قصور(جاویدملک سے) قصور میں قتل کی جانے والی زینب کے کیس میں نئی سی سی ٹی وی فوٹیج منظر عام پر آنے کے بعد اہل علاقہ کا کہنا ہے کہ یہ فوٹیج مجرم کو پکڑنے کے عمل کو متاثر کرسکتی ہے ۔واضح رہے کہ گزشتہ روز ذرائع ابلاغ کی مختلف ویب سائٹس پر ایک نئی ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں بظاہر اغوا کار کو اس علاقے میں دیکھایا گیا تھا جہاں سے زینب اغوا ہوئی تھی۔اہل علاقہ کے مطابق نئی ویڈیو مجرم کو پکڑنے کی کوششوں کو متاثر کرسکتی ہے کیونکہ گزشتہ ویڈیو میں جو شخص پیرو والا روڈ پر زینب کو لے جاتا ہوا دیکھا گیا وہ نئی ویڈیو میں دیکھے جانے والے شخص سے مختلف ہے ، اس کے علاوہ نئی سی سی ٹی وی فوٹیج 5 بج کر 27 منٹ کی ہے جبکہ زینب کو 7 بجے کے قریب اغوا کیا گیا تھا۔علاقہ مکینوں کا دعویٰ ہے کہ نئی ویڈیو میں مشتبہ شخص کی جسمانی حالت گزشتہ ویڈیو سے مختلف تھی، مزید یہ کہ نئے مشتبہ شخص کو جس جگہ چلتے ہوئے دیکھا گیا وہ متاثرہ بچی کے گھر سے دور ہے ۔دوسری جانب پولیس زینب کے قتل اور زیادتی کے پیچھے چھپے مجرم کا سراغ لگانے کی کوششیں کر رہی ہے ، تاہم لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب پولیس عارف نواز خان کو دی گئی ڈیڈ لائن گزشتہ رات 8 بجے ختم ہوگئی تھی۔اس کیس میں کم از کم چار ایجنسیوں کا¶نٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ، انٹیلی جنس بیورو، اسپیشل برانچ اور پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی اپنی اپنی تحقیقات کر رہی ہیں اور ہر ایجنسی نے مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ہے ۔مقامی پولیس حکام کے مطابق تفتیش کار اس نئی ویڈیو کے بارے میں آگاہ نہیں تھے جبکہ مقامی پولیس، خفیہ ایجنسیز یا نیوز ویب سائٹس ملزم کے حوالے سے نئی ویڈیو کے ذرائع بتانے کو تیار نہیں۔ذرائع کے مطابق مشتبہ افراد کے لیے گئے 120 ڈین این اے کے نتائج موصول ہوگئے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی ڈی این اے سیریل کلر سے میچ نہیں کرتا۔خیال رہے کہ قصور میں دیگر بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے مقدمات کی تحقیقات کے دوران پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے 5 ہزار مشتبہ افراد سے تفتیش کی جبکہ ڈی این اے کی جانچ کے لیے 67 ٹشو کے نمونے بھیجے لیکن کوئی بھی مجرم سے میچ نہیں ہواادھر ایک اجلاس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم(جے آئی ٹی) کے سربراہ اور ریجنل پولیس افسر ملتان محمد ادریس نے اس کیس سے متعلق پیش رفت سے آئی جی پنجاب پولیس کو آگاہ کیا، اس موقع پر آر پی او شیخوپورہ ذوالفقار حمید، ڈی پی او قصور زاہد نواز مروت اور جے آئی ٹی کے دیگر ارکان بھی موجود تھے ۔ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ آئی جی پولیس کو مجرم کو پکڑنے کے لیے کی گئی کارروائی، ڈی این اے رپورٹ، مشتبہ افراد کی گرفتاری، سی سی ٹی وی فوٹیج اور دیگر معاملات سے آگاہ کیا گیا جبکہ آئی جی نے ہدایت کی کہ تمام مشتبہ افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا جائے ۔ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالتوں کا اس واقعہ کا ازخود نوٹس لینا اور قومی اسمبلی سمیت دیگر اداروںمیںمقتولہ زین کے ملزمان کو جلد ازجلد گرفتار کرنے کا مطالبہ کرنا اس مقدمہ کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہے پوری پاکستانی قوم کی نظریںبھی اس مقدمہ میں متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر لگی ہوئی ہیں مگر روزنامہ خبریں کے اپنے ذرائع کے مطابق پولیس یادیگر ادارے اس کیس میں ابھی تک ملزم کے متعلق ابتدائی معلومات تک حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے اس موقع پر اچانک دوسری سی سی ٹی فوٹیج کا جاری ہونا بھی کئی ایک سوال پیدا کر رہا ہے کیونکہ دونوں سی سی ٹی وی فوٹیج ملزم کی شناخت میں ابہام پیدا کر رہی ہیں آئی جی پنجاب سے لیکر قصور پولیس تک کوئی ذمے دار افسر اس بات کا اعتراف نہیں کر رہا کہ یہ فوٹیج انکی طرف سے جاری کی گئی ہے نہ ہی کوئی دوسرا ادارہ دوسری ٹی وی فوٹیج جاری کرنے کی ذمے داری لے رہا ہے جبکہ ذرائع کا کہنا ہے چونکہ لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے پولیس کو ملز م کی گرفتاری کے لیے دی گئی مدت ختم ہوچکی ہے لہذا پولیس کی طرف سے یہ دوسری فوٹیج جاری کی گئی ہے گو پولیس اس ٹی وی فوٹیج کو جاری کرنے کا اعتراف نہیں کر رہی مگر اس فوٹیج کے جاری کیے جانے کا سب سے زیادہ فائدہ پولیس کو پہنچ رہا ہے کیونکہ اس طرح ملزم کی شناخت ممکن نہیںرہتی یا پھر انتہائی مشکل ہوجاتی ہے اس لیے دانستہ طور پر عدالت عالیہ کی طرف سے کسی ممکنہ سزا سے بچنے کے لیے یہ فوٹیج جاری کی گئی ہے قانونی حلقوں کے مطابق اس فوٹیج سے ناصرف ملزم کی شناخت کے متعلق نئی بحث شروع ہوگئی ہے بلکہ ا س سے مقدمہ کی تفتیش کا عمل بھی متاثر ہوگا اور یہ بات انتہائی لمحہ فکریہ ہے۔