ایم ایم اے ،میں شامل جماعتوں کا بڑا فیصلہ

لاہور (نیااخبار رپورٹ) متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے بعد ایم ایم اے میں شامل جماعتوں نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے علیحدہ ہونے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے س کا اعلان متحدہ مجلس عمل کے مرکزی عہدیداروں کے چناﺅ کے بعد ہوگا تاہم ایم ایم اے کی قیادت کا حکومتوں کو آئینی مدت پوری کرنے دینے پر مکمل اتفاق ہے۔ ایم ایم اے کا سربراہی اجلاس 16فروری کو ہو گا جس میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن کو ایم ایم اے کا امیر اور امیر جماعت اسلامی سنیٹر سراج الحق کے سیکرٹری جنرل مقرر کئے جانے کا قوی امکان ہے۔

پنجاب کے چھ بڑے شہروں میں خطرناک بیماری کا خطرہ

فیصل آباد (نیااخبار رپورٹ) حکومت پنجاب محکمہ صحت نے صوبے کے چھ شہروںکو ہیپاٹائٹس کے پھیلاﺅ کے لئے خطرناک قرار دے دیا۔ فہرست جاری کردی گئی۔ تفصیلات کے مطابق حکومت پنجاب محکمہ صحت نے صوبے بھر کے 6 شہروں جن میں فیصل آباد‘ جھنگ‘ وہاڑی‘ پاکپتن‘ اوکاڑہ اور حافظ آباد شامل ہیں آلودہ پانی اور پانی میں پارے کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے ہیپاٹائٹس کے پھیلاﺅ کے لئے خطرناک قرار دے دیا۔ ان شہری علاقوں میں فوری طو پر پینے کے صاف پانی کے انتظامات نہ کئے گئے تو ہر دوسرا فرد اس خطرناک موذی مرض میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ محکمہ صحت نے اس موذی مرض کی فوری روک تھام کے لئے سر جوڑ لئے۔

 

عمران کا آخری اور بلاول کا پہلا الیکشن،بڑا دعوی سامنے آگیا

خیرپور (این این آئی) پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما نواب خان وسان نے کہا ہے کہ رواں سال بلاول بھٹوکاپہلااورعمران خان کا آخری انتخاب ہوگا۔ تفصیلات کے مطابق خیرپور کی جیلانی یونین کونسل میں خطاب سے رکن قومی اسمبلی نواب وسان نے کہا ہے کہ ملکی اداروں کے خلاف بات کرنے والوں کی سوچ بھی مجیب الرحمان جیسی ہوگئی ہے، پیپلزپارٹی نوازشریف کو ملکی اداروں کےخلاف بات کرنے نہیں دیگی۔نواز شریف کے حوالے سے نواب وسان نے کہاکہ ملک کیخلاف باتیں کرنے پر نوازشریف کو شرم آنی چاہئے، نوازشریف اب آپ وزیراعظم کے اہل نہیں رہے۔انھوں نے کہا کہ بلاول بھٹو نے کہہ دیا 2018 پیپلزپارٹی کا سال ہے، رواں سال بلاول بھٹو کا پہلا اور عمران خان کا آخری الیکشن ہوگا۔

 

سجادہ نشینوں کو تحریک ختم نبوت سے علیحدہ کرنیکا حکومتی منصوبہ بے نقاب

لاہور (خصوصی رپورٹ) حکومت پنجاب نے تحریک تحفظ ختم نبوت کے سرکردہ رہنماﺅں کے بزرگوں کے مزارات کو محکمہ اوقاف کی تحویل میں لینے کا فیصلہ کر لیا، ساتھ ہی کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کے ذریعہ پنجاب بھر کے سجادہ نشینوں کے حوالے سے معلومات اکٹھی کرنے کی ہدایت کی گئی ہے کہ ان درباروں کی آمدن اور سجادہ نشینوں کے اخراجات کیا ہیں۔ سجادہ نشینوں کا معیار زندگی کیا ہے اور کیا یہ لوگ کس مد میں ٹیکس ادا کرتے ہیں یا نہیں۔ پنجاب حکومت مزاروں کو محکمہ اوقاف کی تحویل میں لیکر اپنے خلاف جاری تحریک کو دبانا چاہتی ہے۔ حکومتی ہتھکنڈوں سے مختلف درگاہوں کے سجادہ اور گدی نشینوں کے خلاف کارروائی کرکے انہیں پیر سال شریف کی تحریک سے علیحدہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ خواجہ شمس العارفینؒ کے مزار سیال شریف، شاہ سلیمانؒ کے مزار تونسہ شریف اور پیر مہر علی شاہؒ کے دربار گولڑہ شریف کو اوقاف کی تحویل میں لینے کیلئے منصوبہ بندی مکمل کرلی گئی ہے اور عملدرآمد کیلئے طریق کار طے کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے جب میڈیا نے صوبائی وزیر اوقاف سید زعیم حسین قادری سے بات کی تو انہوں نے تصدیق کی کہ ہم متعدد مزارات کو تحویل میں لے رہے ہیں، یہ فیصلہ سیاسی نہیں بلکہ انتظامی بنیادوں پر کیا جا رہا ہے۔

 

پنجاب میں ڈرگ انسپکڑز سے متعلق رپورٹ نے سب کی آنکھیں کھول دی

خان بیلہ (رپورٹ :ملک جہاں زیب ) صوبائی دارالحکومت سمیت پنجاب کے اکثر اضلاع میں تعینات ڈرگ انسپکٹرز کے کرپشن ،پیشہ ورانہ بد دیانتی ،میڈیکل سٹوروں پر چیکنگ کے بجائے منتھلیاں لینے کا انکشاف ہوا ہے ،سپیشل برانچ کی ایک رپورٹ میں محکمہ صحت کے تمام دعوﺅں کی قلعی کھُل گئی ۔یہ رپورٹ وزیر اعلیٰ پنجاب اور چیف سیکرٹری کو بھیج دی گئی ۔معلوم ہوا ہے کہ صوبے بھر میں جعلی ادویات کے بڑھتے ہوئے کاروبار اور بغیر لائسنس کے میڈیکل سٹوروں میں اضافہ اور جعلی ادویات بنانے والی فیکٹریوں کے خلا ف مو¿ثر کاروائی نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے تھے۔حکومت معیاری ادویات کی فروخت اور جعلی ادویات بنانے والی فیکٹریوں کے خلاف جب بھی کوئی آپریشن کرتی تو اسکے بہتر نتائج سامنے نہیں آتے تھے۔محض کاغذی کارروائی کے بعد تمام معاملہ ٹھپ ہوجاتا تھا ۔پنجاب حکومت نے ڈرگ انسپکٹرز سے پہلے ادویات بنانے والی فیکٹریوں کی انسپکشن کے اختیارات واپس لئے لیکن اس کے باوجود ڈرگ انسپکٹرز کے خلاف شکایات کے انبار لگ گئے ۔ جس پر حکومت نے صوبہ بھر کے تمام اضلاع میں تعینات ڈرگ انسپکٹرز کی خفیہ مانیٹرنگ کروانے کا فیصلہ کیا ۔اس حوالہ سے سپیشل برانچ لاہو ر کو خصوصی ٹاسک دیا گیا ۔ مصدقہ دستاویزات کے مطابق صوبہ بھر میں تعینات 121 ڈرگ انسپکٹرز میں سے 72 ڈرگ انسپکٹرز کرپشن اور دیگر پیسہ ورانہ بد دیانتی میں ملوث پائے گئے ۔جب کہ چنیوٹ،مظفر آباد ،وہاڑی ‘میانوالی ،لودھراں ،ڈیرہ غازی خان ،خوشا ب ،منڈی بہاﺅالدین ،سرگودھا،قصور ،ملتان میں تعینات تمام ڈرگ انسپکٹرز کرپشن میں ملوث پائے گئے ۔لاہو ر میں تعینات 8 میں سے 6 ،شیخوپورہ میں 5 میں سے 4 ،ننکانہ صاحب میں 2 میں سے 1 گوجرانوانہ میں 7 میں سے 6 سیالکوٹ میں 4 میں سے 3 راولپنڈی میں 6 میں سے 3 اٹک میں5 میں سے 1،خانیوال 4 میں سے 1 ،ساہیوال 2 میں سے 1 ،اوکاڑہ میں 3 میں سے 1،بہاول پور 4 میں سے 3 ،بہاول نگر3 میں سے 2 اور رحیم یار خان میں 4 میں سے 3 ڈرگ انسپکٹرز مالی کرپشن میں ملوث پائے گئے ۔مصدقہ دستاویزات کے مطابق لاہور میں جو ڈرگ انسپکٹرز کرپشن میں ملوث ہیں ان میں داتا گنج بخش ٹاﺅن کے محمد جمیل ،گلبرگ ٹاﺅن کے فیصل محمود ،سمن آباد ٹاﺅن کے رانا محمد شاہد ظفر ،کنٹونمنٹ بور ڈ کے کمال سکندر ،شالیمار ٹاﺅن کے رحیم احمد خان اور وہگہ ٹاﺅن ملوک کے انور شامل ہیں۔شیخوپورہ کے عمران انور،تحصیل مرید کے ،کے غلام یٰسین ،شرقپور کے احمد سجال ،فیروز والا کے محمد نور جاوید صفدر آباد میں نادیہ ،ضلع قصور کے رانا ثنا اللہ آصف ،پتوکی کے چودھری شہزاد ،چونیاں کے شیرزمان ،ضلع ننکانہ صاحب کے جاوید اقبال ،سانگلہ ہل کی سعدیہ نذیر ،ضلع گوجرانوالہ کے صالح محمد ،قلعہ دیدار سنگھ کے انیس لقمان ،نندی پور کے عادل مقبول ،گوجرنوالہ ٹاﺅن سے عدیل زین ،وزیر آباد کے عمران خالد ،کموکی کے محسن عزیز ،سیالکوٹ کی نائلہ ا رشاد جن کے متعلق رپورٹ میںکہا گیا ہے کہ یہ اپنے نائب قاصد محمود احمد کے ذریعے منتھلیاں لیتی ہےں ۔سمبڑیال کے محمد عظیم،پسرور کے اویس یونس،ضلع منڈی بہاﺅالدین کے حافظ کفایت اللہ کے متعلق رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ وہ مختلف میڈیکل سٹوروں سے نمونہ جات کی مد میں مہنگی ادویات بھی اٹھا لیتے ہیں جنہیں دیگر من پسند میڈیکل سٹوروں پرفروخت کر دیا جاتا ہے ۔ملکوال کے محمد عبداللہ کے متعلق لکھاگیا ہے کہ ان کے بھائی ظفر اقبال ایک میڈیکل کمپنی کے ڈسٹری بیوٹر ہیں اور جو میڈیکل سٹور ان کی ادویات نہیں لیتے ان کے خلاف چھاپے مارے جاتے ہیں۔ضلع راولپنڈی کے جواد حسین ،پوٹھوہار ٹاﺅن کے نوید انور،مری کے عمر زیب عباسی ،ضلع اٹک کے چودھری عدنان اسلم ،چنیوٹ کے وقار احمد اور توصوف ناصر ،ضلع ملتان بوسن ٹاﺅن کے راﺅ ساجد ،شاہ رکن عالم ٹاﺅن کے عثمان غنی ،شیر شاہ ٹاﺅن کے اسد ابرار ،موسیٰ پاک ٹاﺅن کے جنید ،شجاع آباد کے ڈاکٹر محمد مسعود ،جلال پور ٹاﺅن کے عبدا لرﺅف ،خانیوال کے نوید حسین سرگانہ ،وہاڑی بوریوالہ کے جانسن کامران ،میلسی کے ملک حماد ،وہاڑی شہر کے عمران رشید ،لودھراں کے امیر شاہد ،دنیا پور کے محمد عدنان ،سرگودھا تحصیل ساہیوال کے فہیم ضیاء،بھیرو کے اسرار احمد ،ضلع خوشاب کے چودھری محمد فاروق ،تحصیل نور پور کے عامر حفیظ کے متعلق بتا یا گیا ہے کہ یہ مختلف میڈیکل سٹوروں کو سیل کر کے پھر خود ہی رشوت لیکر انہیں ڈی سیل کر دیتے ہیں اور کم ہی کیس ڈرگ کورٹ کو بھجواتے ہیں۔ضلع میانوالی تحصیل عیسیٰ خیل کے صبیح الرحمٰن کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ ایک عبدالرحمن نامی کلرک کے ساتھ ملکر جعلی لائسنس بھی بنا تے اور میڈیکل سٹوروں کو دیکر ان سے بھاری معاوضہ وصول کرتے ہیں۔تحصیل میانوالی کے فرقان قریشی کے متعلق بتا یا گیا ہے کہ یہ آفیسر اس سے قبل چکوال میں تعینات تھے ۔ فلائنگ فارما کمپنی کے نام سے ایک جعلی میڈیکل کمپنی بنا کر اپنے عہدہ کا ناجائز فائدہ اٹھا کر جعلی ادویا ت کو میڈیکل سٹورو ں پرفروخت کرتے ہیں۔جس پر ان کے خلاف مقدمہ نمبر 56 اور 04 درج کئے گئے۔پپلاں کے خالد پرویز ملک ،ساہیوال کی مسز صدف کے متعلق بتا یا گیا ہے کہ یہ اتائی ڈاکٹرز کی حوصلہ افزائی کر کے ان سے بھاری رقم وصول کرتے ہیں ۔اوکاڑہ کے شوکت وہاب ،دیپالپور کے ملک عرفان منیر ،ڈیرہ غازی خان کے شاہد محمود ،ذوالفقار علی ،مظفر گڑھ کے محمد رضا شاہد ،علی پور کے عمران پتافی ،کوٹ ادو کے محمد ایاز ،راجن پور کے جاوید اقبال ،تحصیل لیہ کے سعید احمد جوئیہ ،کروڑ کے محمد عامر شکیل ،چوبارہ کے عدنان کمال ،ضلع بہاول پور کے نوید اسلم ،خیر پور ٹامیوالی کے اسرارنیازی ،یزمان کے محمد زبیر ،احمد پور شرقیہ کے زبیر بٹ ضلع بہاول نگر ہارون آباد کے علی رضاء،چشتیاں منچن آباد کے محمد یحیٰ ،ضلع رحیم یار خان کے کرپٹ ترین ڈرگ انسپکٹرز میں مقبول حسین بھٹی ،صادق آباد کے محمد طاہر اور خان پور کے امجد فاروق شامل ہیں۔اس حوالہ سے صوبائی وزیر پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ خواجہ عمران نذیر نے ” خبریں“ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے اس معاملہ سے نپٹنے کیلئے دیرپا پالیسیاں بنائی ہیںاور ڈرگ انسپکٹرز کے کردار کو ختم کیا جارہا ہے اور پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر لاہو ر اور فیصل آباد میں ایک انٹر نیشنل کمپنی کو تمام میڈیکل سٹوروں کی جیو ٹیکنگ اور انسپکشن کی ذمہ دار ی بطور (آﺅٹ سورس) کی جارہی ہے جب کہ دیگر اضلاع میں بھی انسپکشن کی ذمہ داریاں تھرڈ پارٹی کو دی جا رہی ہیں۔لہٰذا حکومت جلد ان ڈرگ انسپکٹرز کو ڈی نوٹیفائی کر دیگی۔انہوں نے کہا کہ جو ڈرگ انسپکٹر کرپشن اور دیگر پیشہ ورانہ بد دیانتی میں ملوث ہےں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائیگی ۔اس حوالہ سے ایڈیشنل سیکرٹری ڈرگ کنٹرول سہیل احمد نے ”خبریں “سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈرگ انسپکٹرز سے مطلوبہ نتائج لینے کیلئے ضروری ہے کہ ان کا سروس سٹرکچر بہتر بنا کر ان کے معاشی معاملات بھی بہتر کئے جائیں۔حکومت پانچ بڑے اضلاع میں نئے فارماسسٹ بھرتی کررہی ہے ۔جن کی ایک لاکھ تک تنخواہیں ہوں گی اور انہیں گاڑیاں بھی دی جائیں گی۔لہٰذا جب تک پرانا کلچر تبدیل نہیں ہوگا نتائج بہتر نہیں آئیں گے۔
ڈرگ انسپکٹر

 

جعلی مقابلوں میں بندے مارنے کے حوالے سے کالم نگار میں تجزیہ نگاروں کے سنسنی خیزانکشافات

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) معروف دانشور ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا ہے کہ شہباز شریف نے جو بھی کہا اس سے ان کی بچت نہیںہو گی۔ ایک تو انہوں نے احسان جتایا کہ میری مہربانی ہے میں نیب کے بلانے پر چلا گیا ہوں میں گھر بیٹھے بھی جواب دے سکتا تھا۔ چینل فائیو کے پروگرام ”کالم نگار“ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر آپ نے کوئی غلط کام نہیں کیا تو آپ جواب دے دیں۔ کراچی میں نقیب اللہ محسود کے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مقابلے میں پولیس کا بندے مار دینے کا کلچر پرانا ہے جب پولیس کے پاس ثبوت نہیں ہوتا تو یہ اقدام کرتی ہے۔ میں نہیں سمجھتا پولیس کو پتہ نہ ہو راﺅ انوار کہاں ہے۔ اگر نقیب اللہ دہشگرد تھا تو پولیس ثابت کرے۔ میرے خیال میں راﺅ انوار کو کوئی سزا نہیں ہو گی۔ حمزہ شہباز نے سکیورٹی کےلئے نہیں اپنے آپ کو ممتاز کرنے کے لئے یہ سب کیا یہ بھی ہمارا کلچر ہے۔ کسی کو اتنا خطرہ ہے تو پیشہ بدل لے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اگر جنگ چاہتا ہے تو کر لے۔ بھارت اصل میں اپنے لوگوں کو نفسیاتی طور پر مطمئن کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ کرکٹ کو ختم نہیں کیا جا سکتا جو حالات ہیں ان میں کرکٹ سمیت دوسرے کھیل ہونے چاہئیں۔ تجزیہ کار افضال ریحان نے کہا کہ شہباز شریف کا اشارہ عمران خان کی طرف تھا کہ عدالتوں نے انہیں آٹھ بار بلایا وہ نہیںگئے۔ احتساب یکطرفہ نہیں ہونا چاہئے۔ راﺅ انواز کی روپوشی ڈرامے بازی ہے۔ رکاوٹیں ناجائز نہیںہونی چاہئیں لیکن اگر سکیورٹی خدشات ہیں تو حرج نہیں۔ منہاج القرآن کی رکاوٹیں ہٹائی گئیں ابھی تک واویلا مچا ہوا ہے۔ جنگ کی بجائے بھارت اور پاکستان کو چاہئے غربت سے لڑیں۔ دہشتگردی بھی بڑا مسئلہ ہے اس کے خلاف بھی لڑنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ نجم سیٹھی کرکٹ کے نہیں میڈیا کے آدمی ہیں کرکٹ کا شعبہ عمران خان کو دینا چاہئے۔ کالم نگار رحمت علی رازی نے کہا کہ جے آئی ٹی میں نواز شریف اور مریم نواز بھی جواب نہیں دیتے تھے اور باہر آ کر ادارے پر تنقید کرتے تھے۔ شہباز شریف کا یہ کہنا انہیں بلانا بدنیتی ہے یہ بات ان کے خلاف گئی ہے۔ جو انہوں نے قائداعظم سولر پارک لگایا ہے وہ تو بند پڑا ہے اب بیچنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ نندی پور میں تو پیپلز پارٹی نے بھی لوٹ مار کی ہے۔ راﺅ انوار سندھ میں حکمرانوں کے چہیتے ہیں۔ تجزیہ کار جاوید کاہلو نے کہا کہ جب بدو نے حضرت عمر رضیؓ سے کرتے سے متعلق استسفار کیا تو انہوں نے جواب دے دیا اور بالکل برا نہیں مانا۔ کسی کو اگر اضافی سکیورٹی چاہئے تو ریاست کو ادائیگی کر کے سکیورٹی رکھ لیں۔ پاک بھارت تنازعے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ بھارت اس قابل نہیں پاکستان میں سرجیکل سٹرائیک کر سکے۔

قصور میں مظاہرین کو گولی مارنے کا حکم کس نے دیا ، کچھ معلوم نہیں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ میاں محمد نواز شریف پارٹی کے صدر ہیں اور ن لیگ کی ٹکٹ پر ہی ارکان اسمبلی کامیاب ہو کر اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ لہٰذا ان پر نواز شریف کی بالادستی تو بنتی ہے۔ میاں شہباز شریف خود آج نیب عدالت میں پیش ہوئے۔ یہ ایک اچھی بات ہے۔ وہ چاہتے تو جواب بھی بھجوا سکتے تھے۔ انہوں نے اداروں کو اہمیت دی۔ یہ ایک اچھی روایت ہے۔ بہرحال انہوں نے بھی نیب کی کارروائی کو شک و شبہ کی نیت سے دیکھا اور یہ کہا کہ فیصلے اوپر سے لکھے ہوئے آتے ہیں۔ شاید ان کا مطلب یہ تھا کہ اوپر سے حکم آنے پر انہیں طلب کیا گیا ہے۔ یہ خوش آئند ہے کہ وہ خود عدالت میں پیش ہوئے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پریس کانفرنس کےلئے چند ہی لوگوں کو بلایا گیا۔ جس میں ہمارے اخبار اور چینل سے کوئی بھی نہیں گیا۔ میاں شہباز شریف نے جو اپنے اردگرد بیورو کریسی جمع کر رکھی ہے۔ شاید انہوں نے مشورہ دیا ہو گا کہ ان ان اداروں سے رپورٹرز کو بلایا جائے۔ آج کی پریس کانفرنس میں جس طرح لوگوں کو نام لے لے کر سوال کےلئے بلایا گیا ہے اس سے کوئی اچھی مثال قائم نہیں ہوئی بلکہ ان کی پوزیشن خراب ہوئی ہے۔ وہ سب کو بلا لیتے اور سب کے سوالوں کے کھل کر جواب دیتے۔ ڈی سی قصور محترمہ سائرہ صاحبہ سے پوچھ لیتے ہیں کہ انہوں نے کل ٹیچرز اور طالبعلموں کو جنہوں نے زینب کی قبر پر جاکر شمعیں روشن کی ہیں، بہت ڈانٹ ڈپٹ کی ہے اور کہا کہ انہوں نے بچوں کی جان خطرے میں ڈالی۔ آج اس سکول کے مالکان نے پریس کانفرنس کی۔ انہیں انتظامیہ نے زبردستی روک دیا۔ اگر کوئی اپنے جذبات کا ا ظہار کرنا چاہتا ہے تو اس میں کیا حرج ہے۔ قصور احتجاج کے دوران ڈی سی او کے دفتر اور وہاں موجود سٹاف کو یقیناً تحفظ کی ضرورت تھی لیکن جب ان پر گولی چلی، کوئی بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں جو اے ڈی سی کہتا ہے کہ میں نے گولی نہیں چلائی۔ سابقہ ڈی سی او کہہ چکے کہ انہوں نے گولی نہیں چلوائی۔ محترمہ خود واقعہ سے قبل ہی گھر جا چکی تھیں۔ آپ موقع پر موجود ہی نہیں تھیں۔ پھر وہاں موجود اہلکاروں نے کس کے کہنے پر گولی چلائی، یا خود ہی فیصلہ کر لیا۔ سانحہ قصور پر گولی چلانے والے سکیورٹی اہلکار تھے۔ ایف آئی آر میں کہا گیا کہ نامعلوم افراد نے گولیاں چلائیں حالانکہ ہر فوٹیج میں صاف نظر آ رہا تھا کہ سکیورٹی پر مامور عملہ نے گولی چلائی ہے۔ ڈی سی قصور صاحبہ کا کہنا ہے کہ انکوائری ہو رہی ہے کہ کس نے گولی چلائی۔ ہمارے ملک میں انکوائریاں تو ہوتی رہتی ہیں۔ ہمارے موجودہ آئی جی صاحب فوج سے آئے ہوئے ہیں سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ تین دنوں کے اندر اندر اس کا کھوج لگائیں۔ لیکن آئی جی محترم نے کہا کہ ہم تین دنوں میں کھوج نہیں لگا سکتے۔ اب ا یسے کئی تین دن آئیں گے۔ آئی جی صاحب نے کہا ہے کہ پندرہ دن بھی لگ سکتے ہیں۔ لہٰذا کوئی ٹائم فریم نہیں دے سکتا۔ سابقہ ڈی پی او قصور ذوالفقار علی سے میری بات ہوئی ہے۔ جن کے دور میں تین چار کیس ہوئے تھے۔ شہباز شریف جہاں بھی جاتے ہیں گڑ بڑ ہونے پر وہاں کے انچارج کو معطل کر دیتے ہیں، معطل ہونا کوئی سزا نہیں ہے۔ کچھ عرصہ بعد وہ پھر بحال ہو جاتے ہیں۔ بس پوسٹنگ کسی اور جگہ ہو جاتی ہے۔ جو بھی افسر معطل ہوتا ہے تھوڑے عرصہ بعد بحال ہو جاتا ہے یہ کس قسم کی سزا ہے۔ انہیں تنخواہ بھی ملتی رہتی ہے۔ گھر بھی ان کے پاس رہتا ہے۔ بس معطلی میں دوستوں کے ساتھ خوش گپیاں اور انجوائے کرتے رہتے ہیں۔ کچھ رشتے داروں سے ملنے چلے جاتے ہیں کچھ پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں۔ فرائض پر غفلت برتنے پر انہیں فارغ کر دینا چاہیے۔ سانحہ قصور کے وقت ڈی سی صاحب کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنی سیٹ پر بیٹھتیں ان کی حفاظت کےلئے ایک مستعد عملہ موقع پر موجود تھا۔ احتجاجی مظاہرہ جتنا بھی بڑا ہو وہ ڈی سی اور بالخصوص خاتون پر حملہ نہیں کرتا۔ ان خاتون کے پیچھے وہ کون مضبوط شخص ہے جو انہیں سیٹ سے ہٹنے نہیں دے رہا جبکہ قصور کا امن و امان ختم ہو چکا ہے۔ ان کی سفارش کون کرتا ہے؟ اسی طرح قصور کے ایم پی ایز اور ایم این ایز جنہیں الیکشن میں مینڈیٹ دیا جاتا ہے کہ ا نہوں نے لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کرنی ہے۔ ایک ایم پی اے جب تاجروں کے ساتھ میٹنگ کےلئے آگئے تو وہاں ان کے خلاف نعرے لگے اور کتا کتا کہا گیا۔ یہ حضرات لوگوں کی پروٹیکشن کرنے سے عاری ہیں۔ ایک ایم پی اے صاحب ہیں جن کے بارے مشہور ہے کہ جو بھی مشتبہ شخص تھانے میں گرفتار ہوتا ہے وہ تھانے پہنچ کر اسے چھڑوا لیتے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں ہونے والے ہنگامے پر میں یہی مشورہ دونگا کہ ہماری سیاسی جماعتیں، تعلیمی اداروں میں بھی ا پنے بغل بچہ بنانے سے باز رہیں۔ جب آپ کسی سیاسی جماعت کی سٹوڈنٹ فیڈریشن تعلیمی اداروں میں بناتے ہیں اس کا مطلب ہے اس کی اصل باگ ڈور اس سیاسی پارٹی کے ہاتھ میں ہی ہوتی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر صاحب سے پوچھ لیتے ہیں کہ پنجاب یونیورسٹی کے ہنگاموں کے بارے وہ سیاسی تنظیموں کا کیا رول دیکھتے ہیں۔ میں پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو یقین دلاتا ہوں کہ میرا اخبار اور میرا چینل انہیں ہر قسم کے تعاون کےلئے تیار ہیں کیونکہ پنجاب یونیورسٹی ہمارے ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے اور یہ ادارہ تعلیم کے حوالے سے پورے ملک میں سب سے اہم ادارہ ہے۔ راﺅ انوار کا نام کراچی، ملیر کے حوالے سے اکثر خبروں کی زینت بنا رہتا ہے۔ کبھی ایم کیو ا یم کے ارکان کی گرفتاری کے حوالے سے اور کبھی ”را“ کے تعاون کے الزام میں گرفتار افراد کو یہ سامنے لاتے ہیں۔ کبھی اور بڑی بڑی گرفتاریوں کے سلسلے میں ان کا نام آتا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ راﺅ انوار خود پولیس ہیں یا پولیس کا حصہ ہیں۔ پوری پولیس فورس ایک طرف اور راﺅ انوار ایک طرف۔ اب انہوں نے تفتیش کےلئے پیش ہونے سے ہی انکار کر دیا ہے۔ یہ کس قسم کا پولیس افسر ہے جسے کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ کوئی سیاسی قوت اس کے پیچھے ہے۔ جو ہر بار اسے بچا لیتی ہے؟ راﺅ انوار اصل میں سندھ پولیس کے ”ڈان“ ہیں۔ کہتے ہیں کہ ان کے پیچھے آصف زرداری کا ہاتھ ہے۔ ان کے خلاف جو بھی تحقیقات شروع ہوتی ہے تھوڑے عرصہ بعد پراسرار طریقے سے وہ ختم ہو جاتی ہے کچھ تو ایسا ہے نہ جس کی پردہ داری کی جاتی ہے۔ڈی سی قصور سائرہ عمر نے چینل ۵ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں ضرور اس بات کی وضاحت کرنا چاہوں گی۔ سانحہ قصور کے بارے میں ہونے والی ہماری میٹنگ بہت اچھی رہی تھی۔ اس میں تقریباً50 سکولوں کے نمائندے میرے ہاں موجود تھے۔ ہم نے ”چائلڈ پروٹیکشن“ کے بارے میں بھی بات کی۔ میں نے ان سے کہا کہ ہم بچوں میں اعتماد سازی کےلئے بھی کام کریں۔ ان سے درخواست کی کہ بچوں کو اگر اس طرح گلیوں میں لے کر جائیں گے تو کوئی دہشتگردی کا واقعہ بھی ہو سکتا ہے اس لئے ہمیں بہت محتاط رہنا ہوگا۔ میٹنگ کے بعد جس قسم کا ردعمل ان کی طرف سے آیا وہ حیران کن تھا۔ اس سلسلے میں ایجوکیشن افسران سے آپ پوچھ سکتے ہیں۔ ان سکول مالکان نے ہمیں بہت اچھے اچھے مشورے بھی دئیے ہیں۔ ان کو بلانے کا مقصد صرف بچوں کو پروٹیکشن کے حوالے سے بات کرنا تھا۔ قصور سانحہ کے احتجاج کے وقت ہجوم نے دو مرتبہ ہم پر اٹیک کیا تھا، دوسرے اٹیک کے وقت ہم لوگوں نے اپنی پوزیشن چھوڑیں۔ تحقیقات جاری ہیں۔ منظر عام پر آتے ہی سب کچھ عیاں ہو جائے گا۔ نمائندہ خبریں قصور جاوید ملک نے کہا ہے کہ جس روز قصور کے طلبہ و طالبات نے زینب کی قبر پر شمع روشن کی۔ اگلے دن ہی ان سکولوں کے مالکان کو طلب کر لیا گیا۔ سکولوں کے پرنسپل اور ہیڈز نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں ڈرایا اور دھمکایا گیا ہے کہ آئندہ اس قسم کی حرکت نہیںکرنی۔ اگر ایسا کیا گیا تو آپ کا لائسنس ختم کر دیا جائے گا۔ زینب کے واقعہ سے قبل جو واقعہ رونما ہوا تھا اس وقت علی ناصر یہاں ڈی پی او تھے۔ ان کے دور میں 4بچیوں کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی۔ اور چاروں کو قتل بھی کر دیا گیا تھا۔ علی ناصر رضوی صاحب کے دور میں بچوں کے قتل پر ہنگامے شروع ہوئے تو انہوں نے ایک بندے مدثر حسین کو پکڑ کر جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا۔ کہا گیا کہ یہ بچیوں کا قاتل تھا۔ اسے پولیس مقابلے میں مار دیا گیا ہے جب اس شخص کا ڈی این اے آیا تو وہ اس بچی سے میچ نہیں کر رہا تھا۔ ڈی پی اوز اور ڈی سی اوز کی تقرری کےلئے پہلے ا یک میرٹ بنا ہوا تھا۔ لیکن اب ان کی تقرری سی ایم صاحب خود کرتے ہیں۔ موجودہ ڈی سی صاحب کی طاقت کا اصل سبب یہ ہے کہ علاقے کے ٹھیکے ان کی منظور نظر ایم پی اے کے بندوں کو دے دئیے جاتے ہیں، الیکشن کا دور شروع ہو گیا ہے یہاں ایسے بندوں کو رکھا گیا ہے جو پارٹی کو الیکشن جتوا سکیں۔ مہر سلیم نے قصور سے چینل ۵ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ زینب کا واقعہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی 11 سے بارہ کیسز ہو چکے ہیں انتظامیہ نے جتنے لوگوں کو پکڑنے کا دعوی کیا ہے ان کے ڈی این اے میچ ہی نہیں ہوئے ہیں۔ قصور کی صورتحال پر بچوں میں خوف و ہراس ہے۔ بچے باہر نکلنے سے ڈرتے ہیں بچیاں ہی نہیں بلکہ اب تو بچے بھی باہر نکلنے سے گھبرا رہے ہیں۔ ایم این اے اور ایم پی ایے کے پاس جب عوام جاتی ہے تو وہ بات تو سنتے ہیں لیکن کوئی کارروائی نہیں کرتے۔ وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر زکریا ذاکر نے کہا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں چار سالوں سے ایک جھگڑے کی کیفیت چلی آ رہی ہے، پچھلے سال مارچ میں بھی ایک جھگڑا ہوا تھا، چھوٹے موٹے واقعات توہوتے رہتے ہیں، جب کوئی ادارہ سخت ایکشن نہیں لیتا تو وہاں اس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ آج کے واقعہ کے بعد پنجاب یونیورسٹی نے حکومت پنجاب کے ساتھ ملکر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب کسی قسم کی رعایت کسی کو بھی نہیں دی جائے گی۔ جن لوگوں نے ان واقعات میں حصہ لیا ہے ہم انہیں کریمنل سمجھتے ہیں۔ ان کے خلاف سخت قسم کی ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ انہیں یونیورسٹی سے سسپنڈ کر دیا گیا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی ان عناصر کو سزائیں دلوائے گی۔ اس سے یونیورسٹی کا امیج خراب ہوتا ہے۔ قصور سے وحید جمال نے کہا ہے کہ راﺅ انوار پولیس میں اے ایس آئی کے طور پر بھرتی ہوئے تھے۔ انہوں نے پہلا پولیس مقابلہ کیماڑی کے اندر کیا۔ اب تک 424 پولیس مقابلوں میں یہ بندوں کو مار چکے ہیں۔ دو مرتبہ ان کے خلاف کارروائی ہو چکی ہے ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ بھی ان کے خلاف ایکشن لے چکا ہے۔ لیکن تھوڑے عرصہ کے بعد ہی یہ ملیر میں واپس آ کر تعینات ہو جاتے ہیں۔ ملیر ایک بہت بڑا علاقہ ہے۔ ایس ایس پی یہاں دو سال سے زیادہ کےلئے تعینات نہیں ہوتے۔ لیکن یہ راﺅ انوار ہی ہیں جو سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے نوٹس کے باوجود دوبارہ یہاں مقرر ہو جاتے ہیں۔ ان کے بارے مشہو ہے کہ یہ سیاسی طور پر بہت طاقتور ہیں ان کے تعلقات سیاستدانوں سے بہت قریبی ہیں۔ یہ ا ن کےلئے کام کرتے ہیں اس لئے یہ بار بار یہاں تعینات کر دئیے جاتے ہیں۔

 

 

حاجی امجد علی مغل کو غریب بچیوں کی شادیوں کے اخراجات برداشت کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں

لاہور  (وقائع نگار) چیف ایڈیٹر خبریں ضیا شاہد نے سوشل ورکر حاجی امجد علی مغل کی طرف سے اپنے ذاتی اخراجات سے بچوں کی شادی کے انتظامات کو بہترین خدمت خلق قرار دیا ہے۔ انہوں نے اپنے پیغام میں حاجی امجد علی مغل کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ غریب والدین کی بچیوں کے لئے انفرادی طور پر اتنے اعلیٰ اور شاندار انتظامات پر آپ مبارکباد کے مستحق ہیں اور جان کر خوشی ہوئی کہ آپ جیسے درد دل رکھنے والے لوگ آج کے دور میں بھی موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کے نفسا نفسی کے دور میں کسی دوسرے کی بچی کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھنا اور اس کی شادی کے تمام تر اخراجات کا بندوبست کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔ چیف ایڈیٹر خبریںضیا شاہد نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ میں آئندہ اس تقریب میں خود شرکت کروں گا اور ایسے نیک کام میں اپنا حصہ بھی ڈالوں گا۔

کسی بھی بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، سربراہ پاک فوج

 راولپنڈی(ویب ڈیسک)آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ 2003ء کے سیز فائر معاہدے کی پاسداری کو کمزوری نہ سمجھا جائے کسی بھی بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باونڈری پر کھوئی رٹہ اور اریان سیکٹرز کا دورہ کیا جہاں مقامی کمانڈرز نے آرمی چیف کو بھارت کی طرف سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں پر بریفنگ دی۔افسران نے انہیں بھارتی فوج کی جانب سے شہری آبادی کو نشانہ بنانے سے متعلق بتایا جواب میں آرمی چیف نے پاک فوج کی طرف سے بھارت کو مؤثر اور ذمہ دارانہ جواب دینے کے عمل کو سراہا۔ 

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کے مطابق آرمی چیف نے لائن آف کنڑول پر حفاظتی اقدامات مزید بہتر کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ 2003ء کے سیز فائر معاہدے کی پاسداری کو کمزوری نہ سمجھا جائے کسی بھی بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔