با اثر افراد کا غریب کسان کی 3 ایکڑاراضی پر قبضہ

فیصل آباد (رپورٹ:یونس چوہدری، تصاویر راشد علی)فیصل آباد کے نواحی تھانہ روڈالہ کے علاقہ میں با اثر افراد نے غریب کسان کی 3ایکڑ زرعی اراضی پر قبضہ کر لیا۔ تیار فصل بھی کاٹ کر فروخت کر دی گئی اور قبضہ گروپ نے رقبہ پر مسلح اشتہاری بٹھا رکھے ہیں قبضہ گروپ کے افراد نے زرعی رقبہ مالکان کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔ خواتین کے کپڑے پھاڑ ڈالے ان کی بےحرمتی کی جبکہ رقبہ مالک کا کہنا ہے کہ قبضہ گروپ کے افراد نے بہیمانہ تشدد کرتے ہوئے میرا بازو توڑ ڈالا۔ تھانہ روڈالہ روڈ پولیس قبضہ گروپ سے ساز باز ہو گئی ہے مقدمہ درج ہونے کے باوجود ملزمان گرفتار نہیں کئے بلکہ پولیس نے ”ملی بھگت“ سے ملزموں کی ضمانتیں کنفرم کروا دی ہیں۔ لاکھوں مالیت کی اراضی واگزار کروا کر واپس نہیں دلایا جا رہا بچا کھچا رقبہ بھی ہمیں کاشت نہیں کرنے دیا جا رہا۔ وہ بنجر بن گئی ہے۔ ہماری کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔ زرعی اراضی پر قبضہ ہونے اور رہی سہی کاشت نہ کرنے پر ہمارے گھروں میں ”نوبت فاقہ کشی“ تک جا پہنچی ہے۔ معاشی طور پر مفلس اور تنگدست ہو گئے ہیں۔ یہ بات چک نمبر 380گ ب تحصیل جڑانوالہ کے رہائشی متاثرین غلام محمد، خان محمد، محمد ریاض، ستاں بی بی، ارشاد بی بی اور دیگر نے ”خبریں ہیلپ ٹیم“ کو بتائی۔ انہوں نے بتایا کہ اگست 2016میں لیاقت، ریاست، عامر، عمران اور امجد وغیرہ نے ہماری تقریباً 40لاکھ روپے مالیت کی تین ایکڑ زرعی اراضی پر زبردستی قبضہ کر لیا ہم اپنی ملکیتی اراضی کو پانی لگا رہے تھے کہ یہ قبضہ گروپ کے افراد اسلحہ، ڈنڈوں، سوٹوں اور کلہاڑیوں سے مسلح ہو کر آ گئے۔ غلام محمد نے بتایا کہ تشدد کرتے ہوئے میرا بازو توڑ دیا۔ میرے بھائی خان محمد اور میرے بیٹے کو زخمی کر ڈالا۔ ہماری خواتین ارشاد بی بی، ستاں بی بی، شریفاں بی بی، امینہ بی بی، زبیدہ بی بی اور شامند وغیرہ کو بھی ڈنڈوں، سوٹوں اور کلہاڑیوں سے تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کے کپڑے پھاڑ دیئے۔ واقعہ کا تھانہ روڈالہ پولیس نے ملزمان لیاقت، عامر، ریاست، عمران، امجد اور تین نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ ملزموں نے پولیس سے ساز باز ہو کر پہلے عبوری ضمانتیں کروائیں۔ جس کے بعد انہوں نے پکی ضمانتیں کروا لیں۔ انہوں نے بتایا کہ ملزمان نے تقریباً سوا سال سے ہماری زرعی اراضی پر زبردستی قبضہ کر رکھا ہے اور بچی کھچی زمین بھی کاشت نہیں کرنے دی جا رہی بلکہ قبضہ گروپ اس پر بھی قبضہ کرنے کے در پے ہیں۔ کاشت نہ کیے جانے سے وہ رقبہ بھی بنجر بن گیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ عدالت بھی ہمارے حق میں فیصلہ دے چکی ہے۔ مگر اس فیصلے پر عملدرآمد ہی نہیں کروایا جا رہا۔ روڈالہ پولیس بھی قبضہ گروپ کی حمایتی بن گئی ہے۔ اس امر پر قبضہ گروپ کے ظلم و تشدد کا شکار خاندان نے ”خبریں“ کی وساطت سے وزیراعلیٰ پنجاب، صوبائی وزیر آبپاشی، آئی جی پنجاب، کمشنر، ڈپٹی کمشنر، آر پی او، سی پی او فیصل آباد اور محکمہ مال کے اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ نوٹس لےکر قبضہ گروپ کے خلاف کاروائی کر کے زرعی اراضی کا قبضہ واگزار کروا کر واپس دلا کر داد رسی کی جائے۔

آرمی چیف جموریت پسند نظام کو ئی خطرہ نہیں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے تجزیوں تبصروں پر مشتمل پروگرام ”کالم نگار“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار میاں سیف الرحمان نے کہا ہے کہ حدیبیہ کیس میں کہا جارہا ہے کہ پراسیکیوشن ٹھیک نہیں تھی اگر پراسیکیوشن نے ہی سارے فیصلے کرنے ہیں تو کیس عدالت میں کیوںلیجایا جائے، ایسے فیصلے بھی دیکھے ہیں کہ پراسیکیوشن نے ملزم کو بری کردیا جبکہ جج صاحب نے سزا سنا دی صرف پراسیکیوشن کو ہی مورد الزام ٹھہرانے کا وطیرہ ٹھیک نہیں ہے۔ چرچ حملے میں سکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائی حوصلہ افزا ہے ہمیں اپنی صفوں میں بیٹھے دشمن کو پہچاننا ہوگا۔ افغان مہاجر دہشتگردوں کے آنے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ وزیراعظم نے عمران خان کو لیڈر تسلیم کیا ہے تو یہ حقیقت پسندی ہے۔ آرمی چیف کا سینٹ کو بریف کرنا بڑی اچھی روایت ہوگی میری نظر میں ضیا شاہد نے کاﺅنٹر واٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ بنایا ہے۔ یورپی یونین کا ان کو بہلانا بڑی کامیابی ہے ہم سب کو ضیا شاہد کا ساتھ دینا چاہیے سینئر کالم نگار اعجاز حفیظ نے کہا کہ حدیبیہ کیس میں ٹائم بار کا مسئلہ آیا ہے۔ تو جو اس کا ذمہ دار ہے یعنی چیئرمین نیب اس کیخلاف ایکشن کیوں نہیں لیتا۔ حدیبیہ کیس فیصلہ سے شریف خاندان کو بڑا ریلیف ملا ہے۔ نیب نے اپ اپنی سمت کچھ بہتر کرلی ہے۔ مستقبل میں بہتری کے امکانات نظر آتے ہیں کوئٹہ میں افسوسناک واقعہ پیش آیا سکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائی قابل تعریف ہے۔ بدقسمتی ہے ہم آج تک دوست یا دشمن کا تعین ہی نہیں کرپائے۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ اور عمران خان کو سیاستدان ہی نہیں تسلیم کرتی وزیراعظم نے عمران خان کو لیڈر مان کر بڑی بات کی ہے جو خوش آئند ہے حکومت کو مدت پوری کرنی چاہیے۔ مذہبی جماعتوں اور دھرنوں کا سیاست میں آنا ملک کیلئے خطرناک ہوگا۔ آرمی چیف آج سینٹ کو بریفنگ دیکر ایک تاریخ رقم کرینگے۔ رضا ربانی کو کریڈٹ دینا چاہیے، کاش سپیکر بھی ان کی طرح کام کرتے عہدے سیاسی معاملات سے اوپر ہوتے ہیں ضیا شاہد نے پانی کا معاملہ اٹھاکر بڑا کارنامہ سرانجام دیا۔ جو کام حکومت کے کرنے کا تھا وہ انہوںنے کردکھایا ہے۔ سینئر تجزیہ کار ہمایوں رضا شفیع نے کہا کہ نیب کی پراسیکیوشن کمزور نظر آتی ہے۔ نیب کو کیسز بروقت نمٹانے چاہیئں، اب نیب کچھ بہتر کام کرتا نظر آتا ہے۔ دشمن ہماری صفوں میں ہے۔ ہم اس بات کو ماننا اور سمجھنا ہوگا۔ وزیراعظم نے بڑے اہم فورم پر ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بینظیر بھٹو، عمران خان اور نوازشریف کو لیڈر قرار دیا، ان کے بیان سے سیاسی درجہ حرارت کم ہوگا۔ آرمی چیف کا سینٹ کو بریفنگ دینا خوش آئند ہے۔ فارن آفس کو بھی بریفنگ دینی چاہیے سینٹ ایوان بالا ہے اسے تمام صورتحال سے آگاہی ہونی چاہیے۔ ایک آمر نے 3دریا نہیں بلکہ 3تہذیبیں چند ملین ڈالرز کے عوض بیچ ڈالی تھیں۔ ضیا شاہد نے قوم کو بچانے کیلئے ایک بڑا مشن شروع کیا ہے۔ جو اصل میں حکومت کا کام تھا۔ سینئر صحافی امجد اقبال نے کہا کہ عموماً سپریم کورٹ میں نظرثانی اپیل خارج ہوجاتی ہے۔ ملک کے حالات پہلے سے بہتر ہیں کوئٹہ میں سکیورٹی فورسز نے بڑے حادثے کو رونما ہونے سے بچالیا۔ اخباری مدیران سے ملاقات میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے عمران خان کو بھی لیڈر مان کر بڑی اچھی بات کی۔ سیاستدان اور لیڈر میں فرق ہوتا ہے آصف زرداری ایک پارٹی کا سربراہ ہے لیکن کوئی اسے لیڈر نہیں مانتا آرمی چیف کی آج سینٹ کو بریفنگ بہت اہم ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آرمی چیف جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ خبریں گروپ نے پانی کی دگرگوں صورتحال یہ جہاد شروع کررکھا ہے۔ یورپی یونین نے بھی اس بات پر کان دھرے ہیں اور ملاقات کیلئے بلالیا ہے۔ ہے ہم سب کو اس جہاد میں ضیا شاہد کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہوگا۔

شہباز شریف کو ن لیگ چلانے کا موقع دیا جائے تو الیکشن ہو سکتے ہیں:ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ وزیراعظم کے ساتھ ملاقات میں انہوں نے کہا کہ میں یقین دلاتا ہوں کہ الیکشن وقت مقررہ پر ہوں گے جولائی 15 کو الیکشن ہونگے اور 30 تاریخ کو اگلی حکومت بن جائے گی۔ یہ تاثر غلط ہے کہ میرے مام میں کس طرح کا کوئی اور شخص مداخلت کرتا ہوں۔ میاں نوازشریف ہمارے لیڈر ہیں لیکن انہوں نے مجھے کبھی ڈکٹیٹ نہیں کروایا۔ ہم نے ان سے اسپیکر صاحب کے بیان کے حوالے سے پوچھا جنہوں نے کہا اسمبلی چلتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی۔ اس پر انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں سب کو اظہار رائے کی اجازت ہوتی ہے۔ اس پر بہت جرح ہوئی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اسمبلی کو فارغ بھی کر دیا جائے تو اسپیکر اور سینٹ چیئرمین تو باقی رہتا ہے۔ ان کے بیان سے آپ کی حکومت کو خطرہ لاحق ہوا۔ میرے خیال میں شاہد خاقان عباسی نوازشریف کے خلاف چل نہیں سکتے۔ میاں نوازشریف نے قومی اداروں کیخلاف تحریک چلانے کا عندیہ دیا ہے۔ اداروں میں فوج اور عدلیہ سرفہرست ہیں۔ نوازشریف اگر ایسی کوئی تحریک چلائیں گے تو وہ آئین کے خلاف ہو گی۔ کیونکہ آئین کی فوج اور عدلیہ کو مکمل آزادی دی گئی ہے۔ اب شاہد خاقان عباسی کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اپنے کہے پر عمل کریں۔ اور کسی کو بھی قومی اداروں کے خلاف کوئی تحریک نہ چلانے دیں۔ اگلے الیکشن میں بہت کم وقت باقی ہے۔ وزیراعظم نے گفتگو کے شروع میں کہا کہ اصل فیصلہ پولنگ اسٹیشن میں ہی ہوتا ہے۔ عوام فیصلہ کرتی ہے کہ کون درست ہے کون غلط انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک میں دو لیڈر ہیں ایک نوازشریف اور دورے عمران خان۔ زرداری کے بارے انہوں نے کہا کہ وہ نواز شریف کے سامنے کھڑے نہیں ہو سکتے اور اپوزیشن کی ایک ہی شخصیت ہے وہ عمران خان ہے۔ نوازشریف کے خلاف تیز ترین اپوزیشن عمران خان ہی ہے۔ لیکن آصف زرداری کی پوزیشن سندھ میں مضبوط ہے۔ وہ اپنے ارکان کو وہاں بڑی تعداد میں کامیاب کروا سکتے ہیں۔ البتہ ایم کیو ایم کا ووٹ اب دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ لہٰذا ایم کیو ایم کو زیادہ ووٹ نہیں جا سکے گا۔ ہر پارٹی زیادہ سے زیادہ مقبولیت حاصل کرنے کے لئے تگ و دو کر رہی ہے۔ لہٰذا مسلم لیگ (ن) کو بھی میدان میں آنا چاہئے۔ اس کی قیادت اس وقت متنازع ہو چکی ہے۔ جب تک عدالتوں سے کلیرنس نہ مل جائے۔ شہباز شریف زیادہ اچھی پوزیشن میں ہیں حدیبیہ کیس کے خاتمہ کے بعد اب صرف ماڈل ٹاﺅن کا کیس ہی ایک بڑا الزام رہ گیا ہے۔ لہٰذا نوازشریف از خود اگر مسلم لیگ ن کی قیادت ان کے سپرد کرتے ہیں اور سیاسی طور پر بڑے جلسے کریں اور وہ عمران خان کے مقابلے میں اپنی پارٹی کو منظم کریں اس کے سوا چارہ نہیں۔ اگر نوازشریف جلسوں کی قیادت کریں گے تو انہیں عدالت اور فوج کے خلاف بولنا پڑے گا۔ جس سے ان کی پوزیشن آئینی طور پر خطرہ میں پڑ جائے گی۔ اگر میاں نوازشریف عدلیہ اور فوج کے خلاف تحریک چلاتے ہیں تو نا چاہتے ہوئے بھی لاءاینڈ آرڈر کو کنٹرول کرنے کے لئے پہلے پولیس پھر رینجرز اور آخر میں فوج کو طلب کرنا پڑے گا۔ ایک شہر تک محدود رہی تو کچھ نہیں اگر میاں صاحب کی تحریک گلی گلی کوچے کوچے پھیل گئی تو فوج کو ہر جگہ سامنے آنا پڑے گا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جمہوری نظام کو لپیٹ دیا جائے۔ میں نے آخر میں وزیراعظم کو اپنی کچھ کتابیں پیش کیں اور ان سے یہی کہا کہ میرے خیال میں آپ کو سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ 2018ءکے الیکشن کے انعقاد تک ایک پُرامن فضا قائم رکھی جائے۔ اور لاءاینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا نہ ہو۔ اور خوش اسلوبی سے الیکشن تک پہنچا جائے۔ مگر اس سے پہلے اداروں میں ٹکراﺅ ہو گا تو الیکشن نہیں ہو سکے گا۔ جوڈیشری کے خلاف جتنی باتیں اب ہو رہی ہیں ہم نے آج تک تاریخ میں کبھی نہیں دیکھی چیف جسٹس آف پاکستان کے لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپنی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ نواز شریف کو وقتی طور پر پیچھے ہٹ کر قیادت شہباز شریف کو سونپ دینی چاہئے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی پارٹی الیکشن میں فتح یاب ہو جائے گی۔ کیوں شہباز شریف کا انداز تھا ہمارے اور وہ درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے برعکس نواز شریف اپنے خلاف آنے والے فیصلے کے بعد سے اداروں سے ناراض دکھائی دیتے ہیں اور ان پر تابڑ توڑ حملے بھی کرتے ہیں اور ان پر چڑھائی بھی کرتے ہیں۔ ان کی صاحبزادی ان کے خیر خواہ اور چند وزراءبھی ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ طلال چودھری، دانیال عزیز کو تو نوکری ہی اس لئے ملی تھی کہ عمران خان کے ایک سوال کے دس جواب دینے ہیں۔ بہت سے لوگ اس وقت شک و شبہ میں مبتلا ہو چکے ہیں کہ الیکشن وقت پر ہوتے ہیں یا نہیں۔ الیکشن وقت پر ہونے چاہئیں۔ ملک میں جمہوریت جاری رہنی چاہئے۔ آرمی چیف کی سینٹ میں بریفنگ کو میں خوش آئند سمجھتا ہوں۔ کیونکہ فوج ریاست کا ادارہ ہے اور وہ وزارت دفاع کے تحت کام کرتی ہے۔ ہمارے آرمی چیف بار بار کہہ چکے ہیں کہ وہ آئین کا احترام کرتے ہیں اور وہ جمہوریت کو جاری و ساری دیکھنا چاہتے ہیں۔ میاں نوازشریف کے ساتھی یہ سمجھتے ہیں فوج مارشل قسم کی چیز لانے کی خواہش مند ہے۔ قمر جاوید باجوہ کی بریفنگ سے یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ فوج خود کو کس کے آگے جوابدہ نہیں سمجھتی۔ اور ثابت ہوتا کہ ملک میں جمہوریت ہے اور منتخب پارلیمنٹ ہو یا سینٹ ہو اس کی اہمیت سب سے زیادہ ہے اور سارے ادارے آئین کے تحت کام کر رہے ہیں۔ آرمی چیف کا یہ اقدام جمہوری قدروں کو مضبوط کرے گا۔ اس سے ساری دنیا دیکھے گی کہ ہماری فوج جمہوری اداروں کو ختم نہیں کرنا چاہتی۔ بلکہ وہ آئین اور قانون کے مطابق کام کرنا چاہتی ہے۔ اس کے برعکس اگر آرمی چیف خود کو کسی کے آگے جوابدہ نہ سمجھتے تو پھر دنیا کو اعتراض ہوتا کہ فوج جمہوری اداروں کو تسلیم نہیں کرتی اور ملک میں اضطراب اور ٹینشن ہے جس کے فوری بعد سب سے پہلے امریکہ اور پھر دوسری سپر طاقتیں جو پہلے بھی اعتراض کرتی آئی ہیں کہ پاکستان ایک نیوکلیئر پاور ہے لیکن اس کے نیوکلیئر اثاثے محفوظ نہیں ہیں۔ یہ قیاس کیا جاتا رہا ہے کہ فوج کسی سول ادارے کو نہیں مانتی۔ آرمی چیف کی بریفنگ بالخصوص دشمنوں کو اور بالعموم تمام دنیا کو یہ تاثر جائے گا کہ ہمارے نیوکلیئر اثاثے محفوظ ہیں۔ جبکہ ہمارے دشمن ممالک یہ تاثر پھیلا رہے ہیں کہ ہمارے اثاثے محفوظ نہیں ہیں یہ دشمن چاہتے ہیں کہ دنیا میں ایسا تاثر پھیلا دیا جائے کہ پاکستان کا کاروبار فوج کے ہاتھوں میں ہے۔ یہاں انتہا پسند آ گئے ہیں یہ سویلین حکومت کی برتری تسلیم نہیں کرتے لہٰذا نیوکلیئر ایسٹ کو محفوظ بنانے کے لئے کسی کو نگران مقرر کیا جائے۔ ایک وقت میں یہ کوشش ہوتی رہی ہے کہ یو این او کی کسی ادارے کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ پاکستان جیسے ممالک میں جن کے بارے میں شبہ ہے کہ نہیں اثاثے دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔ اس لئے ان کی چیکنگ ضروری ہے۔ جبکہ ہمارے اثاثے محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ فوج آئین کے مطابق کام کر رہی ہے منتخب جمہوریت ہے۔ دشمن پراپیگنڈے کا جواب ہم سب کو مل کر دینا ہے۔ ہمارے اکثر پارلیمنٹرین لکھنے پڑھنے سے ذرا دور ہیں۔ کہا جاتا ہےکہ ہمارا قانون کسی فوجی نے بنایا تھا۔ اچھا تھا یا بُرا۔ اس میں درج ہے کہ ایک چپڑاسی کی بھرتی کے لئے میٹرک اور ایک سائیکل شرط ہو گی۔ اس طرح، سینٹ، قومی سمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران کے لئے شرط کم از کم بی اے ہونی چاہئے۔ لیکن جہلاءکی بڑی تعداد ان اداروں میں موجود ہے۔ انگوٹھا چھاپ اور انڈر میٹرک افراد بیٹھے ہیں سب نے ملی بھگت کر کے جب جعلی سرٹیفکیٹ پکرے جانے لگے اور عدالتیں ان کو نااہل قرار دینے لگیں تو یہ آپس میں مل گئے اور قانون کو ہی اڑا دیا۔ اب کسی قسم کی پابندی نہیں ہے۔ جسے دستخط بھی نہ کرنے آگے ہوں وہ ان اداروں کے ممبر بن سکتے ہیں۔یہ ان پڑھ ٹولہ اپنے علاقے میں راجے، مہاراجے بنے ہوئے ہیں۔ وہ عوام کی سہولتوں کو اپنے لئے مخصوص کر چکے ہیں۔ یہ جمہوری نظام کی بدقسمتی ہے۔ پاکستان ہندوستان کے درمیان انڈس واٹر کمیشن 1960ءمیں بنا تھا۔ اس کے تحت 3 دریا پاکستان کے حصے میں آئے۔ چناب، جہلم اور سندھ۔ ستلج بیاس اور راوی ان کا زرعی پانی انڈیا کے حصے میں آیا۔ اس کے بعلے ورلڈ بینک کے تعاون سے ہم نے تربیلا اور منگلا کی دو جھیلیں بنائیں۔ اس معاہدے میں درج ہے ہم نے دریاﺅں کے زرعی پانیوں کا معاہدہ کیا۔ جبکہ دریا کے پانی کے چار استعمال ہیں۔ (1) زرعی پانی (2) پینے کا پانی (3) آبی حیات کا پانی (4) ماحولیات کا پانی۔ بھارت نے یقین دہانی کروائی کہ چناب جہلم سندھ سے ان چیزوں کے لئے وہ پانی استعمال کرے گا اور وہی سہولت انہوں نے ستلاج، بیاس اور راوی کے پانی پر پاکستان کو نہیں دی۔ انڈس واٹر کے کمشنر سے پوچھا تو انہوں نے قبول کیا کہ ہم اس بنیاد پر کشن گنگا جو کشمیر میں داخل ہو کر دریائے ستلج کی شکل اختیار کر گیا ہے اس کے پانی کا کیس ہم انٹرنیشنل مصالحتی عدالت سے جیت چکے ہیں۔ جس کے تحت پورا پانی کسی بھی دریا کا بھارت نہیں روک سکتا۔ ہم نے تو مطلوبہ پانی دریائے نیلم میں چھوڑ دیا۔ ہم نے وکلائ، کمشنرز اور اہم لوگوں سے مشورہ کیا۔ انہوں نے کہا ہم عدالت میں جا سکتے ہیں اور اپنے حصے کا تینوں دریاﺅں کا مطلوبہ پانی حاصل کر سکے ہیں ہم کوشش کر رہے ہیں پہلے لوگوں کو اکٹھا کریں گے پھر عدالتوں میں جائیں گے اگر حکومت نہ گئی تو ہم انٹرنیشنل عدالت میں یہ ایشو لے کر جائیں گے۔ میں نے اور محمد علی درانی نے مختلف خطوط لکھے جس کے جواب میں یورپی یونین اور دیگر اہم اداروں کو خطوط لکھے ہیں۔ ارکان اسمبلی اور سینٹ کو بھی خطوط لکھے ہیں۔ صوبائی ارکان کو بھی خطوط لکھے ہیں۔ آج وزیراعظم سے بھی درخواست کی جس کے جواب میں انہوں نے کہا ہم پہلے ہی یہ مسئلہ ورلڈ بینک کے سامنے لے جا چکے ہیں۔ امید ہے ہمارے حق میں فیصلہ ہو گا۔ یورپ ایک ”برین سیل“ ہے اگر ہم اسے قائل کرنے میں کامیاب ہو سکے تو انٹرنیشنل لیول پر یہ بات اجاگر ہوتی کہ بھارت نے سو فیصد پانی روک کر انڈس واٹر ٹریسٹی کی خلاف ورزی کی ہے یہ پانی ہمیں ملنا چاہئے۔ اگر 20 فیصد پانی بھی لینے میں کامیاب ہو گئے تو نہ صرف اوپر آ جائے گا بلکہ آبی حیات ماحولیات سے پینے کے پانی کا معیار بھی بہتر ہو جائے گا۔لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ وزیراعظم کے ساتھ ملاقات میں انہوں نے کہا کہ میں یقین دلاتا ہوں کہ الیکشن وقت مقررہ پر ہوں گے جولائی 15 کو الیکشن ہونگے اور 30 تاریخ کو اگلی حکومت بن جائے گی۔ یہ تاثر غلط ہے کہ میرے مام میں کس طرح کا کوئی اور شخص مداخلت کرتا ہوں۔ میاں نوازشریف ہمارے لیڈر ہیں لیکن انہوں نے مجھے کبھی ڈکٹیٹ نہیں کروایا۔ ہم نے ان سے اسپیکر صاحب کے بیان کے حوالے سے پوچھا جنہوں نے کہا اسمبلی چلتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی۔ اس پر انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں سب کو اظہار رائے کی اجازت ہوتی ہے۔ اس پر بہت جرح ہوئی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اسمبلی کو فارغ بھی کر دیا جائے تو اسپیکر اور سینٹ چیئرمین تو باقی رہتا ہے۔ ان کے بیان سے آپ کی حکومت کو خطرہ لاحق ہوا۔ میرے خیال میں شاہد خاقان عباسی نوازشریف کے خلاف چل نہیں سکتے۔ میاں نوازشریف نے قومی اداروں کیخلاف تحریک چلانے کا عندیہ دیا ہے۔ اداروں میں فوج اور عدلیہ سرفہرست ہیں۔ نوازشریف اگر ایسی کوئی تحریک چلائیں گے تو وہ آئین کے خلاف ہو گی۔ کیونکہ آئین کی فوج اور عدلیہ کو مکمل آزادی دی گئی ہے۔ اب شاہد خاقان عباسی کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اپنے کہے پر عمل کریں۔ اور کسی کو بھی قومی اداروں کے خلاف کوئی تحریک نہ چلانے دیں۔ اگلے الیکشن میں بہت کم وقت باقی ہے۔ وزیراعظم نے گفتگو کے شروع میں کہا کہ اصل فیصلہ پولنگ اسٹیشن میں ہی ہوتا ہے۔ عوام فیصلہ کرتی ہے کہ کون درست ہے کون غلط انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک میں دو لیڈر ہیں ایک نوازشریف اور دورے عمران خان۔ زرداری کے بارے انہوں نے کہا کہ وہ نواز شریف کے سامنے کھڑے نہیں ہو سکتے اور اپوزیشن کی ایک ہی شخصیت ہے وہ عمران خان ہے۔ نوازشریف کے خلاف تیز ترین اپوزیشن عمران خان ہی ہے۔ لیکن آصف زرداری کی پوزیشن سندھ میں مضبوط ہے۔ وہ اپنے ارکان کو وہاں بڑی تعداد میں کامیاب کروا سکتے ہیں۔ البتہ ایم کیو ایم کا ووٹ اب دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ لہٰذا ایم کیو ایم کو زیادہ ووٹ نہیں جا سکے گا۔ ہر پارٹی زیادہ سے زیادہ مقبولیت حاصل کرنے کے لئے تگ و دو کر رہی ہے۔ لہٰذا مسلم لیگ (ن) کو بھی میدان میں آنا چاہئے۔ اس کی قیادت اس وقت متنازع ہو چکی ہے۔ جب تک عدالتوں سے کلیرنس نہ مل جائے۔ شہباز شریف زیادہ اچھی پوزیشن میں ہیں حدیبیہ کیس کے خاتمہ کے بعد اب صرف ماڈل ٹاﺅن کا کیس ہی ایک بڑا الزام رہ گیا ہے۔ لہٰذا نوازشریف از خود اگر مسلم لیگ ن کی قیادت ان کے سپرد کرتے ہیں اور سیاسی طور پر بڑے جلسے کریں اور وہ عمران خان کے مقابلے میں اپنی پارٹی کو منظم کریں اس کے سوا چارہ نہیں۔ اگر نوازشریف جلسوں کی قیادت کریں گے تو انہیں عدالت اور فوج کے خلاف بولنا پڑے گا۔ جس سے ان کی پوزیشن آئینی طور پر خطرہ میں پڑ جائے گی۔ اگر میاں نوازشریف عدلیہ اور فوج کے خلاف تحریک چلاتے ہیں تو نا چاہتے ہوئے بھی لاءاینڈ آرڈر کو کنٹرول کرنے کے لئے پہلے پولیس پھر رینجرز اور آخر میں فوج کو طلب کرنا پڑے گا۔ ایک شہر تک محدود رہی تو کچھ نہیں اگر میاں صاحب کی تحریک گلی گلی کوچے کوچے پھیل گئی تو فوج کو ہر جگہ سامنے آنا پڑے گا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جمہوری نظام کو لپیٹ دیا جائے۔ میں نے آخر میں وزیراعظم کو اپنی کچھ کتابیں پیش کیں اور ان سے یہی کہا کہ میرے خیال میں آپ کو سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ 2018ءکے الیکشن کے انعقاد تک ایک پُرامن فضا قائم رکھی جائے۔ اور لاءاینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا نہ ہو۔ اور خوش اسلوبی سے الیکشن تک پہنچا جائے۔ مگر اس سے پہلے اداروں میں ٹکراﺅ ہو گا تو الیکشن نہیں ہو سکے گا۔ جوڈیشری کے خلاف جتنی باتیں اب ہو رہی ہیں ہم نے آج تک تاریخ میں کبھی نہیں دیکھی چیف جسٹس آف پاکستان کے لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپنی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ نواز شریف کو وقتی طور پر پیچھے ہٹ کر قیادت شہباز شریف کو سونپ دینی چاہئے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی پارٹی الیکشن میں فتح یاب ہو جائے گی۔ کیوں شہباز شریف کا انداز تھا ہمارے اور وہ درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے برعکس نواز شریف اپنے خلاف آنے والے فیصلے کے بعد سے اداروں سے ناراض دکھائی دیتے ہیں اور ان پر تابڑ توڑ حملے بھی کرتے ہیں اور ان پر چڑھائی بھی کرتے ہیں۔ ان کی صاحبزادی ان کے خیر خواہ اور چند وزراءبھی ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ طلال چودھری، دانیال عزیز کو تو نوکری ہی اس لئے ملی تھی کہ عمران خان کے ایک سوال کے دس جواب دینے ہیں۔ بہت سے لوگ اس وقت شک و شبہ میں مبتلا ہو چکے ہیں کہ الیکشن وقت پر ہوتے ہیں یا نہیں۔ الیکشن وقت پر ہونے چاہئیں۔ ملک میں جمہوریت جاری رہنی چاہئے۔ آرمی چیف کی سینٹ میں بریفنگ کو میں خوش آئند سمجھتا ہوں۔ کیونکہ فوج ریاست کا ادارہ ہے اور وہ وزارت دفاع کے تحت کام کرتی ہے۔ ہمارے آرمی چیف بار بار کہہ چکے ہیں کہ وہ آئین کا احترام کرتے ہیں اور وہ جمہوریت کو جاری و ساری دیکھنا چاہتے ہیں۔ میاں نوازشریف کے ساتھی یہ سمجھتے ہیں فوج مارشل قسم کی چیز لانے کی خواہش مند ہے۔ قمر جاوید باجوہ کی بریفنگ سے یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ فوج خود کو کس کے آگے جوابدہ نہیں سمجھتی۔ اور ثابت ہوتا کہ ملک میں جمہوریت ہے اور منتخب پارلیمنٹ ہو یا سینٹ ہو اس کی اہمیت سب سے زیادہ ہے اور سارے ادارے آئین کے تحت کام کر رہے ہیں۔ آرمی چیف کا یہ اقدام جمہوری قدروں کو مضبوط کرے گا۔ اس سے ساری دنیا دیکھے گی کہ ہماری فوج جمہوری اداروں کو ختم نہیں کرنا چاہتی۔ بلکہ وہ آئین اور قانون کے مطابق کام کرنا چاہتی ہے۔ اس کے برعکس اگر آرمی چیف خود کو کسی کے آگے جوابدہ نہ سمجھتے تو پھر دنیا کو اعتراض ہوتا کہ فوج جمہوری اداروں کو تسلیم نہیں کرتی اور ملک میں اضطراب اور ٹینشن ہے جس کے فوری بعد سب سے پہلے امریکہ اور پھر دوسری سپر طاقتیں جو پہلے بھی اعتراض کرتی آئی ہیں کہ پاکستان ایک نیوکلیئر پاور ہے لیکن اس کے نیوکلیئر اثاثے محفوظ نہیں ہیں۔ یہ قیاس کیا جاتا رہا ہے کہ فوج کسی سول ادارے کو نہیں مانتی۔ آرمی چیف کی بریفنگ بالخصوص دشمنوں کو اور بالعموم تمام دنیا کو یہ تاثر جائے گا کہ ہمارے نیوکلیئر اثاثے محفوظ ہیں۔ جبکہ ہمارے دشمن ممالک یہ تاثر پھیلا رہے ہیں کہ ہمارے اثاثے محفوظ نہیں ہیں یہ دشمن چاہتے ہیں کہ دنیا میں ایسا تاثر پھیلا دیا جائے کہ پاکستان کا کاروبار فوج کے ہاتھوں میں ہے۔ یہاں انتہا پسند آ گئے ہیں یہ سویلین حکومت کی برتری تسلیم نہیں کرتے لہٰذا نیوکلیئر ایسٹ کو محفوظ بنانے کے لئے کسی کو نگران مقرر کیا جائے۔ ایک وقت میں یہ کوشش ہوتی رہی ہے کہ یو این او کی کسی ادارے کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ پاکستان جیسے ممالک میں جن کے بارے میں شبہ ہے کہ نہیں اثاثے دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔ اس لئے ان کی چیکنگ ضروری ہے۔ جبکہ ہمارے اثاثے محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ فوج آئین کے مطابق کام کر رہی ہے منتخب جمہوریت ہے۔ دشمن پراپیگنڈے کا جواب ہم سب کو مل کر دینا ہے۔ ہمارے اکثر پارلیمنٹرین لکھنے پڑھنے سے ذرا دور ہیں۔ کہا جاتا ہےکہ ہمارا قانون کسی فوجی نے بنایا تھا۔ اچھا تھا یا بُرا۔ اس میں درج ہے کہ ایک چپڑاسی کی بھرتی کے لئے میٹرک اور ایک سائیکل شرط ہو گی۔ اس طرح، سینٹ، قومی سمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران کے لئے شرط کم از کم بی اے ہونی چاہئے۔ لیکن جہلاءکی بڑی تعداد ان اداروں میں موجود ہے۔ انگوٹھا چھاپ اور انڈر میٹرک افراد بیٹھے ہیں سب نے ملی بھگت کر کے جب جعلی سرٹیفکیٹ پکرے جانے لگے اور عدالتیں ان کو نااہل قرار دینے لگیں تو یہ آپس میں مل گئے اور قانون کو ہی اڑا دیا۔ اب کسی قسم کی پابندی نہیں ہے۔ جسے دستخط بھی نہ کرنے آگے ہوں وہ ان اداروں کے ممبر بن سکتے ہیں۔یہ ان پڑھ ٹولہ اپنے علاقے میں راجے، مہاراجے بنے ہوئے ہیں۔ وہ عوام کی سہولتوں کو اپنے لئے مخصوص کر چکے ہیں۔ یہ جمہوری نظام کی بدقسمتی ہے۔ پاکستان ہندوستان کے درمیان انڈس واٹر کمیشن 1960ءمیں بنا تھا۔ اس کے تحت 3 دریا پاکستان کے حصے میں آئے۔ چناب، جہلم اور سندھ۔ ستلج بیاس اور راوی ان کا زرعی پانی انڈیا کے حصے میں آیا۔ اس کے بعلے ورلڈ بینک کے تعاون سے ہم نے تربیلا اور منگلا کی دو جھیلیں بنائیں۔ اس معاہدے میں درج ہے ہم نے دریاﺅں کے زرعی پانیوں کا معاہدہ کیا۔ جبکہ دریا کے پانی کے چار استعمال ہیں۔ (1) زرعی پانی (2) پینے کا پانی (3) آبی حیات کا پانی (4) ماحولیات کا پانی۔ بھارت نے یقین دہانی کروائی کہ چناب جہلم سندھ سے ان چیزوں کے لئے وہ پانی استعمال کرے گا اور وہی سہولت انہوں نے ستلاج، بیاس اور راوی کے پانی پر پاکستان کو نہیں دی۔ انڈس واٹر کے کمشنر سے پوچھا تو انہوں نے قبول کیا کہ ہم اس بنیاد پر کشن گنگا جو کشمیر میں داخل ہو کر دریائے ستلج کی شکل اختیار کر گیا ہے اس کے پانی کا کیس ہم انٹرنیشنل مصالحتی عدالت سے جیت چکے ہیں۔ جس کے تحت پورا پانی کسی بھی دریا کا بھارت نہیں روک سکتا۔ ہم نے تو مطلوبہ پانی دریائے نیلم میں چھوڑ دیا۔ ہم نے وکلائ، کمشنرز اور اہم لوگوں سے مشورہ کیا۔ انہوں نے کہا ہم عدالت میں جا سکتے ہیں اور اپنے حصے کا تینوں دریاﺅں کا مطلوبہ پانی حاصل کر سکے ہیں ہم کوشش کر رہے ہیں پہلے لوگوں کو اکٹھا کریں گے پھر عدالتوں میں جائیں گے اگر حکومت نہ گئی تو ہم انٹرنیشنل عدالت میں یہ ایشو لے کر جائیں گے۔ میں نے اور محمد علی درانی نے مختلف خطوط لکھے جس کے جواب میں یورپی یونین اور دیگر اہم اداروں کو خطوط لکھے ہیں۔ ارکان اسمبلی اور سینٹ کو بھی خطوط لکھے ہیں۔ صوبائی ارکان کو بھی خطوط لکھے ہیں۔ آج وزیراعظم سے بھی درخواست کی جس کے جواب میں انہوں نے کہا ہم پہلے ہی یہ مسئلہ ورلڈ بینک کے سامنے لے جا چکے ہیں۔ امید ہے ہمارے حق میں فیصلہ ہو گا۔ یورپ ایک ”برین سیل“ ہے اگر ہم اسے قائل کرنے میں کامیاب ہو سکے تو انٹرنیشنل لیول پر یہ بات اجاگر ہوتی کہ بھارت نے سو فیصد پانی روک کر انڈس واٹر ٹریسٹی کی خلاف ورزی کی ہے یہ پانی ہمیں ملنا چاہئے۔ اگر 20 فیصد پانی بھی لینے میں کامیاب ہو گئے تو نہ صرف اوپر آ جائے گا بلکہ آبی حیات ماحولیات سے پینے کے پانی کا معیار بھی بہتر ہو جائے گا۔