اسلا م آباد (ویب ڈیسک)وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی طرف سے گزشتہ روز پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر کے بعد پارلیمنٹ اور عدلیہ کے مابین سیاسی منظر پر باقاعدہ چپقلش شروع ہوگئی ہے۔ ممبران پارلیمنٹ کی طرف سے ججوں کے رویے پر پارلیمنٹ میں بحث ایک ایسا نازک نقطہ بن گیا ہے جو براہ راست آئین کے آرٹیکل 68 کے متصادم اور خلاف ہے ۔کیا پارلیمنٹ میں اعلیٰ عدلیہ کے رویےیا ان کے بارے میں بحث کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ اور اگر نہیں تو اس کا متبادل طریقہ کار کیا ہے؟ آئین پاکستان کے آرٹیکل 68 کے مطابق پارلیمنٹ اس کی مجاز نہیں ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اور ججز کے بارے میں بحث یا ان کا رویہ یا طرزعمل پارلیمنٹ کے فلور پر زیربحث لایا جائے۔ اس سلسلے میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 209 کو استعمال کرکے حکومت کسی جج کے رویے کے خلاف شکایت ہو تو وہ یہ مسئلہ سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیجنے کی مجاز ہے البتہ اس پر پارلیمنٹ کے فلور پر بحث کرنا ا?رٹیکل 68 کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے پارلیمنٹ میں خطاب کے بعد سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور لیگی رہنما مریم نواز کا بیانیہ سڑکوں‘ جلسے جلوسوں‘ ٹیلی ویڑن کے ٹاک شوز کے بعد اب پارلیمنٹ میں بھی گونجنا شروع ہوچکا ہے۔ چیف جسٹس ا?ف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کھل کر پارلیمنٹ میں ہونے والی تقاریر کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ سب سے سپریم ادارہ ہے البتہ پارلیمنٹ سے بھی سپریم اور اوپر ا?ئین پاکستان ہے جس کے تحت عدلیہ کام کرتی ہے اور جس کے تابع تمام پاکستانی شہری ہیں۔ چیف جسٹس نے کچھ روز پہلے نااہلی کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کیا کوئی چور یا ڈاکو کسی جماعت کا سربراہ ہوسکتا ہے؟ جس پر یہ بحث زیادہ گرم ہوگئی اور مسلم لیگ ن کی جانب سے یہ بیانیہ زور پکڑ گیا کہ ججز کو اپنے ریمارکس کا خیال رکھنا چاہئے۔ مسلم لیگ ن کے اراکین پارلیمنٹ مریم اورنگزیب‘ احسن اقبال اور ان کے بعد سینئر صوبائی وزیر رانا ثناءاللہ کے بیانات ازخود اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ بحث اب پارلیمنٹ‘ قومی اور صوبائی ایوانوں میں زور پکڑنے والی ہے جس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اب اداروں کے ٹکراﺅکا خطرہ اور بڑھ گیا ہے اور اس بار یہ فوج نہیں بلکہ پارلیمنٹ بمقابلہ عدلیہ شروع ہوچکا ہے۔
