اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) پاکستان کے قانون وانصاف کمیشن (ایل اینڈ جے سی پی) کے مطابق، 30 نومبر2017،تک پاکستان کی تمام اعلی اور ماتحت عدالتوں میں 18 لاکھ 73 ہزار 85 مقدمات زیر التوا تھے۔ جب کہ عدالتی نظام میں بہتری اور مقدمات کو جلد منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے پالیسی ساز کوئی توجہ نہیں دے رہے۔ہفتے کو کراچی میں اپنے خطاب میں چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس میاں ثاقب نثارنے واضح طور پر بڑے پیمانے پر زیر التوا مقدمات پر اظہار تشویش کیااور ہائی کورٹ کے ججوں سے کہا ہے کہ وہ تین ماہ کے اندر ان مقدمات کو نمٹائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مقدمات میں تاخیر کا ذمہ دار صرف عدلیہ کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا، عوام کو اس وقت تک جلد انصاف نہیں مل سکتا جب تک صدیوں پرانے قوانین میں پارلیمنٹ کے ذریعے ترمیم نہیں کی جاتی۔ عدلیہ قانون سازی نہیں کرسکتی اور نہ ہی یہ مقننہ کی حدود میں مداخلت کرسکتی ہے۔ عدالت عظمی میں 38 ہزار 71 مقدمات زیر التوااسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرا لتوا مقدمات کی تعداد 16ہزار244 ہے۔ لاہور ہائیکورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 1 لاکھ47 ہزار6 سو33 سندھ ہائی کورٹ میں 93 ہزار 4 سو 4 مقدمات کا فیصلہ ہونا باقی ہے،پشاور ہائی کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 29 ہزار 5 سو 25، جبکہ بلوچستان ہائی کورٹ میں 6 ہزار5 سو 10مقدمات زیر التوا ہیں۔خیبر پختونخوا رقبے کے لحاظ سے سندھ سے چھوٹا تاہم، وہاں ضلعی عدالتوں میں سندھ کے مقابلے میں دگنے مقدمات زیر التوا ہیں ۔ تفصیلات کے مطابق، تمام جوڈیشل ادارے بشمول عدالت عظمی،پانچوں عدالت عالیہ، وفاقی شرعی عدالت اور ضلعی عدالتوں میں مقدمات زیر التوا ہیں۔ ایل اینڈ جے سی پی نے اپنی ویب سائٹ پر جو اعداد وشمار رکھے ہیں اس کے مطابق، 30 نومبر2017 ءتک عدالت عظمی میں 38 ہزار 71 مقدمات زیر التوا تھے۔جب کہ پانچوں عدالت عالیہ میں 2 لاکھ 93 ہزار 3 سو16 مقدمات کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔اعلی عدالتوں میں سیاسی نوعیت کے مقدمات دائر کیا جانا معمول کی بات ہے۔چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثارنے بھی ان مشکلات کا ذکر کیا تھا، جن کا انہیں دیگر پٹیشنز کے ساتھ سامنا ہوتا ہے۔ خاص طور پر پاناما کیس میں عدالت عظمی کے ایک سال تک مصروف رہنے کی وجہ سے خاصی مشکلات کا سامنا رہا۔ان کا کہنا تھا کہ اس سبب دیگر عدالتی کارروائیوں کےلیے بہت کم تعداد میں جج باقی رہ گئے تھے۔ان میں سے بھی کچھ کو پشاور، لاہور، کراچی کے اسٹیشنز پر دیگر مقدمات کے لیے بھیجا گیا، جب کہ دیگر اسلام آباد میں رہے۔ان کا کہنا تھا کہ عمران خان، نواز شریف اور جہانگیر ترین سے متعلق مقدمات کے فیصلوں کے بعد اب ججوں کو عام مقدمات کی سماعت کے لیے وقت ملے گا۔سیاسی نوعیت کے مقدمات کی سماعت کا منفی پہلو یہ ہے کہ ، فیصلہ آنے پر ایک فریق سخت تنقید شروع کردیتا ہے تو دوسرے فریق کو فائدہ پہنچتا ہے، جس سے سخت تنازعات پیدا ہوجاتے ہیں۔جب کہ عام مقدمات تاخیر کا شکار ہوجاتے ہیں۔سیاسی نوعیت کے مقد ما ت کے فیصلے مختصر وقت میں کرنے کے سبب ، دیگر مقدمات التوا میں جاتے ہیں تو مقدمات میں شامل پارٹیوں کو رقم بھی خاصی بڑی خرچ کرنا پڑتی ہے۔اس کی ایک مثال تین روز قبل ہی سامنے آئی جب مافیا سے اپنے پلاٹ کا قبضہ چھڑانے والے ایک بوڑھے شخص کو کئی دہائی تک مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ۔ وہ 40 برس کے تھے جب یہ تنازعہ پیدا ہوا تھا اور اب ان کی عمر 77 برس ہے جب انہیں مقدمے میں کامیابی ملی ہے۔ اگر اسلام آباد کے جسٹس شوکت صدیقی انہیں انصاف فراہم نہیں کرتے تو شاید ان کے مزید کئی برس ضائع ہوتے۔ اس مقدمے میں انہیں لاکھوں روپے الگ خرچ کرنا پڑے۔ مقدمات میں اس تعطل کو ختم کرنے کے لیے عوامی سطح پر اعلی عدالتوں کی جانب سے ججوں کی تعداد بڑھانے کا کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں تمام عدالتو ں کے ججوں کی تنخواہوں اور پنشنز میں خاصا اضافہ کیا گیا تھا تاکہ جس معاشی تحفظ کے ججز مستحق تھے وہ انہیں فراہم کیا جاسکے۔چاہے کوئی مانے یا نہ مانے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ انصاف کی تاخیر سے فراہمی کے باعث کئی خاندن بری طرح متاثر ہوئے ہیں ، جس کے نتیجے میں بڑے جرائم سامنے آئے ہیں۔معاشرے کی بہت سی اکائیاں اور کمیونٹیز مقدمات میں تاخیر کے سبب متاثر ہوئی ہیں۔اس حوالے سے کوئی اعداد وشمار موجود نہیں ہیں تاہم بےتحاشہ بیوائیں اور یتیم بچے اپنے حقوق سے محروم ہوئے ہیں۔عدالتوں میں جاکر مشکل سے ہی انہیں کوئی راحت نصیب ہوتی ہے۔سرمایہ دار طبقہ بھی مقدمات کی طوالت سے سخت متاثر ہے، اس تاخیر کے سبب ان کا کارو با ر بری طرح متاثر ہوتا ہے، جس کے سبب بیرونی سرمایہ کاری پاکستان آنے سے رک جاتی ہے، جس کی پاکستان کو فوری ضرورت ہے۔اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور طاقتور افراد کے مقدمات علیحدہ ہیں۔اس طرح کے مقدمات میں دوسرا فریق ہی متاثر ہوتا ہے۔ایسی کوئی مثال ڈھونڈنا بہت مشکل ہے جب تاخیر کے بعد ہی سہی ان طاقتور افراد کے خلاف کوئی فیصلہ آیا ہو۔مقدمات کی ایک قسم جائداد سے تعلق رکھتی ہے۔ ایسے خاندان کا تعین کرنا تقریبا ناممکن ہے، جو تاخیری مقدمات کے سبب متاثر ہوئے ہیں، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس نے کئی معصوموں کی جان لی ہیں۔ذہنی پریشانی اور انسانی جانوں کے زیاں کے بعد بھی ،فریقین کو اس کے ساتھ ہی جینا ہوتا ہے اور مقدمات کی سماعت کے مختلف مرحلوں پر بڑی رقم استعمال کرنا پڑتی ہے۔انہیں صرف وکلا کی فیس ہی نہیں دینا ہوتی بلکہ دیگر کئی معاملات میں رقم خرچ کرنا ہوتی ہے۔ضلعی عدالتوں میں بھی 15 لاکھ 41 ہزار1سو19مقدمات زیر التوا ہیں ۔خیبر پختونخوا جو رقبے کے لحاظ سے سندھ سے چھوٹا ہے، وہاں کی ضلعی عدالتوں میں سندھ کے مقابلے میں دگنے مقدمات زیر التوا ہیں۔پنجاب کی ضلعی عدالتوں میں 11 لاکھ 87 ہزار 76 مقدمات زیر التوا ہیں، جب کہ سندھ کی ضلعی عدالتوں میں 99 ہزار 8 سو 20 مقدمات، خیبر پختونخوا کی ضلعی عدالتوں میں 2 لاکھ 4 ہزار 2 سو 9 مقدمات، بلوچستا ن کی ضلعی عدالتوں میں 13 ہزار 9 مقدمات اور اسلام آباد کی ضلعی عدالتوں میں 37 ہزار 5 مقدمات کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت جس پر میڈیا کی توجہ نہیں ہے، اسے بھی 579 مقدمات کا فیصلہ کرنا ہے۔جس طریقہ کار کے مطابق ضلعی عدالتوں میں انصاف فراہم کیا جارہا ہے، اس سے کئی خاندان بری طرح متاثر ہیں، کئی مرتبہ تو لوگ مقدمات کا فیصلہ ہونے سے پہلے ہی انتقال کرجاتے ہیں۔ مقدمات کی سماعت برخاست کرنے کا حکم معمول کی بات ہے۔اگر کوئی ایک فریق نہیں چاہتا کہ مقدمہ آگے چلے، تو وہ مقدمہ ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکتا، زیادہ تر مقدمات میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ انصاف کی فراہمی کے نظام میں ضلعی عدالتوں میں بڑے پیمانے پر مقدمات زیر التوا ہیں اور پالیسی ساز افراد کی اس جانب کوئی توجہ نہیں ہے کہ اس پریشانی سے چھٹکارہ حاصل کیا جاسکے۔پانچوں ہائی کورٹس میں پہلے 2 لاکھ95 ہزار41 کیسز زیر التوا تھے، اب وہاں مقدمات کی تعداد 2 لاکھ 93 ہزار 3 سو 16 ہے۔ اس دوران 20 ہزار59 نئے مقدمات دائر کیے گئے ہیں جب کہ 22 ہزار 12مقدمات کے فیصلے ہوئے ہیں۔لاہور ہائی کورٹ میں پہلے 1 لاکھ 47 ہزار 8 سو 42 مقدمات زیر التوا تھے ، جن کی تعداد اب 1 لاکھ 47 ہزار6 سو33 ہے۔ تقریبا 14 ہزار2 سو95 نئے مقدمات دائر کیے گئے ہیں جب کہ 13 ہزار6 سو 17 مقد ما ت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔سندھ ہائی کورٹ میں 93 ہزار 4 سو 4 مقدمات کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔اس سے قبل وہاں زیر التوا مقدمات کی تعداد 93 ہزار 6 سو 60 تھی۔ یہاں 3 ہزار5 سو 2 نئے مقدمات دائر کیے گئے ہیں، جب کہ 3 ہزار 6 سو 93 مقدمات کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پشاور ہائی کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 30 ہزار 9 سو 10 تھی، تاہم اب ان مقدمات کی تعداد 29 ہزار 5 سو 25 ہے۔ تقریبا991 نئے مقدمات دائر کیے گئے ، جب کہ اس دوران 3 ہزار 5 سو 34 مقدمات کے فیصلے کیے گئے۔بلوچستان ہائی کورٹ جہاں زیر التوا مقدمات کی تعداد 6 ہزار 5 سو 10ہے، اس سے قبل وہاں 6 ہزار4 سو49 مقدمات کے فیصلے نہیں ہوئے تھے ۔ وہاں503 نئے مقدمت دائر کیے گئے ہیں، جب کہ 442 مقدمات کے فیصلے کیے گئے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پہلے 16 ہزار 180مقدمات زیر التوا تھے۔جب کہ موجودہ مقدما ت کی تعداد 16 ہزار 244 ہے۔ 768 نئے مقدمات دائر کیے گئے ہیں ، جب کہ 726 مقدمات کے فیصلے ہوئے ہیں۔ اسی طرح پنجاب کی ضلعی عدالتوں میں پہلے 12 لاکھ 19 ہزار 201 مقدمات کے فیصلے ہونا باقی تھے۔اب وہاں 11لاکھ 87 ہزار 76 مقدمات کے فیصلے ہونا باقی ہیں۔ تقریبا 2لاکھ 7ہزار541نئے مقدمات دائر کیے گئے ہیں ، جب کہ 2لاکھ 40ہزار74مقدمات کے فیصلے کئے گئے۔سندھ کی ضلعی عدالتوں میں فی الوقت 99ہزار 820 مقدمات کے فیصلے ہونا باقی ہیں ، جب کہ اس سے قبل وہاں 1لاکھ1ہ زار580مقدمات دائر تھے ۔تقریبا22ہزار 803 نئے مقدمات دائر کیے گئے ہیں ، جب کہ 24ہزار 6سو 28مقدمات کے فیصلے کیے گئے ہیں۔خیبر پختونخوا کی ضلعی عدالتوں میں جہاں پہلے 2لاکھ4ہزار950مقدمات کے فیصلے ہونا باقی تھے ، ان کی تعداد اب 2لاکھ 4ہزار 209ہے۔یہاں 38ہزار 766مقدمات کے فیصلے ہوچکے ہیں ، جب کہ 38ہزار 92نئے مقدمات دائر کیے گئے ہیں۔ بلوچستان کی ضلعی عدالتوں میں 13ہزار 9مقدمات زیر التوا ہیں، اس سے قبل وہاں13ہزار229مقدمات کے فیصلے ہونا باقی تھے۔وہاں تقریبا650نئے مقدمات دائر کئے گئے ، جب کہ 875مقدمات کے فیصلے ہوئے۔اسلام آباد کی ضلعی عدالتوں میں جہاں پہلے 36ہزار149مقدمات کے فیصلے ہونا باقی تھے، اب وہاں ایسے مقدمات کی تعداد 37ہزار 5ہے۔ تقریبا8ہزار476 نئے مقدمات وہاں دائر کیے گئے ہیں ، جب کہ 7ہزار620مقدمات کے فیصلے کیے گئے ہیں۔ہائی کورٹس اور ضلعی عدالتوں سے متعلق جو اعداد شمار ہیں ان میں 31 دسمبر،2011 تک دائر کیے گئے پرانے مقدمات اور یکم جنوری، 2012 ءکے بعد دائر کئے گئے نئے مقدمات شامل ہیں۔
