لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ آج چینل ۵ کی خصوصی رپورٹنگ ٹیم زینب کے گھر قصور گئی تھی۔ اس ٹیم نے زینب کے علاوہ باقی 7 متاثرہ بچیوں کے گھر کا بھی دورہ کیا ہے۔ ایک بچی کے گھر تالہ تھا۔ سپریم کورٹ نے آج اس معاملے کا سو موٹو نوٹس لے لیا ہے۔ گزشتہ روز ڈاکٹر شاہد مسعود، جو معروف تجزیہ کار ہیں، نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ زینب کا واقعہ ایک منظم سازش کا حصہ ہے۔ پکڑے جانے والے شخص کے بہت سارے اکاﺅنٹ ہیں۔ یہ ساری دنیا میں چلنے والی ”ڈارک“ ویب سائیٹ ار ”چائیلڈ ابیوزڈ“ کے ذریعے ایسی ویڈیوز چلائی جاتی ہیں جو ”سیڈسٹ“ کی پسندیدہ ویڈیوز ہوتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے آج ڈاکٹر شاہد مسعود کو طلب کیا۔ وہاں ڈاکٹر نے اپنا بیان دہرایا اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے جو ایک وزیر اور ایم پی اے کا نام لیا ہے کیا آپ ان کے نام اوپن کر سکتے ہیں۔ اس پر ڈاکٹر نے چٹ پر وہ نام لکھ کر چیف جسٹس ثاقب نثار کو دیدیئے۔ اب معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہم اس کی تحقیقات کروائیں گے۔ اس خدشہ کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ کہیں اس عمران کو پولیس حراست میں قتل نہ کر دیا جائے۔ کیونکہ اس سے بہت بڑے بڑے نام آشکارہو سکتے ہیں۔ یہ قصہ بڑھتے بڑھتے اب دس بچیوں کا ہو چکا ہے۔ دو سال قبل 300 لڑکوں کی ویڈیوز کا معاملہ اٹھا تھا۔ میں دو مرتبہ اس مسئلہ پر قصور گیا۔ وہاں کئی انکشاف اور ہوئے تھے۔ بچوں کی ویڈیو والے معاملے پر رانا ثناءاللہ نے کہہ دیا کہ یہ پراپرٹی کا جھگڑا ہے۔ حالانکہ بات کچھ اور تھی۔ ”چائیلڈ ابیوزڈ“ کی ویب سائیٹ ادھیڑ عمر کے لوگوں کیلئے ہوتی ہے۔ وہ اس کیلئے کارڈز کے ذریعے پیسے بھی بھیجتے ہیں۔ لیکن صرف وہ لوگ یہ وصول کر سکتے ہیں جنہیں لنک دیا گیا ہوتا ہے۔ دہلی (بھارت) کی ایک بچی ’رادھا‘ کے ساتھ چند سال قبل زیادتی ہوئی اور اس پر کسی شخص نے حملہ کیا اور جنسی زیادتی ہوئی۔ اس کے بعد اس کے بازو کاٹ دیئے گئے۔ اور زبان نوچ لی گئی۔ اس کے جسم پر بھی ایسے ہی تشدد کے نشان تھے جس طرح کے نشانات زینب کے جسم پر پائے گئے۔ کچھ عرصہ بعد ہیکرز نے وہ ویب سائٹ پکڑ لی اور اخبارات میں چھپا کہ یہ وہی بچی ہے جس کا نام رادھا ہے اس کی ویڈیو فلم بنی ہوئی ہے۔ جو 2005ءمیں بنی جبکہ ویڈیو 2008 میں ہیک ہوئی۔ ان واقعات کی ایک متاثرہ بچی کائنات ہسپتال میں زیر علاج ہے اس کے جسم کو بھی کاٹا گیا ہے اور ان پر زخموں کے نشانات لگائے گئے ہیں۔ عام جنسی جنونی ایسے کام نہیں کرتا۔ لیڈی ڈاکٹر جس نے زینب کا پوسٹ مارٹم کیا۔ اس نے کہا کہ وہ پہلے بھی پوسٹ مارٹم کرتی رہی ہیں لیکن آج کے پوسٹ مارٹم سے میں خوفزدہ ہو گئی ہوں۔ کیونکہ بچی کے ساتھ قوم لوط والا فعل بھی کیا گیا۔ بچی کے ساتتھ جنسی زیادتی بھی کی گئی اور بازﺅں پر چرنے بھی لگائے گئے۔ بازو کاٹا بھی گیا۔ جگہ جگہ جسم کو کاٹا بھی گیا۔ نوچا بھی گیا۔ ان واقعات سے صاف ظاہر ہے کہ ملزم اس وقت اکیلا نہیں تھا۔ کم از کم دو یا تین لوگ تھے۔ وعدہ معاف گواہ بھی حرام زادوں کا سرتاج ہے۔ وہ بھی اسی ایکٹ میں شامل تھا۔ اس وقت ویڈیو بنائی نہیں گئی بلکہ پوری دنیا میں دکھائی جا رہی تھی۔ ”سیڈسٹ“ یہ تمام ویڈیوز اس وقت بھی دیکھ رہے تھے۔ 300 بچوں کی ویڈیوز بھی اسی طرح بنائی جاتی رہی۔ اس کے مجرم والدین سے بمشکل ہزار پانچ سو لے لیں گے۔ ایک ملزم کچھ عرصہ قبل سرگودھا سے گرفتار ہوا۔ اس نے تسلیم کیا ناروے کی ایک ویب سائٹ کمپنی کیلئے میں یہ فلمیں بنا کر بھیجا کرتا تھا۔ لہٰذا ڈاکٹر شاہد کے بیان میں وزن دکھائی دیتا ہے۔ امید ہے سپریم کورٹ اس پر ایکشن لے گی۔ جب میں قصور گیا تو مجھے پتا چلا کہ 300 ویڈیوز بنانے والے مجرموں کے پیچھے ایک ایم پی اے کا ہاتھ ہے۔ اس ایم پی اے نے بار کونسل کے صدر کو وکیل کر رکھا تھا۔ اسے کتنے پیسے دیتا ہو گا۔ میں وزیراعلیٰ پنجاب سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتا ہوں کہ 300 بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے ملزم ابھی نہیں پکڑے گئے۔ اس وقت بھی ایک صوبائی وزیر نے انہیں بچایا۔ یہ کہہ کر کہ یہ تو معمولی زمین کا جھگڑا ہے۔ اس جھگڑے سے بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کا کیا تعلق؟ ایک صوبائی مشیر وہاں بہت ایکٹو رہے۔ اس کا فرسٹ کزن قصور کا ایم پی اے ہے جس کا نام شاید احمد سعید ہے۔ وہ مکمل پروٹیکشن دیتا ہے ان سارے بدکاروں کو بچیوں کے قاتلوں کو بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو اور قصور کے بڑے بڑے وکیل اس معاملے کیلئے ہائر کئے گئے۔ قصور کے عوام جانتے ہی ںکہ کون سا ایم این اے اور ایم پی اے ان مجرمان کے پیچھے ہے۔ لاہور میں بیٹھا ہوا کون سے وزیر ان کے پیچھے ہے۔ اور کون سا صوبائی مشیر ان کے پیچھے ہے۔ وزیراعلیٰ پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے اس وزیر سے مشیر سے ایم پی اے سے ایم این اے سے استعفے لیں اور ان کے خلاف کارروائی کریں۔ ان کے بھی ڈی این اے ٹیسٹ کروائیں۔ کیونکہ 17 جنوری کی خبر میں ہم نے کہا تھا کہ قصور میں ایک بااثر گروہ اس گھناﺅنے کھیل کے پیچھے ہے۔ قصور میں جب ایک ایم این اے تاجروں کے ساتھ میٹنگ کے لئے گیا تو وہاں کتا کتا کے نعرے لگے۔ ایم پی اے کے بارے میں سارا شہر جانتا ہے کہ وہ ان مجرموں کے پیچھے ہے۔ اس کا ایک کزن صوبائی مشیر ہے۔ دہلی کی بچی ’رادھا‘ اور قصور کی بچی ’زینب‘ کا معمہ ایک ہی کہانی کے دو رخ ہیں لگتا ہے کہ مجرموں کو ایک ہی سکرپٹ دیا جاتا ہے۔ ہو بہ ہو، ایک جیسا واقعہ ایک جیسی کارروائی، کوڑے کے ڈھیر پر پھینکا بھی ایک جیسا۔ موووی بنائی نہیں جاتی بلکہ لائیو پوری دنیا میں چلائی جاتی ہے۔ وزیراعلیٰ محترم آپ کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ کسی ایک بچی یا ایک خاندان کا معاملہ نہیں ہے۔ خدارا اس قوم پر رحم کریں، اس قوم پر رحم کریں۔ ان حرام زادوں کو پکڑیں۔ ایسے وزیروں کو گھر بھیجیں جو ان مجرمان کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ان ایم پی اے حضرات کے بھی ڈی این اے کروائیں بار کے وکلاءکے اکاﺅنٹ چیک کریں انہوں نے کتنے کتنے پیسے وصول کئے۔ سابقہ ڈی پی او جنہیں قصور سے تبدیل کر دیا گیا، سب جانتے تھے کہ ان کے پیچھے کون کون ہے۔ وہ سب جانتے تھے کہ ویڈیوز کیوں بنائی گئیں۔ اور اس گھناﺅنے کاروبار کے پیچھے کون ہے۔ ہمارے قصور کے نمائندے کو میرے سامنے سابقے ڈی پی او اور ڈی ایس پی نے دھمکیاں دیں کہ یہ آپ کا آدمی کیا بکواس کر رہا ہے۔ اور کہا کہ اس معاملے کو اچھالنے کی بجائے دبائیں۔ مجھے نمائندے نے بتایا کہ یہ قتل کرنے کی دھمکیاں دے چکا ہے۔ اس ڈی ایس پی کا تبادلہ میں نے آئی جی صاحب سے کہہ کر کروایا لیکن وہ شخص بھی مجرم تھا۔ اسے بھی علم تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔ نمائندے سے پوچھتے ہیں سچ سچ بتا دیں کہ لیڈی ڈاکٹر نے پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد اسے کیا کہا؟ کیا ایم این اے، ایم پی اے، مجرمان کی پشت پناہی نہیں کرتے۔ جو بھی ملزم پکڑا جاتا ہے۔ وہ تھانے جا کر اسے چھڑواتے نہیں ہیں۔ حسین خاں والے واقعہ میں پنجاب کے وزیر قانون نے یہ بیان دیا کہ یہ تو زمین کا جھگڑا ہے؟ معمول بات ہے۔ ایسی کوئی بات نہیں؟ کائنات بچی اب بھی چلڈرن ہسپتال میں ہے۔ اس سے اور اس کے لواحقین سے میڈیا کو چلنے نہیں دیا جا رہا۔ ایک عورت کا بیان ہے کہ اس نے اس عمران کو پکڑ لیا، یہ اس کی بچی نے ساتھ بھی زیادتی کرنا چاہتا تھا۔ وہ عمران کو لے کر تھانے گئی۔ وہ کون سا تھانا تھا جس کے اہلکاروں نے اسے پکڑنے کی بجائے چھوڑ دیا؟ وزیراعلیٰ صاحب آپ کے سامنے سارے حقائق میں خدارا انصاف کریں۔ والد زینب نے چینل کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ صاحب کی پریس کانفرنس سے پہلے میری مختصر سی میٹنگ ان کے ساتھ ہوئی تھی۔ میں نے انہیں کہہ دیا تھا کہ ہمارے یہ مطالبات بھی انہیں پورا کریں۔ پہلا یہ کہ ملزم کو سرعام پھانسی دی جائے۔ زینب بچی کے حق میں نکلے گرفتار مظاہرین کو فوری رہا کیا جائے۔ ایف آئی آر خارج کی جائیں۔ ذمہ دار اہلکار ان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ سی سی ٹی وی کے مطابق گرفتار شدگان کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔ زینب بچی کے والدین کے لئے امداد کا اعلان کیا جائے۔ پریس کانفرنس کے بعد چیف منسٹر صاحب سے ملاقات نہیں کروائی گئی۔ نمائندہ خبریں قصور، جاوید ملک نے کہا ہے کہ لیڈی ڈاکٹر جس نے بچی کا پوسٹ مارٹم کیا، نے مجھے بتایا کہ کس طرح اس بچی کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے آج تک ایسا پوسٹ مارٹم نہیں کیا۔ بچی کو لگائے جانے والے زخموں کو میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ یہ بات درست ہے کہ بچی کے ساتھ غیر فطری فعل بھی کیا گیا۔ اس کے جسم کو نوچا گیا اس کے جسم پر دانتوں کے نشانات لگائے گئے۔ جسم کو کاٹا گیا۔ چینل ۵ کی رپورٹنگ ٹیم پورے قصور میں رپورٹنگ کے لئے گئی۔ تمام لوگوں کا کہنا تھا کہ دو بندے جو پولیس نے مارے تھے۔ وہ بالکل بے گناہ تھے۔ اور یعنی اسی ڈی ایس پی۔ مرزا عارف رشید نے مارا تھا۔ آج قصور میں وکلا کا ایک پینل بنا ہے۔ جنہوں نے خبریں کے پلیٹ فارم سے یہ اعلان کیا ہے کہ ہم متاثرین کا کیس فری لڑیں گے اور پولیس کے خلاف لڑیں گے۔ ایک ہزار فیصد یہ بات درست ہے کہ ایم این اے اور ایم پی اے صاحبان ملززان کی پشت پناہی کرتے رہے ہیں۔ حسین خاں والے کیس میں ایم پی اے صاحب ملوث تھے۔ انہوں نے ملزمان کو تحفظ فراہم کیا تھا۔ یہی تھانے سے انہیں چھڑا کر ے جاتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ یہ حکومتی پارٹی میں شامل ہیں۔ یہی ایم پی اے صاحب پچھلے دور میں بھی ایم پی اے تھے۔ تھانہ گنڈا سنگھ والا میں ایک ملزم کو وہاں کے سب انسپکٹر نے چھورنے سے انکار کر دیا۔ اس سب انسپکٹر کا نام صابر شاہ تھا۔ اس ایم پی اے نے تھانے کے اندر کھڑے ہو کر احسن سب انسپکٹر کو پیٹ دیا اور ملزم کو زبردستی چھڑوا کر لے گیا۔ اس کے بعد صابر شاہ نے اس کے خلاف ایک رپٹ لکھ دی۔ جو آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ ان واقعات کی متاثرہ ایک بچی کائنات چلڈرن ہسپتال میں زیر علاج ہے اس کے والد اور چچا سے فون پر بات ہوئی ہے۔ اس بچی کے جسم کو سیگریٹ سے داغا گیا ہے۔ بچی ابھی قومے میں ہے۔ اس بچی کے ارد گرد انتظامیہ نے ایک حصار بنا رکھا ہے۔ پولیس اور دیگر ایجنسیوں کے اہلکار بھی اس میں شامل ہیں۔ اور کسی کو بھی اس ملنے نہیں دیا جاتا۔ اگر پولیس پہلا کیس سنجیدگی سے لے لیتی۔ تو شاید باقی گیارہ بچیاں قتل نہ ہوتیں اشفاق احمد کا بیان ہم نے بھیج دیا ہے صبح شائع ہو گا۔ اس نے کہا کہ عمران کو ایک مرتبہ نہیں پکڑوایا۔ بلکہ دو دفعہ، حاجی محمد اشرف، ایس ایچ او تھانہ اے ڈویںن کے حوالے کیا گیا۔ دونوں مرتبہ اس نے اس عمران علی کو چھوڑ دیا۔