لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ آرمی چیف ے ملاقات میں جو صحافی موجود نہیں تھے اور انہوں نے آرٹیکل یا کالم لکھے ہیں، ہو سکتا ہے ان کے پاس کوئی چڑیا یا فاختہ ہو۔ صحافیوں کے پاس ایسی چیزیں ہوتی ہیں، نجم سیٹھی کے پاس بھی ایک چڑیا ہوتی تھی۔ وزیراعظم و چیف جسٹس کی ملاقات کی بہت ساری خبریں سامنے آئیں وہاں تو کوئی تیسرا شخص موجود نہیں تھا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بڑی بات یہ کی ہے کہ کوئی این آر او نہیں ہو رہا۔ میری آرمی چیف و چیف جسٹس سے ملاقات ہوئی تھی انہوں نے بھی کہا تھا کہ کوئی این آر او نہیں ہو رہا۔ شیخ رشید نے جو جوڈیشل مارشل لا کی بات کی تھی اس پر بھی چیف جسٹس نے کہہ دیا تھا کہ اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ نوازشریف مشرف دور میں فوج مغرب کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نوازشریف نے گزشتہ روز عدلیہ کے خلاف بڑا جارحانہ انداز اپنایا۔ عجیب بات ہے کہ ایک دن پہلے ان کا وزیراعظم چیف جسٹس سے ملاقات کرتا ہے۔ اگلے ہی روز نوازشریف چیف جسٹس کو للکارتے ہیں کہ تو کون ہوتا ہے جو ہسپتالوں میں جاتا ہے۔ چیف جسٹس کو چاہئے کہ وہ نوازشریف کی باتوں کا جواب دیں وہ کہتے ہیں کہ سارا ٹارگٹ انہی کو کیا جا رہا ہے۔ آئندہ فیصلوں سے ثابت ہو گا کہ ثاقب نثار ان سے ڈرتے ہیں یا نہیں۔ آئین بنانا پارلیمنٹ کا کام ہے لیکن اس کی تشریح عدلیہ کرتی ہے۔ دنیا بھر کی تاریخ ہے کہ اگر آئین میں کہیں ابہام یا کوئی شک و شبہ آ جائے تو اس کو عدالت کا فیصلہ واضح کرتا ہے۔ مجھے فون پر کسی نے بتایا کہ نوازشریف چلڈرن ہسپتال گئے تھے۔ میں تصدیق تو نہیں کر سکا لیکن اگر یہ خبر درست ہے تو اس کا مطلب ہے کہ نوازشریف نے ہسپتالوں کا دورہ شروع کر کے چیف جسٹس کے ساتھ ریس لگا لی ہے کہ زیادہ دورے کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ثاقب نثار کے خیرخواہ و صلاح کار کی حیثیت سے مشورہ دوں گا کہ ذرائع کی خبروں پر نہ جائیں۔ براہ کرم آپ خود وزیراعظم سے ملاقات کی پریس ریلیز جاری کرائیں کہ اصل میں اس کا مقصد کیا تھا۔ قوم جاننے کا حق رکھتی ہے۔ عوام کے کان آپ کی طرف لگے ہوئے ہیں کہ چیف جسٹس کیا کہہ رہے ہیں۔ اب آپ معمول کے مطابق بھی کام کریں گے تو اگر کوئی فیصلہ شریف خاندان کے حق میں آ گیا تو کہا جائے گا یہ ملاقات کا اثر ہے اور خلاف آ گیا تو باتیں ہوں گی کہ مک مکا نہیں ہو سکا۔ ثاقب نثار صاحب خود وضاحت فرما دیں گے تو لوگوں کی تشفی ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ جب کوئی اپوزیشن پارٹی قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کرتی ہے تو اس کا پہلا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ طرح طرح کی باتیں کریں گے اور ان کا انتشار ظاہر ہو جاتا ہے۔ ایک بات طے ہے کہ یہ جو رولنگ پارٹی ہے اس نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ ایک مصرہ ہے کہ:
”میں طلوع ہو رہا ہوں تو غروب ہونے والا“
بات یہ ہے کہ جو پارٹی 5 سال حکومت میں رہتی ہے تو الیکشن قریب آنے پر اس نے غروب ہی ہونا ہوتا ہے۔ لوگ ٹوٹتے ہیں، اختلافی آوازیں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ میں ملتان کا ہوں، ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ رحیم یار خان سے لے کر مظفر گڑھ و ڈیرہ غازی خان تک بخوبی واقف ہوں۔ میں ایک لسٹ بنا کر دے سکتا ہوں کہ یہ 7 ایم این ایز اور 21 کے قریب ایم پی ایز نے ٹوٹ جانا ہے۔ جنوبی پنجاب سے لوگوں نے الگ ہونا ہی ہوتا ہے۔ اب تک ان کے الگ نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حکومتی نمائندوں کو حکومت میں رہنے کی کشش یہ ہوتی ہے کہ ترقیاتی فنڈز کا حصول، گریڈ 4 کے ملازمین کا کوٹہ سمیت جو بھی ملتا ہے وہ لے لیں۔ حکومتی نمائندے آخری دن تک جو ملتا ہے وصول کریں گے اور پھر اچانک پلٹا کھا جائیں گے۔ انہوں نے پیشگوئی کی کہ نگران حکومت میں بہت ٹوٹ پھوٹ نظر آئے گی اس سے پہلے نہیں۔ اس وقت بھی پنجاب کے 34 اضلاع میں ایم این ایز، ایم پی ایز و سنیٹرز کی بندر بانٹ ہوئی ہے۔ میرے علم کے مطابق 30 ہزار درخواستیں ہیں جبکہ اصل سیٹوں کی تعداد ایک ہزار سے کم ہے۔ میری اپنی معلومات کے مطابق حکومتی نمائندوں کے چمچوں نے لوگوں سے چپڑاسی کی بھرتی کے لئے نقد پیسے لے کر ان کی درخواستوں پر دستخط کئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نگران وزیراعظم کا نام ہمیشہ آخری وقت پر سامنے آتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ایک دو دن پہلے اچانک سے نام سامنے آئے گا ابھی نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 3 روز قبل ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں اینکر پرسن نے مجھ سے نیب کے حوالے سے سوال کیا تو میں نے کہا کہ اطلاع یہ ہے کہ چیئرمین نیب پر نہ صرف دباﺅ ڈالا جا رہا ہے بلکہ ان کی وفاداریاں خریدنے کی کوشش کی گئی اور شدید دھمکیاں بھی دی گئیں۔ بہت بڑے عہدے کی پیشکش کی گئی کہ ااپ استعفیٰ دے کر ملک سے باہر چلے جائیں، چند ماہ صبر کریں، ڈیل خانہ کعبہ میں ہو گی اور ملک کا اعلیٰ عہدہ اگلے دور میں آپ کو دیا جائے گا۔ پیپلزپارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کو وزیراعظم سے ملاقات نہیں کرنی چاہئے تھی۔ اگر کرنی ہی تھی تو ملاقات اوپن ہوتی، ایجنڈا پہلے سامنے آنا چاہئے تھا۔ 3 کی ملاقات ہوتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔ اس کی مکمل وضاحت ہونی چاہئے۔ ایسے وزیراعظم کے ساتھ ملاقات جو خود عدلیہ مخالف بیان دے رہا ہے۔ وزیراعظم جاتی امراءسے ہدایات و ایجنڈا لے کر ملاقات کرنے گئے تھے۔ عوام شکوک و شبہات کا شکار ہیں کہ کیا گفتگو ہوئی۔ ثاقب نثار صاحب سے کہا تھا کہ ان حالات میں ون ٹو ون ملاقات نہیں ہونی چاہئے۔ لگتا ہے شاہد خاقان عباسی جس مقصد کے لئے گئے تھے، اس پر بات نہیں بنی۔ اس لئے اب میاں صاحب مزید آگے بڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ روز بھی نوازشریف نے کہا کہ چیف جسٹس سارا ٹارگٹ انہی کو کرتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی خود کہتا ہے کہ میں نہیں وزیراعظم نوازشریف ہیں تو پھر ان کی مرضی کے بغیر باتیں نہیں ہو سکتیں۔ شریف خاندان مسلسل عدلیہ پر تیر برسا رہا ہے، کل کو کہیں گے کہ ہم ملاقات کرنے گئے تھے لیکن بات نہیں بنی۔ عدلیہ و فوج کے خلاف بیانات دے رہے ہیں۔ 5 ججز کو 5 لوگ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ ہمارے دور میں بھی وزیراعظم ملاقات کرنے گئے تھے لیکن ہم عدلیہ کے خلاف باقاعدہ مہم لے کر نہیں نکلے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کی پریس ریلیز کی وزیراعظم سے ابھی تک تصدیق نہیں کی، بات کی وضاحت ہونی چاہئے جو ابھی نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت نوازشریف کے خلاف کرمینل و کرپشن کے مقدمات چل رہے ہیں جو خود سپریم کورٹ نے نیب کو بھجوائے ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ ایسے میں کوئی این آر او ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں چیف جسٹس چاہیں بھیں تو شریف خاندان کو ریلیف نہیں دے سکتے۔