اسلام آباد(ویب ڈیسک)سپریم کورٹ نے معروف ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر ثمر مبارک کو اسٹنٹ بنانے کیلئے دیے گئے 37 ملین (3 کروڑ 70 لاکھ) روپے کے آڈٹ کا حکم دیتے ہوئے ڈاکٹر ثمر سے رقم کا حساب بھی مانگ لیا۔ دل کے غیر معیاری اسٹنٹس سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی جس میں ڈاکٹر ثمر مبارک بھی پیش ہوئے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ڈاکٹر ثمر مبارک سے پوچھا کہ آپ نے اسٹنٹ تیار کرنے کی ذمہ داری اٹھائی تھی، 2004 میں اس کام کے لیے حکومت نے آپ کو 37 ملین روپے دیے، جو اسٹنٹ آپ نے بنایا وہ کہاں ہے؟، اپنی کارکردگی سے تحریری طور پر آگاہ کریں اور تمام اخراجات کی تفصیل فراہم کریں، کیا 37 ملین سے بھی اسٹنٹ نہیں بنا۔ڈاکٹر ثمر مبارک نے جواب دیا کہ 37 ملین روپے کی لاگت سے منصوبہ شروع ہوا، سالانہ دس ہزار اسٹنٹس تیار کیے جانے تھے، بطور چیئرمین نیشنل انجینئرنگ اینڈ سائنٹیفک کمیشن (نیسکام) میں نے 2004 میں جرمنی سے مشین امپورٹ کی، میں نے تمام ٹیکنالوجی نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی(نسٹ) کو منتقل کر دی۔ نسٹ حکام نے جواب دیا کہ 30 ملین کی تو صرف مشین ملی تھی۔اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ڈاکٹر ثمر کو دیے گئے 37 ملین روپے کا آڈٹ بھی نہیں ہوا۔ عدالت نے ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو دیے گئے 37 ملین کے آڈٹ کا حکم دیتے ہوئے ڈاکٹر ثمر سے ایک ہفتے میں تحریری جواب طلب کر لیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مئی تک ہر صورت میں پاکستانی اسٹنٹ تیار ہوجانے چاہئیں، خود اپنے طور پر ان اسٹنٹ کو چیک کروائینگے۔
