تازہ تر ین

سرائیکی لیڈروں سے چند گزارشات (2)

ضیا شاہد ……..خصوصی مضمون

دوسری طرف اس میں کوئی شبہ ہیں کہ ج وبی پ جاب میں رہ ے والے پ جابی اردو سپیک گ مہاجر، روہتکی، بلوچ، پٹھا وغیرہ اپ ے علاقے صوبے کے قیام کے حامی ہیں تاکہ ا ہیں قومی وسائل میں سے آبادی کے مطابق ف ڈ مل سکیں اور ا ہیں لاہور ہ جا ا پڑے اس سلسلے میں رحیم یار خا ہو یا ڈیرہ غازی خا اور جام پور ا علاقوں کے لوگوں کوچھوٹے کاموں کیلئے بھی لاہور کا سفر کر ا پڑتا ہے جو دس، گیارہ گھ ٹے میں مکمل ہوتا ہے۔ وہ بھی اس شرط پر کہ کوئی براہ راست گاڑی یا بس مل جائے۔ سرائیکی لیڈر اگر سرائیکستا کا شور ہ مچاتے جس اصطلاح کے بعض ا سرائیکل لوگ خوفزدہ ہوتے ہیں تو ملتا ، مظفرگڑھ، ڈی جی خا میں ملتا ، وسیب، پ ج د وغیرہ کا ام استعمال کیا جاتا تو علاقے کے کئی زبا یں بول ے والے اس مہم میں شامل ہوسکتے تھے۔ لیک سرائیکی لیڈروں کے شور شرابے سے ا سرائیکی خوفزدہ ہو جاتے ہیں کہ سرائیکیوں کا صوبہ ب ا تو ا سرائیکی بی کلاس شہری ہ ب جائیں۔ سرائیکی ت ظیموں اور لیڈروں میں مجھے کوئی ایک بڑا ام ایسا ظر ہیں آتا جس کے پیچھے سب لگ سکیں، اکثر جماعتیں اور ت ظیمیں لیٹر پیڈ کی حد تک محدود ہیں جس پر بیا لکھ کر چھپوائے جاتے ہیں۔ یہی بات چ د سال پہلے میں ے کالم گار ظہور دھریچے کو سمجھا ے کی کوشش کی تو اتحاد کے ام پر اپ ی ئی سیاسی جماعت کھڑی کر دی اور خود سربراہ ب بیٹھے۔ہمارے دوست دھریجہ صاحب کی ایک ہی د میں پا چ مختلف شہروں سے خبریں آئیں تو میں ے ملتا آفس میں یوز ایڈیٹر کو مذاق میں فو کیا اور پوچھا کہ کیا ا کے پاس ہیلی کاپٹر ہے؟ وہ خا پور سے ملتا آ رہے تھے وہ جس جس شہرسے گزرتے وہاں سے لیٹر پیڈ پر ا کے ”ارشادات عالیہ“ خبریں دفتر پہ چ ے لگے۔ یہی ہیں بلکہ بعض سیاسی پارٹیوں یا ت ظیموں کے لیٹر پیڈ روز امہ ”خبریں“ ملتا کے بعض سابقہ کارک وں کے پاس بھی تھے جب وہ ”خبریں“ سے م سلک تھے۔قارئی بحث کاخلاصہ یہ ہے کہ سرائیکی دوستوںکوپس د ہویا ہ ہوبہت سے غیرسرائیکی لوگ اس خطے میں آباد ہیں اور1947ءسے2017ءتک ا ہوں ے مالی طورپر کافی وسائل جمع کرلئے ہیں اور اب کسی بھی الیکش میں اگر آپ سرائیکی عرہ لگا کر میدا میں اترتے ہیں تو سارے ا سرائیکی اس کے مقابلے میں اکٹھے ہو جائیں گے اورآپ کے لئے سیٹ کال ا مشکل ہوجائےگا۔ سرائیکی مشاورت میں بعض دوستوں کاخیال تھاکہ بعض حلقے بالخصوص ایم پی اے کی حد تک جو ایم ای اے کے حلقے سے چھوٹا ہوتاہے ہم سرائیکی کے ام پر سیٹ جیت سکتے ہیں لیک شاید کسی ایک شریک گفتگو کوبھی میں ے یہ دعویٰ کرتے ہیں دیکھا کہ ہم ایم ای اے کی سیٹ پربھی کامیاب ہوسکتے ہیں۔ بعض دوستوں ے یہ رائے دی کہ ہم سرائیکستا کے ام پر الگ صوبے کے لئے جدوجہد کریںگے تو بہت سے ا سرائیکی بھی ہمارا ساتھ دیں گے اس دوست کادعویٰ تھا کہ کئی حلقوں میں بھی روہتکی ،پ جابی ،اردو، مہاجریا بلوچ وغیرہ بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ میں یہ طے ہیں کرسکتاکہ اس دعویٰ میں صداقت ہے یا ہیں؟ لیک میرا فرض ب تاہے کہ اپ ے سرائیکی دا شوروں سے یہ حقیقت بیا کروں کہ ہوسکتا ہے کہ کچھ غیرسرائیکی آپ کے ساتھ ہوں لیک جب آپ سرائیکستا کا عرہ مستا ہ لگاکر میدا میں آئیں تو غیرسرائیکی لوگوں میں ایسے بہت سے حضرات مخالفت بھی کریں گے کیو کہ ا ہیں یہ خوف پیدا ہوگاکہ یہ خوف بہرحال علاقے میں پایا جاتاہے کہ سرائیکستا ب ے کی صورت میں غیرسرائیکی بہرحال خود بی کلاس کلاس شہری ہ ب جائیں ۔ اکثر سرائیکی دا شور‘ ادیب‘ شاعر اورسیاستدا اصرار کرتے ہیں کہ وہ ہرگزمتعصب ہیں ہیں وہ کہتے ہیں اس علاقے کو سرائیکستا کا ام دی ا ضروری ہے کہ جس طرح بلوچستا میں غیربلوچی‘ س دھ میں غیرس دھی‘ پ جاب میںغیرپ جابی اورخیبرپختو خوا میں غیرپٹھا لوگ بھی آباد ہیں اورصوبے کا ام ا کی ترقی یا خوشحالی میں ہرگز کوئی رکاوٹ ہیں ہے۔ اس دلیل میں وز ہے لیک کیا کریں کہ کچھ ا سرائیکی بہرحال خوفزدہ ہیں۔ ”خبریں“ کے پ جابی صفحے پر ہماری اسسٹ ٹ ایڈیٹر میگزی آم ہ بٹ صاحبہ ے پ جابی کے ایک استاد کا ا ٹرویو چھاپا جس کی سرخی یہ تھی کہ” سرائیکی‘ پ جابیاں وں چ گا ئیں سمجھدے“ میں اگرچہ وسیب میں پیدا ہوا لیک پ جاب میں پلاپڑھا۔اپ ا اپ ا تجربہ مختلف ہوسکتا ہے زما ہ طالب علمی سے ہی مجھے ملتا ی بول ے والے دوست بہت پس د تھے۔ مجھے یہ زبا بھی اچھی لگتی ہے جسے اب سرائیکی کہاجاتاہے‘ مجھے اس علاقے سے واقعی پیار ہے اورمجھے تو کسی سرائیکی ے برا ہیں سمجھا‘ غیر سرائیکی دوستوں سے میری درخواست ہے کہ آپ بھی سرائیکی لوگوں سے محبت کریں‘ ا کی عزت کریں ا کی زبا اورتہذیب کو گھٹیا ہ سمجھیں جب آپ اس علاقے میں آتے ہیں تو خودکواس علاقے کاحصہ سمجھیں اور ا کے قدیم باش دوں کوہر کام میں شامل کریں‘ محبت ہی سے لوگوں کے دل جیتے جاسکتے ہیں۔ میرے خیال سے1947ءکے بعد آ ے والے دوستوں کو ذہ میں یہ بات بٹھالی ی چاہئے کہ بہرحال یہ ا صار مدی ہ تھے اور آپ مکے سے آ ے والے مہاجر جب اس مشکل وقت میں ا ہوں ے آپ کو سہارا دیا اورآپ کی آﺅ بھگت کی تو اب ا پر عرصہ حیات ت گ ہو جائے گا یہ باہر سے آ ے والے کسی شخص کے لئے م اسب ہیں لیک یہ حقیقت ہے کہ بہاولپور کے اس استاد ے سہی کہایا غلط سوشل میڈیا پر ا کی وہ درگت ب ائی گئی اور ٹیلی فو پر ا کو ات ی دھمکیاں دی گئیں کہ موصوف ے سوشل میڈیا پرہی ا کار کردیا کہ میں ے یہ جملے ہیں کہے تھے یہ لیکچرار صاحب جا لیں کہ ہم اس مسئلے کو ب یاد ب اکر جلتی پرتیل ہیں ڈال ا چاہتے‘ ہم تو خلوص اور محبت سے دلوں کو جوڑ ا اور پاکستا کی سرزمی پربس ے والے ہر زبا اورہر سل کے لوگوں کو سماجی‘ سیاسی اورمعاشرتی ا صاف دلا ے کے حق میں ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں ”جہاں ظلم‘ وہاں خبریں“ تو مظلوم کے بارے میں ہمارا کوئی ماءدہ تک یہ ہیں پوچھتا کہ بھائی آپ کی قومیت کیاہے؟ ذات کیاہے؟ زبا کو سی بولتے ہو؟ ایسے مواقع بھی آئے کہ ظالم جس بھی قبیلے‘گروہ یا ذات‘ برادری سے کلا ہم ے ڈٹ کر اس کی مخالفت کی۔ ظالم‘ظالم ہوتا ہے۔ سرائیکی‘پ جابی‘ روہتکی یا بلوچ ہیں ہوتا۔ ہمارے پاس لیکچرار صاحب کی گفتگو کی پوری ریکارڈ گ موجود ہے لیک آم ہ بٹ ے ا سے پوچھا تو شریف ال فس ا سا ے کہاکہ میں ے اس علاقے میں رہ ا ہے اورجو بات میں ے کہی تھی اسے آپ ے جس طرح چھاپا اس پر مجھے گالیاں پڑ رہی ہیں۔ میں آپ سے معافی چاہتا ہوں یہ میری مجبوری تھی میں مقامی خاص طورپر سرائیکی لوگوں سے ہیں لڑسکتا‘ میں بچوںکو پڑھاﺅں یا اپ ی جا بچاﺅں۔ ہم بہاولپور کے پریس کلب میں ا کی کیسٹ کو س وا سکتے ہیں لیک اس بیچارے سے ہمیں کیا دشم ی ہوسکتی ہے۔ ہاں البتہ ا متعصب سرائیکی لوگوں سے مجھے یہ کہ ا ہے کہ آپ کایہ بغض آپ کے علاقے میں ئے صوبے کے قیام کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر کسی استاد ے یہ کہہ دیاکہ سرائیکی ہمیں اچھا ہیں سمجھتے تو کیا حرج ہے؟ میں آپ کی جگہ ہوتا تومیں اسے خط لکھتا‘ خود جا کر ملتا اورکہتا کہ ہم آپ کی عزت کرتے ہیں‘ ہم تو آپ سے پیار کرتے ہیں‘تم ہم سے کس لئے خفا ہیں؟ ج سرائیکی جیالوں ے ا ہیں ٹیلی فو کالوں میں گالیاں اور دھمکیاں دیں ا ہوں ے خواجہ فرید کی تعلیمات سے ا کار کیا۔ا کے علاقے ملتا قلعہ کہ ہ میں دوعظیم الشا روحا ی شخصیات کے مزار ہیں۔ پہلے بہاﺅالدی زکریا اور دوسرے شاہ رک عالمؒ‘ ا بزرگوں کے مزارات پر حاضری دی ے کے لئے میں ے بچپ میں ا درو س دھ تک سے عقید ت م دوں کو ملتا کی ٹ کے ریلوے اسٹیش سے گے پاﺅں اترتے اورقلعہ کہ ہ تک پیدل چلتے ہوئے دیکھاہے ایک زما ے میں ملتا کالفظ اکیلا ہیں بولا جاتاتھا بلکہ ملتا شریف لکھتے اوربولتے تھے دیگر متعدد بزرگوں‘ ہستیوں کے طفیل اس علاقے میں روحا یت کے سلسلے بہت پرا ے ہیں اورملتا ی جسے اب سرائیکی کا ام دیاگیاہے ہم اپ ے بچپ ہی سے ملتا کے ساتھ مدی تہ الاولیاءکے الفاظ لکھے ہوئے دیکھتے رہے۔ محبت‘ ام ‘ رواداری‘ مظلوم سے پیار اور ظالم سے فرت بزرگوں کی دی ہوئی تعلیم کے سبب پیدا ہوئی۔ آج اس زبا کے بول ے والوں میں فرت‘تعصب‘ جاہلیت زیب ہیں دیتی یہ تو محبتوں کی سرزمی ہے۔ یہ رشدوہدایت کی ترغیب دی ے والوں کے طفیل باہمی روداری سب سے بڑا اللہ کافضل ہے جو یہاں ودیعت کیاگیا۔ سرائیکی دوست جا لیں کہ اگر ا میں محبت اور رواداری ہیں تو میرے خیال میں وہ سرائیکی ہی ہیں میں ے اپ ے بچپ میں دوستوں‘ محلے والوں کی ماﺅں سے پیار لئے ہیں۔ ملتا ی زبا میں وہ ات ی شفقت سے ہمیں اپ ے بیٹوں کے کلاس فیلوز کو اپ ے جگر گوشوں کے ہم پلہ سمجھتی تھیںمیںا ماﺅں‘ چاچیوں اورپھوپھیوں کو کیسے بھول سکتا ہوں۔ میرے دل میں یہ زبا بول ے والوں کے لئے محبت اصل میں استادوں‘ محلے کے بزرگوں‘ مقامی دوستوں کی امیوں کی دی ہوئی محبت ہے جسے میں اس علاقے کے لوگوں کوقرض سمجھ کرلوٹا رہا ہوں۔شاید میرے یہی خیالات تھے جب مظفرگڑھ سے چار وکلاءمجھے مل ے آئے وہ سرائیکی کاز کے زبردست حامی تھے اور ا کے خیالات اس ا تہا کو چھورہے تھے کہ ا ہوں ے مجھے بریف کیا کہ کت ی تحصیلوں میں وہ ریسرچ مکمل کرچکے ہیں کہ ہ دوکی چھوڑی ہوئی یاسرکاری طورپر خالی زمی وں کو باہر سے آ ے والوں کو کس فیاضی سے الاٹ کیاگیا۔ وہ مصر تھے کہ یہ کام پورے ج وبی پ جاب میں ہو ے والا ہے لیک فی الحال ضلع مظفر گڑھ میں اپ ی ریسرچ مکمل کر ے کے بعد وہ ایک سرائیکی جماعت کے پلیٹ فارم سے مطالبے بھی کریں گے اور عدالتوں میں بھی جائیں گے کہ یہ الاٹ م ٹس م سوخ کی جائیں۔ میں ے ا ہیں سمجھا ے کی کوشش کی کہ فرت کی ز بیل سے کل ے والے ا دعوﺅں سے گلی‘ گلی ‘کوچے کوچے لڑائی پھیل جائے گی کیو کہ ستر سال سے جو جہاں بیٹھا ہواہے اب اسے قبول کر اچاہئے۔ علاقے کی ترقی اور زراعت کی بہتری کاتقاضا یہ ہیں کہ مہاجر اور مقامی کی لڑائی کروائی جائے۔ مجھے معلوم ہے کہ دھریجہ صاحب سے لے کر عاشق بزدارتک سب کی تحریروں میں بہت یچے جاکر کہیں یہی مطالبہ کسی ہ کسی شکل میں موجود ہوتا ہے ،کیا ہم ات ے بڑے پیما ے پر خا ہ ج گی کے متحمل ہوسکتے ہیں؟دکھ تو یہ ہے کہ اس علاقے سے وزیراعظم بھی ب ے اورصدر بھی ب ے‘ وزیراعلیٰ بھی رہے اورگور ر بھی ا ہوں ے یہاں ہ ص عتی ترقی کے لئے کوششیں ہ کیں کیو کہ ہر سال یو یورسٹیوں سے کل ے والے لڑکے اور لڑکیوں کے لئے کبھی سرکاری ملازمتیں پوری ہیں ہوسکتیں‘ ص عتی اورزرعی ترقی کے تیجے ہی میں وہ کارخا ے اور تجارتی ادارے قائم ہوسکتے ہیں جو پرائیویٹ سیکٹر میں ملازمتیں مہیا کرتے ہیں۔ کیا میرے اپ ے علاقے بہاول گر میں پڑھے لکھے وجوا مجبور ہیں کہ ملازمت کراچی ملے گی یا لاہور اسلام آباد میں ،کیایہ حقیقت ہیں کہ فیصل آباد‘ سیالکوٹ‘ گوجرا والہ اور گجرات کی مقامی ص عتیں یہاں بیروزگاروں کی تعداد کم ہیں کرتیں۔ج وبی پ جاب کا سب سے بڑاپیشہ زراعت تھا اور سب سے بڑی کیش کراپ یع ی فصل کپاس ہوا کرتی تھی۔ شوگر ملوں کے سرمایہ داروں ے کپاس کی جگہ شوگر ملوں کے لئے گ اہ کی کاشت شروع کروا دی، ایک سیاسی خا دا کے وجوا ایم ای اے سے میں ے پوچھا یار تم شوگرملوں پر شوگرملیں کیوں ب اتے جا رہے ہو‘ اس ے کہا ایک شوگرملر6ہزار سے دس ہزار ووٹرآپ کو دلواتی ہے گویا آپ گھر سے ات ے ووٹ لے کر چلتے ہیں باقی پارٹی کا کچھ‘ کچھ دولت کا‘ کچھ ذات برادری کا سیٹ پکی ہوجاتی ہے۔ آج ج وبی پ جاب میں شوگر ملوں کا جال پھیلا ہوا ہے اورہائیکورٹ ے ا کی تعداد روک ے کے لئے حکم امت اعی جاری کر رکھے ہیں مگر سیا ے لوگ سابق ریاست بہاولپور کی سرحد عبور کرتے ہی س دھ میں ملیں کھڑی کرلیتے ہیں۔ گ ا پ جاب کامل س دھ کی‘ ہ گ لگے ہ پھٹکڑی اورر گ بھی چوکھا ہوا ۔دیہاتوںمیں غربت پھیل رہی ہے کہ ایک دور تھا جب دیہاتی عورتیں سال بھر کپاس کی فصل کا ا تظار کرتی تھیں، کپاس کی چ ائی سے صفائی تک ا سا ی ہاتھ استعمال ہوتے تھے اورمیں ے بچپ میں بڑی بوڑھیوں کو کہتے س ا تھا کہ کپاس کی فصل آئیگی تو بچی کاجہیز تیار ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حما م میں سبھی گے ہیں۔ کو سی پارٹی اورکو سا گروہ بس پیسہ مل ا چاہئے چاہے، گردو پیش کے کت ے گھروں میں فاقہ ہی کیوں ہ ہو۔ج وبی پ جاب میں جس کی اصطلاح کو پڑھ کر بعض سرائیکی دوست خفا ہو جاتے ہیں میراکہ ا ہے کہ یہ صرف ش اخت کی بات ہے۔ اپ ا صوبہ ب الو گے تو ج وب کے لفظ کے ساتھ پ جاب کا لاحقہ خود ہی ختم ہو جائے گا مگر اس علاقے کے اکثر صوبہ حمایت کے لوگوںکا حال تو ایسا ہے کہ جڑ کو ہیں شاخوں کوپکڑتے ہیں اور چ د پتے توڑ کر یہ سمجھتے ہیں کہ قلعہ جڑ سے اکھاڑ دیا ۔بھائی لوگوپہلے صوبہ تو ب ا ﺅ پھر ام رکھ لی ا لیک پہلے ام پر آدھی آبادی کو مخالف ب الیں گے اورپھر اسمبلیوں میں خواہ ایک ماءدہ ہ ہوپھر بل دآواز سے عرہ لگائیں ”ساڈا سرائیکستا “اللہ کے ب دو پہلے صوبہ ب ا ے کا اہتمام تو کرو‘ بڑی سیاسی جماعتوں میں بھی آپ کے لوگوں کو جگہ مل سکتی ہے لیک کبھی آپ ے اعدادوشمار دیکھے‘ پارٹیاں بڑی پارٹیاں بھی سرائیکیوں کے ساتھ ساتھ ا سرائیکیوں کو بہت اہمیت دیتی ہیں کیو کہ ا کے ووٹ بھی درکار ہوتے ہیں اس عرے پر ہمارے مرحوم دوست تاج محمد ل گاہ ے بھی الیکش لڑا پی پی کے ٹکٹ پر 1970ءمیں کھڑے ہوئے تھے تو رات کے پچھلے پہر اکلوتے پی ٹی وی پر کبھی ل گاہ صاحب کا پلڑا بھاری ہوتا تو کبھی میاں ممتاز دولتا ہ کا آخر میں دولتا ہ جیت گئے۔تاہم تاج ل گاہ ے بھی شاید چالیس ہزار کے لگ بھگ ووٹ لئے تھے۔ وہی ل گاہ صاحب سرائیکی کا عرہ لگا کر الیکش لڑتے ہیں تو چار ہزار سے کچھ زیادہ ووٹ لئے تھے۔ فراز و ے آخر میں تحریک ا صاف کے حمایت یافتہ عامر ڈوگر کی حمایت کی تاہم ام امیدواروں کی فہرست میں چھپ چکا تھا اس لئے600کے قریب ووٹ پڑے تھے, فراز و ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔2018ءکے الیکش میں اگریہ پارٹی کی طرف سے کھڑے ہوتے ہیں تو شاید ہی کوئی سیٹ جیت سکیںاور اللہ واز وی س بھی کسی سے الحاق کر کے اور2018ءکے الیکش کے بعد میں ا سرائیکی دوستوں سے پوچھوں گا بھائی جا کہاں ہیں اورکس حال میں ہیں؟میں ے سرائیکی مشاورت میں بھی یک یتی سے تجویز دی تھی کہ 30ت ظیمیں آپس میں مل کر سرائیکی الاءس ب الیں اور اس الاءس کو ات ا مضبوط کریں کہ تی وں بڑی سیاسی جماعتوں کو ا سے سودے بازی کر ے کی ضرورت محسوس ہو تب کسی ایک پارٹی کے ساتھ اس شرط پر وابستہ ہوں کہ وہ صوبائی اسمبلی کی ات ی وفاقی اسمبلی کی ات ی سیٹیں سرائیکی الاءس کے لوگوں کو دے دیں اس ایک تجویز کے سوا میرے اقص ذہ میں تو اورکوئی تجویز ہیں۔ اس م تشر قوم کا ہر شخص لیڈر ب ا ہوا ہے اور دو تی بظاہر سرائیکی سیاسی جماعتیں بھی صوبائی اسمبلی کی آٹھ دس سیٹیں حاصل کرتی ہوئی دکھائی ہیں دیتیں۔ایک گزارش ج وبی پ جاب بشمول سابق ریاست بہاولپور سے م تخب ہو ے والے ایم پی اے اورایم ای اے حضرات سے بھی ہے کہ اپ ے ذاتی کام تو آپ خواب کرواتے ہو کبھی اس علاقے کی غربت دور کر ے کے بارے میں بھی سوچا؟ یوں لگتاہے کہ یہاں سے جو م تخب ہو کر اسمبلی جاتاہے ۔ صوبائی‘ وفاقی اسمبلی یا سی ٹ میں اچھا بچہ ب کر اس طرح پا چ سال پورے کرتاہے کہ ا ہیںپارٹی لیڈر اپ ی ہاتھ کی چھڑی اورجیب کی گھڑی سمجھتا ہے، میں ے احمد پورشرقیہ میں پٹرول لوٹ ے والے واقع پر ایک مضمو لکھا۔ میرا تھیسز یہ تھا کہ اس حادثے کی جس میںسی کڑوں لوگ جل مرے کی ب یادی وجہ صرف اورصرف غربت تھی۔ اگر ل د یا یویارک میں اس طرح سڑک پر تیل گرجائے تو کیا لوگ برت بھا ڈے لے کر تیل لوٹ ے کے اس ایڈ و چر میں شامل ہوجائیں گے؟ جواب آپ اپ ے دل سے لیجئے اورسرائیکی دوستوں سے ایک گلہ یہ بھی ہے 30-40عمائدی جو مشاورت میں موجود تھے ،زکریا یو یورسٹی ملتا میں لوئر مڈل کلاس کی لڑکی مرجا کو مال دار طبقے کے ظالم کابیٹا ہ صرف کلاس روم میں ریپ کرتاہے بلکہ آبروریزی کی ویڈیو ب اکر سال بھر اسے بلیک میل کرتا ہے، سرائیکی کے عرے لگا ے والے ذرہ اپ ے گریبا میں جھا کیں زکریا یو یورسٹی میں شور مچا کر سرائیکی شعبہ تو ب وا لیا مگر پڑھ ے والے لڑکے لڑکیوں کی تعداد سات ہے اورپڑھا ے والے چھ اور چھوٹے ملازم سات‘ تیرہ کاعملہ اورسات طلب علم ،ملزم علی رضا قریشی سے سترلڑکیوں کی ویڈیو فلمیں برآمد ہوئیں ج میں سے ہر ایک کے ساتھ وہ” داد شجاعت“دے رہا تھا۔ اس کی اپ ی زبا سرائیکی ہیںہے اوروہ سرائیکی بول بھی ہیں سکتا۔ لڑکی مرجا کے مطابق دو اور لڑکیوں کی قابل اعتراض ویڈیو فلمیں بھی اسی ”مرد میدا “ کے پاس تھیں۔ اس لڑکی کی ویڈیو علی رضا ے عام کردی تو بد امی سے ڈرکر یہ لڑکی پولیس کے پاس پہ چ گئی۔ مجال ہے کسی ایک سرائیکی لیڈ ر ے کئی گھ ٹے پرمشتمل مشاورت میں سرائیکی شعبے میں ب ے ہوئے ”ک جر خا ہ“ کاذکر بھی کیا ہو۔ سرائیکی شاعری پر آٹھ آٹھ گھ ٹے بیٹھ کر آ کھوں میں آ سو لا کر شعروں سے پیدا ہو ے والی مظلومیت پر رو ا ز دہ باد‘ذرا سرائیکی شعبے کا حال بھی دیکھ لو میں ے ا دوستوں سے پوچھا یار سرائیکی کے ام پر اب آپ لوگوں ے ایم اے کی کلاسیں تو شروع کروالی ہیں کچھ چ دہ جمع کرکے طالب علم ہی اکٹھا کرلو‘ یہ اعزاز صرف پاکستا میں اس شعبہ کو جاتاہے جہاں لوگ عیاشی کے لئے داخل ہوتے ہیں اوردوسرے شعبے کے لڑکیاں‘لڑکے بھی اپ ی دوستیں لے کر یہاںجھک مار ے آتے ہیں۔ ز دہ باد شعبہ سرائیکی ،پاءدہ باد سرائیکستا ۔ (ختم شد)٭….٭….٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain