تازہ تر ین

چودھری رحمت علی کا جسد خاکی لا کر لاہور میں دفن کیا جائے

لاہور (وقائع نگار) چودھری رحمت علی کی برسی اور کے کے عزیز کی کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ چوہدری رحمت علی سے متعلق میں نے نہ صرف اندرون ملک ہی نہیں بلکہ برطانیہ میں بھی جاکر تحقیق کی ہے جب سروجنی نائیڈو قائد اعظم کو ہندومسلم اتحاد کے پیامبر کا خطاب دے رہی تھیںاس وقت چوہدری رحمت علی ہندوستان کے مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلم ریاستوں کی بات کرہے تھے۔ہندوستان کی تقسیم کے حوالے سے اس وقت اگر ان کی تجویز پر عمل ہوجاتا تواس قدر مضبوط بڑا اور وسیع ہندوستان نہ بن پاتا جوآج تک اپنے ہمسایوں کے لیے بھی تکلیف کا باعث ہے۔کسی بھی تحریک میں شامل تمام لوگ اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں جو لوگ قیام پاکستان کو منٹو پارک کے جلسے سے منسوب کرتے ہیں۔ انہیں یادر کھنا چاہئے تھا مسلم لیگ نے 23 مارچ 1940ءکو جبکہ چودھری رحمت علی نے 1935ءمیں ایک پمفلٹ تقسیم کیا تھا جس میں مسلم اکثریتی آبادی کے علاقوں پر مشتمل پاکستان کا مطالبہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان میں تحریک پاکستان کی مخالفت کرنے والے اوران جماعتوں کے قائدین اور ان کی اولادیں جیسے محمود خان اچکزئی یا ولی خان کا بیٹا پاکستان میں رہ سکتے ہیںجن کا تذکرہ میری کچھ عرصہ قبل شائع ہونے والی کتاب”گاندھی کے چیلے“ میں بھی ہے بلکہ مولانا فضل الرحمن کے والد مفتی محمود نے توخود کہا تھا کہ خدا کا شکر ہے کہ پاکستان بنانے کے گناہ میں ہم شریک نہیں ہوئے جب یہ سب لوگ اس ملک میں وزیر، مشیر،گورنر،وزیراعلیٰ بن سکتے ہیں۔ توکیا چوہدری رحمت علی کا جسد خاکی نہیں آسکتا وہ تو علامت ہیں ہماری جدوجہد آزادی کی۔انہوں نے مزید کہا کہ جب مجھے علم ہوا کہ مجید نظامی نے چوہدری رحمت علی کا جسد خاکی لانے کی مخالفت کی تو تو میں ان کے گھر گیا۔ وہ میرے استاد اور سینئر تھے پھر بھی میں نے عرض کیا کہ انگریز کے خلاف جدوجہد کرنے والے بہت سے لوگ تھے۔ سبھاش چندر بوس نے آزاد ہند فوج بنائی اس کے ساتھ بھی بہت سے مسلمان تھے۔ جمعیت علمائے ہند اور احرار مسلمانوں کی پارٹیاں تھیں مگر ہندو کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی خواہش مند تھیں۔ میرے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ انہوں نے قائد اعظم کے بارے کیا الفاظ استعمال کئے تھے ،میں نے جواب دیا کہ میں نے بھی پڑھا ہے ۔میری دلیل تھی کہ جس وقت انہوں نے پاکستان کا مطالبہ کیا اور پاکستان نیشنل موومنٹ بنائی تو اس وقت مسلم لیگ نے لفظ پاکستان سوچا بھی نہ تھا۔ میں نے کہا جناب نظامی صاحب خود قائداعظم نے قیام پاکستان کے بعد تسلیم کیا تھا کہ ہمیں کٹا پھٹا پاکستان ملا ہے لیکن چودھری رحمت علی نے اپنے تصور پاکستان میں حیدرآباد، بنگال اور کشمیر بھی شامل کرنا چاہے تھے۔ ہم عصر سیاسی رہنماﺅں میں اختلافات ہوتے ہیں مگر ان کی بنیاد پر چودھری رحمت علی کی میت کو پاکستان نہ لانے دینا غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے جو تجویز چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس انوارلحق کے سامنے چودھری رحمت علی کی برسی کے موقع پرپیش کی تھی وہ یہاں بھی پیش کرتا ہوں کہ انہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ لانے کی ضرورت نہیں ہے یہ قانون ہے کہ کوئی رشتہ دار بھی بیرون ملک وفات پانے والے عزیز کی میت ملک لاسکتا ہے،مت سوچیں کہ یہ کام وزیراعظم یا صدر کریں گے وہ عوامی لیڈرتھے۔چودھری رحمت علی انگریز کے خلاف قیام پاکستان کے حق میں تھے ہماری درسی کتابوں میں لکھا ہے کہ انہوں نے صرف پاکستان کا نام رکھا یہ غلط ہے۔ انہوں نے پاکستان کا تصور مسلم لیگ سے کہیں پہلے دیا البتہ 23 مارچ 1940ءکو ان کا دیا گیا تصور مسلم لیگ نے اختیار کر لیا اور علامہ اقبال کی فکر اور قائداعظم کی جدوجہد نے پاکستان بنا دیا لیکن پاکستان بننے کے بعد چودھری رحمت علی لندن سے لاہور آئے۔انہوں نے کہا تھا میں تحریک پاکستان کی تکمیل کرنا چاہتا ہوں یعنی کشمیر اور حیدرآباد کا حصول میرا مشن ہے مگر پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے ان پر دباﺅ ڈالا کہ فوراً پاکستان چھوڑ دیں کیونکہ مسلم لیگی لیڈر ان سے خائف تھے۔ چودھری رحمت علی واپس کیمبرج (برطانیہ) چلے گئے اور انتہائی کسمپرسی کے عالم میں کچھ عرصہ بعد اس طرح انتقال کر گئے کہ ان کی تدفین کے اخراجات ان کے کالج نے برداشت کئے اور مجھے ایم انور بارایٹ لا معروف قانون دان نے بتایا تھا کہ کالج کے پاس ایک دستاویزات ہے جس میں لکھا ہے کہ اگر ان کی قوم یا ان کے رشتہ دار ان کی میت ان کے وطن لے جانا چاہیں تو ان کو سہولت دی جائے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ پاکستان کو سازش کہنے والے ولی خاں ملک میں رہ سکتے ہیں بلوچی گاندھی عبدالصمد اچکزئی رہ سکتے ہیں توپاکستان کا تصور دینے والے چودھری رحمت علی کی میت کیوں یہاں دفن نہیں ہو سکتی۔ چودھری رحمت علی میموریل سوسائٹی کو چاہئے کہ چودھری شجاعت اور طارق عظیم کی کوشش کو لاہور ہائی کورٹ کے سٹے کے ذریعے روک دیا گیا تھا مگر اب یہ سٹے خارج ہو چکا ہے اس لئے رحمت علی کا جسد خاکی لاہور لا کر رحمت علی میموریل کالج اور ہسپتال کی حدود میں دوبارہ دفن کیا جائے تا کہ جو شخص لاہور آئے وہ بادشاہی مسجد، مقبرہ جہانگیر، حضرت داتا صاحب اور شالامار باغ، مزار اقبال کے علاوہ چودھری رحمت علی کے مزیر پر بھی فاتحہ کہہ سکے۔ مسلم لیگی لیڈروں سے مخالفت کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے قیام پاکستان کے لئے جدوجہد نہیں کی۔ اور معاف کیجئے جو نقشہ انہوں نے پیش کیا تھا اگر وہ حاصل ہو جاتا تو کیا پاکستان کی ریاست موجودہ شکل سے بڑی وسیع اور زیادہ مضبوط نہ ہوتی۔ کیا یہ چودھری رحمت علی کا گناہ ہے جس کی سزا دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کے کے عزیز کی چودھری رحمت علی کی سوانح عمری کے اُردو ترجمے کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ چودھری صاحب پاکستان نیشنل موومنٹ کو ایک تھنک ٹینک کی حیثیت سے زندہ کیا جائے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain