شارجہ (ویب ڈیسک )پاکستان سپر لیگ اب کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ پہلے سیزن کے آغاز پر جو خدشات تھے، وہ چند ہی دنوں میں ماضی کا قصہ بن گئے اور دوسرے سیزن نے تو کامیابی کے وہ ریکارڈ توڑے کہ اب خدشات نہیں بلکہ توقعات بھاری پڑ رہی ہیں۔دنیا کے بہترین کھلاڑیوں کے ساتھ پاکستان کے باصلاحیت اور نوآموز کھلاڑیوں کو کھیلتے اور تجربہ حاصل کرتے ہوئے دیکھنا ایک بہترین منظر ہے لیکن اس سے کہیں بڑھ کر یہ پاکستان کرکٹ کے تمام مسائل کو بھی یکے بعد دیگرے حل کر رہی ہے۔بورڈ کا سب سے بڑا مسئلہ مالی بحران تھا، جو اب پی ایس ایل کی وجہ سے حل ہو رہا ہے۔ پھر ملک میں بین الاقوامی کرکٹ نہ ہونے سے جو نقصانات ہو رہے تھے، ان کو حل کرنے میں بھی پی ایس ایل کا کردار کلیدی رہا ہے بلکہ اس سال تو صرف فائنل ہی نہیں بلکہ آخری تینوں میچز پاکستان ہی میں کھیلے جائیں گے اور 9 سال بعد کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں کوئی ایسا مقابلہ کھیلا جائے گا جس پر دنیا کی نظریں ہوں گی۔اگر ٹیلی وڑن پر ریٹنگ دیکھیں تو اس نے اگلے پچھلے سارے ریکارڈز توڑ دیے ہیں۔ یہ وہ مثبت پہلو ہیں جو پاکستان کرکٹ کے دیوانوں کا سیروں خون بڑھا رہے ہیں جبکہ بدخواہوں کا خون جلا رہے ہیں۔وہ کہ جنہوں نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کرکٹ کو ہر پہلو سے اور بارہا، نقصان پہنچانے کی کوشش کی، جنہوں نے پاکستان پر بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے بند کرنے اور اسے ہمیشہ کے لیے ختم کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، پاکستان سے ورلڈ کپ کی میزبانی چھین لی گئی، یہاں کوئی انٹرنیشنل میچ منعقد نہیں ہوا، اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل جیسے واقعات نے بنیادیں ہلا کر رکھ دیں، یہاں تک کہ ’بگ تھری‘ معاملے نے خیر کی آخری امیدیں بھی تمام کردیں۔ ان تمام پہلوو¿ں کے پیچھے جو طاقتیں تھیں وہ بھلا کس طرح برداشت کرسکتی ہیں کہ پاکستان میں کرکٹ بحال ہو، ایک عالمی معیار کا ایونٹ پاکستان میں کھیلا جائے یا یہاں پر کرکٹ کو فروغ ملے؟ پاکستان سپر لیگ آئی پی ایل سے بہتر کیوں؟کسی سیانے کا قول ہے کہ ’پہلے وہ آپ کو نظر انداز کریں گے، پھر آپ کا مذاق اڑائیں گے، پھر آپ سے لڑیں گے، پھر فتح آپ کی ہوگی۔‘
نظر انداز کرنے کا مرحلہ
تو پہلے سال تو انہوں نے پی ایس ایل کو نظر انداز کیا کہ یہ اپنی موت آپ مرجائے گی جیسا کہ سری لنکن پریمیئر لیگ کا منصوبہ ختم ہوا، بنگلہ دیش پریمیئر لیگ کو بدترین دھچکے پہنچے یہاں تک کہ اس کے پاس کھلاڑیوں کو تنخواہیں دینے کے پیسے تک نہیں تھے۔ اس لیے سمجھا گیا کہ پاکستان نے اپنی لیگ کا انعقاد کرکے جگ ہنسائی کا انتظام خود کیا ہے۔ جب غیر ملکی کھلاڑی اپنے ملکوں کو جاکر بد انتظامی اور تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے رونے روئیں گے تو ان عناصر کا مقصد بھی پورا ہوجائے گا۔ اس لیے پہلے سیزن کو نظر انداز کیا گیا لیکن وہ سیزن ہر لحاظ سے کامیاب ثابت ہوا یہاں تک کہ غیر ملکی کھلاڑیوں کی خوشی بھی دیکھنے کے قابل تھی۔
مذاق اڑانے کا سلسلہ
دوسرا سال آیا تو مذاق اڑانے کا مرحلہ آگیا جو ابھی تک جاری و ساری ہے۔ خالی میدانوں کا مذاق، حالانکہ یہ مذاق تب بنتا ہے جب لیگ پاکستان میں ہو اور میدان خالی ہوں۔ پھر غیر ملکی کھلاڑیوں کو دوسرے درجے کا قرار دینے کا مذاق۔ یہی نہیں بلکہ چند حلقے تو ایسے تھے جنہوں نے سنسنی خیز میچز کو ہی شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کردیا کہ ان کے خیال میں ایسے میچز جان بوجھ کر کروائے جا رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ پی ایس ایل دیکھیں۔ بس انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کسی میچ کو سنسنی خیز بنانے کا فارمولا کیا ہوتا ہے؟ اگر بتا دیتے تو دنیا بھر کی دیگر لیگز بھی اس سے فائدہ اٹھا لیتیں۔
لڑائی کی تیاری
بہرحال، یہ حلقے اس بار بھی اپنی زبانیں تیز کروا کر آئے ہیں، تیسرا سیزن جو اس بار بھی پاکستان میں نہیں ہو رہا اور اگلے کچھ سال تک ممکن بھی نہیں کہ تمام میچز پاکستان میں ہوں، اس لیے پہلا طعنہ اور پہلا طنز تو یہی ہوتا ہے۔ پھر ہزاروں نیلی کرسیوں نے یہ دلچسپ میچ دیکھا، جیسی باتیں۔ ریٹائرڈ اور پرانے کھلاڑیوں کی بات نجانے کس ترنگ میں کردی جاتی ہے، شاید ٹائملز ملز، لیام ڈاسن، شبیر رحمان، کولن انگرام اور سنیل نارائن کی عمریں 35 سے اوپر ہیں۔ بہرحال، جب کوئی تیر نہ چلا تو ایک نئے پہلو سے وار کیا گیا ہے۔آپ جانتے ہیں کہ کرکٹ سخت جسمانی مشقت کا کھیل ہے اور اس میں کبھی کبھار جسم ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہوجاتا ہے۔ لیگ میں چند کھلاڑی زخمی بھی ہوئے جیسا کہ شاہد آفریدی، ڈیرن سیمی، رمّان رئیس اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی جانب سے کھیلنے والے جوفرا آرچر، جنہوں نے اس سال بگ بیش لیگ میں بہت متاثر کیا تھا اور اب سب کی نظریں ان کی انڈین پریمیئر لیگ میں شرکت پر ہیں۔ جب آرچر پی ایس ایل کے درمیان میں چھوڑ گئے تو ایک پڑوسی ملک کے بہت بڑے اخبار نے خبر لگائی کہ پی ایس ایل فرنچائز غیر ملکی کھلاڑیوں سے خوش نہیں ہیں کیونکہ ان کے خیال میں وہ اپنی 100 فیصد کارکردگی پیش نہیں کر رہے اور اپنی توانائیاں آئی پی ایل کے لیے بچا رہے ہیں جو اگلے ماہ سے شروع ہو رہی ہے۔ یعنی وہ آئی پی ایل سے پہلے تھکاوٹ سے بچنے کے لیے بس جان چھڑانا چاہ رہے ہیں اور اپنے پیسے کھرے کرنا چاہ رہے ہیں۔ایسی خبریں نجانے کن صحافتی معیارات پر پوری اترتی ہوئی اشاعت کے مرحلے تک پہنچتی ہیں؟ شاید بغض بہت کچھ کروا لیتا ہے، وہ آپ کی اندر کی خواہشات ہی نہیں بلکہ جلن اور حسد کو بھی خبر کی صورت میں نکال باہر لاتا ہے۔ اب وہ نظر انداز تو کر نہیں سکتے کیونکہ وہ مرحلہ تو گزر چکا ہے، مذاق بھی اڑا لیا گیا، اس سے بھی بات نہیں بنی تو اب لڑنے پر اتر آئے ہیں اور ایسی خبریں بتاتی ہیں کہ پی ایس ایل کی کامیابی ان کو زچ کر رہی ہے۔پی ایس ایل کے بکھرتے رنگ اور جشن کے نئے انداز ذرا ان ‘عظیم صحافیوں’ سے کوئی پوچھے کہ آخر وہ کون سا تھرمامیٹر ہے جس کے ذریعے چیک کیا جاتا ہے کہ کھلاڑی 100 فیصد کارکردگی دکھا رہا ہے یا نہیں؟ اور اگر نہیں دکھا پا رہا تو اس کی وجہ کوئی انجری بھی ہوسکتی ہے، ذاتی مسائل بھی ہوسکتے ہیں، کیا ضروری ہے کہ ہر کسی کی تان آئی پی ایل پر ہی ٹوٹتی ہو؟ جس جوفرا آرچر کو موضوع بنا کر یہ بات کی گئی ہے کیا ان کے لیے زیادہ بہتر یہ نہیں ہوتا کہ بگ بیش لیگ کھیلنے کے بعد آرام کرتے اور پاکستان سپر لیگ کے ‘دو پیسے’ لینے کے بجائے آئی پی ایل کے کروڑوں روپے کے لیے خود کو تیار کرتے؟ جس طرح چور ہر دوسرے شخص کو چور سمجھتا ہے اس طرح لالچی بھی سب کو لالچی ہی سمجھتا ہے۔اب تک پی ایس ایل کے نصف میچز ہوچکے ہیں اور آپ اٹھا کر دیکھ لیں غیر ملکی کھلاڑیوں کی کارکردگی۔ اس وقت سب سے زیادہ رنز بنانے والا غیر ملکی، کمار سنگاکارا، سب سے زیادہ وکٹیں لینے والا غیر ملکی، عمران طاہر، جس نے آئی پی ایل کھیلنی ہے، لیکن نجانے کیوں اتنی محنت کر رہا ہے؟ پھر فیلڈنگ میں دیکھیں کس کس طرح کے کیچز غیر ملکی کھلاڑیوں نے پکڑے ہیں۔ جو ڈینلی کا پکڑا گیا کیچ بلاشبہ تاریخ کے بہترین کیچز میں سے ایک تھا۔