اسلام آباد (صباح نیوز) مختلف مسلک کے علماءنے جمعہ کے سرکاری خطبات پر عمل کرنے سے صاف انکار کرتے ہوئے کہاکہ اگرسرکاری خطبات مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو مذمت کریں گے سرکاری خطبے ملک میں مزید افراتفری کا باعث بنیں گے، حکومت کی مرضی سے خطبات دیئے جائیں گے تو اس کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا،حکومت علماءکو کنٹرول کرنا چاہتی ہے جمعے کے خطبہ پر قدغن درست نہیں، علماءحکمرانوں کی اصلاح کرتے ہیں زبان بندی سے حق بات کون کرے گا سرکاری خطبے کے نتائج اچھے برآمد نہیں ہوں گے،علماءپر پابندی لگانا صحیح نہیں سمجھتے افراتفری پیدا ہو گی، کمیٹی ایسے علماءکو خطبا لکھ کر دیتی ہے جو ان سے علم میں دس گنا زیادہ ہوںتویہ علماءکی توہین ہے، خطبا دیناعلماءکا کام ہے اور وہ خوش اسلوبی سے انجام دے رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار مرکزی جمعیت اہلحدیث اسلام آباد کے امیر حافظ مقصود احمد،جمعیت علمائے اسلام اسلام آباد کے سیکرٹری اطلاعات مفتی امیر زیب،جماعت اہل حرم کے سربراہ مفتی گلزار نعیمی اورشیعہ علماءکونسل کے رہنما عارف حسین واحدی نے حکومت کی طرف ست اسلام آباد میں تمام مساجد میں سرکاری خطبات کے نفاذ کے حوالے سے صباح نیوز سے خصوصی گفتگوکرتے ہوئے کیا۔ جمعیت علمائے اسلام اسلام آباد کے سیکرٹری اطلاعات مفتی امیر زیب نے کہا کہ خطبا جمعہ اور اس کا مواد اگر سرکاری ہو گا اور ہم پر مسلط کرنے کی کوشش کی جائے گی تو شدید مذمت کریں گے۔ ایسے اقدامات علماءکی آزادی ختم کرنے کے مترادف ہیں۔ علماءہی حکمرانوں کی اصلاح کرتے ہیں اگر انہی کی زبان بند کر دی جائے تو وہ کس طرح حق بات کہیں گے۔ سرکاری خطبے کے نتائج اچھے برآمد نہیں ہوں گے۔ پاکستان کثیرالجہتی ملک ہے جس طرح نماز کے اوقات پر عمل نہیں ہو سکا اسی طرح اس پر بھی عمل نہیں ہو سکے گا۔ جب اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر قدغن نہیں لگاتا تو حکومت کو بھی ایسے اقدامات نہیں کرنے چاہئیں۔مرکزی جمعیت اہلحدیث اسلام آباد کے امیر حافظ مقصود احمد نے کہا کہ علماءپر پابندی لگانا صحیح نہیں سمجھتے اس سے مزید افراتفری پیدا ہو گی اگر حکومت کی مرضی سے خطبات دیئے جائیں گے تو اس کا مقصد ہی ختم ہو جائے گا۔ علماءضرورت کے مطابق عوام کی رہنمائی کرتے ہیں۔ سعودی عرب میں بھی علماءکوسرکاری لکھے ہوئے خطبات نہیں دیئے جاتے۔ علماءخود اپنے خطبات لکھتے اور پڑھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر فضل الٰہی نے 17 سال سعودی عرب کے شہر ریاض میں خطبے دیئے اور کبھی انہوں نے سرکاری خطبا نہیں پڑھا مگر سعودی عرب کا نام لے کر یہاں پر غلط بیانی کی جا رہی ہے۔ فرقہ واریت کے خلاف قانون موجود ہے۔ اس پر عملدرآمد ہونا چاہئے اگر کمیٹی ایسے علماءکو خطبا لکھ کر دیتی ہے جو ان سے علم میں دس گنا زیادہ ہے یہ تو علماءکی توہین ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست پر تنقید نہیں ہونی چاہئے۔ تنقید اگر حکومت پر بھی ہو تو اس میں اچھے الفاظ استعمال کئے جائیں۔ ختم نبوت پر نوازشریف کی حکومت نے ترمیم کی اگر علماءاس کو غلط نہ کہتے تو کس نے یہ کام کرنا تھا۔ حکمرانوں کو نصیحت کرنا بھی علماءکا کام ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر کوئی منبر و محراب کو ریاست اور افواج کے خلاف استعمال کرے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے۔ اگر علماءنے ان کے لئے بددعا کر دی تو ان کی حکومت کو کوئی بچا نہیں سکے گا کیونکہ اللہ ظلم کو برداشت نہیں کرتا۔ سرکاری خطبے کے اچھے نتائج برآمد نہیں ہوں گے اور ملک میں مزید افراتفری کا باعث بنیں گے۔ حکومت سب علماءکو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش کر رہی ہے جو درست نہیں ہے۔ جماعت اہل حرم کے سربراہ مفتی گلزار نعیمی نے کہا ہے کہ خطبات کے حوالے سے علمائے کرام کو پابند کرنا شرعی طور پر درست نہیں اور نہ ہی یہ ممکن ہے۔ اگر ملک میں اسلامی نظام رائج ہوتا تو حکومت اس طرح کے خطبات علماءکو دے سکتی تھی۔ حکومت علماءکو کنٹرول کرنا چاہتی ہے جسے ہم کسی طور پر قبول نہیں کریں گے۔ علماءصورتحال کو دیکھ کر خطبہ دیتے ہیں اگر کوئی انتشار پھیلاتا ہے تو اس کے لئے قانون موجود ہے۔ قانون کے مطابق اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ منبر و محراب سے اتفاق اور اتحاد کی بات ہونی چاہئے۔ اگر علماءتنقید بھی کرتے ہیں تو ان کی تنقید اصلاحی ہوتی ہے۔ جمعے کے خطبوں پر قدغن درست نہیں، کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ پہلے بھی ایک وقت میں اذان اور نماز کے حوالے سے وزارت مذہبی امور نے کہا تھا مگر اس پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔شیعہ علماءکونسل کے رہنما عارف حسین واحدی نے کہا کہ خطبات حکومت کو کنٹرول نہیں کرنے چاہئیں۔ یہ علماءکا کام ہے اور وہ اس کو خوش اسلوبی سے انجام دے رہے ہیں اور ان کو کرنے دیا جائے۔ حکومت کی طرف سے اس کو کنٹرول کرنے کو ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ اگر وزارت مذہبی امور کمیٹی بناتی ہے اور اس میں تمام مسالک کی نمائندگی ہوتی ہے اور ایسے لوگوں کو اس میں شامل کیا جاتا ہے جس پر سب کا اتفاق ہو پھر اس کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔ سرکاری خطبات پر علماءسخت اعتراض کریں گے۔
