اسلام آباد (صباح نیوز) چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نااہلی مدت کیس میں اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کو عدم پیشی پر 10 ہزار روپے جرمانہ کر دیا، تاہم ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی استدعا پر حکم واپس لے لیا۔ سوموار کو 62 ون ایف نااہلی کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کی تو آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح سے متعلق کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل کہاں ہیں؟، اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر کی وفات کے باعث اٹارنی جنرل لاہور میں ہیں، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر کے انتقال پر ججز سمیت سب دکھی ہیں، دنیا کے کام چلتے رہتے ہیں، سپریم کورٹ نے عدم پیشی پر اٹارنی جنرل کو 10 ہزار روپے جرمانہ کردیا۔ دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹارنی جنرل منگل کو لندن روانہ ہوں گے تاہم اٹارنی جنرل اپناتحریری جواب داخل کریں گے،اس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کیااٹارنی جنرل سیرکرنے جارہے ہیں؟،اتنااہم کیس لگاہے اوروہ نہیں آئے۔اٹارنی جنرل لاہور کیوں ہیں؟عدالت نے معاونت کانوٹس دے رکھاہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے آگاہ کیا کہ اٹارنی جنرل کیسز کے سلسلے میں بیرون ملک جارہے ہیں۔جس پر جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ یہ کوئی اہم کیسز نہیں ¾ہم ان کی عام چھٹیوں کی درخواست مسترد کرتے ہیں جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹارنی جنرل سے بات کرتا ہوں ¾وہ ساڑھے 4 بجے تک عدالت میں حاضر ہوجائیں گے، آپ 10 ہزار روپے جرمانے والا حکم واپس لے لیں۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ٹھیک ہے ¾ آپ انہیں بلالیں آج ہم ساڑھے 4 بجے انہیں سنیں گے ¾یہ اہم کیس ہے۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہم آج اٹارنی جنرل کا انتظار کریں گے ¾وہ خود پیش ہوکر مقدمے میں دلائل دیں۔جس کے بعد سماعت میں شام ساڑھے 4 بجے تک کا وقفہ کردیا گیا۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا جس کے بعد وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے تھے۔دوسری جانب گذشتہ برس 15 دسمبر کو عدالت عظمیٰ نے تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کو بھی نااہل قرار دیا تھا۔سابق وزیراعظم نواز شریف اور تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کو آئین کی اسی شق یعنی آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل کیا گیا تھا۔جس کے بعد اس بحث کا آغاز ہوا کہ آیا سپریم کورٹ کی جانب سے ان افراد کو تاحیات نااہل قرار دیا گیا یا یہ نااہلی کسی مخصوص مدت کے لیے ہے۔اس شق کی تشریح کے حوالے سے سپریم کورٹ میں 13 مختلف درخواستوں پر سماعت جاری ہے۔سپریم کورٹ میں یہ درخواستیں دائر کرنے والوں میں وہ اراکینِ اسمبلی بھی شامل ہیں، جنہیں جعلی تعلیمی ڈگریوں کی بنیاد پر نااہل کیا گیا۔ان درخواستوں میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا قانون ختم کرکے اس کی مدت کا تعین کیا جائے ¾تاہم واضح رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کےلئے عدالتی کارروائی میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔6 فروری کو عدالت عظمیٰ میں جمع کروائے گئے اپنے جواب میں نواز شریف نے موقف اختیار کیا تھا کہ کئی متاثرہ فریق عدالت کے روبرو ہیں ¾وہ ان کے مقدمے کو متاثر نہیں کرنا چاہتے۔