اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) نواز شریف کی وزارت عظمی کے دور میں وزارت قانون کی جانب سے تیار کیا جانے والا آئینی ترمیم کے مسودے پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے تحت وزارت قانون نے غور شروع کر دیا ہے، اس مجوزہ قانون کا مقصد پارلیمانی ادارے کو اعلی عدلیہ میں ججوں کے تقرر کے متعلق فیصلہ کن اختیار دینا ہے تاکہ پارلیمنٹ کو ججوں کے احتساب کے اختیارات بھی حاصل ہو سکیں۔ میڈیا کے پاس اس ترمیمی بل کا مسودہ موجود ہے۔ یہ بل فاروق نائیک کی زیر قیادت سینیٹ کمیٹی نے تیار کیا تھا۔ تاہم، ذرائع کا کہنا ہے کہ اب وزارت قانون اس بل میں مزید بہتری لانے میں مصروف ہے تاکہ پارلیمنٹ کو اعلی عدلیہ میں ججوں کے تقرر اور انہیں فارغ کرنے کے اختیارات مل سکیں۔ موجودہ صورتحال میں چیف جسٹس کی زیر قیادت جوڈیشل کمیشن کے پاس مکمل اختیارات ہیں کہ وہ نامزد کردہ ججوں کو سپریم اور ہائی کورٹ میں مقرر سکے لیکن اس موجودہ صورتحال کے برعکس، آئینی ترمیم کے بل میں ججوں کے تقرر کے معاملے میں پارلیمانی کمیٹی کو طاقتور بنانے کی بات کی گئی ہے۔ بل میں آئین کے آرٹیکل 175 اے کو تبدیل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اگرچہ بل میں صرف ججوں کے تقرر کی بات شامل ہے لیکن وزارت قانون کے ذرائع کا اصرار ہے کہ اب جوڈیشل اصلاحات کے حوالے سے ججوں کے احتساب (ججز کی برطرفی) کی بات بھی شامل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ فی الوقت، پارلیمانی کمیٹی کے پاس عملا جوڈیشل کمیشن کی سفارشات کو مسترد کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ لیکن آئینی مسودے میں تجویز دی گئی ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کے فیصلے پر کسی عدالت میں کسی بھی بنیاد پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جائے گا۔ 18ویں اور 19ویں آئینی ترمیم کے تحت متعارف کرائے گئے موجودہ نظام کے تحت، پارلیمانی کمیٹی اگر جوڈیشل کمیشن کی کسی سفارش کو مسترد کرتی ہے تو اس کے باوجود مذکورہ سفارش کی حتمی تقرری ہو سکتی ہے۔ نئے قانون کے مسودے مین تجویز دی گئی ہے کہ کسی نام کو مسترد کیے جانے کی صورت میں جوڈیشل کمیشن پارلیمانی کمیٹی کو نیا نام تجویز کرے گی اور سپریم کورٹ کے پاس پارلیمانی کمیٹی کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔ آئینی ترمیمی بل کی شق نمبر 18 میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ پارلیمانی کمیٹی جوڈیشل کمیشن سے نامزد کردہ امیدوار کی تجویز ملنے پر اس کی ساکھ، قابلیت، اخلاقی معیار اور مالی ساکھ کا جائزہ لے گی اور اس کے بعد کمیٹی کے ارکان اکثریتی فیصلے کے ساتھ 30 روز میں اس تقرری کا فیصلہ کریں گے، ایسا نہ کرنے کی صورت میں مذکورہ نامزد امیدوار کا تقرر ہو جائے گا: مگر شرط یہ ہے کہ پارلیمانی کمیٹی نے تین چوتھائی ارکان کی اکثریت کے ساتھ مذکورہ عرصہ کے دوران نامزد امیدوار کی منظوری نہ دے، یہ بھی شرط ہے کہ اگر پارلیمانی کمیٹی نے نامزد امیدوار کی منظوری نہ دی تو وہ اپنے فیصلے سے جوڈیشل کمیشن کو بذریعہ وزیراعظم مطلع کرے گی، یہ بھی شرط ہے کہ اگر کسی نامزد امیدوار کی منظوری نہ دی گئی تو جوڈیشل کمیشن کو 45 روز کے اندر کمیٹی کو نیا نام بھیجنا ہوگا۔ قانون کے مسودے کے سیکشن 19 میں لکھا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کے فیصلے کو کسی بھی عدالت میں کسی بھی بنیاد پر چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ سیکشن 23 میں لکھا ہے کہ آرٹیکل 68 میں وضع کردہ باتوں کا اطلاق پارلیمانی کمیٹی کی کارروائی پر نہیں ہوگا۔ آرٹیکل 68 میں لکھا ہے کہ پارلیمنٹ کو یہ اختیار نہیں کہ وہ فرائض کی انجام دہی کے دوران سپریم یا ہائی کورٹ کے کسی جج کے رویے پر بحث کرے۔ بل میں جوڈیشل کمیشن کے کے آئین میں تبدیلی کی بھی تجویز پیش کی گئی ہے۔ فی الوقت جوڈیشل کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس پاکستان ہیں لیکن موجودہ صورتحال کے برعکس، کہا گیا ہے کہ کمیشن میں کوئی ریٹائرڈ چیف جسٹس یا سپریم کورٹ کا سابق جج بطور ممبر شامل نہیں ہوگا۔ فی الوقت، سابق چیف جسٹس یا پھر سپریم کورٹ کے سابق جج کو چیف جسٹس پاکستان چیر سینئر ترین ججوں (جو جوڈیشل کمیشن کے رکن بھی ہیں) کے ساتھ مشاورت کے بعد دو سال کیلئے بطور ممبر نامزد کرتے ہیں۔ آئینی ترمیم کے مسودے میں ہر ہائی کورٹ میں Initiation Committee تشکیل دینے کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے تاکہ ہائی کورٹ میں ججوں کے تقرر کیلئے امیدوار نامزد کیے جا سکیں۔
