تازہ تر ین

ویل ڈن شہباز شریف ! اب دوسرے مجرم بھی پکڑیں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ زینب کا قاتل پکڑا گیا ہے۔ مزید تحقیقات کے بعد اصل کہانی سامنے آئے گی۔ اس قسم کے کریمینل سب سے پہلے صفائی پیش کرنے کے لئے خود کو پاگل ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ملزم کا یہ کہنا کہ جنات اس پر آئے تھے اور جرم پر اکساتے تھے۔ یہ سب جھوٹ ہے بکواس کر رہا ہے۔ جرم کو چھپانے کے لئے خود کو جنات کے تابع شو کرے گا۔ پھر صفائی کے وکلاءعدالت میں اسے پاگل ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کی گرفتاری سے اضطراب کی کیفیت حتم ہو گئی ہے زینب کا واقعہ پہلا نہیں ہے۔ اب بھی روزانہ کی بنیاد پر اس قسم کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔ جنسی تسکین کی یہ ایک بیماری ہے جس سے مجرم کو سکون محسوس ہوتا ہے۔ پاکستان واحد ملک نہیں ہے بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ایسا ہے حالانکہ وہاں آزادانہ ماحول بھی موجود ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بدکاری کو آسان اور نکاح جیسی مقدس چیز کو مشکل کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ واقعات دن بہ دن بڑھ رہے ہیں۔ اوسطاً ہر ہفتے 10 واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔ میاں شہباز شریف کو دلی طور پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے خصوصی دلچسپی لی اور زینب قتل کیس کے ملزم کو پکڑ لیا۔ صرف ایک دن پہلے پنجاب کے آئی جی، سینٹ کی کمیٹی کے سامنے کہہ چکے تھے، کہ 3 دنوں میں کسی نتیجے پر پہنچنا مشکل ہے اس میں پندرہ سے تیس دن لگ سکتے ہیں اس لحاظ سے یہ پنجاب حکومت کا بہت بڑا کارنامہ ہے جس پر جے آئی ٹی کی ٹیم اور پولیس کی کارکردگی بھی قابل تحسین ہے۔ اس قسم کے کیس کی سزا تقریباً دس سال قید بنتی ہے۔ لیکن جس قسم کا یہ واقعہ ہے۔ اس پر ایسے ملزم کو پھانسی کی سزا دی جانی چاہئے۔ جس طرح شہباز شریف نے سرعام پھانسی کا تقاضا کیا ہے۔ انہیں چاہئے کہ پنجاب میں بھی ان کی حکومت ہے اور مرکز میں بھی اور سینٹ میں بھی اس کی بازگشت پہنچ چکی ہے۔ لہٰذا قانون سازی کریں اور ایسے مجرم کو پھانسی پر چڑھا دیں۔ اب اس پر بھی چھان بین ہونی چاہئے کہ اس سے قبل سات بچیوں کے ساتھ یہ واقعہ ہو چکا ہے۔ پولیس پہلے بھی موجود تھی۔ ڈی پی او پہلے بھی موجود تھے۔ کیوں ان کیسز میں اس مجرم کو پکڑا نہیں گیا۔ یہ چھوٹے سے علاقے میں ہونے والے واقعات میں سے ایک واقعہ ہے۔ یہ ملزم پہلے بھی پکڑا گیا۔ لیکن اس وقت اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کیوں نہیں کروایا گیا۔ میں پہلے بھی وزیراعلیٰ پنجاب سے درخواست کر چکا ہوں کہ پولیس میں سے کالی بھیڑوں کو علیحدہ کریں اور انہیں معطل نہ کریں بلکہ فارغ کر کے ہمیشہ کے لئے گھر بھیج دیں۔ زینب کیس پہلے شہر میں پھر صوبے میں اور پھر ملک میں اتنی تیزی سے پھیلا کر اس بازگشت دوسرے ممالک تک بھی جا پہنچی۔ کیا زینب کی طرح باقی سات بچیاں کسی کی لخت جگر نہیں تھیں، کیا ان کے والدین کو تکلیف نہیں پہنچی تھی؟ ان کے گھروں پر صف ماتم نہیں بچھی ہو گی۔ جناب شہباز شریف باقی متاثرہ بچیوں کے لواحقین کے سروں پر بھی ہاتھ رکھیں اور خود ان کے پاس جائیں جیسا کہ انہوں نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جن افسروں نے، جن اہلکاروں نے، جن پولیس والوں نے جن ڈی سی اوز نے اس مسئلہ پر توجہ نہیں دی۔ اور ایک سیریل کلر اور ریپسٹ کو پہلے نہیں پکڑا گیا۔ انہیں بھی کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ معروف عالم دین علامہ کوکب نورانی نے کہا ہے کہ کسی شخص کے دینی محفلوں میں جانے سے، داڑھی رکھ لینے سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ وہ مذہبی ہے اور اس کی تربیت مذہبی نکتہ نگاہ سے پوری ہوتی ہے اور اس نے مذہب کو درست طریقہ سے مذہب کو سمجھا ہے؟ جرائم کو ختم کرنے کے لئے معاشرے میں سزاﺅں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ عدل و انصاف کا چرچا ہونا چاہئے۔ ہمارے یہاں تو حیثیت پر سزا نہیں ہوتی ہیں جو چھوٹی چوری کرتا ہے اسے سزا دے دی جاتی ہے۔ بڑے مگر مچھ بچ جاتے ہیں۔ ہر طبقے میں مختلف قسم کے لوگ ملیں گے۔ اگر زینب کا قاتل خود کو مذہبی کہتا ہے تو مذہب نے ہی اس کے لئے سزائیں مقرر کی ہیں۔ اسلامی تاریخ کی تمام مثالیں موجود ہیں۔ اس کی وجہ سے ان معاشروں میں جرائم پروان نہیں چڑھتے تھے۔ ہمارے ہاں نصاب دنیا کمانے کے طریقے سکھاتا ہے اخلاق نہیں سکھائے جاتے ہمیں تمام عوامل کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہو گا۔ اگر یہ ملزم خود تو مذہبی کہلاتا ہے تو وہ زیادہ سزا کا حقدار ہے۔ نمائندہ خبریں قصور، جاوید ملک نے کہا ہے کہ میاں شہباز شریف کی آج کی پریس کانفرنس ماضی کی تمام کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش معلوم ہوتی تھی۔ زینب کیس میں پکڑا جانے والا ملزم عمران علی نقشبندی، مذہبی پروگراموں میں نقابت وغیرہ کرتا رہا ہے۔ اس بندے نے آٹھ بچیاں ریپ کی ہیں اور انہیں قتل کیا ہے۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق اس ملزم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ میں نے 3 لڑکیاں زندہ چھوڑ دیں تھیں۔ 8 کا ریپ اور قتل تو وہ مان گیا ہے۔ ایک جگہ جھگڑا ہو گیا تو یہ وہاں سے بھاگ گیا۔ زینب کے چچا سے ہم نے بات کی۔ انہوں نے کہا ہم نے اس بندے کو پکڑایا تھا۔ اس نے تھانے جا کر الٹیاں کرنا شروع کر دیں۔ پولیس والے اس سے خوفزدہ ہو گئے اور اسے بغیر ڈی این اے کئے چھوڑ دیا۔ طاہرالقادری جو نماز جنازہ پڑھا رہے ہیں اس کی دوسری صف میں یہ شخص کھڑا ہے۔ اسپیشل برانچ نے پولیس کی کارکردگی پر پردہ ڈال دیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے پچھلے واقعات پر کوئی بات نہیں کی۔ اس کامداوا کیا ہے؟ وزیراعلیٰ کہتے تھے کہ گزشتہ متاثرین کو امداد دی گئی جبکہ ایک بھی شخص کو امداد نہیں ملی۔ روزنامہ خبریں، قصور میں بکنے والا سب سے بڑا اخبار ہے۔ ہم نے بچیوں کا یہ ایشو سب سے زیادہ اٹھایا ہے۔ اسی طرح ہمارے چینل نے سب سے زیادہ اس پر رپورٹنگ کی ہے۔ اور کسی بھی میڈیا نے اتنی کوریج نہیں کی جتنی ہم نے کی ہے۔میاں شہباز شریف اگر اتنے بہادر تھے تو ایک طرف ایم این اے اور ایک طرف ایم پی اے کو بٹھا کر پبلک میں پریس کانفرنس کرتے۔ حلفاً کہتا ہوں کہ وہاں ان کو جوتے پڑتے۔


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain