تازہ تر ین

عطاءالحق قاسمی تقرری کیس ، چیف جسٹس نے سب کی آنکھیں کھول دیں

اسلام آباد (وقا ئع نگار‘مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ اصلاحات کا وقت آ گیا ہے، جہاں جہاں غلطیاں ہوئی ہیں اصلاح کریں گے، مجھے وہ بندہ چاہیے جسے عطاالحق قاسمی کے بطور چیئرمین پی ٹی وی کے نام کا خیال آیا، عطاالحق قاسمی کے پروگرام کی ویڈیو منگوا رہے ہیں، دیکھنا ہے کہ پروگرام میں کون سے کھوئے ہوئے گوہرنایاب ڈھونڈے گئے، جمہوریت بادشاہت نہیں، قانون کے مطابق ہوتی ہے، مجھے لگتا ہے عدالت کو مکمل دستاویزات نہیں دی گئیں، رولز کے تحت عطاالحق قاسمی کو پہلے ڈائریکٹر لگنا تھا بعد میں چیئرمین، قانون کے ساتھ فراڈ کیا گیا ہے یہ تو سیدھا سادھا نیب کا کیس ہے،عطاالحق کو مینجمنٹ کا کوئی تجربہ نہیں تھا، اس کیس کا فیصلہ خود کریں گے تمام فریقین جواب جمع کرادیں، نیب ریکارڈ کا جائزہ لے رہے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ چیئرمین کا عہدہ تو اعزازی ہوتا ہے، عطاالحق قاسمی ادبی آدمی ہیں وہ کمپنی کیسے چلا سکتے ہیں،سپریم کورٹ نے ڈی جی آئی پی ونگ ناصر جمال سے بیان حلفی طلب کرلیا۔پیر کو سپریم کورٹ میں پی ٹی وی کے ایم ڈی کی عدم تقرری سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے کی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے عدالت کو بتایا کہ عطاءالحق قاسمی کی بطور ڈائریکٹر پی ٹی وی تقرری فائل ناصر جمال نے تیار کی۔ اس پر عدالت نے وزارت اطلاعات کے آئی پی ونگ کے ناصر جمال کو طلب کرلیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ عطا الحق قاسمی کو چیئرمین وفاقی حکومت نے نہیں لگایا۔ چیئرمین کو پی ٹی وی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے منتخب کیا تھا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ تعیناتی غیر قانونی ثابت ہونے پر تنخواہ سمیت تمام واجبات وصول کئے جائیں گے۔ عدالت نے عطاءالحق قاسمی کے گزشتہ 5برسوں کے ٹیکس گوشوارے طلب کرلئے۔ اس کے علاوہ چیئرمین ایف بی آر اور ممبر انکم ٹیکس کو بھی طلب کرلیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لاکھوں روپے پٹرول کی مد میں وصول کئے گئے۔ عطاءالحق قاسمی کو سرکاری گھر میں لفٹ بھی لگوا کر دی گئی، یہ ساری باتیں تحقیقات میں سامنے آ جائیں گی، اگر یہ رقم زیادہ ہوئی تو سب کو بھرنی پڑے گی، جس نے تقرری کی ہے سب سے رقم وصول کریں گے، دو سال میں 24لاکھ روپے کے اخراجات تفریح کی مد میں ہیں، لاہور کے کیمپ آفس میں کتنے اخراجات آئے؟سیکرٹری اطلاعات نے بتایا کہ 11لاکھ روپے کیمپ آفس کے اخراجات آئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اصلاحات کا وقت آ گیا ہے، جہاں جہاں غلطیاں ہوئی ہیں اصلاح کریں گے عطاءالحق قاسمی کے نام کا خیال یا خواب کیسے آیا؟ عدالت نے ایف بی آر سے عطاءالحق قاسمی کے 10سالہ گوشوارے طلب کرلئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے وہ بندہ چاہیے جسے عطا الحق قاسمی کے نام کا خیال کیا، اس دوران ڈی جی ایف آئی اے کو بھی بلا لیتے ہیں، عطا الحق قاسمی نے تنخواہ کی مد میں کتنی رقم وصول کی؟ سیکرٹری اطلاعات نے بتایا کہ ان کی تنخواہ 15لاکھ تھی، ساڑھے تین کروڑ روپے تنخواہ دو سال میں وصول ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ساڑھے تین لاکھ روپے میڈیکل کے اخراجات ہیں، سفری اخراجات 10لاکھ روپے ہیں، عطا الحق قاسمی کو مہنگی گاڑی دی گئی، گاڑی کی دیکھ بھال کے اخراجات کس قانون کے تحت دیئے گئے؟کیا پی ٹی وی کے ڈائریکٹر کےلئے کوئی اہلیت ہے؟کیا کابینہ سے ڈائریکٹرز کی تعیناتی کی منظوری لی گئی۔ رانا وقار نے بتایا کہ چیئرمین کی تقرری وزیراعظم نے دی، وزیراعظم نے یہ منظوری بطور ایگزیکٹو دی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بورڈ کو بتایا گیا کہ وزیراعظم عطا الحق قاسمی کے پروگرام کی ویڈیو بھی منگوالیں، پی ٹی وی بورڈ میٹنگ کا ریکارڈ بھی منگوالیں، عطا الحق قاسمی کی تنخواہ کس نے مقرر کی یہ بھی منگوا لیں، دیکھنا ہے کہ پروگرام میں کون سے کھوئے ہوئے گوہرنایاب ڈھونڈے گئے۔ بورڈ کے الیکشن دکھا دیں جس میں چیئرمین منتخب کیا گیا، جس شخص نے عطا الحق قاسمی کا نام پیش کیا اس کا بھی بتا دیں، جمہوریت کوئی بادشاہت نہیں ہے، جمہوریت قانون کے مطابق ہوتی ہے، قانون کی بالادستی اور حکمرانی کو یقینی بنائیں گے۔ ناصر جمال نے عدالت کو بتایا کہ مجھے بتایا گیا کہ عطا الحق قاسمی کا نام فائنل ہوا ہے، مجھے ایڈیشنل سیکرٹری نے سمری موو کرنے کو کہا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ عدالت کو مکمل دستاویزات نہیں دی گئیں، عطا الحق قاسمی کو براہ راست چیئرمین کیسے لگایا جا سکتا ہے، روزانہ کے تحت پہلے عطا الحق قاسمی کو ڈائریکٹر لگنا چاہیے تھے، فواد حسن فواد کے بولنے کی کوشش پر عدالت نے سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ پیچھے چلے جائیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے وزیراعظم ہاﺅس کا اقتدار دیکھا ہے، وزیراعظم ہاﺅس کا اقتدار اور طرح کا ہے، پیچھے ہٹ کر کھڑے ہو جائیں جہاں کھڑے ہیں یہ عدالت ہے۔ فواد حسن فواد نے جواب دیا کہ میں ایک سوال کا جواب دینے کےلئے آگے آیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ پاس کھڑے لوگوں کو دھمکانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اس پر رانا وقار نے عدالت کو بتایا کہ ڈائریکٹر کا اجلاس 6جنوری 2016کو ہوا تھا، عطاالحق قاسمی کی سمری 23دسمبر 2015کو منظور ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 23دسمبر 2015کو منظور ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 23دسمبر 2015کو ہی چیئرمین لگانے کی منظوری دی، رولز کے تحت ڈائریکٹرز نے چیئرمین کا انتخاب کرنا تھا، رانا وقار نے بتایا کہ وزیراعظم کی منظوری پر بورڈ آف ڈائریکٹر نے منظوری دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ قانون کے ساتھ فراڈ نہیں ہے؟بورڈ کی میٹنگ جنوری میں حکومت نے نوٹیفکیشن دسمبر میں جاری کر دیا، عطا الحق قاسمی کی 15لاکھ تنخواہ کس نے مقرر کی؟قانون میں چیئرمین کی تنخواہ اور مراعات کیا ہیں؟کیا بادشاہ ہے جتنی مرضی تنخواہ مقرر کر دی گئی؟جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ چیئرمین کا عہدہ تو اعزازی ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو سیدھا سادھا نیب کا کیس ہے نیب10دن میں کیس کی تحقیقات کر کے رپورٹ دے۔ سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی وی جب شروع ہوا تو نیوز چینل تھا، میں وزیر بنا تو پی ٹی وی پروگرام مارکیٹ سے خریدتا تھا، کوشش تھی کہ پی ٹی وی اپنی پروڈکشن کرے، عطا الحق قاسمی کا نام میں نے دیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عطاءالحق قاسمی کی کارکردگی پر کوئی بات نہیں کر رہے ہیں، ہم صرف قانون کی حکمرانی دیکھ رہے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عطا الحق ادبی آدمی ہیں وہ کمپنی کیسے چلا سکتے ہیں؟پرویز رشید نے بتایا کہ کمپنی چلانے کی ذمہ داری چیف ایگزیکٹو کی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عطا الحق قاسمی کو مینجمنٹ کا تجربہ نہیں تھا، پرویز رشید نے بتایا کہ کوشش تھی ایسا چیئرمین آئے جو پی ٹی وی کو کلچرل ویلیو دے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جو گفتگو کر رہے ہیں اس کے قانونی نتائج ہوں گے، تمام دستاویزات منگوالیتے ہیں، اس کیس کا فیصلہ خود کریں گے تمام فریقین جواب جمع کرا دیں۔ عدالت نے ڈی جی آئی پی ونگ ناصر جمال سے بھی بیان حلفی طلب کرلیا، ممبر ٹیکس ایف بی آر عائشہ حامد بھی سپریم کورٹ پیش ہوئیں،چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا عطاالحق قاسمی ایم ڈی کی ذمہ داریاں ادا کرتے تھے۔عائشہ حامد نے بتایا کہ عطاالحق کی 15لاکھ تنخواہ اور دیگر مراعات تھیں۔ عدالت نے کہا کہ مقدمہ زیر التواءہے اس لئے سیکرٹری اطلاعات کو عہدے سے نہ ہٹایا جائے۔ چیف جسٹس نے فواد حسن فواد کو روسٹرم پر بلالیا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پرنسپل سیکرٹری کی کیا ذمہ داریاں ہیں، میں سیکرٹری ٹو وزیراعظم تھا، صاف ستھرے بیورو کریٹ ہیں، کیا آپ نے سمری دیکھی تھی، فواد حسن فواد نے بتایا کہ ہم نے ان کو چیئرمین بنانے کا حکم نہیں دیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نیب ریکارڈ کا جائزہ لے رہے ہیں، کیس کی سماعت 21فروری تک ملتوی کر دی گئی ہے۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain