قصور(بیورورپورٹ)قصور پولیس 2007 ئ سے لیکر 2018 ئ کی ابتداءتک کس طرح حسین خانوالہ اور قصور میں سینکڑوں بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے انکی ویڈیو فلمیں تیار کرنے اور انہیں بلیک میل کرنے کے ساتھ ساتھ قصور شہر میں 2015 ئ سے لیکر جنوری 2018 ئ تک کیسے کیسے معصوم بچیوں کو اغواءکے بعد زیادتی کانشانہ بنانے اور انہیں قتل کرنے کے دل دہلا دینے والے واقعات کے حقائق کو دانستہ طور پر چھپاتی رہی اور کس طرح عوام کے غم وغصہ کو ٹھنڈا کرنے اور حقائق سے عوام کی نظریں ہٹانے کے لیے کیسے بے گناہ لوگوں کو جعلی مقابلوںمیں قتل کرکے اپنی تعریف میں نعرے لگواتی رہی اس امر کا اندازہ روزنامہ خبریں میں پیرو والا روڈ کی معصوم بچی ایمان فاطمہ کے اغواءاور قتل میں پکڑے جانیوالے بے گناہ نوجوان مدثر علی کے جعلی مقابلے کی تفصیلات دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے روزنامہ خبریں کا اعزاز یہ رہا ہے کہ ناصرف اس نے ہر لمحہ اور ہر جگہ ہونیوالے ظلم کےخلاف آواز بلند کی بلکہ حسین خانوالہ ڈھائے جانیوالے مظالم سے لیکر قصور شہر میں ڈھائی سال تک اغواءکے بعد قتل کی جانیوالی بارہ سے زائد بچیوںاور دوسرے معصوم بچوں کے متعلق ہر وقت اپنے قارئین کو باخبر رکھا جس پر ناصرف اعلیٰ عدالتوںنے یکے بعد دیگرے خبریں میں شائع ہونیوالی کئی خبروںکا نوٹس لیا بلکہ مدثر علی کے جعلی پولیس مقابلے کی خبر شائع ہونے پراعلیٰ عدالت نے ایک بارپھر سے اس کیس کی تحقیقات کا آغاز کر دیا گزشتہ روز معصوم بچیوں کو قتل کرنےوالے عمران علی کے مقدمات کی تحقیقات کرنیوالی جے آئی ٹی کی اہم کاروائی سے ایک بڑی پیشرفت سامنے آئی ہے یاد رہے کہ گزشتہ سال فروری میں جب عمران علی نے معصوم ایمان فاطمہ کو اغواءکے بعد زیادتی کانشانہ بنایا اور اسے قتل کرکے اس کی نعش ایک زیر تعمیر مکان میں پھینک دی تو عوامی احتجاج کے پیش نظر قصور پولیس نے منیر احمد کے بیٹے مدثر علی کو بلا جواز گرفتار کرلیا اس کےخلاف بچی کے اغواءاور زیادتی کامقدمہ درج کیا اور پھر چند گھنٹوں کے اندر ہی اسے ایک جعلی مقابلے میں ہلاک کر دیا مقتول مدثر کی والدہ جمیلہ بی بی کے مطابق اس کے بیٹے کو پولیس نے ناحق قتل کیا اور پورے شہر میں مشہور کر دیا کہ مدثر علی معصوم بچی کے ساتھ زیادتی کے واقعہ میں ملوث تھا جمیلہ بی بی کے بیان کے مطابق بے گناہ بیٹے کی نعش لیکر جب اس کے گھر والے قبرستان گئے تو کوئی شخص اس کے بے گناہ بیٹے کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے تیار نہیں تھا کیونکہ لوگ مدثر علی کو قاتل سمجھ رہے تھے اس واقعہ پر ایس ایچ او محمد یونس ڈوگر کی مدعیت میں تھانہ صدر قصور میں مقدمہ نمبر189/17 درج کیا گیا ممتاز قانوندان اور مدثر قتل کیس میں مقدمہ کی پیروی کرنیوالے سردار علی احمد ڈوگر ایڈووکیٹ نے خبریں کو تازہ ترین صورتحال بتاتے ہوئے انکشاف کیا کہ مقتول مدثر علی کی والدہ جمیلہ بی بی نے اس کے بیٹے کو قتل کرنیوالے ملزمان کےخلاف مقدمہ کے اندراج کے لیے حکام کے ساتھ ساتھ جے آئی ٹی کو تحریری درخواست دے رکھی تھی جس پر جے آئی ٹی نے مذکورہ مقدمہ میں تھانیدار محمد یونس ڈوگر کی بجائے مقتول مدثر علی کی والدہ جمیلہ بی بی زوجہ منیر احمد کو مدعیہ نامزد کر دیا ہے سردار احمد علی ڈوگر ایڈووکیٹ کے مطابق جے آئی ٹی کے اس اہم حکم نامے کے بعد ناصرف ہمیں انصاف کی امید پیدا ہوگئی ہے بلکہ جے آئی ٹی کے اس اقدام کے بعد مدعی فریق کے کہنے پر ہم نے مقدمہ کے اندراج کے لیے عدالت میں دی گئی درخواست بھی واپس لے لی ہے انہوںنے کہاکہ مدثر علی کو قتل کرنے سے پہلے بدترین تشددکانشانہ بنایا گیا اور اس مکروہ عمل میں ایس ایچ او طارق بشیر چیمہ ڈی ایس پی مرزاعارف رشید اور دیگر پولیس افسران بھی ملوث تھے پولیس اس مقدمہ میں ایس ایچ او بی ڈویژن ریاض عباس اور ایس ایچ او صدر محمد یونس ڈوگر کا پہلے ہی جسمانی ریمانڈ حاصل کر چکی ہے اور آنیوالے دنوں میں جے آئی ٹی دیگر پولیس افسران کو طلب کر رہی ہے پولیس ذرائع کے مطابق قصور میں د و سال تک تعینات رہنے والے طار ق بشیر چیمہ کا شمار بھی جعلی مقابلوںمیں بے گناہ شہریوںکو مارنے والے سرکردہ افراد میں ہوتا ہے طارق بشیر چیمہ نے مصطفی آباد میں تعیناتی کے بعد دو بے گناہ لوگوںکو ماورائے عدالت قتل کیا جس کے بعد اسے ایس ایچ او تھانہ گنڈا سنگھ والا تعینات کر دیا گیا وہاںپر بھی اس نے ایک فرضی مقابلے میں چار افراد کو ہلاک کر دیا ذرائع کے مطابق طارق بشیر چیمہ نے مارے جانیوالے افراد کے مخالفین سے بھاری رقم لیکر انہیں قتل کیا جس پر محکمانہ تحقیقات میں اسے قصور وار بھی قرار دیا گیا مگر افسران نے اس کےخلاف قانونی کاروائی کرنے کی بجائے اسے پھر سے ایک بہتر تھانے میںتعینات کر دیا مدثر علی کے ورثاءاور وکلاءنے بتایا کہ آنیوالے دنوں میں سابق ڈی ایس پی صدر مرزاعارف رشید جو ان دنوںلاہور تعینات ہیں کے علاوہ دیگر افسران کو حراست میں لیاجارہا ہے معروف ماہرین قانون اور انسانی حقوق کی تنظیموںکے نمائندگان کے مطابق گزشتہ تین سال کے دوران قصور کی تاریخ کے سب سے زیادہ فرضی پولیس مقابلے کیے گئے جن کی تعداد 113 کے قریب ہے ان مقابلوںمیں ہر وقوعہ ایک ہی طرح کا ہے “جس میں مدعی پولیس افسران بیان کرتے ہیں کہ مقتول اپنے ہی ساتھی کی فائرنگ سے ہلاک ہوگیا ہے “حالانکہ ان تمام مبینہ مقابلوںمیں پولیس افسران نے دانستہ طور پر لوگوںکو ہلاک کیا اور یہ ہلاکتیں اس بے رحمی اور تواتر کے ساتھ کی گئیں کہ راﺅ انوار جیسے بے رحم پولیس افسران بھی قصور پولیس کے سامنے شرما جائیں ۔
