قصور(جاویدملک سے) سفاک قاتل عمران علی کی گرفتاری سے قبل یہ خیال کیا جارہا تھا کہ قاتل انتہائی شاطر شخص ہے مگر گرفتاری کے عمل کے بعد یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ آٹھ بچیوں کو قتل کرنےوالا ملزم نہ تو زیادہ ذہین ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے کوئی نیٹ ورک کام کر رہا تھا بلکہ یہ معصوم بچیاں اس لیے زیادتی کا نشانہ بننے کے بعد قتل کر دی گئیں کہ پولیس نے پہلے مقدمہ سے لیکر زینب کی ہلاکت تک کسی بھی کیس کو نہ تو سنجیدگی سے لیا اور نہ ہی ذمے داری سے ابتدائی تفتیش کی ورنہ روڈ کوٹ کی گلی نمبر 6 میں رہنے والے عمران علی کی گرفتاری اور اس تک پہنچنا کوئی مشکل امر نہیں تھا زینب کی ہلاکت کے مقدمہ نے جہاںپورے پاکستان کو ہلاکے رکھ دیا ہے وہیں پر پولیس کی مجرمانہ غفلت کے کئی ایک واقعات بھی منظر عام پر آتے جارہے ہیں مثلاً گزشتہ سال پولیس نے فروری کے مہینے میں مدثر حسین نامی ایک شخص کو گھر سے بلا کر قتل کر دیا اور اس پر الزام یہ عائد کیا گیا کہ وہ اس سے قبل قتل ہونیوالی سات بچیوں کے اغواءاور قتل میں ملوث ہے واضح رہے کہ متاثرہ بچیوںمیں پانچ سالہ ایمان فاطمہ بھی تھیں جس کے قتل کے شبہ میں بے گناہ مدثر کو ہلاک کر دیا گیا روزنامہ خبریںنے دو روز قبل جب اس امر کی نشاندہی کی اور چینل5 پر بھی اس قتل کے متعلق تفصیلات بتائی گئیں تو اس کے بعد حکومتی سطح پر یہ بیان جاری کیا گیا ہے کہ مدثر کے قتل یا مبینہ پولیس مقابلہ کی ازسر نو تحقیقات کی جائیں گی تاہم قصور کے شہریوں کا پولیس کےخلاف غم وغصہ اور ناراضی بدستور برقرار ہے کیونکہ ملزم کی گرفتاری کے بعد چھٹنے والی دھند نے اس امر کو روز روشن کی طرح عیاں کر دیا ہے کہ قصور میں یکے بعد دیگرے معصوم بچیوںکو اغواءاور زیادتی کے بعد قتل کیاجاتا رہا مگر پولیس کی مجرمانہ غفلت سے قاتلوں کے حوصلے بڑھتے رہے اور ایک درجن معصو م بچیاںلقمہ اجل بن گئیں روزنامہ خبریں کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق یہ امر بھی سامنے آیا ہے کہ بستی قادر آباد سے جس بچی کو اغواءکیا گیا اور جب اغواءکے بعد بچی کی نعش ملی اور عوام سڑکوںپر نکلے تو گرفتار کیے گئے ایک اور ملزم کو مبینہ مقابلہ میں ہلاک کر دیا گیا حالانکہ یہ دونوںبچیاں حال ہی میں آنیوالے ڈی این اے میں ان مقتولین میں شامل ہیں جن کا ڈی این اے ملزم عمران علی سے ملا ہے اور پولیس دو بندوںکو یکے بعد دیگرے مارتے وقت یہ دعوئے کر رہی تھی کہ ان دوبچیوںکے قاتل جعلی مقابلے میں مارے جانیوالے لوگ ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس دو سال تک عوام کی آنکھوںمیں دھول جھونکتی رہی اور بالآخر جب زینب کے قتل کے بعد پر امن شہری ملزم کی گرفتاری کے لیے پر امن احتجاج کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر آفس کے سامنے پہنچے تو ان پر اندھا دھند گولیاںچلا کر دو شہریوںکو ہلاک اور تین کو شدید زخمی کر دیا گیا یہاں پر ایک اور لمحہ فکریہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کے بعد جب پنجاب حکومت متحرک ہوئی اور ملزم کی گرفتاری کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تو دیگر اضلاع کے پولیس افسران کو بھی چھاپہ مار ٹیموںمیں شامل کیا گیا مگر اس کے باوجود چودہ روز گزرجانے کے بعد بھی پولیس اور دوسری متعلقہ ایجنسیاں ملزم کے متعلق کوئی سراغ نہ لگا سکیں اور آخر کار سپیشل برانچ کے ملازمین ہی ملزم کا پتہ چلانے میں کامیاب ہوسکے یہاںایک اور اہم سوال بھی کھڑا ہوگیا ہے کہ اگر آٹھ بچیوںکو عمران علی نے قتل کیا ہے تو باقی چار قتل کی جانیوالی بچیوںکا قاتل کون ہے اور اس کی گرفتاری کے لیے پولیس کیا کررہی ہے اور اس سے پہلے کیا کرتی رہی ہے ؟۔