بخش سکنہ محلہ عباسیاں احمد پور شرقیہ میرے پاس اپنے رشتہ دار حماد اللہ ولد مرید احمد سکنہ ودھنور کے ہمراہ آیا اور کہا کہ وہ احمد پور شرقیہ میں کوٹھی تعمیر کررہا ہے جس کی ونڈودروازے وغیرہ بنوانے کے لئے ریٹ طے ہونے کے بعد بالترتیب دو لاکھ رقم میرے حوالے کی جس کے لئے میں نے تقریباً تین لاکھ روپے کی لکڑی خرید کر خشک کرنے کے لئے کٹواکر رکھ دی۔ تقریباً تین ماہ بعد جب میں نے فرنیچر کی تیاری کے لئے کام شورع کیا تو عبدالعزیز میرے پاس آیا اور کہا کہ فرنیچر تیار کرنے کے لئے لکڑی اور مشینری احمد پور شرقیہ میری کوٹھی پر لے چلو تاکہ موقع پر فرنیچر تیار ہوسکے۔مشینری اور لکڑی الزام علیہ عبدالعزیز کے گھر پہنچاکر دوسرے دن جب میں کام کرنے کے لئے ان کی کوٹھی احمد پور شرقیہ پہنچا تو وہاں پر کوئی اور کاریگر کام کررہا تھا۔ جب میں نے عبدالعزیز سے رابطہ کیا تو اس نے یہ کہہ کر میری مشینری مالیتی ساٹھ ہزار روپے اور لکڑی کی بقایا رقم ایک لاکھ روپے واپس دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ تم نے میری رقم دو لاکھ روپے تین ماہ اپنے پاس رکھی ہے منافع کے طور پر تمہاری مشینری اور رقم نہیں دوں گا۔ سودخور عبدالعزیز نے کہا کہ میرے دو لاکھ چار ماہ استعمال کرنے پر ایک لاکھ 60ہزار منافع بنتا ہے تمہاری تین لاکھ کی لکڑی آچکی ہے بقایا ساٹھ ہزار دے جاﺅ اور اپنی مشینری لے جاﺅ۔ متاثرہ نے اہالیان علاقہ کے ساتھ سودخور عبدالعزیز کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے حکام بالا اور چیف ایڈیٹر روزنامہ خبریں جناب ضیا شاہد سے مدد کی اپیل کی ہے۔ عبدالعزیز نے اپنے مو¿قف میں کہا کہ مشینری اور لکڑی میرے پاس ہے حساب کرکے لے جائیں۔خان پور نورنگا سے نمائندہ خبریں کے مطابق موضع نہڑ والی کے رہائشی محمد صفدر راجپوت نے ”خبریں“ کو بتایا کہ اس نے فصل کے لئے کھاد اور زرعی ادویات الحمدللہ زرعی سروس سمہ سٹہ کے ڈیلر ملک خالد محمود سے ادھار لیں جس کی ضمانت کے طور پر اس نے مجھ سے خالی اسٹامپ پیپر اور خالی چیک لیا۔ میں نے کل رقم 177675 روپے کی ادویات و کھاد منافع سمیت لی اور مختلف اوقات میں 141000روپے جمع کروائے۔ جب چیک و اسٹامپ پیپر واپس لینے کے لئے متعلقہ ڈیلر کے پاس گیا اور اسے بقایا رقم (36675) دے کر اپنے کاغذات واپس کرنے کو کہا تو اس نے کہا کہ تمہارے ذمہ چار لاکھ روپے باقی ہیں وہ رقم دو گے تو چیک واپس ہوگا۔ میں نے منت سماجت کی کہ میں غریب آدمی ہوں آپ کی رقم واپس کردی ہے تو وہ دھمکیاں دینے لگا اور کہا کہ میں تمہاری زمین پر قبضہ کرلوں گا۔ اور مقدمہ درج کرواکر تمہیں اندر کرادوں گا۔ میری ”خبریں“ کے توسط سے آر پی او بہاولپور او رڈی پی او بہاولپور سے درخواست ہے کہ سودخور کے خلاف کارروائی کرکے میرا چیک و اسٹامپ واپس کروایا جائے۔احسان پور سے نمائندہ خبریں کے مطابق سود خور سے متاثرہ جام عبدالواحد نے گزشتہ روز ”خبریں“ کو بتایا کہ سود خور الطاف زمان پر منی لینڈنگ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہوگیا ہے اور چند دنوں سے وہ جیل میں ہے مگر اس کے گروہ کی طرف سے خطرناک نتائج کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ الطاف زمان نے رکن پور‘ ڈوڈی سانگھی اور کچی زمان میں کئی لوگوں کو برباد کیا لاکھوں روپے سود لگاکر لوگوں کے گھر اجاڑدیئے۔اس نے ایک نوجوان عبدالرزاق کورائی 30ہزار روپے کے عوض اس سے لاکھوں روپے سود لیا۔ اس کے مویشی اور گھر تک بک گیااور اب وہ دربدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہے۔اس کے علاوہ اللہ دتہ۔منیر احمد۔حاجی احمد اور اس طرح کے درجنوں متاثرین ھیں۔انھوں نے بتایا کہ سود خوری کے ساتھ ساتھ الطاف زمان نے کئی غریب لوگوں کی عزتوں سے بھی کھیلا۔ سود خور نے تین سال پہلے خلیل احمد کی دو کمسن بچیاں اور بیوی کو اٹھالیا تھا جو پریشان حال اِدھر اُدھر پھر کر اللہ رب العزت کی عدالت میں انصاف کے لئے درخواست گزار ہے مگر دو ہفتے پہلے عدالت نے اس حوالے سے بھی کارروائی کا حکم دے رکھا ہے جس کا مقدمہ تھانہ رکن پور میں درج ہونا ابھی باقی ہے۔عبدالواحد نے ”خبریں“ کے توسط سے اسے قرار واقعی سزا دلانے کی اپیل کی ہے۔
سود

شیخو پورہ:غریب گھرانوں کی خوبرو لڑکیوں کو ملازمت کا جھانسہ دیکر فروخت کرنے کا انکشاف

شیخوپورہ(بیورورپورٹ)شہر میں غریب گھرانوں کی خوبرو لڑکیوں کو امیر گھرانوں میں ملازمت دلانے کی آڑ میںانہیں اغوا کرکے لاہور کے مختلف گیسٹ ہاﺅسز اور راجن پور سمیت بیرون ملک فروخت کرکے ان سے جسم فروشی کا دھندا کروانے میں ملوث مرد وخواتین پر مشتمل ایک گروہ کا انکشاف ہوا ہے اس گروہ کو مبینہ طور پر بعض پولیس اہلکاروں کی بھی پشت پناہی حاصل ہے اس گروہ میں تین مرد اور پانچ خواتین شامل ہیںاس بات کا انکشاف اس وقت ہوا جب مقامی آبادی غریب آباد کے محنت کش محمد اسلم کی جوان سالہ حافظ قرآن بیٹی کو اسکی سوتیلی ماں نے گروہ کے سرغنہ محمد اعظم کے ہاتھوں فروخت کردیا جو دو سال بعد ملزمان کے چنگل سے فرار ہوکر گھر پہنچ گئی اور بعدازاں اس نے عدالت میں رو رو کر داستان ظلم سنادی عدالت کے حکم پر لڑکی کا میڈیکل کروانے کے بعد تھانہ صدر پولیس نے ملزمان محمد اعظم اور اسکے ساتھیوں سرفراز ،خواتین سوتیلی ماں شیریں بی بی ،سرداراں بی بی ،سکینہ بی بی ،ثانیہ بی بی ، نائیکہ شبنم بی بی کیخلاف مقدمہ درج کرلیا ہے تاہم پولیس گروہ کے کسی بھی ملزم کو گرفتار نہیں کرسکی جبکہ ایک اے ایس آئی ملزمان کو بچانے کی کوشش کررہا ہے بتایا گیا ہے کہ حافظ قرآن (ث)کو دو سال قبل اسکی سوتیلی ماں شیریں بی بی بہانہ سے غریب آباد کی رہائشی خاتون شبنم بی بی کے پاس لےجا کر فروخت کردیا شبنم بی بی نے لڑکی کو زبردستی اس سے جسم فروشی کا دھندا کروانا شروع کردیا اور اس دوران ملزم شہزاد کو کمرے کے باہر پہرہ پر بیٹھا دیا اور وہ بھی اس سے زیادتی کرتا رہا (ث) کے انکار پر مذکورہ خاتون اس کے ساتھی اس پر تشد د بھی کرتے رہے بعدازاں اس نے لڑکی کو سکینہ بی بی کے ہاں فروخت کردیا ،سرداراں بی بی نے بھی اس سے زبردستی جسم فروشی کا دھندا بھی شروع کروادیا اور اسکا بیٹا سرفراز بھی اس کی نگرانی کرنے کے ساتھ وہ بھی مجھ سے زیادتی کرتا رہا جہاں بھی بدکاری سے انکار پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا چند روز بعد سکینہ اور سردار اں بی بی نے ملکر جوہر ٹاﺅن لاہور کے رہائشی اعظم کے پاس پانچ لاکھ روپے میں (ث) کو فروخت کردیا جہاں ملزم خود ایک ماہ تک اپنی ہوس کا نشانہ بناتا رہا اور اسکی عدم موجودگی میں اس کا بیٹا حسن زیادتی کرنے کیساتھ زبردستی شراب ،چرس ،ہیروئن ،کوکین آئیز وغیرہ کا نشہ بھی کرواتے رہے یہ سلسلہ دوسال تک جاری رہا لڑکی نے انکشاف کیا کہ بعض راتوں کو اس کیساتھ اجتماعی زیادتی بھی ہوتی رہی زیادتی کرنیوالوںمیں بعض پولیس اہلکار بھی شامل ہیں جس کو سامنے آنے پر شناخت کرسکتی ہوںلڑکی نے بتایا کہ ملزم اعظم کو بااثر شخصیات نے پیس افسران کی اشیر باد حاصل ہے اور اسکے گھر میں جرائم پیشہ لوگوں کا آنا جانا رہتا ہے جہاں اور دیگرشہروں سے اغوا کی گئی لڑکیوں سے ملزم اعظم جسم فروشی کا دھندا کروا رہا ہے اس دھندا میں ملزم اعظم کی بیوی زرینہ ، بیٹا حسن اور اسکی دوسری بیوی بھی شامل ہے لڑکی نے بتایا کہ ملزم اعظم نے اپنے برادرنسبتی اویس کیساتھ زبردستی نکاح کروانے کی کوشش کی اور مختلف کاغذات پر زبردستی انگھوٹھے بھی لگو ا لیے اس دوران (ث) کو دبئی فروخت کرنے کا بھی پلان تیارکیا گیا مگر 8 نومبر کی درمیانی شب ملزمان کے چنگل سے بھاگنے میں کامیاب ہوکر اپنے ننھیاں کے قریب پہنچ گئی جنہوں نے (ث) کو گھر پہنچایا لڑکی نے انکشاف کیا کہ یہ گروہ پنجاب کے مختلف علاقوںسے مختلف خواتین کی مدد سے لڑکیوں کو اغوا کرنے کے بعد ان سے جسم فروشی کا دھندا کروا رہے ہیں اس کے لیے انکو پولیس افسران اور بااثر شخصیات کی مکمل پشت پناہی بھی حاصل ہے۔

قصور :معصوم بچی سے زیادتی کرنیوالا شیطان صفت ملزم گرفتار نہ ہوسکے

قصور (ڈسٹرکٹ رپورٹر) پانچ سالہ (ف) کے ساتھ زےادتی کے ملزم چار ماہ بعد بھی گرفتار نہ ہوسکے، ابرار عرف بڈھا، اکبر اور وقاص اےف آئی آرکے نامزد ملزم ہےں جبکہ پولےس ملزمان کو پکڑنے مےں بُری طرح ناکام ،اےس اےچ او مصطفی آباد ملزمان کا سرپرست بن گےا،متاثرےن کو گھر جا کر آرام کرنے کی ہداےت ،متاثرہ خاندان کا خبرےں ہےلپ لائن سے رابطہ ، خبرےں ٹےم متاثرےن کے گھر پہنچ گئی۔تفصےلا ت کے مطابق قصور کے نواحی گاﺅں پکی حوےلی کے محنت کش کی پانچ سالہ بےٹی (ف) مورخہ12.07.17کو قرےب صبح دس بجے قرےبی دوکان سے سوداسلف لےنے کے لےے گئی تو نزدےکی کھےت مےں ابرار عرف بڈھا ، اکبر اور وقاص اپنی بھےڑ بکرےاں چرارہے تھے۔ابرار نے لڑکی کو دےکھ کر اُس کا پےچھا کےا اور پےسوں کا لالچ دے کر اپنے ساتھ آنے کو کہا جب بچی نے اُس کی بات نہ مانی تو وہ اسے اُٹھا کر زبردستی کھےتوں مےں لے گےا اور اکبر ، وقاص کو باہر نگرانی کے لےے کھڑا کر دےااور زےادتی کا نشانہ بنا ڈالا جس پر بچی نے رونا شروع کر دےا رونے کی آواز سن کر علاقہ کے لوگ بھی مو قع پر پہنچ گئے جن کو دےکھ کر ملزمان (ف) کو زخمی حالت مےں چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ جس کی مےڈےکل مےں تصدےق اور جسم پر تشدد کے نشانات بھی پائے گئے۔ جبکہ اہل علاقہ نے ان کو پہچان لےا اور ملزمان کی نشاندہی کی پولےس تھانہ مصطفی آباد نے ملزمان کے خلاف نا چاہتے ہوئے مقدمہ نمبر407/17،بجرم376ت پ درج کرلےا لےکن چار ماہ گزر جانے کے باوجود درندہ صفت انسان گرفتار نہ ہو سکے۔ ملزمان انتہائی با اثر اور مالدار ہےں ، دہشت کی علامت سمجھا جانے والا اےس اےچ او مصطفی آباد طارق بشےر چےمہ نے بھاری رشوت وصول کر کے متاثرےن کو گھر جا کر آرام کر نے کا مشورہ دے دےا۔ جس کی بابت متاثرہ خاندان نے وزےر اعلیٰ شکاےات سےل ، آئی جی پنجاب سمےت تمام اعلیٰ سطح پر شکاےات درج کر وائی مگر اس کے باوجود قصور پولےس کی جانب سے کوئی کارروائی نہ کی گئی اور بچی کے والدےن در در کی ٹھوکرےں کھانے پر مجبور ہےںجس کی وجہ ملزمان سر عام دندناتے پھر رہے ہےں اور متاثرےن پر صلح کے لےے دباﺅ ڈال رہے اور ان کے خلاف تھانے مےں جھوٹی درخواستےں دے کر ہراساں و پرےشان کررہے ہےں ۔قصور مےں گزشتہ چند ماہ کے دوران کمسن بچےوں کے ساتھ زےادتی اور قتل کے پندرہ سے زائد واقعات ہوئے جبکہ پولےس تاحال اصل ملزمان کو گرفتار کرنے مےں ناکام ہے جو کہ قصور پولےس کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ نامعلوم ملزمان تو اےک طرف نامزد ملزمان بھی ان رشوت خور اور کرپٹ پولےس افسران کی وجہ سے دندناتے پھر رہے ہےں جن کو پوچھنے والا کوئی نہےں۔متاثرےن نے وزےر اعلیٰ پنجاب اور اعلیٰ حکام سے اپےل کرتے ہوئے کہا کہ انہےں انصاف فراہم کےا جائے اور ذمہ داران کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کر کے نشانہ عبرت بناےا جائے تاکہ ان گھناﺅنے واقعات کو روکا جا سکے۔

ختم نبوت بل کی منظوری قوم کی کامیابی بڑی سازش ناکام بنادی :سراج الحق

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) جمہوری نظام میں احتجاج کرنا عوام کا حق ہوتا ہے۔ حکومت اسلام آباد کے مظاہرین سے مذاکرات کیوں نہیںکرتی۔ امریکہ کون ہوتا ہے ہمارے قوانین میں مداخلت کرنے والا۔ حکومت ذمہ داران کو سامنے لانے سے کیوں جھجک رہی ہے۔ امیر جماعت اسلامی، سراج الحق نے چینل ۵ کے پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ختم نبوت بل کی منظوری پر ہم سب خوش ہیں یہ قوم کی کامیابی ہے۔ ایک بڑی سازش کو ناکام کیا گیا ہے۔ ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ تبدیلی کرنے والے ذمہ داران کو سامنے لایا جائے۔ یقینا یہ کوئی جن بھوت تو نہیں ہیں۔ وہ کوئی اہم اشخاص ہوں گے، اسلام آباد میں ہوں گے اور صاحب حیثیت ہوں گے۔ انہیںسامنےکیوں نہیں لایا جا رہا۔ وزیرقانون صاحب نے تو وضاحت کی کہ میں تو مسلمان ہوں، میرا عقیدہ درست ہے۔ لیکن وزیر قانون کی ذمہ داریہے کہ قوم کوبتائیں کہ کون لوگ اس کے پیچھے ہیں۔ خبر یہ آئی ہے کہ امریکہ نے کہا ہے کہ قانون میں تبدیلی کی جائے۔ وہ کون ہوتا ہے جو ہمارے ملک میں دخل اندازی کرتا ہے۔ یقینا بااثر لوگوں نے اسے لپیٹ کر چھپا کر ایک منظم طریقے سے پارلیمنٹ میں لے کر آئے ہیں۔ یہ کوئی نقطہ کا مسئلہ تو ہے نہیں باقاعدہ لکھا گیا پڑھا گیا ہو گا۔ آخر ذمہدار کون ہے۔ جمہوری نظام میں احتجاج کرنا۔ دھرنا دینا عوام کا اخلاقی حق ہوتاہے۔ حکومت کو چاہئے کہ اسلام آباد کے دھرنے والوں، مذاکرات کرے۔ ان کے تحفظات دور کرے اور معاملہ حل کروائے۔ نمائندہ چینل ۵ اسلام آباد ضمیر حسین ضمیر نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں لبیک یا رسول اللہ کو دھرنا دیے ہوئے تقریباً گیارہ دن ہو چکے جس کی وجہ سے اسلام آباد اور راولپنڈی کا نظام مفلوج ہو کر رہ گیا ہے حکومت نے نے دھرنے والوں کے 12 نقاط مان بھی لئے ہیں اور ختم نبوت کے بل کو اصل حالت میں بحال بھی کر دیا ہے۔ اس کے باوجود وہ دھرنا دئے بیٹھے ہیں۔ اب اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ کے لوگ ہائیکورٹ کے احکامات لےکر یہاں پہنچ چکے ہیں۔ اور تازہ دم دستے پہنچ چکے ہیں۔ حکومت نے انہیں رات دس بجے کا وقت دےرکھا ہے کہ اس سے پہلے جگہ خالی کر دیں۔ احسن اقبال اور سعد رفیق دھرنے کے شرکاءسے رابطہ کر چکے ہیں اور مذاکرات کے دوران طے پایا ہے کہ ذمہ داران کو سامنے لایا جائے گا۔ مذاکرات ناکام ہونے کی وجہ سے دھرنا چائنہ چوک سے اٹھا کر فیض آباد منتقل کر دیا گیا ہے۔ جمعہ کو انہوں نے ریلیاں نکالنے کا اعلان کیا تھا۔ اسلام آباد انتظامیہ اب مکمل طور پر تیار دکھائی دیتی ہے۔ لگتا ہے دس بجے کے بعد کوئی کارروائی کی جائے گی اور دھرنے کے شرکاءکو منتشر کر دیا جائے گا۔ ریذیڈنٹ ایڈیٹر خبریں ملتان، میاں عبدالغفار نے کہا ہے این ایچ اے کے معاوضہ جات کا ایشو بہت بڑا ہے۔ یہ اپنی پتی طے کر کے لوگوں کو معاوضہ جات دلواتے ہیں۔ غریب اور ان پڑھ کتانوں کو یہ مختلف طریقوں سے اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں۔ جن کے ساتھ ڈیل ہو جائے ان کی بنجر زمین کو باغ قرار دے دیئے ہیں اور جو ڈیل نہ کرے اس کے باغ کو بھی بنجر زمین بنا دیتے ہیں۔ ملتان، رشید آباد میں جب پُل بنایا گیا تو لوگوں سے اطراف کے مکانات لئے گئے تھے۔ کاغذات میں 64 فٹ جگہ دکھا کر 32 فٹ کے پیسے دیئے گئے ہیں اور آدھے 32 فٹ کے پیسے این ایچ اے کے اہلکاروں نے خود رکھے۔شجاع آباد روڈ کے ناظم کی دو بیویاں ہی ان کے اخراجات بھی ایسے ہیں۔ انہوں نے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کے گھپلے کئے ہوئے ہیں۔ زمین کے مشترکہ کھاتوں کے چکروں میں کروڑوں روپے کھائے گئے ہیں۔ یہ پانامہ سے بڑے کیسز ہیں۔ مشرف دور میں بننے والے نیب ادارے نے صرف اور صرف سیاسی کارروائیاں کی ہیں یہ کوئی احتساب کا ادارہ نہیںہے۔ مشرف دور میںلودھراں کے پٹواری کو پکڑا تھا۔ لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی چیئرمین این ایچ اے ذمہ دار ہوتا ہے شیڈولڈ کام کروانے کا لیکن ان کے تمام کام نان شیڈولڈ ہوتے ہیں۔ اعظم ہوتی نے پنڈی سے پشاور تک موٹر وے بنوائی۔ وہ اسے کروڑ دے کر صوابی لے گئے این ایچ اے ایک سیاسی ادارہ ہے۔ تمام اہلکار سیاسی طور پر کام کرتے ہیں۔ ان کے اہلکار دس فیصد کمیشن پر کام کرتے ہیں۔ ٹول پلازے اکثر غیر قانونی کام کر رہے ہیں۔ کار کا ریٹ 30 روپے ہے۔ کم از کم 35 اور زیادہ سے زیادہ 65 کلو میٹر پر ٹال پلازہ بنانے کی اجازت ہوتی ہے۔ یہ غیر قانونی ٹال پلازہ بنا لیتے ہیں اور علاقائی لوگوں کو شناختی کارڈ دیکھ کر جانے دیتے ہیں۔ لیگل ٹول پلازہ سے ایسے جا نہیں سکتے۔ نمائندہ خبریں لاہور رازش لیاقت پوری نے کہا ہے کہ این ایچ اے نے ایک منصوبہ 2001ءمیں شروع کیا جو بہاول پور سے کوٹ افضل تک اسے سیکشن 4 اور سیکشن 5 کہا جاتا ہے۔ یہ 2004ءمیں ختم ہوا۔ جس کے دوران ہزاروں ایکڑ زمین خالی کروائی گئی اور وعدہ کیا کہ معاوضہ جات ادا کئے جائیں گے۔ لیکن این ایچ اے کی کرپشن کی وجہ سے معاوضہ جات کی ادائیگی ممکن نہ ہو سکی کچھ لوگوں نے 30 سے 40 فیصد رشوت دے کر اپنے معاوضہ جات کلیئر کروا لئے لیکن 70 فیصد لوگوں کو ابھی تک ادائیگیاں نہیںہوئیں۔ تیرہ سال گزر جانے کے باوجود لوگ ان کے دفتروں کے دھکے کھا رہے ہیں۔ این ایچ اے کے اہلکار کرپٹ ہیں لوگوں کے کمیشن مانگتے ہیں۔ متاثرین زیادہ ہونے کی وجہ سے انہیں وقت اٹھانی پڑی۔ ایشو بڑھ گیا تو این ایچ اے والوں نے ریونیو رحیم یار خان (بہاولپور) کے سپرد ہر معاملہ کر دیا۔ اب وہ دوبارہ اسیس منٹ کروا رہے ہیں۔ کمشنر بہاولپور نے حکم دیا ہے کہ متاثرین کا کیس دوبارہ کھولا جائے۔ ایک خاتون اسمہ ظفر نے کیس بہاولپور ہائیکورٹ میں درج کروایا۔ جسٹس امیر حسین بھٹی نے این ایچ اے کے چیئرمین اشرف تارڑ کی بہت سرزنش کی اور 5 منٹ کے لئے ان کا منہ دیوار کی طرف کرنے کی سزابھی دی۔ ان جج صاحبان کی وجہ سے اس خاتون کو معاوصہ مل گیا۔ ملک شاہد صاحب نے ضیا شاہد سے درخواست کی کہ ہمارا ایشو اٹھائیں انہیں امید تھی کہ اس فورم سے ہمارا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔