لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) پی پی پی کے سینئر رہنما چودھری اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ میرے والد نے سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر گرفتاری دی۔ جبکہ میری والدہ نے اس وقت گرفتاری دی جب میں ایک سال کا تھا۔ ان بابوﺅں نے قائداعظم کی کال پر بھی قلم ڈاﺅن نہیں کیا۔ میرے والد منفرد تھے جنہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ ملازمت چھوڑ دی۔ موجودہ کرائسس میں بیوروکریسی کی بغاوت ہے جو انہوں نے ریاست کے خلاف کی ہے میاں شہباز شریف نے انہیں اکسایا ہے۔ ورنہ شہباز شریف نے ان کے خلاف پرچے کروا دیئے ہوتے۔ ان خیالات کااظہار انہوں نے چینل ۵ کے پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں کہنہ مشق صحافی معروف تجزیہ کار ضیاشاہد کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکمرانوں کا صرف ایک ایجنڈا ہے کہ صرف نوازشریف، شہباز شریف اور مریم نواز کو کچھ نہ کہا جائے۔ اگر کہا جائے گا تو یہ سب کچھ ہو گا۔ میاں نوازشریف کون سی تبدیلی لانا چاہتے تھے وہی بتا سکتے ہیں۔ گیلانی نے تو تسلیم کیا! یہ صرف اپنی دولت بچانا چاہتے ہیں۔ ان کو اپنے جرائم سے بچنے کا مسئلہ ہے۔ اس وجہ سے انہوں نے پیادے چھوڑے ہوئے ہیں جو ان کی پیروی کر رہے ہیں۔ دنیا کا کوئی اور ملک ہوتا تو شاید میاں صاحب اس وقت پابند سلاسل ہوتے ان کے تمام سہولت کار جیسے ان بیورو کریٹس نے کیا ہے۔ اگر اس صورتحال میں فرانس یا یورپ کا کوئی ملک ہوتا۔ تو میاں صاحب جیل میں ہوتے اگر خدانخواستہ میاں صاحب ان کی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ اور ان کی پنجاب کی حکومت۔ ان افسروں پر سایہ اور چھتری ضرور رکھے گی۔ ان کے علاوہ کوئی اور حکومت آئی تو ان افسروں کو کٹہرے میں لانا ان کے لئے لازم ہو گا۔ جنہوں نے ہڑتال کی ہے۔ قائداعظم کی کال پر پڑتال نہیں سو چ اور شہباز شریف کی کال پر ہڑتال ہو گئی۔ پی اے ایس کے یہ لوگ ہیں۔ جنہوں نے ایسا کیا، پی سی ایس والے یہ نہیں ہیں۔ میں الیکشن کمیشن کا سینٹ کے بارے یہ فیصلہ درست نہیں سمجھتا۔ کیونکہ اکثر سیاسی پارٹیاں نامزدگی بعد میں بھی کر لیتی ہیں راجہ ظفر الحق جب گئے تھے۔ الیکشن کمیشن کو وہ ٹکٹ قبول کر لینے چاہئے تھے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ نوازشریف کے بندے آزاد بھی منتخب ہو جاتے ہیں۔ کل 7,5 امیدوار ہیں۔ میاں نوازشریف اور مریم نواز کا عوامی ہجوم میں آ کر ایسا کہنا بھی آئین سے بغاوت ہے۔ عدالت کو چاہئے تھا 28 جوولائی کے بعد جب انہوں نے جی روڈ پر پہلی ریلی نکالی تھی یا دوسری اگست کو۔ ان کی ریلی ناکام تھی۔ ان کے 3 جلسے کامیاب تھے۔ گجرات، گوجرانوالہ اور لاہور 80,70 میل کی رفتار سے گاڑیاں جا رہی تھیں ریلی تو 2007ءمیں وکلاءنے نکالی تھی جو 80,70 گھنٹوں میں لاہور پہنچی تھی۔ ان کے لئے کوئی نہیں نکلا۔ جب یہ جاتی عمرہ پہنچے تو انہیں عدالت کی طرف سے نوٹس ملنا چاہئے تھا کہ پیش ہو کر وضاحت کریں ایسا کیوں کیا۔ انہوں نے وہاں جھک جانا تھا۔ اب یہ آگے نکل گئے ہیں چاہتے ہیں کہ انہیں بلایا جائے تا کہ یہ عدالت پر یلغار کر سکیں انہوں نے خود کش جیکٹ پہنی ہوئی ہے اور سارے اداروں کو لوگوں کو ساتھ لے کر جانا چاہتے ہیں عدالت پر یلغار کرنے کے لئے دو اڑھائی سو وکلاءکو ساتھ لے کر جانا چاہتے ہیں۔چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ہماری بیورو کریسی پڑھی لکھی اور قانون جاننے والے لوگوں پر مشتمل ہے۔ یہ سی ایس ایس، پی سی ایس کر کے آتے ہی ایسے واقعات ہوتےے رہے کہ سینئر بیورو کریٹس پر چارجز لگے اور انہوں نے بڑی ہمت اور بہادری سے اپنے خلاف بننے والے مقدمات کو فیس کیا رہا ہوئے۔ موجودہ بیورو کریسی کا احتجاج مجھے تو بہت عجب لگا ہے۔ ہم تو سیاستدانوں اور حکمرانوں کا رونا ہی رو رہے تھے کہ درمیان میں بیورو کریسی بھی آ گئی۔ سیاستدان تو کہتے تھے کہ ہم مینڈیٹ لے کر آئے ہیں اس لئے ہمارے خلاف کوئی ایکشن بھی نہیں ہو سکتا۔ جب عدلیہ نے یوسف رضا گیلانی کے خلاف فیصلہ دیا تو نوازشریف نے کہا کہ انہیں عدالتوں کا احترام کرنا چاہئے۔ اب ان کا نقطہ نظر مختلف ہو گیا ہے۔ ہماری خبر کے مطابق لگتا یہ ہے کہ عدلیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان محاذ آرائی شروع ہو جائے گی آج تو ایک جوتا آگے جا کر پڑا ہے۔ ہمارے ملک میں حکمران اپنی پسند کی بیورو کریسی آگے لے کر آتے ہیں تا کہ اپنے احکامات منوا سکیں۔ اور جو حکم نہ مانے اسے کھڈے لائن لگا دیا جاتا۔ اپنی پسند کے لوگوں کو ترقیاں بھی ملتی ہیں اور من پسند گریڈ بھی دے دیا جاتا ہے۔ بہت سے افسران او ایس ڈی بن جاتے ہیں اور صرف تنخواہ لیتے رہتے ہیں۔ کام شام کچھ نہیں کرتے۔ حکومت چاہے تو سب کے متبادل ڈھونڈ لاتی ہے۔ لگتا ہے سیاسی قیادت بھی چاہتی ہے۔ کیونکہ ان کا اہم بیورو کریٹ پکڑا گیا ہے۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ بیورو کریسی کی طرف سے بھی احتجاج شروع ہو جائے۔ میاں شہباز شریف کی اچھے منتظم ہونے کے ناطے تعریف کی جاتی ہے۔ اگر وہ چاہیں تو اس کرائسز پر قابو نہیں پا سکتے؟؟ میاں شہباز شریف کو موجودہ حالات میں آگے آنا چاہئے اور سرکاری ملازمین میں ایک ڈسپلن قائم کروانا چاہتے۔ ایسی صورتحال تو اکثر رونما ہو سکتی ہے۔ عابد باکسر کی بات آ رہی ہے کہ وہ پاکستان آ چکا ہے اب وہ بھی آ کر الزامات لگائیں گے کہ مجھے فلاں نے آرڈر دیا تھا فلاں نے حکم دیا تھا؟ توقیر شاہ صاحب وزیراعلیٰ کے بہت منظور نظر سمجھے جاتے تھے ان پر ماڈل ٹاﺅن کے قتل کا الزام لگا۔ حکومت نے انہیں سفارتی جاب پر ملک سے باہر بھیج دیا۔ توقیر شاہ صاحب کو بھی کسی ادارے کی طرف سے بلایا جا رہا ہے۔ میاں شہباز شریف صاحب کو چاہئے کہ وہ خود کو اس آمیزش سے دور رکھیں اگلے وزیراعظم کے لئے ان کا نام لیا جا رہا ہے۔ لیکن اگر اداروں میں چھتر پریڈ شروع ہو گئی تو آپ نے ان ہی سے کام لینا ہے۔ ایک اور بڑا نام فواد حسن فواد کا نام بھی سامنے آ رہا ہے۔ جو ایک سینئر بیورو کریٹ تھے۔ یعنی پرنسپل سیکرٹری تو وزیراعظم تھے۔ ان کے بارے دو چیزیں آ چکی ہیں کہ کیسز جمع کئے جا رہے ہیں۔ ریاض حسین پیرزادہ نے اس بات پر استعفیٰ دیا تھا کہ فواد حسن فواد کام نہیں کرنے دیتے۔ سیاستدانوں کے بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہوتا ہے وہ کسی وقت بھی رخ بدل لیتے ہیں ریاض حسین پیرزادہ کسی وقت بھی کسی طرف بھی جا سکتے ہیں۔ ابھی معلوم ہوا ہے کہ تمام سول سیکرٹری حضرات نے لاہور میں ہڑتال کر دی ہے۔ اگر خبر درست ہے تو تالے لگا دیئے گئے ہیں۔ اور سارے سول آفیسرز کا مطالبہ یہ ہے کہ احد چیمہ کے خلاف کارروائی کو روکا جائے۔ اس وقت ملک کی سیاست کا رخ تبدیل ہو رہا ہے جیسے کہ میاں نوازشریف اور ان کی صاحبزادی عدالتوں کے فیصلوں کو نامنظور کر رہے ہیں۔ کیا پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلے بھی ہوا ہے اس طرح ملکی معاملات کس طرح چلائے جا سکتے ہیں۔ چودھری اعتزاز احسن سے ان کی ایکسپرٹ رائے معلوم کرتے ہیں۔آپ کی رائے کے مطابق وہ کون سا اقدام ہے جس کی وجہ سے ریاستی مشینری کا کام معمول پر آ سکے۔ کیا کسی بیورو کریٹ کو سروس رول میں اختیار حاصل ہے کہ وہ کہے کہ پہلے دوسروں کو چھوڑو پھر کام کریں گے؟ میاں محمد نوازشریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے تھے۔ آخر وہ کون سے کام ہیں جو میاں صاحب کو ان کی کرسی پر رہنے نہیں دیتے۔ آخر وہ کون سی تبدیلی لانا چاہتے تھے اور کیوں لانا چاہتے تھے؟؟ اس وقت جو پارٹی برسراقتدار ہے۔ اس کا نقطہ نظر یہ لگتا ہے کہ تمام سزا ہونے والوں کے لئے وہ آئین میں ترمیم کروائیں گے اور انہیں بچا لیں گے۔ کیا اس قسم کی کی ہوئی ترامیم درست ہوں گی۔ قومی اسمبلی میں سینٹ میں زیادہ لوگ ہاتھ کھڑے کر کے اس کے حق میں رائے دے دیں۔ اگر ایسا ہو گیا تو مستقبل کا نقشہ کیا ہو گا۔ اس سارے مسئلہ کا حل کیا ہے جناب؟ سینٹ کے الیکشن کی صورتحال جو سامنے آئی ہے جیسا کہ نوازشریف پارٹی کے صدر نہیں رہے اور ان کے نامزد کئے ہوئے سینٹ کے امیدوار اب پارٹی سے الیکشن نہیں لڑ سکتے بلکہ آزاد حیثیت سے لڑیں گے بعد میں جو چاہیں فیصلہ کریں کیا آپ کی رائے میں یہ فیصلہ درست ہو گا؟ سوائے اس کے کہ وہ سینٹ کے امیدوار رہیں گے۔ اس کی آئینی صورتحال کیا ہے؟؟ نوازشریف اور ان کی صاحبزادی برے بڑے جلسوں میں یہ کہتی ہیں کہ یہ عوامی ریفرنڈم ہے۔ فیصلہ تو ہو چکا ہے۔ عدالت کے فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں۔ کیا پبلک کا ہجوم فیصلہ کرے تو درست ہے۔ آپ نے 6 میں سے 5 ضمنی الیکشن جیت لئے ہوں۔ تو کیا اس دعویٰ میں وزن نہیں ہے؟ جنوبی پنجاب کی حالت بہت بری ہے۔ وہاں بے ہنگم قسم کی قانون شکنی ہے۔ ڈیرہ غازی خان کے قبائلی علاقوں میں تو نہ قانون ہے، نہ پاسداری ہے۔ ان ٹرائبل ایریا میں تھانوں کی موجود شکل بھی موجود نہیں ہے۔ ہر شخص آزاد ہے کہ اپنی مرضی کا قانون بنا لے۔ وہاں جرگہ کرنے والوں، فیصلے دینے والوں کو گرفتار کرنا چاہئے۔ ان کو سزا دینی چاہئے۔ یہ کہاں کا قانون ہےکہ پیدا ہونے سے پہلے ہی بیٹی کو ”ونی“ کر دیا جائے۔ میاں غفار صاحب سے پوچھتے ہیں کہ ڈیرہ غازی خان کے ان ٹرائبل ایریا میں کوئی قانون نہیں ہے کیا پاکستان کا قانون وہاں لاگو نہیں ہوتا؟ ہماری سیاسی قیادت ان معاملات کی ذمہ دار ہے۔ فیصلہ کرنے والے شخص کا باپ ایم پی اے ہے۔ یہ اس ملک کی جمہوریت کا فراڈ ہے۔ ایم پی اے کا بیٹا، بیٹی، ماں، داماد، بھتیجے، بھتیجی سب ہی ایم پی اے بن کر راج کرتے ہیں۔ لعنت ہے اس قسم کی جمہوری نظام پر۔ ایم پی اے ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ قانون کو ہاتھ میں لے کر پھرتے رہیں۔
ریذیڈنٹ ایڈیٹر خبریں ملتان میاں غفار نے کہا ہے کہ ایم پی اے سردار فتح محمد کا بیٹا سردار جعفر خاں ہے جو چیئرمین یو سی 96 ہے اس نے فیصلہ سنایا ہے کالا کالی کا۔ ایک شیخ میاں خان ولد میوا خان کو اس نے اس شخص کو ”کالا“ قرار دیا۔ اور سزا دی کہ 5 لاکھ مدعی کو دے اور آئندہ جب بھی اس کے گھر میں بیٹی پیدا ہو گی۔ وہ بیٹی مدعی کو دے گا۔ وہ اس کے ساتھ جو چاہے سلوک کرے یہ پوچھیں گے نہیں۔ خواہ وہ نکاح کرے یا جس طرح چاہے رکھے۔ میں نے جعفر خان کو فون کیا اور کہا زمانہ جاہلیت میں بیٹی کو پیدا ہونے کے بعد مارتے تھے آپ نے تو پیدا ہونے سے پہلے ہی مار دیا۔ اس نے جواب دیا آپ ہمارے ٹرائیل سسٹم کو نہیں سمجھتے۔ آپ ہمیں بلاک میل کررہے ہیں۔ یہ معاملہ 5 لاکھ کی حد تک سچا ہے باقی بات غلط ہے۔ یہ جہاں کا ناظم ہے اس علاقے کا نام ہے زندہ پیر۔ یہ منشیات اور اسلحہ کا سب سے بڑا گڑھ ہے۔ یہاں کئی مرتبہ پولیس ریڈ کر چکی ہے اور لاکھوں کا اسلحہ پکڑا گیا ہے۔