تازہ تر ین

23مارچ سبق دیتا ہے عوام کو ساتھ لے کر چلیں تو ملک ٹوٹ نہیں سکتا

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ 23 مارچ 1940ءکو جو قرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی اس کا مقصد یہ تھا کہ برصغیر میں جہاں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اسے دو قومی نظریے کی بنیاد پر ایک نیا ملک بنا دیا جائے۔ دو قومی نظریے کے مطابق مسلمان و ہندو تو الگ الگ قومیں ہیں۔ کچھ ہم سے سیاسی غلطیاں ہوئیں اور کچھ انڈیا کی براہ راست مداخلت جب اندرا گاندھی نے ڈھاکہ میں فوج اتار دی اور پاکستانی فوج کو ہتھیار ڈالنا پڑے جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کے نام سے ایک نیا ملک بن گیا۔ دو قومی نظریے کے بارے میں اندراگاندھی نے کہا تھا کہ آج میں نے اس کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا ایسا بالکل بھی نہیں ہوا۔ بھارت نے جس ملک کو خود فوج بھیج کر اپنے ہی طور پر آزاد کرایا اس ملک نے بھی خود کو کبھی انڈیا کا حصہ نہیں بنایا۔شیخ مجحیب الرحمن نے بھٹو دور میں لاہور آ کر اسلامی کانفرنس کی رکنیت حاصل کی اور بنگلہ دیش کانفرنس کا حصہ بنا۔ اس وقت سے لے کر اب تک بنگلہ دیش ایک اسلامی ملک ہے۔ یہ کہنا غلطہے کہ انڈیا کی جارحیت کی وجہ سے بنگلہ دیش کے قیام سے دو قومی نظریہ فیل ہو گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ 23 مارچ کا دن ہمیں سبق دیتا ہے کہ اگر مختلف علاقوں کے لوگوں کو قومی قیادت میں شامل کریں گے تو کبھی کسی علاقے سے علیحدگی پسندی یا ملک دشمنی کی آوازیں نہیں اٹھ سکتیں۔ حال ہی میں دیکھ لیا کہ وہ بلوچستان جس کے بارے میں انڈیا 7 سال سے 3 ٹی وی سٹیشنز 24 گھنٹے چلا رہا ہے۔ بھارتی پیسے سے چند گنتی کے ناراض بلوچوں سے ”فری بلوچستان“ کے پوسٹر لگوا رہا ہے۔ اسی بلوچستان میں ازحود تحریک اٹھتی ہے اور بلوچ لوگوں نے نون لیگ کی حکومت سے بغاوت کی اور نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب کیا۔ انہوں نے اعادہ کیا کہ ریاست پاکستان کے محب وطن شہری ہیں۔ عمران خان نے چیئرمین سینٹ بلوچستان سے لینے کی حمایت کا کہا، بلاول نے کہا کہ آصف زرداری کی خواہش ہے کہ نیا چیئرمین بلوچستان سے ہو۔ چھوٹے گروپس نے بلوچستان کے حق میں فیصلہ دیا۔ صادق سنجرانی پہلے کبھی سیاست میں نہیں رہے آج چیئرمین سینٹ ہیں۔ آج بلوچستان میں آزادی کی تحریکوں کے نام لینے والے کہاں ہیں؟ جن کے بارے میں انڈیا کہتا رہا ہے کہ وہ ان کی مالی امداد و اسلحہ دیتا ہے۔ دنیا بھر میں مالی مدد فراہم کر رہا ہے۔ 23 مارچ کے جذبے کو برقرار رکھیں گے تو تمام علاقوں کے لوگوں کے دل جیتیں گے۔ تمام علاقوں کو اقتدار میں حصہ دیں گے تو پاکستان ہر آنے والے دن کے ساتھ مضبوط ہو گا اور یہی 23 مارچ کا اصل پیغام ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک پاکستان کی نامور شخصیت و نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر مجید نظامی ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ مسلم لیگ نواز کو قائداعظم والی مسلم لیگ نہیں سمجھتا۔ آج بھی حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ 3 حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ مسلم لیگ نون، مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ پیر پگاڑا ہے۔ دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) غضنفر نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا دباﺅ نہ ہوتا تو راﺅ انوار کیس کب کا دب چکا ہوتا۔ متعدد پولیس مقابلے ہیں جن پر کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ عابد باکسر کو اب تک دبئی سے واپس نہیں لایا جا سکا۔ راﺅ انوار کا عدم موجودگی کا بیان سمجھ سے بالاتر ہے۔ ان کی ٹیم ان کی اجازت کے بغیر اتنے بڑے بڑے کام نہیں کر سکتی۔ راﺅ انوار اپنے لئے نہیں بلکہ ملک کے بہت بڑے پراپرٹی ٹائیکون کے لئے بھی کام کرتا رہا ہے۔ وہاں جو شہر آباد ہوا، جس نے زمین نہیں دی اس کو مار دیا گیا۔ سندھ ہی نہیں پنجاب پولیس میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو خود کو ان کاﺅنٹر سپیشلسٹ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جے آئی ٹی اگر آفتاب پٹھان کی سربراہی میں تمام کیسز کی تحقیقات کر سکتی ہے تو پھر ثابت ہو گا کہ اور کتنے مقابلے تھے جن میں پولیس کا کردار رہا۔ مرتضیٰ بھٹو کا قتل 100 فیصد ان کاﺅنٹر تھا اس وقت بے نظیر پاور میں تھیں لیکن اس کے قتل کو ٹریس نہیں کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ جھوٹ بولنا حکمرانوںکی عادت ہے۔ نواز فیملی کو تو جھوٹ بولنے پر تمغہ ملنا چاہئے، وہ انٹرنیشنل جھوٹے ہیں۔ سارا خاندان جھوٹ بولتا ہے رانا ثناءان کے چیمپئن ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن شہبازشریف، رانا ثناءاور آئی جی پنجاب کی مرضی کے بغیر ہو رہی نہیں سکتا۔ گلو بٹ گاڑیاں توڑ رہا تھا اور پولیس اسے شاباش دیتی رہی۔ ریذیڈنٹ ایڈیٹر خبریں ملتان میاں غفار نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ کے قتل کا مقدمہ درج ہو گیا۔ تمام ملازمین حراست میں ہیں اور ان کے موبائل ٹریس کئے جا رہے ہیں۔ اس طرح کا قتل کسی ادارے یا بیورو کریسی یا کسی اور کے لئے پیغام ہونا ہے۔ ایسا ہی قتل کامران فیصل کا بھی تھا اس کے بعد اس کی تفتیش رک گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ شواہد یہی کہتے ہیں کہ قاتل مقتول سے ملے۔ ساری رات ان کے پاس بیٹھے رہے اور صبح 6 بجے کے قریب نکل گئے اور یہی وقت قتل کرنے کا ہے۔ اعلیٰ سطح کی تحقیقات ہوں گی یہ پلان قتل تھا، کسی ذاتی جھگڑے کا قتل نہیں ہے۔ اگر ڈپٹی کمشنر کو ذرا سا بھی اندازہ ہوتا کہ یہ ان کو قتل کرنے آئے ہیں تو وہ کسی نہ کسی کو اعتماد میں ضرور لیتے۔ یہ خود کشی نہیں کیونکہ ان کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے، قاتل ان کے ہاتھ کھولنا بھول گئے لیکن اگر کھول بھی دیتے تو نشان رہ جاتے۔ ماہر قانون ایس ایم ظفر نے کہا ہے کہ مارشل لا لگنے کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آ رہے اور نہ ہی ملک اس کا متحمل ہو سکتا ہے۔ جنہوں نے پہلے مارشل لا لگائے ان کے خلاف بھی مقدمے چلانے کی بات ہو رہی ہے۔ مارشل لا اور آئین ایک دوسرے کے منافی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو خود کو ٹھیک کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ مارشل لا کی باتیں کرنے والے غلط بیانی کرتے ہیں شاید وہ شدت کے ساتھ بتانا چاہ رہے ہیں کہ حالات بہت خراب ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم” پاکستان ڈے“ مناتے ہیں لیکن اس کے مقاصد و قائداعظم کے فرمودات کو بھول چکے ہیں۔ اس کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم ”پاکستان ڈے“ کیوں مناتے ہیں۔ سرکوں پر ہلا گلا کرنا ”پاکستان ڈے“ نہیں بلکہ اس کا مقصد ہے کہ خوش رہو اور خوشیاں بانٹو۔ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے کہا کہ پاکستان نے بہت ترقی کی ہے۔ آج ایٹمی طاقت ہے۔ ترقی کی لکیر جس طرح سے اوپر کی طرف جا رہی ہے، 15,20 سال میں پاکستان مزید ترقی کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے جہاں اپنی دفاعی انڈسٹری کو فروغ دیا ہے وہاں دوست ممالک جو مدد کرتے ہیں ان کا تعاون بھی حاصل کیا جاتا ہے۔

 


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain