لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) کالم نگار خالد فاروقی نے کہا ہے کہ جنہوں نے این آر او کی تردید کی انہی کے ذریعے زیادہ این آر او ہوتے بھی رہے۔ ماضی میں سب سے مشہور این آر او فوج نے ہی کرایا تھا اس میں انہی کا کردار تھا۔ اس وقت فوج کی وضاحت بھی بنتی تھی کیونکہ ایک نیا تاثر بن رہاہے۔ چیف جسٹس سے وزیراعظم کی ملاقات کا مقصد بھی اسی قسم کا تاثر دینا ہے لیکن اچھا ہوا چیف جسٹس نے وضاحت کر دی۔ بہرحال میرا خیال ہے دال میں کچھ کالا ہے۔ شاید شریف فیملی تیمارداری کے لئے جانا چاہتے ہیں ہو سکتا ہے یہ ہی فریاد ہو۔ چیف جسٹس کہتے ہیں مجھے پہلے بلایا گیا تھا۔ این آر اوکی بات صرف حکمران جماعت کی جانب سے ہو رہی ہے۔ جب میرٹ سے ہٹ کر جونیئر کو ترقی دی جاتی ہے تو اس سے مرضی کے کام لئے جاتے ہیں۔ تجزیہ کار و سینئر صحافی توصیف خان نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے کچھ لوگ بھی کہتے ہیں کہ کوئی این آر او ہو رہا ہے کہ بالفرض اگر کوئی این آر او ہو رہا ہے تو یہ ہو نہیں سکتا۔ خبریں آئیں تھیں کہ دونوں باپ بیٹی دس سال کے لئے باہرچلے جائیں گے۔ مناسب ہے سپریم کورٹ خود ہی وضاحت کر دے وزیراعظم کیا فریاد لےکرگئے تھے۔ نواز شریف کہتے ہیں چیف جسٹس نے ایگزیکٹو کا کام بھی سنبھال لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کہیں غلط تقرری ہوئی ہے تو چیف جسٹس اس کو ختم کرنے کا اختیار تو رکھتے ہیں۔ سینئر صحافی امجد اقبال نے کہا سوال یہ ہے کہ این آر او ہو کس سے رہا ہے میرا خیال میں کوئی این آر او نہیں ہو رہا یہ صر ف تاثر دیا جا رہا ہے فوج نے کئی بار وضاحت کی کہ ہم جمہوریت کے ساتھ ہیں اور سسٹم کو نقصان نہیںپہنچائیں گے۔ بالفرض اگر کوئی این آر او ہو بھی رہاہے اس کا مطلب ہے عدالتیں مداخلت کر رہی ہے۔ تجزیہ کارطارق ممتاز نے کہا کہ شہباز شریف اگر یہ سوچتے ہیں ایسا این آر او ہو جائے کہ نواز شریف ایک طرف ہوجائیں اور وہ آگے آ جائیں تو عدلیہ اور فوج کی ساکھ خراب ہو جائے گی۔ عوام سمجھیں گے ملک میں انصاف ممکن نہیں۔ سب کو نواز شریف کی اور شہباز شریف کی کرپشن نظر آ رہی ہے۔ ممتار بھٹو اور حفیظ پیرزادہ ذوالفقاربھٹو کو جب پھانسی ہونی تھی تو کچھ لوگ فریاد لے کر ضیاءالحق کے پاس جاتے تھے معلوم نہیں وہ فریاد لے کر جاتے تھے یا کوئی اورمقصد تھا۔ بیشتر جونیئر کہتے ہیں ہمیں پوسٹنگ نہیں چاہئے کہیں پھنس نہ جائیں۔ انہوں نے کہا کہ بڑے فخرکی بات ہے غلاف کعبہ ایک پاکستانی فیملی بناتی ہے۔