تازہ تر ین

زینب کیس اورحکمران

خدا یار خان چنڑ …. بہاولپور سے
ہمارے ہاں وٹہ سٹہ کا رواج ہے۔ بھائی عشق سے شادی کرنا چاہتا ہے تو بیچاری بہن کو قربانی کا بکرا بنا دیا جاتا ہے۔ یہ ظلم نہیں کہ اپنی خوشیوں کی خاطر کسی کی زندگی برباد کردو۔ان وٹوں سٹوںکے چکر میں بچیوں کے ماں باپ شامل ہوتے ہیں۔بچیوں کو گائے، بھینس کی طرح جہاںچاہےں باندھ دیتے ہیں۔بچیوں سے مشورہ کرنا کبیرہ گناہ سمجھتے ہیں بے زبان بچیوں کو اپنے باپ کی عزت بچاناہوتی ہے کہیں برادری میں ہمارے باپ کی ناک نہ کٹ جائے باپ کی ناک بچاتے بچاتے کئی بچیوںکی زندگیاں اِس و ٹہ سٹہ کی بھینٹ چڑھ گئی ہیں اگر کسی ایک کا گھرنا بنا تو اس کی سزا چاروںکو ملے گی ایک نہیں دو بچیوں کی زندگی برباد ہوجاتی ہے ۔
قصور کی بے قصور زینب کے بعد تو عجیب کیفیت ہے سمجھ میںنہیں آتا ان معصوم بچیوں پر ہونے والے ظلم کہاںسے شروع کروںاور کہا ںتک لکھوںاس کائنات میںکتنی زینب ہیں، کتنی مر گئیںاور کتنی زندہ ہیں؟قصورکی زینب کے واقعہ سے پورا پاکستان سوگ کی حالت میں ہے ۔جب زینب کی خبر جنگل کی آگ طرح پھیلی تو ہر آنکھ اشک بار تھی ہر شخص اپنے اپنے گھروں میںصف ماتم بچھا کے بیٹھا تھا ہر گھر میں بچے ،نوجوان خوف زدہ ہیںپہلی بار ایسا ہوا ہے کہ پاکستان کے تمام اخبارات ، ٹی وی چینل ،تمام کالمسٹ ،اور اینکر حضرات نے بھرپور کردار اداکیاہے۔ چیف جسٹس صاحب ،افواج پاکستان ،تمام حکومتی ادارے،اور اپوزیشن نے زینب کے اس واقعہ پر بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی یہ بڑی خوشی کی بات ہے۔ ظالم کے خلاف سب ادارے ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہیںشکر ہے کہ وہ غلیظ درندہ پکڑا گیاہے جوںہی یہ خبر پھیلی تو پاکستان کے ہر شخص نے اسے سرعام پھانسی دینے کامطالبہ کیاتاکہ یہ شخص عبرت کا مقام بنے آئندہ کوئی ایسی حرکت کرنے کی جرا¿ت نہ کرے یہ کمینہ شخص آٹھ بچیوںکے ساتھ پہلے بھی زیادتی کے بعد قتل کر چکا ہے ۔دیکھنایہ ہے کہ اس کے پیچھے کوئی بہت بڑی دشمن قوت تو نہیں؟
حکومت پاکستان کو چاہئے اس عمران جیسے درندے کو پولیس سے ہٹ کرحساس اداروں سے تفتیش کروانی چاہئے اس ظالم شخص اور اس کی پشت پناہی کرنے والے چہرے کھل کر عوام کے سامنے آنے چاہئیں۔ کچھ قوتیں ایسا چاہ رہی ہیں کہ اس درندے کو جلد از جلد سزائے موت ہو جانی چاہئے تاکہ کوئی راز نہ کھل سکے اس کو سزائے موت سے پہلے اس غلیظ اور گھناﺅنے جرم کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے خفیہ اداروں کواس کی تفتیش کا دائرہ بڑھا کرمجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہئے تا کہ اس پاک سر زمین پرکوئی اور زینب ایسے درندوں کی درندگی سے محفوظ رہ سکے اگر اس گھناﺅنے جرم کو جڑ سے نا اکھاڑا گیاتو آئے دن عوام کے گھروں میں صفِ ماتم بچھتی رہے گی اور ظالم درندوںکی حوصلہ افزائی ہوتی رہے گی ۔اس واقعہ سے حکومت اور پاکستانی عوام کو سبق حاصل کرنا چاہئے زینب کا یہ واقعہ حکومت اور پاکستانی قوم کیلئے ایک سوالیہ نشان بن گیاہے ایسے حالات میںپورے پاکستان میں کوئی زینب محفوظ نظر نہیں آتی۔
وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف زینب کا قاتل پکڑاکر خو ب خوشیاں منائیں ۔لاہور میں ایک پروقار پریس کانفرنس کی جس میں زینب کے والد کوا سپیشل قصور سے اٹھاکر لائے تھے۔ مقتول زینب کے باپ کی بے بسی نظر آ رہی تھی۔ پولیس کے بڑے بڑے افسروں کو بھی مدعو کیاگیا تھا ۔اس ساری فلم کے ہدایت کاررانا ثناءاللہ تھے زینب کے والد کو پہلے خوب تیار کیا بس آپ نے یہ بولنا ہے اور کچھ نہیں بولنا ۔رانا ثناءاللہ کو شاید یہ ڈر تھا کہیںمیرا استعفیٰ ہی نہ مانگ لیا جائے اسی لیے اسے سمجھا رہا تھا کہ آپ نے بس اپنا انصاف مانگنا ہے اور کوئی بات نہیں کرنی۔ زینب کا باپ بیچارہ بہت پریشان تھا ۔میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے جب زینب کے والد کو بات کرنے کا موقع دیا تو شہباز شریف نے شعبدہ بازی خوب دکھائی، رانا ثناءاللہ سے چار قدم آگے نکلے ابھی محمد امین صاحب نے بات شروع ہی کی تھی تو وزیراعلیٰ صاحب خود لپکتے ہوئے امین صاحب کے مائک بند کر دئے زینب کے والد نے جب یہ واقع دیکھا توانتہائی دکھی چہرے کے ساتھ اپنی مظلومیت کا ماتم کرتے ہوئے اندر ہی اندر مر رہا تھاکچھ دیر تک شہباز شریف کے چہرہ کو ٹک ٹکی لگا کر دیکھتا رہا وہ ایسے گم تھاجیسے کوئی لاش بیٹھی ہو ۔اوپر سے تالیوں کا سماںجیسے کوئی جشن منایا جارہاہو ۔ہر آفیسر کو بلاکر خراج تحسین پیش کیا جا رہا تھااور بڑے خوشگوار موڈمیں قہقہے لگ رہے تھے جیسے حکومت نے کوئی بڑا تیر مارا ہو ۔مجرموں اور قاتلوںکو پکڑنا حکومت کی ذمہ داری نہیں؟پولیس کی ذمہ داری نہیں؟گیارہ واقعے قصور میں ہوئے مجرموں کو نہ پکڑنے پر کسی پولیس آفیسر کوکوئی سزا ملی؟اگر پہلے ناقص کا رکردگی پر کسی کو سزا نہیں دی گئی تو خراج تحسین پیش کیوںکیا گیا؟ زینب کے والد سے حکومت یا پولیس کونسا ایوارڈلینا چاہتی تھی ۔زینب کے والد کی تو زبان بندی کردی گئی بس اس کے آگے ایک لفظ بھی نہیں بولنا اس بیچارے کو تو دل کی بات کرنے کا موقع ہی نہ دیاگیا اس کا درد تو عوام تک پہنچنے ہی نہیں دیا ۔ہو سکتا ہے وہ پاکستانی قوم کو پیغام دینا چاہتا ہو قصور کی اور بھی بچیوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے شاید وہ پورے قصور کی نمائندگی کر کے دوسری بچیوں کے والدین کیلئے بھی انصاف مانگنا چاہتا ہو۔وہاں تو سین کوئی اور ہو گیا تھا جوایک تھانیدار یا ایک اے ایس آئی تفتیشی افسرکاکام تھا وہ وزیراعلیٰ اور تمام اداروںکے آفیسر زکر رہے ہیں ۔ آئے دن کتنی بچیوں کے واقعات ہورہے ہیںپھر ان پر بھی جے آئی ٹیبنے گی؟ زینب کے واقعہ سے پہلے بھی تو کئی واقعات ہوئے ہیں کہاں گئے تھے یہ سارے پولیس آفیسران ؟کسی کے کان پرجوں تک نہیں رینگی۔ زینب کی لاش پر دس ہزار انعام مانگنے والے وہ پولیس والے نہیں تھے انکا کسی نے کچھ بگاڑا؟ٹھیک ہے پولیس آفیسران کی اچھی کارکردگی پر سراہنا چاہتے تھے اس کے ساتھ کسی شخص کی عزت کا جنازہ نہیں نکالنا چاہئے تھا۔ زینب کا جب ڈاکٹر طاہرالقادری جنازہ پڑھا رہا تھااس کے پیچھے دوسری لائن میں تو یہ عمران قاتل کھڑا تھامحلہ داروں کے ساتھ مل کرکئی بار تھا نے میں بھی گیا۔زینب کو ڈھونڈنے میں بھی سب سے آگے آگے ہوتا تھا ۔ایک دفعہ قصور کی پولیس نے پکڑ کر اسے بے قصور ٹھہرایا۔ اگر پہلے دن ہی پولیس بڑا ایکشن لے لیتی تو شاید زینب آج اس دنیا میں موجود ہوتی ۔کیا یہ دانستہ پولیس کی نااہلی نہیں؟پاکستان میں پہلی بار کسی لاش کے اوپر تالیاں بجانا ،قہقہے لگانا، سیاست چمکانامیری سمجھ سے بالاتر ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کے بچے بچیوں کودرندوں اوران درندوں ،وحشیوں کی پشت پناہی کرنے والوں سے محفوظ رکھے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا کیونکہ مزید انکشافات بھی متوقع ہیں۔
(تحریک صوبہ بہاولپور کے چیئرمین ہیں)
٭….٭….٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain