لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کا شکریہ، ان کے واضح بیان سے بہت ساری افواہوں کا ازالہ ہو گیا۔ میں اس بات پر خوش ہوں کہ وزیراعظم و چیف جسٹس کے ملاقات کا ایشو میں نے اٹھایا تھا۔ شروع دن سے اپنے پروگراموں میں بھی کہہ رہا ہوں جبکہ خبریں میں بھی شائع کیا کہ عوام جاننا چاہتے ہیں۔ بار بار کہہ رہا تھا کہ ثاقب نثار صاحب خود ملاقات کی وضاحت کریں۔ معاملہ خراب ہو رہا ہے۔ انہوں نے میری بات کی لاج رکھ لی۔ ہر جماعت اپنی مرصی کا مطلب نکال رہی تھی۔ قمر زمان کائرہ و اعتزاز احسن سمیت بہت سارے لوگوں نے کہا کہ غلط فہمیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ آرمی چیف کی سوا 3 گھنٹے کی بریفنگ پر میں نے کوئی بات نہیں کی تھی لیکن میرے اپنے سوال پر آرمی چیف کے جواب میں میں نے وہاں بھی سٹینڈ لیا تھا کہ یہ جواب میری پراپرٹی ہے مجھے حق حاصل ہے کہ میں اسے عوام تک پہنچاﺅں اور میں نے اخبار میں اس کو شائع بھی کیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ روز اسلام آباد سے 2 اہم شخصیات مجھ سے ملاقات کرنے میرے دفتر آئے تھے۔ ان کا تعلق حکومت کے خلاف یا حق میں نہیں تھا۔ میں نے ان سے بھی وہی بات کی جو شہباز شریف سے بھی کہی تھی کہ مال روڈ پر لیڈی ہیلتھ ورکرز کئی روز سے دھرنا دیے بیٹھی ہیں، وہاں خواتین کے بے ہوش ہونے کی اطلاعات آ رہی ہیں۔ دو وزیر صحت ہیں، وہ کیا کر رہے ہیں۔ اگر انہوں نے شہباز شریف سے پوچھے بغیر کوئی کام نہیں کرنا تو یہاں رانا ثناءسمیت دیگر اہم شخصیات سے مشورہ کر سکتے ہیں۔ مذاکرات سے ہی مسائل حل ہوا کرتے ہیں، ماضی میں بھی دنیا بھر میں ایسا ہوتا آ رہا ہے۔ جب امریکہ نے ویتنام پر حملہ کیا تھا اس وقت بھی ایک معروف فلسفی نے ٹربیونل قائم کیا تھا وہ بھی تھا اور دوسری طرف پیرس میں امن کے لئے کئی سال مذاکرات جاری رہے تھے۔ ویتنام و امریکی حکومتی نمائندے مذاکرات میں شامل ہوتے تھے۔ دونوں وزیر صحت جواب دیں کہ وہ گھر میں کیوں بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں آپ دونوں سے بڑا ہوں بڑا بھائی سمجھ کر ہی بتا دیں۔ ہمارے دفتر کی جانب آنے والے راستے بند ہیں، لوگ دھرنے سے عاجز آ گئے ہیں۔ مذاکرات کر کے دھرنا ختم کیوں نہیں کروایا جا رہا۔ میں نہیں مانتا کہ نواز یا شہباز کی کوئی ایسی ہدایت ہو گی کہ وزرائے صحت یا کوئی اور حکومتی نمائندہ مذاکرات کرنے نہ جائے۔ انہوں نے کہا کہ ملالہ یوسف زئی کے ملک میں آنے پر خوشی ہے، ساری مغربی دنیا نے اس کی تعریف کی، نوبل پرائز بھی ملا خوشی کی بات ہے لیکن میں نے اس وقت بھی کہا تھا اور آج بھی کہتا ہوں، نوبل پرائز دینے والوں کو بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ملالہ بے چاری ویگن میں گھرجا رہی تھی کہ دہشتگردوں نے اس کو گولی مار دی کیونکہ اس کے مضمون چھپتے تھے۔ وہ مظلوم تھی ہم سب نے اس کا ساتھ دیا لیکن میں نے ایک سوال اٹھایا تھا، آج پھر اٹھاتا ہوں۔ آرمی چیف و وزیراعظم سے منت کرتا ہوں کہ ”اعتزاز احسن“ کو ایوارڈ کیوں نہیں ملا۔ کیا اس کا قصور یہ تھا کہ اس کا تعلق ایک چھوٹے سے پہاڑی علاقے سے تھا؟ وہ بچہ تھا لیکن پھر اس نے دہشتگرد کو دیکھ کر پکڑ لیا، خود کش بمبار نے خود کو اڑا لیا ساتھ وہ بچہ بھی شہید ہو گیا۔ اعتزاز احسن نے اپنی جان دے دی اور باقی سکول کے تمام طلبہ، اساتذہ سمیت دیگر محفوظ رہے۔ میں نے اس وقت بھی کہا تھا کہ کیا وہ بہادر بچہ ہمارا ہیرو ہے یا ملالہ یوسف زئی جس نے گولی کھائی تھی۔ گولی کھانا کوئی بہادری کا کام نہیں ہوتا۔ میں سلام کرتا ہوں اس بچے کو جس نے خود کش بمبارکو آگے نہیں بڑھنے دیا اور خود بھی شہید ہو گیا۔ فوج کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں، اس وقت کے آرمی چیف راحیل شریف وہاں گئے تھے۔ صرف فوج محسوس کر سکتی ہے کہ جان دینا کیا ہوتا ہے، کتابوں میں پڑھنا اور بات ہے۔ فوج کی جرا¿ت و عظمت کو سلام پیش کرتا ہوں۔ آرمی چیف صاحب اگر آپ کے پاس سول کے لئے بھی کوئی ایوارڈ ہے تو میرا امیدوار وہ بہادر بچہ ”اعتزاز احسن“ ہے۔ شاہد خاقان عباسی صاحب آپ نے 23 مارچ کو جو ایوارڈوں کی لسٹ جاری کی اس میں ”اعتزاز احسن“ کا نام نظر نہیں آیا۔ آپ نے بے ہودہ قسم کے لوگوں کو بے ہودہ ایوارڈز دیئے، کچھ خدا کا خوف کریں۔ اگر آپ کے والد زندہ ہوتے تو ایوارڈز لسٹ میں ”اعتزاز“ کا نام شامل نہ کرنے پر آپ کی شکایت کرتا۔ شاہد خاقان عباسی کے والد انتہائی شریف، اچھے و ہمدرد انسان تھے، میں ہزاروں بار اسلام آباد میں ان کے گھر گیا ہوا ہوں۔ وہ سانحہ اوجڑی دیکھنے گئے تھے کہ کیا ہوا اور خود بھی جاں بحق ہو گئے۔ عمران خان کے صوبے سے ”اعتزاز احسن“ کا تعلق تھا وہ کیا جواب دیں گے۔ اگر دنیا میں انسانی ضمیر نام کی کوئی چیز ہے تو دہشتگردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے ہمارا ہیرو ”اعتزاز احسن“ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اچھی بات ہے بلوچستان میں نئی پارٹی بن گئی، وہاں عجیب چوں چوں کا مربہ بنا ہوا تھا۔ چودھری برادران نے دعویٰ کیا تھا وہاں قاف لیگ کی حکومت ہے تو پھر سرفراز بگٹی کو کیا کہیں گے جو بغاوت کے بعد بھی کہتا رہا کہ اس کا تعلق نون لیگ سے ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کی ملاقات کے حوالے سے دو ٹوک وضاحت خوش آئند ہے۔ وزیراعظم کو واضح پیغام مل گیا۔ ثاقب نثار کا ”کچھ کھویا نہیں پایا ہے“ کہنے کا مطلب ہے کہ وزیراعظم نے تسلیم کر لیا کہ کرپشن چارجز، ہسپتال، سکولز، گندگی کے ڈھیر وغیرہ کے حوالے سے عدلیہ کی بنیادی حقوق کے تحفظ کی کاوش ہے۔ جو یہ کہہ رہے تھے کہ ہم فیصلوں کو نہیں مانتے، یہ ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کریں گے۔ عدلیہ نے ثابت کیا کہ آئینی فریضہ ادا کرتے ہوئے بنیادی حقوق جہاں بھی متجاوز یا متصادم ہوں گے، ایگزیکٹو کی باز پرس کریں گے۔ سرکاری خزانے سے اگر کوئی چوری ہوئی ہو گی تو اس کا مواخذہ بھی عدلیہ کے فرائض میں آتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے کہا تھا کہ چیف جسٹس کو ملاقات نہیں کرنی چاہئے تھی۔ ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان، پاکستان کے پہلے چیف جسٹس عبدالرشید کو ملاقات کرنے کے لئے درخواست بھجوائی تھی۔ جس پر چیف جسٹس کے سیکرٹری نے جواب بھیجا کہ ”چیف جسٹس معذرت خواہ ہیں وہ آپ سے نہیں مل سکیں گے کیونکہ وفاق کے خلاف مقدمات سرکٹ میں ہیں۔“ ایسے وزیراعظم جو قائداعظم کے دست راست رہے ہوں، غیر متنازعہ وزیراعظم تھے ان کے ساتھ ملاقات سے بھی چیف جسٹس نے انکار کیا کہ اس سے چہ میگوئیاں ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت کابینہ کے 2 ممبران توہین عدالت کے مقدمات بھگت رہے ہیں، محکموں کا حال سب کے سامنے ہے۔ حکمران عوام کے آگے جواب دہ ہیں۔ بنیادی حقوق ملنا عوام کا حق ہے، چیف جسٹس انہیں اختیارات کے تحت بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے کارروائی کرتے ہیں اگر ایسے میں کوئی فیصلہ ایگزیکٹو کے خلاف ااتا ہے اور وزیراعظم اس حوالے سے اپنے تحفظات لے کر گئے تھے تو ان سے ملنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ترجمان بلوچستان پارٹی سنیٹر انوارالحق نے کہا ہے کہ پارٹی بنا کر صوبے میں نئی ابتداءکی ہے۔ آئندہ انتخابات میں ایک ایسا پلیٹ فارم تشکیل دینا چاہتے ہیں جو بلوچستان سے وفاق کے اندر ایک مثبت کردار ادا کرے اور مرکز کو صوبے کے عام لوگوں سے جوڑے۔ پاکستان و بلوچستان کی مضبوطی کی آواز آنی چاہئے، عوام کی بہتری کے لئے جدوجہد کرنی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ابھی سارے وزراءپارٹی میں شامل نہیں ہوئے لیکن انہوں نے اشارہ دیا ہے کہ اس پلیٹ فارم سے سیاست کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم 6 سنیٹرز اور باقی سیاسی شخصیات تھیں جو پارلیمنٹ میں شامل نہیں ہیں۔ بلوچستان پارٹی کا اعلان کیا ہے۔ دیگر دوست 2 ماہ کے اندر اندر پارٹی میں شمولیت اختیار کریں گے۔ بہت سارے لوگوں سے مسلسل رابطے میں ہیں۔