ملتان (رپورٹنگ ٹیم) زکریا یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر کو سالہا سال سے چلنے والے گھناﺅنے کھیل‘ اساتذہ کی بلیک میلنگ‘ ایڈمنسٹریشن کی کرپشن‘ اقرباءپروری اور تباہ حال ماحول ورثے میں ملا۔ انہوں نے نالائق اور کرپٹ سٹاف میں سے بہت سے تبدیل کئے مگر اساتذہ نے اپنی روش نہ بدلی اور یونیورسٹی میں سب سے زیادہ بگاڑ اعلیٰ سطحی سیاسی مداخلت کی وجہ سے پیدا ہوا۔ وائس چانسلر زکریا یونیورسٹی نے جس پر ہاتھ ڈالا اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی سیاسی وڈیرہ اپنے تمام تر مفادات کے ساتھ کھڑا نظر آیا حتیٰ کہ یونیورسٹی میں گزشتہ ڈیڑھ سال سے 400سے زائد لوئر سٹاف کی اسامیاں محض انتخابی سیاست کی وجہ سے خالی پڑی ہیں اور اساتذہ کو مکمل سیاسی پشت پناہی حاصل ہے۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ ایس ایچ او تھانہ الپہ رانا ظہیر بابر جوکہ رکن صوبائی اسمبلی رانا محمودالحسن کے بہنوئی ہونے کے ناطے اپنی مرضی کی پوسٹنگ لیتے ہیں۔ پولیس تھانہ الپہ کے حوالے سے ملزم علی رضا قریشی کو ایک سٹوڈنٹ لیڈر اور ایک حساس ادارے کے اہلکار نے ملتان نانگا چوک سے ٹریکنگ کرکے جس وقت گرفتار کیا اس وقت اس کے پاس دو موبائل فون اور ایک ولایتی پسٹل تھا جسے وہ ہر وقت اپنے پاس رکھتا تھا۔ پولیس تھانہ الپہ کے ایس ایچ او رانا ظہیر بابر نے متاثرہ طالبہ مرجان اور اس کے والد کے سامنے دو گھنٹے تک موبائل کی تلاشی لی اور طالبہ کے مطابق وہ فلمیں ضائع کرتا رہا جبکہ دوسرا موبائل اس نے ڈی کوڈ کرنے اس لئے بھیجا کہ گھبراہٹ اور پریشانی میں ملزم علی رضا قریشی کوشش کے باوجود اس کا کوڈ یاد نہ رکھ سکا اور یہی وجہ تھی کہ چند غیراخلاقی ویڈیو کلپس روزنامہ خبریں کو بھی مل گئے جو صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ کے ذ ریعے سی پی او ملتان سرفراز احمد فلکی کو ارسال کئے گئے۔ روزنامہ خبریں کو مزید معلومات ملی ہیں کہ شعبہ کیمسٹری کے ایک پروفیسر پر بھی طالبہ کو بلیک میل کرنے کا الزام تھا تاہم وہ طالبہ شدید دباﺅ میں تعلیم ہی چھوڑ کر چلی گئی۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ڈی وی ایم کی ایک طالبہ کو ایک پروفیسر ڈاکٹر نے ایک طالب علم ادریس کے ذریعے بلیک میل کیا کیونکہ مذکورہ طالبہ کا ریسرچ پراجیکٹ مذکورہ پروفیسر ڈاکٹر کے پاس تھا۔ مذکورہ پروفیسر ڈاکٹر نے دھمکی دی کہ اگر مذکورہ طالبہ نے ان سے علیحدگی میں ملاقات نہ کی تو وہ اسے فیل کردیں گے مگر طالبہ ڈٹی رہی اور اس نے اپنا سمسٹر ہی ڈراپ کروالیا اور اگلے سمسٹر میں اپنے تعلیمی کیریئر کے 6ماہ ضائع کرکے اگلے سمسٹر میں داخلہ لے لیا تو قواعد کے مطابق اس کے ریسرچ آفیسر بھی تبدیل ہوگئے اور مذکورہ پروفیسر ڈاکٹر کو منہ کی کھانا پڑی اور اس طرح لڑکی ڈگری بھی لے گئی اور اپنی آبرو بھی بچاگئی۔ اسی طرح کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ ہی کی ایک طالبہ کو کلاس کا سی آر اور یونیورسٹی کا ایک انتظامی آفیسر کسی رانا صاحب کے ڈیرے پر لے گیا جس پر شور مچا مگر بات آئی گئی ہوگئی طلبہ کے ایک وفد نے روزنامہ خبریں کے دفتر آکر بتایا کہ سمسٹر سسٹم میں اساتذہ بہت مضبوط ہیں اور بلیک میل کرتے ہیں۔ عدالتیں بھی مدد نہیں کرتیں کیونکہ سسٹم 100فیصد پروفیسر کو سپورٹ کرتا ہے۔ ایک طالب علم نے کہا کہ وی سی صاحب اگر ریکارڈ چیک کریں کہ کتنی طالبات کس مضمون میں ایک سے 3نمبروں سے فیل ہوتی ہیں تو انہیں مزید کسی بھی تحقیق کی ضرورت نہ رہے گی۔ لڑکیوں کا پردہ بھی رہ جائے گا اور پروفیسر بھی بے نقاب ہوجائے گا۔ مذکورہ طالب علم نے بتایا کہ غریب گھرانوں کی لڑکیاں زیادہ بلیک میل ہوتے ہیں کہ انہیں شدید احساس ہوتا ہے کہ ان کے والدین کس مشکل سے ان کی فیس اور ہاسٹل کے اخراجات دے رہے ہیں اور اگر وہ فیل ہوگئیں تو مزید 6ماہ کے اخراجات پڑجائیں گے پھر یہ گارنٹی بھی نہیں کہ وہ پاس بھی ہوں گی یا دوبارہ فیل کردی جائیں گی لہٰذا نہ چاہتے ہوئے بھی بعض طالبات یہ کڑوا گھونٹ پی لیتی ہیں۔ اس طالب علم نے بتایا کہ زکریا یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے ایک پروفیسر جو ان دنوں بیرون ملک ہیں‘ نے اس طرح ایک طالبہ کو بلیک میل کیا جس نے ایک اہم ادارے کے اسد نامی آفیسر کے ذریعے اپنی جان خلاصی کرائی کیونکہ اسد اور مذکورہ طالبہ کے والد کی گہری دوستی تھی اور طالبہ نے فوری طورپر فون کرکے اپنے والدکو آگاہ کردیا تھا۔ اسد نامی آفیسر کی مداخلت پر مذکورہ پروفیسر طالبہ کو فیل بھی نہ کرسکا اور وہ ڈگری لے کر چلی گئی۔ بتایا گیا ہے کہ وائس چانسلر نے یونیورسٹی انتظامیہ سے ایسی تمام درخواستیں اپنے دفتر میں منگوائی ہیں جس میں ہراسمنٹ کی شکایات تھیں۔ ذرائع کے مطابق متعدد درخواستوں کا متن تبدیل ہے اور بعض سرے سے غائب ہیں تاہم وائس چانسلر کی طرف سے ہدایات دی گئی ہیں کہ اگر کوئی طالبہ یونیورسٹی سے جابھی چکی ہے تو بھی ایک ٹیم جاکر اس سے مل کر معلومات لے اور جو بھی ملوث ہو اسے سزا دی جائے۔
متن تبدیل
