لاہور (خصوصی رپورٹ) عسکری تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان نے افغانستان کو جومطلوب افراد دئیے ہیں، ضروری نہیں ہے کہ ان کا تعلق حقانی گروپ سے ہو، مختلف جرائم میں ملوث افراد ہوسکتے ہیں۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کو اس کی وضاحت کرنا ہوگی کہ انہوں نے ایسی بات کیوںکہی، جو پاکستان کے اس دیرینہ موقف کے خلاف ہے کہ پاکستان سے حقانی نیٹ ورک کا صفایا کیا جا چکا ہے اور ملک میں اس گروپ کا کوئی شخص موجود نہیں aہے۔ انہوں نے حقانی گروپ یا طالبان کا روپ دھار رکھا تھا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کا یہ بیان تقریباً دو ماہ بعد آیا ہے،جس پر افغان سفیر نے بھی حیرت کا اظہار کیا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ گزشتہ سال نومبر میں 27شدت پسندوں کو افغانستان کے حوالے کیاگیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان اور حقانی نیٹ ورک پر دباﺅ رکھے ہوئے ہے، تاکہ پاکستانی سرزمین کو افغانستان میں کسی دہشت گردی کیلئے استعمال کو روکا جاسکے۔ لیکن انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ جن شدت پسندوں کو افغان حکومت کے حوالے کیاگیا تھا، ان کا تعلق واقعی حقانی گروپ سے تھا یا نہیں۔ کیونکہ پاکستان کایہ موقف ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے حقانی گروپ افغانستان منتقل ہوچکا ہے۔ جن لوگوں کو افغان حکومت کے حوالے کیاگیا ہے وہ یقینا حقانی گروپ کے لوگ نہیں تھے۔ وہ مشتبہ افغان باشندے تھے، جو دہشت گردی میں ملوث ہوسکتے تھے۔ ان کے پاس دستاویزات بھی نہیں تھیں۔ دراصل افغان حکومت اور بھارت ، افغان مہاجرین کی آڑ میں اپنے دہشت گرد پاکستان میں داخل کررہے ہیں۔ اسی لیے پاکستان کا مطالبہ ہے کہ افغان مہاجرین کو واپس بلایا جائے۔ لیکن امریکہ ہو یا بھارت ، دونوں کیلئے پاکستان میں دہشت گردی کرانے کیلئے افغان مہاجرین کی آڑ میں دہشت گرد بھیجنا نہایت آسان ہے۔ اس معاملے پر حیرت ہے کہ دفتر خارجہ کے ترجمان نے ایسا بیان کیوں دیا جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان امریکہ کے دباﺅ میں ہے۔
