قصور (ڈسٹرکٹ رپورٹر) نو تعینات ڈی پی اوزاہد نواز مروت بھی پولیس وردی پر لگے ہوئے دھبے کو صاف نہ کرسکے۔ خبریں کی خبر پر بھی انصاف پسندی جاگ نہ سکی ،خبر کی اشاعت پر سارا دن خبریں ٹیم کو شہری حلقوں کی جانب سے فون کالز کا تانتا بندھا رہا اور مظلوموں کی آواز بننے پر خبریں کو خراج تحسین پیش کیا جاتا رہا مگر پولیس کے کانوں تک جوں نہ رینگی ۔سابق ایس ایچ او تھانہ راجہ جنگ ذوالفقار حمیدراںا ور اسکے ساتھیوں امانت ،آصف ندیم ،اکبر غنی اے ایس آئیز ،ارشد منشی ،طاہر اسلام و تین کس نامعلوم افراد کے ہاتھوں تھانہ راجہ جنگ کے علاقہ حویلی گھٹیانوالی کے رہائشی محمد اقبال کو ہلاکو خاں بن کر وحشیانہ و بدترین تشدد کر کے موت کے گھاٹ اتار دئیے جانے جبکہ اسکے ساتھ گرفتار کیے گئے اسکے بھتیجے محمد فاروق کو بھی بے تحاشہ تشدد کر کے شدیدزخمی کر نے اور محمد اقبال کی ہلاکت کے بعد اسے ڈی ایچ کیو ہسپتال قصور کی ایمرجنسی میں پھینک دئیے جانے کے 3ماہ پہلے کے واقعہ میں پولیس حکام کی مبینہ بے حسی ، سابق ایس ایچ او راجہ جنگ و دیگر ملازمین کیخلاف پورے علاقہ کی عوام میں شدید غم و غصہ پایا گیا جنہوں نے مین روڈ پر احتجاجی دھرنا دیکر روڈ بلاک کر دی تھی جس پر پولیس نے مذکورہ پولیس افسران و ملازمین کیخلاف مقدمہ قتل تودرج کر لیا تھا لیکن پندرہ دسمبر 2017ءکے بعد آج تک کسی ملزم کو گرفتار نہیں کیا جا سکا بلکہ پولیس افسران و تفتیشی غلام عباس ایس آئی اپنے پیٹی بند بھائیوں کے سرپرست بن چکے ہیں اور انہیں کھلی چھٹی دے رکھی ہے اتنے بڑے وحشت ،دہشت ،غنڈہ گردی و درندگی کے واقع کے بعد سابقہ ایس ایچ او ذوالفقار حمید و دیگر ملازمین اسی تھانہ میں پائے جاتے ہیں اور مظلوم فیملی و مقدمہ کے مدعی مقتول کے بھائی محمد منشاءاور اسکے مضروب بھتیجے فاروق کو مقدمہ واپس لینے کیلئے شدید دباﺅ ڈالا جا رہا ہے اور گواہان مقدمہ کو بھی خوف زدہ ،ہراساں ،تنگ و پریشان کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنی گواہی سے منحرف ہوجائیں ۔پولیس سابقہ جعلی و فرضی ،خود ساختہ پولیس مقابلوں میں مارے جانے والے افراد کی طرح اس مقدمہ کو بھی دبانا و سرد خانے کی نظر کرنا چاہتی ہے جبکہ مظلوم خاندان انصاف کیلئے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو چکا ہے لیکن کسی فورم پر بھی انکی کوئی شنوائی نہ ہو رہی ہے اور نہ ہی آج تک انصاف مل سکا ہے جبکہ مقدمہ قتل کے ملزمان بھی آزاد گھوم پھر رہے ہیں ۔مقتول کے بھائی محمد منشاءنے بتایا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بھی ملزمان کیخلاف تشدد کر کے ہلاک کرنے کا جرم ثابت ہو چکا ہے لیکن آج تک چار ماہ کا عرصہ گزرنے فارنزک سائنس لیب لاہور سے رپورٹ موصول نہ ہو رہی ہے نہ ہی اتنے بڑے وقوعہ کے ملزمان کو گرفتار کیا جار ہا ہے یہ ظلم و بربریت کی انتہا ہے محمد منشاءنے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان ،چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ لاہور سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دیگر کیسز کی طرح انہیں بھی انصاف فراہم کرتے ہوئے سوموٹو ایکشن لیکر اسکے بھائی محمد اقبال کو بھینس چوری کے جعلی و فرضی مقدمہ میں جس میں قابل ذکر یہ ہے کہ مدعی مقدمہ جو کہ اس دوران عمرہ کی سعادت حاصل کرنے سعودیہ گیا ہوا تھا کی تحریری/زبانی درخواست کے نہ ہوتے ہوئے بھی بلا جواز و غیرقانونی طور پر چادر و چاردیواری کا تقدس پامال کر کے اسکے بھائی محمد اقبال اور بھتیجے فاروق کو گرفتار کر کے خون کی ہولی کھیل کر اقبال کو ہلاک کر نے اور فاروق کو شدید زخمی کرنے کے دلخراش واقعہ کا نوٹس لیکر ملزمان کو گرفتار کروائیں جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور آئی جی پولیس پنجاب ،ڈی آئی جی شیخوپورہ رینج سے بھی پرزور مطالبہ کیا کہ اسکے بھائی کو بے گناہ و ناحق طور پر تشدد کر کے ہلاک کرنے والے ملزمان کو فی الفور گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔