مفادات کی جنگ سے نکل کر دہشتگردی کےخلاف اتحاد کی ضرورت

ڈیوﺅس(آئی این پی) بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ تمام ممالک کو مفادات کی جنگ سے نکل کر دہشتگرد،موسمی تبدیلی اور علاقائی سالمیت کے خطرات سے نمٹنے کیلئے اتحاد کی ضرورت ہے۔بھارتی میڈیا کے مطابق ڈیوﺅس میں ہونے والے عالمی اقتصادی فورم میں تقریر کے دوران نریندر مودی نے تمام ممالک پر زور دیا کہ آئیے آزادی کا ایک ایسا جہاں تعمیر کریں جہاں تفرقہ و انتشار نہ ہو۔ نریندر مودی نے کہا کہ تمام ممالک کو مفادات کی جنگ سے نکل کر دہشتگردی ،موسمی تبدیلی اور علاقائی سالمیت کے خطرات سے نمٹنے کیلئے اتحاد کی ضرورت ہے۔

 

جب تک زینب کے ملزم کے سہولت کار پکڑے نہیںجاتے دھمکیاں ملتی رہیں گی

اسلام آباد (این این آئی) پاکستان پیپلزپارٹی کے سنیٹر اعتزاز احسن نے قصور میں ریپ کے بعد قتل کی جانے والی زینب کے کیس حل ہونے کا وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا دعویٰ مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ شہباز شریف کی پریس کانفرنس لغو اور بے ہودہ تھی ¾آٹھ بچیوں کے بہیمانہ قتل کے باوجود جشن منا رہے ہیں ¾جب تک دنیا نے میڈیا پر قیامت برپا نہ کر دی آپ ٹس سے مس نہ ہوئے ¾ یقینا عمران کے سہولت کار ہونگے ¾ جب تک سہولت کار نہیں پکڑے جاتے وہ زینب کے خاندان کو دھمکیاں دیں گے۔ جمعرات کو میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے معروف قانون دان اعتزاز احسن نے شہباز شریف کی جانب سے پریس کانفرنس کے دوران کیے گئے دعووں پر اہم سوالات اٹھا دیئے اور الزام لگایا کہ شہباز شریف کی پریس کانفرنس لغو اور ہے بودہ تھی ¾آٹھ بچیوں کے بہیمانہ قتل کے باوجود جشن منا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سات بچیوں کے قاتل کا آپ نے پتہ ہی نہیں کیا جن کا قتل اور ریپ2 کلومیٹر کے علاقے میں ہی ہوا بعدازاں ان کی لاشیں پھینکیں گئیں۔اعتزاز احسن نے دعویٰ کیا کہ جب تک دنیا نے میڈیا پر قیامت برپا نہ کر دی آپ ٹس سے مس نہ ہوئے، اس کے علاوہ قصور میں 260 بچوں کے ساتھ زیادتی ہوئی، ویڈیوز بنیں جبکہ آج تک ان 260 بچوں کے ملزمان باہر ہیں۔انہوں نے الزام لگایا کہ وہ ملزمان پولیس کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، گواہوں اور مدعیوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔اعتزاز احسن نے کہا کہ یہی سب شاید زینب کے والد کہنا چاہتے تھے جن کا مائیک وزیراعلیٰ نے بند کر دیا۔ سنیٹر اعتزاز احسن نے کہاکہ زینب کیس میں ممکن نہیں عمران علی اکیلا ہو کیونکہ 8 بچیوں کو اغوا کرنا ¾بند رکھنا ¾مارنا کہ آواز بھی باہر نہ جائے، صرف ایک فرد کی جانب سے ایسا کیا جانا کیسے ممکن ہے، اس لیے ملزم عمران کے یقینا سہولت کار ہوں گے۔اعتزاز احسن نے وزیراعلیٰ پنجاب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ تمام ملزمان کے پکڑے جانے تک کیسے کہہ سکتے ہیں کیس کو اختتام تک پہنچا دیا اور جب تک سہولت کار نہیں پکڑے جاتے وہ زینب کے خاندان کو دھمکیاں دیں گے۔انہوں نے الزام لگایا کہ پنجاب پولیس شریف خاندان کی گھر کی لونڈی ہے اور پریس کانفرنس کا انداز دیکھیں کہ کھڑے ہو جاو¿، چہرہ ادھر کرو، بیٹھ جاو¿ سے ثابت ہورہا تھا کہ افسران شہباز شریف کے ذاتی ملازم ہیں۔اعتزاز احسن نے کہا کہ زینب قتل کیس میں پنجاب پولیس پر اعتماد کرنا بڑا مشکل ہے جبکہ یہ صرف قصور اور پنجاب پولیس پر داغ نہیں بلکہ وزیراعلیٰ کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے۔

 

بسنت کی حمایت ،اہم شخصیت بھی میدان میں آگئی

لاہور (خصوصی رپورٹ) شہر میں بسنت فیسٹیول کیلئے تمام سٹیک ہولڈر تیار‘ کہتے ہیں بسنت سے تفریح کے ساتھ ساتھ لاکھوں لوگوں کو روزگار بھی ملے گا۔ محفوظ بسنت کیلئے تجاویز بھی سامنے آگئیں۔ محفوظ بسنت منانے کے حق میں چیئرمین یو سی 92 چودھری محمد طارق نے ڈسٹرکٹ اسمبلی میںقرارداد بھی جمع کرادی ہے۔ چیئرمین ڈسٹرکٹ کائٹ فلائنگ ایسوسی ایشن لالہ بلو کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے حکومت سے اجازت کی استدعا کی ہے۔ صدر کائٹ فلائٹ فلائنگ ایسوسی ایشن شیخ محمد سلیم نے کہا ہے کہ حکومت اعلان کرے تو کائٹ پلائنگ انڈسٹری لاہوریوں کے لئے ڈور اور پتنگوں کی ڈیمانڈ پوری کرنے کو تیار ہے۔ آرگنائزر لاہور بسنت فیسٹیول سید ذوالفقار حسین نے تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال حکومت کو سیفٹی کالر‘ موٹرسائیکل پر سیفٹی دائر سمیت دیگر تجاویز دی گئیں‘ ان پر عمل کرکے بسنت کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔ ادھر ڈپٹی میئر میاں محمد طارق کی زیرصدارت سمن آباد رسول پارک میں محفوظ بسنت منانے کے حوالے سے اجلاس کہتے ہیں لاہوری ہو اور بسنت کا شوق نہ رکھتا ہو ایسا ممکن ہی نہیں۔ انہوں کہا کہ کیمیکل اور تندی ڈور بنانے والوں کیخلاف کارروائی کریں گے۔ ڈپٹی میئر مشتاق مغل کی زیرصدارت بادامی باغ میں ہونے والے اجلاس میںان کا کہنا تھا کہ اگر ایک روز کے لئے موٹرسائیکل پر بھی پابندی لگا دی جائے۔

زینب کے قاتل کے بیشمار اکاﺅنٹس، شیطانی کھیل میں طاقتور لوگ ملوث

بنی گالا، اسلام آباد (آن لائن، مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ زینب کے قاتل محمد عمران کے بے شمار بینک اکاو¿نٹس کی خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ طاقتور لوگ اس گھناو¿نے کھیل میں ملوث ہیں۔عمران خان نے سوشل میڈیا پر اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ زینب کے قاتل کی گرفتاری کے بعد بچوں کے ساتھ زیادتی میں مضبوط اور منظم گروہ کے آثار مل رہے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ ملزم کے متعدد بینک اکاو¿نٹس سے متعلق خبریں منظر عام پر آنے کے بعد یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں طاقتور لوگ ملوث ہیں۔چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ رانا ثناءاللہ نے قصور ویڈیو اسکینڈل کیس میں بے شرمی کا مظاہرہ کیا اور اسے زمین کا جھگڑا قرار دے کر بند کرا دیا تھا۔انہوںنے کہاکہ ایک مضبوط جے آئی ٹی زینب قتل کے ملزم کی گرفتاری کے بعد سامنے آنے والے انکشافات کے ساتھ قصور کے ویڈیو اسکینڈل کی بھی تحقیقات کرے۔عمران خان نے کہا کہ جس طرح سے ملزم محمد عمران کے بینک اکاو¿نٹس کے حوالے سے تضاد پیدا کیا جا رہا ہے وہ بہت ہی افسوسناک ہے۔انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں ہمیں سنسنی خیزی پھیلانے سے باز رہتے ہوئے معتبر جے آئی ٹی کی تشکیل کےلئے دباو¿ ڈالنا چاہیے تاکہ ننھی زینب اور قصور کے دیگر بچوں کے ساتھ پیش آنے والے اندوہناک واقعات کی تحقیقات ہو سکے۔عمران خان نے کہا کہ ضرورت ہے کہ ہم سنسنی سے گریز کرتے ہوئے ایک بااختیار جے آئی ٹی بنانے کے لیے دبا بڑھائیں تاکہ زینب اور قصور کے دیگر بچوں کے ساتھ بیتے گئے ہولناک المیے کی تحقیقات کی جاسکے۔ عمران خان نے کہا ہے کہ اورسیز پاکستانیوں کے حق ووٹ دہی کی حق تلفی پر توجہ دینے پر چیف جسٹس کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، بیرون ملک پاکستانی ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں،وہ 20 ارب ڈالرز کا زر مبادلہ سالانہ بھیجتے ہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان ایک بیان میں کہا ہے کہ میں چیف جسٹس آف پاکستان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے بیرون ملک پاکستانیوں کے حق ووٹ دہی کی حق تلفی پر توجہ دی۔ انہوں نے الیکشن کمیشن اور نادرا کو اسکے حل کا حکم دیا۔بلا شبہ بیرون ملک پاکستانی ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں۔ وہ 20 ارب ڈالرز کا زر مبادلہ سالانہ بھیجتے ہیں۔ ہمارے بہترین دماغ بیرون ملک خدمات انجام دے رہے ہیں۔نئے پاکستان کی تعمیر میں انشا اللہ وہ ایک کلیدی کردار ادا کریں گے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمرا ن خان نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے لئے لعنت کا لفظ استعمال کرکے لگا میں نے اسمبلی پر کوئی ایٹم بم پھینک دیا ہو میں نے تو ان کے بارے میں کہا تھا جنہوں نے ہاتھ کھڑے کر کے ایک نااہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے کی حمایت کی۔قوم کا پیسہ چوری کرنے والا پارٹی سربراہ کیسے بن سکتا ہے۔ لعنت کا مطلب ہے ان پرسے اللہ کی برکت اٹھ گئی ہے۔نجی ٹی وی سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کو اصل میں ن لیگ میں ہونا چاہئے کیونکہ وہ ن لیگ کے نمائندے ہیں۔جن لوگوں کو ماڈل ٹاﺅن میں مارا گیا وہ بھی تو پاکستانی تھے۔میری اور آصف زرداری کا کوئی میٹنگ پوائنٹ ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ بھی کرپٹ شخص ہے اور اتنا ہی بڑا مجرم ہے جتنا نواز شریف۔مال روڈ پر جلسہ کوئی پاور شو نہیں تھا۔ ہم ماڈل ٹاﺅن کے متاثرین کو انصاف دلانے کے لئے اکٹھے ہوئے تھے۔ حکومت ختم نبوت شق میں تبدیلی پر پکڑی گئی۔دنیا کی کسی اسمبلی کی مجھے مثال دے دیں کہ ایک منی لانڈر، جھوٹا ، جعلساز، لٹیرا پارٹی کا سربراہ بن جائے پارلیمنٹ ایسا کرکے ملک کا مذاق اڑاتی ہے۔میں نے ملکی بہتری کے لئے قبل از وقت الیکشن کا مطالبہ کیا جس قسم کے حالات ہیں قبل از وقت الیکشن کرالیںاگر نہیں ہوتے تو ہمیں فائدہ ہے ہمیں مزید تیاری کا موقع ملے گا۔

 

شہباز شریف کی والدہ سے درخوا ست ہے کہ وہ بیٹے کو سمجھائیں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ آج چینل ۵ کی خصوصی رپورٹنگ ٹیم زینب کے گھر قصور گئی تھی۔ اس ٹیم نے زینب کے علاوہ باقی 7 متاثرہ بچیوں کے گھر کا بھی دورہ کیا ہے۔ ایک بچی کے گھر تالہ تھا۔ سپریم کورٹ نے آج اس معاملے کا سو موٹو نوٹس لے لیا ہے۔ گزشتہ روز ڈاکٹر شاہد مسعود، جو معروف تجزیہ کار ہیں، نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ زینب کا واقعہ ایک منظم سازش کا حصہ ہے۔ پکڑے جانے والے شخص کے بہت سارے اکاﺅنٹ ہیں۔ یہ ساری دنیا میں چلنے والی ”ڈارک“ ویب سائیٹ ار ”چائیلڈ ابیوزڈ“ کے ذریعے ایسی ویڈیوز چلائی جاتی ہیں جو ”سیڈسٹ“ کی پسندیدہ ویڈیوز ہوتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے آج ڈاکٹر شاہد مسعود کو طلب کیا۔ وہاں ڈاکٹر نے اپنا بیان دہرایا اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے جو ایک وزیر اور ایم پی اے کا نام لیا ہے کیا آپ ان کے نام اوپن کر سکتے ہیں۔ اس پر ڈاکٹر نے چٹ پر وہ نام لکھ کر چیف جسٹس ثاقب نثار کو دیدیئے۔ اب معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہم اس کی تحقیقات کروائیں گے۔ اس خدشہ کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ کہیں اس عمران کو پولیس حراست میں قتل نہ کر دیا جائے۔ کیونکہ اس سے بہت بڑے بڑے نام آشکارہو سکتے ہیں۔ یہ قصہ بڑھتے بڑھتے اب دس بچیوں کا ہو چکا ہے۔ دو سال قبل 300 لڑکوں کی ویڈیوز کا معاملہ اٹھا تھا۔ میں دو مرتبہ اس مسئلہ پر قصور گیا۔ وہاں کئی انکشاف اور ہوئے تھے۔ بچوں کی ویڈیو والے معاملے پر رانا ثناءاللہ نے کہہ دیا کہ یہ پراپرٹی کا جھگڑا ہے۔ حالانکہ بات کچھ اور تھی۔ ”چائیلڈ ابیوزڈ“ کی ویب سائیٹ ادھیڑ عمر کے لوگوں کیلئے ہوتی ہے۔ وہ اس کیلئے کارڈز کے ذریعے پیسے بھی بھیجتے ہیں۔ لیکن صرف وہ لوگ یہ وصول کر سکتے ہیں جنہیں لنک دیا گیا ہوتا ہے۔ دہلی (بھارت) کی ایک بچی ’رادھا‘ کے ساتھ چند سال قبل زیادتی ہوئی اور اس پر کسی شخص نے حملہ کیا اور جنسی زیادتی ہوئی۔ اس کے بعد اس کے بازو کاٹ دیئے گئے۔ اور زبان نوچ لی گئی۔ اس کے جسم پر بھی ایسے ہی تشدد کے نشان تھے جس طرح کے نشانات زینب کے جسم پر پائے گئے۔ کچھ عرصہ بعد ہیکرز نے وہ ویب سائٹ پکڑ لی اور اخبارات میں چھپا کہ یہ وہی بچی ہے جس کا نام رادھا ہے اس کی ویڈیو فلم بنی ہوئی ہے۔ جو 2005ءمیں بنی جبکہ ویڈیو 2008 میں ہیک ہوئی۔ ان واقعات کی ایک متاثرہ بچی کائنات ہسپتال میں زیر علاج ہے اس کے جسم کو بھی کاٹا گیا ہے اور ان پر زخموں کے نشانات لگائے گئے ہیں۔ عام جنسی جنونی ایسے کام نہیں کرتا۔ لیڈی ڈاکٹر جس نے زینب کا پوسٹ مارٹم کیا۔ اس نے کہا کہ وہ پہلے بھی پوسٹ مارٹم کرتی رہی ہیں لیکن آج کے پوسٹ مارٹم سے میں خوفزدہ ہو گئی ہوں۔ کیونکہ بچی کے ساتھ قوم لوط والا فعل بھی کیا گیا۔ بچی کے ساتتھ جنسی زیادتی بھی کی گئی اور بازﺅں پر چرنے بھی لگائے گئے۔ بازو کاٹا بھی گیا۔ جگہ جگہ جسم کو کاٹا بھی گیا۔ نوچا بھی گیا۔ ان واقعات سے صاف ظاہر ہے کہ ملزم اس وقت اکیلا نہیں تھا۔ کم از کم دو یا تین لوگ تھے۔ وعدہ معاف گواہ بھی حرام زادوں کا سرتاج ہے۔ وہ بھی اسی ایکٹ میں شامل تھا۔ اس وقت ویڈیو بنائی نہیں گئی بلکہ پوری دنیا میں دکھائی جا رہی تھی۔ ”سیڈسٹ“ یہ تمام ویڈیوز اس وقت بھی دیکھ رہے تھے۔ 300 بچوں کی ویڈیوز بھی اسی طرح بنائی جاتی رہی۔ اس کے مجرم والدین سے بمشکل ہزار پانچ سو لے لیں گے۔ ایک ملزم کچھ عرصہ قبل سرگودھا سے گرفتار ہوا۔ اس نے تسلیم کیا ناروے کی ایک ویب سائٹ کمپنی کیلئے میں یہ فلمیں بنا کر بھیجا کرتا تھا۔ لہٰذا ڈاکٹر شاہد کے بیان میں وزن دکھائی دیتا ہے۔ امید ہے سپریم کورٹ اس پر ایکشن لے گی۔ جب میں قصور گیا تو مجھے پتا چلا کہ 300 ویڈیوز بنانے والے مجرموں کے پیچھے ایک ایم پی اے کا ہاتھ ہے۔ اس ایم پی اے نے بار کونسل کے صدر کو وکیل کر رکھا تھا۔ اسے کتنے پیسے دیتا ہو گا۔ میں وزیراعلیٰ پنجاب سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتا ہوں کہ 300 بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے ملزم ابھی نہیں پکڑے گئے۔ اس وقت بھی ایک صوبائی وزیر نے انہیں بچایا۔ یہ کہہ کر کہ یہ تو معمولی زمین کا جھگڑا ہے۔ اس جھگڑے سے بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کا کیا تعلق؟ ایک صوبائی مشیر وہاں بہت ایکٹو رہے۔ اس کا فرسٹ کزن قصور کا ایم پی اے ہے جس کا نام شاید احمد سعید ہے۔ وہ مکمل پروٹیکشن دیتا ہے ان سارے بدکاروں کو بچیوں کے قاتلوں کو بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو اور قصور کے بڑے بڑے وکیل اس معاملے کیلئے ہائر کئے گئے۔ قصور کے عوام جانتے ہی ںکہ کون سا ایم این اے اور ایم پی اے ان مجرمان کے پیچھے ہے۔ لاہور میں بیٹھا ہوا کون سے وزیر ان کے پیچھے ہے۔ اور کون سا صوبائی مشیر ان کے پیچھے ہے۔ وزیراعلیٰ پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے اس وزیر سے مشیر سے ایم پی اے سے ایم این اے سے استعفے لیں اور ان کے خلاف کارروائی کریں۔ ان کے بھی ڈی این اے ٹیسٹ کروائیں۔ کیونکہ 17 جنوری کی خبر میں ہم نے کہا تھا کہ قصور میں ایک بااثر گروہ اس گھناﺅنے کھیل کے پیچھے ہے۔ قصور میں جب ایک ایم این اے تاجروں کے ساتھ میٹنگ کے لئے گیا تو وہاں کتا کتا کے نعرے لگے۔ ایم پی اے کے بارے میں سارا شہر جانتا ہے کہ وہ ان مجرموں کے پیچھے ہے۔ اس کا ایک کزن صوبائی مشیر ہے۔ دہلی کی بچی ’رادھا‘ اور قصور کی بچی ’زینب‘ کا معمہ ایک ہی کہانی کے دو رخ ہیں لگتا ہے کہ مجرموں کو ایک ہی سکرپٹ دیا جاتا ہے۔ ہو بہ ہو، ایک جیسا واقعہ ایک جیسی کارروائی، کوڑے کے ڈھیر پر پھینکا بھی ایک جیسا۔ موووی بنائی نہیں جاتی بلکہ لائیو پوری دنیا میں چلائی جاتی ہے۔ وزیراعلیٰ محترم آپ کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ کسی ایک بچی یا ایک خاندان کا معاملہ نہیں ہے۔ خدارا اس قوم پر رحم کریں، اس قوم پر رحم کریں۔ ان حرام زادوں کو پکڑیں۔ ایسے وزیروں کو گھر بھیجیں جو ان مجرمان کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ان ایم پی اے حضرات کے بھی ڈی این اے کروائیں بار کے وکلاءکے اکاﺅنٹ چیک کریں انہوں نے کتنے کتنے پیسے وصول کئے۔ سابقہ ڈی پی او جنہیں قصور سے تبدیل کر دیا گیا، سب جانتے تھے کہ ان کے پیچھے کون کون ہے۔ وہ سب جانتے تھے کہ ویڈیوز کیوں بنائی گئیں۔ اور اس گھناﺅنے کاروبار کے پیچھے کون ہے۔ ہمارے قصور کے نمائندے کو میرے سامنے سابقے ڈی پی او اور ڈی ایس پی نے دھمکیاں دیں کہ یہ آپ کا آدمی کیا بکواس کر رہا ہے۔ اور کہا کہ اس معاملے کو اچھالنے کی بجائے دبائیں۔ مجھے نمائندے نے بتایا کہ یہ قتل کرنے کی دھمکیاں دے چکا ہے۔ اس ڈی ایس پی کا تبادلہ میں نے آئی جی صاحب سے کہہ کر کروایا لیکن وہ شخص بھی مجرم تھا۔ اسے بھی علم تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔ نمائندے سے پوچھتے ہیں سچ سچ بتا دیں کہ لیڈی ڈاکٹر نے پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد اسے کیا کہا؟ کیا ایم این اے، ایم پی اے، مجرمان کی پشت پناہی نہیں کرتے۔ جو بھی ملزم پکڑا جاتا ہے۔ وہ تھانے جا کر اسے چھڑواتے نہیں ہیں۔ حسین خاں والے واقعہ میں پنجاب کے وزیر قانون نے یہ بیان دیا کہ یہ تو زمین کا جھگڑا ہے؟ معمول بات ہے۔ ایسی کوئی بات نہیں؟ کائنات بچی اب بھی چلڈرن ہسپتال میں ہے۔ اس سے اور اس کے لواحقین سے میڈیا کو چلنے نہیں دیا جا رہا۔ ایک عورت کا بیان ہے کہ اس نے اس عمران کو پکڑ لیا، یہ اس کی بچی نے ساتھ بھی زیادتی کرنا چاہتا تھا۔ وہ عمران کو لے کر تھانے گئی۔ وہ کون سا تھانا تھا جس کے اہلکاروں نے اسے پکڑنے کی بجائے چھوڑ دیا؟ وزیراعلیٰ صاحب آپ کے سامنے سارے حقائق میں خدارا انصاف کریں۔ والد زینب نے چینل کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ صاحب کی پریس کانفرنس سے پہلے میری مختصر سی میٹنگ ان کے ساتھ ہوئی تھی۔ میں نے انہیں کہہ دیا تھا کہ ہمارے یہ مطالبات بھی انہیں پورا کریں۔ پہلا یہ کہ ملزم کو سرعام پھانسی دی جائے۔ زینب بچی کے حق میں نکلے گرفتار مظاہرین کو فوری رہا کیا جائے۔ ایف آئی آر خارج کی جائیں۔ ذمہ دار اہلکار ان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ سی سی ٹی وی کے مطابق گرفتار شدگان کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔ زینب بچی کے والدین کے لئے امداد کا اعلان کیا جائے۔ پریس کانفرنس کے بعد چیف منسٹر صاحب سے ملاقات نہیں کروائی گئی۔ نمائندہ خبریں قصور، جاوید ملک نے کہا ہے کہ لیڈی ڈاکٹر جس نے بچی کا پوسٹ مارٹم کیا، نے مجھے بتایا کہ کس طرح اس بچی کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے آج تک ایسا پوسٹ مارٹم نہیں کیا۔ بچی کو لگائے جانے والے زخموں کو میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ یہ بات درست ہے کہ بچی کے ساتھ غیر فطری فعل بھی کیا گیا۔ اس کے جسم کو نوچا گیا اس کے جسم پر دانتوں کے نشانات لگائے گئے۔ جسم کو کاٹا گیا۔ چینل ۵ کی رپورٹنگ ٹیم پورے قصور میں رپورٹنگ کے لئے گئی۔ تمام لوگوں کا کہنا تھا کہ دو بندے جو پولیس نے مارے تھے۔ وہ بالکل بے گناہ تھے۔ اور یعنی اسی ڈی ایس پی۔ مرزا عارف رشید نے مارا تھا۔ آج قصور میں وکلا کا ایک پینل بنا ہے۔ جنہوں نے خبریں کے پلیٹ فارم سے یہ اعلان کیا ہے کہ ہم متاثرین کا کیس فری لڑیں گے اور پولیس کے خلاف لڑیں گے۔ ایک ہزار فیصد یہ بات درست ہے کہ ایم این اے اور ایم پی اے صاحبان ملززان کی پشت پناہی کرتے رہے ہیں۔ حسین خاں والے کیس میں ایم پی اے صاحب ملوث تھے۔ انہوں نے ملزمان کو تحفظ فراہم کیا تھا۔ یہی تھانے سے انہیں چھڑا کر ے جاتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ یہ حکومتی پارٹی میں شامل ہیں۔ یہی ایم پی اے صاحب پچھلے دور میں بھی ایم پی اے تھے۔ تھانہ گنڈا سنگھ والا میں ایک ملزم کو وہاں کے سب انسپکٹر نے چھورنے سے انکار کر دیا۔ اس سب انسپکٹر کا نام صابر شاہ تھا۔ اس ایم پی اے نے تھانے کے اندر کھڑے ہو کر احسن سب انسپکٹر کو پیٹ دیا اور ملزم کو زبردستی چھڑوا کر لے گیا۔ اس کے بعد صابر شاہ نے اس کے خلاف ایک رپٹ لکھ دی۔ جو آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ ان واقعات کی متاثرہ ایک بچی کائنات چلڈرن ہسپتال میں زیر علاج ہے اس کے والد اور چچا سے فون پر بات ہوئی ہے۔ اس بچی کے جسم کو سیگریٹ سے داغا گیا ہے۔ بچی ابھی قومے میں ہے۔ اس بچی کے ارد گرد انتظامیہ نے ایک حصار بنا رکھا ہے۔ پولیس اور دیگر ایجنسیوں کے اہلکار بھی اس میں شامل ہیں۔ اور کسی کو بھی اس ملنے نہیں دیا جاتا۔ اگر پولیس پہلا کیس سنجیدگی سے لے لیتی۔ تو شاید باقی گیارہ بچیاں قتل نہ ہوتیں اشفاق احمد کا بیان ہم نے بھیج دیا ہے صبح شائع ہو گا۔ اس نے کہا کہ عمران کو ایک مرتبہ نہیں پکڑوایا۔ بلکہ دو دفعہ، حاجی محمد اشرف، ایس ایچ او تھانہ اے ڈویںن کے حوالے کیا گیا۔ دونوں مرتبہ اس نے اس عمران علی کو چھوڑ دیا۔

 

ہر بڑے جرم کے پیچھے قاتل اعلی اور رانا ثناءکا ہاتھ،دماغ ہے

لاہور(وقائع نگار)پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا ہے کہ ہر بڑے جرم کے پیچھے نام نہاد خادم اعلیٰ اور اس کے وزیر قانون کا ہاتھ اور دماغ ہوتا ہے، کوئی بڑا جرم ان کی سرپرستی کے بغیر نہیں ہو سکتا،انہیں برطرف کر کے پولی گرافک ٹیسٹ کروائےجائیں، بڑے بڑے جرم اور مجرم ان کے پیٹوں میں نکلیںگے۔ وہ گزشتہ روز پاکستان عوامی تحریک کے سینئر رہنماﺅں کے ایک اجلاس میں گفتگو کررہے تھے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ شہباز شریف تحقیقات کا رخ بدلنے کیلئے پریس کانفرنسیں کرتے ہیں، قصور کے واقعات میں بھی انہوں نے اصل سکینڈل سے عوام اور اداروں کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی، معصوم زینب کے درندے قاتل کے بارے میں ہوشربا انکشافات سامنے آرہے ہیں کہ وہ تنہا نہیں ایک پورا گینگ کام کررہا ہے، یہ متعدد بار پکڑا بھی گیا اور پھر چھوٹ گیا، اس بااثر اور طاقتور مافیا کا شہباز شریف نے اپنی پریس کانفرنس میں اشارتاً بھی ذکر نہیں کیا جبکہ غیر جانبدار ذرائع اس کی نشاندہی کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ شہباز شریف اور رانا ثناءاللہ کو برطرف کر کے سانحہ قصور اور سانحہ ماڈل ٹاﺅن پر جے آئی ٹی بنائی جائے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس قصور کے غیر انسانی جرائم کے پس پردہ مجرموں اور اصل کہانی جاننا چاہتے ہیں تو شہباز شریف اور ان کی پولیس کو تحقیقات سے الگ کر دیں ورنہ یہ مرکزی مجرموں تک ہاتھ نہیں پہنچنے دیں گے۔ڈاکٹر طاہر القادری نے مزید کہا کہ اشرافیہ کو میری تکلیف اس لیے ہے کہ میں نے ان کے کچے چٹھے، قتل و غارت گری اور لوٹ مار کے متعلق حقائق عوام کے سامنے رکھے اور انہیں عوامی سطح پر سانحہ ماڈل ٹاﺅن کا قاتل ثابت کیا اور انہیں اب یقین ہو چکا ہے کہ قانونی سطح پر بھی پھانسی کے پھندے ان کی گردنوں کے قریب پہن چکے ہیں، انہوں نے کہا کہ جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ پبلک ہونے کے بعد شہباز شریف کا ذہنی توازن قائم نہیں رہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچا کر دم لیں گے،قاتل اعلیٰ پنجاب ایوان وزیراعظم کی طرف دیکھنے کی بجائے جیل جانے کی تیاری کریں۔

راﺅ انوار کو زرداری کے علاوہ کن خاص لوگوں کی تھپکی حاصل تھی ،راحیل شریف کا کیا کردار رہا ؟

کراچی(ویب ڈیسک) معروف صحافی و کالم نگار حامد میر نے اپنے ایک کالم ”تالیاں “ میں راو¿ انوار کے ماضی سے متعلق لکھتے ہوئے کہا کہ راو¿ انوار 2008کے بعد سے ایس ایس پی بنے۔ان کو آصف علی زرداری کے علاوہ کچھ اور لوگوں کی بھی تھپکی حاصل تھی۔2015میں راو¿ انوار نے آ ئی جی سندھ سے پوچھے بغیر ایک پریس کانفرنس کی تھی۔جس میں راو¿ انوار نے ایم کیو ایم پر پر الزامات لگائے۔آئی جی سے پوچھے بغیر پریس کانفرنس کرنے پر راو¿ انوار کو معطل کر دیا گیا۔آ ئی جی سندھ کے اس حکم کی حمایت اس وقت کے وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ نے بھی کی تھی۔لیکن پھر جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کی سفارش پر ان کو اپنے عہدے پر بحال کر دیا گیا تھا۔یاد رہے کہ سابق ایس ایس پی ملیر راو¿ انوار پر جعلی پولیس مقابلوں کا الزام ہے۔جب کہ ان پر قبائلی نوجوان نقیب اللہ کے قتل کا بھی الزام ہے۔جس کو کراچی میں ایک مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیا گیا تھا۔

حافظ سعید سمیت جماعة الدعوة ‘ فلاح انسانیت فاﺅنڈیشن کے 8رہنماﺅں کے نام ای سی ایل میں شامل

لاہور (نیا اخبار رپورٹ) حافظ سعید، ظفراقبال اور پروفیسر عبدالرحمن سمیت جماعتہ الدعوة فلاح انسانیت فاﺅنڈیشن کے 38 رہنماﺅں کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کردئیے گئے ہیں، 27اہم رہنماﺅں کے 68اسلحہ لائسنس بھی منسوخ کردئیے گئے ہیں۔ وزارت داخلہ نے جن رہنماﺅں کے اسلحہ لائسنس منسوخ کئے ہیں ،ان میں جماعة الدعوة کے امیر حافظ محمد سعید کے 6، اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے ذکی الرحمن لکھوی کے 16، لاہور کے حافظ عبدالرﺅف کے 3، سیالکوٹ کے قاری احسان اللہ کے 2، لاہور کے عبدالرحمان، فیصل آباد کے مولانا حبیب الرحمان اور قصور کے حافظ عبداتسلیم کا ایک ایک لائسنس شامل ہے۔ منسوخ ہونے والے تمام لائسنس غیر ممنوعہ بور کے ہیں۔ جن میں سے 30کا تعلق پنجاب سے ہے۔ ان میں حافظ محمد سعید، ظفراقبال اور پروفیسر عبدالرحمن بھی شامل ہیں۔

 

اعتزاز احسن کو پنجاب سے سینیٹ کا متفقہ امیدوار لانے کی کوشش، پی پی کی پی ٹی آئی کوتعاون کی پیشکش

اسلام آباد(صباح نیوز)پیپلز پارٹی نے اعتزاز احسن کو پنجاب سے سینیٹ کا متفقہ امیدوار لانے کی کوشش شروع کر دیں،پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کوتعاون کی پیشکش کرتے ہوئے کہاہے کہ اپوزیشن مشترکہ حکمت عملی سے پنجاب سے سینیٹ کی 2 نشستیں حاصل کرسکتی ہے۔پیپلز پارٹی ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے سنجیدہ حلقوں نے پیپلزپارٹی کی تجویز کو قابل عمل قرار دیاہے، تاہم عمران خان کے بعض قریبی ساتھی مخالف ہیں۔پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی سے کہاہے کہ سینیٹ کے گزشتہ انتخابات میں اپوزیشن کا اتحاد نہ ہونے کافائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم لیگ( ن) تمام11نشستیں لے اڑی تھی،اب دونوں جماعتیں باہمی تعاون سے سینیٹ کی ایک، ایک نشستیں حاصل کر سکتی ہیں۔

11سالہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل کرنےوالا ملزم عدم شواہد کی بنا پر بری

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ نے گیارہ سالہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والے ملزم کو عدم شواہد کی بنا پر بری کردیا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق تربت میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والی 11 سالہ بچی نعلین کے ملزم کو سپریم کورٹ نے عدم شواہد کی بنا پر بری کردیا۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ متاثرہ بچی کا طبی معائنہ ہی نہیں کروایا گیا، طبی معائنے کے بغیر زیادتی ہونا ثابت نہیں ہو سکتا، بچی کا پوسٹ مارٹم بھی قبر کشائی کے بعد کیا گیا،واقعے کا کوئی چشم دید گواہ ہے نہ بچی کو ملزم کے ساتھ جاتے دیکھا گیا، ٹھوس شواہد کے بغیر کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی، قتل کیسے ہوا ٹرائل کورٹ میں کوئی چیز ثابت نہیں کی گئی، لہذا عدم شواہد کی بنا پر ملزم کو بری کیا جاتا ہے۔واضح رہے کہ 11 سالہ نعلین کو16 جون 2012 میں زیادتی کے بعد قتل کردیاگیا تھا بچی کی لاش کنویں سے بر آمد ہوئی تھی، ٹرائل کورٹ نے ملزم کو سزائے موت دی تھی جب کہ ہائی کورٹ نے ملزم کی درخواست پر سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا تھا۔