تازہ تر ین

شہباز شریف ذہین ہیں ،فوج اور عدلیہ سے بگاڑ کر وزیر اعظم کیسے بنیں گے

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا کہ دعا ہے کہ وزیراعظم ٹیکس اصلاحات میں کامیاب ہوں لیکن میں نہیں سمجھتا کہ ایسے مرحلے پر جب ان کی رخصتی میں چند ماہ باقی ہیں، وہ اپنے اعلان پر کام کر سکیں۔ اگر ایسا پروگرام لانا ہی تھا تو حکومت بنتے ہی یا پھر جب خود وزیراعظم بنے تھے تو اس وقت لے آتے تو شاید کچھ کام کر سکتے۔ حکومت کی مدت پوری ہونے والی ہے، ایسے مرحلے میں ٹیکس اصلاحات کے اعلان کو کوئی سنجیدگی سے نہیں لے گا۔ نوازشریف کے نااہل ہونے اور شاہد خاقان عباسی کے وزیراعظم بننے کے بعد عملی طور پر صورتحال یہ ہے کہ سارا کام ٹھپ ہو چکا ہے۔ کسی وزارت یا محکمے میں کوئی کام نہیں ہوا، کوئی نیا پروجیکٹ نہیں بنا۔ پالیسیاں دنوں میں کامیاب نہیں ہوتیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ضیا دور سے اب تک ہر حکومت نے دعویٰ کیا کہ ٹیکس بیس بڑھا رہے ہیں، ٹیکس دینے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ باہر پیسہ لے جانے والوں کے لئے خصوصی سکیم لا رہے ہیں تا کہ وہ اپنا پیسہ واپس لے آئیں۔ میں نے آج تک کوئی ایک بھی شخص ایسا نہیں دیکھا جس نے کہا ہو کہ وہ باہر سے پیسہ پاکستان لے کر آئے گا۔ انہوں نے بتایا کہ ضیا دور میں معروف ماہر معاشیات محبوب الحق ہوتے تھے۔ میں نے ان کا تفصیلی انٹرویو کیا تھا جو جنگ اخبار کے فرنٹ و بیک پیج دونوں مکمل صفحات پر شائع ہوا تھا۔ انہوں نے بھی کہا تھا کہ ملک میں کم لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ ٹیکس وصولی میں ہی ملکی مسائل کا حل ہے۔ سیاستدان بہت جھوٹ بولتے ہیں، اس وقت بھی بولتے تھے آج بھی بولتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بیرونی جوڈیشری کو دیکھیں تو مارشل لاءلگانے والے عدالت کو پہلے اعتماد میں لے لیتے تھے۔ پہلا مارشل لا لگانے والے ایوب خان کو سپریم کورٹ نے 200کیس میں جسٹفائی کیا تھا۔ اس وقت چیف جسٹس محمد منیر تھے، انہوں نے کہا کامیاب بغاوت جائز و آئینی ہے۔ مشرف کے بارے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ چیف ایگزیکٹو کو آئینی ترمیم کا بھی اختیار ہے۔ کہا گیا تھا کہ آئین کی بنیادی شقیں یعنی ”پارلیمانی جمہوریت ہونی چاہئے“ اس کو چھیڑے بغیر فرد واحد چیف ایگزیکٹو آئین میں ترمیم کر سکتا ہے۔ ضیا کو سپریم کورٹ نے جسٹفائی قرار دیا کہ انہوں نے بھٹو حکومت کا خاتمہ ٹھیک کیا ہے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ میں ان میں سے بہت سارے ججز سے ملا بھی ہوں۔ جسٹس نسیم حسن شاہ، جسٹس انوار الحق اور جسٹس منظور قادر سے ملاقات رہتی تھی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ مارشل لاءکو جائز قرار کیوں دیتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہم اس لئے ایسا کرتے ہیں کہ جب ایک حکومت آ ہی گئی ہے تو پھر اسے ناجائز قرار دینا مناسب نہیں، اگر ایسا کریں گے تو پوری دنیا میں پاکستانی مسائل میں کھڑا ہو جائے گا۔ ہر حاکم ملک و ملت کے فائدے میں ہے۔ مارشل لا پر ججز کی فلاسفی عجیب ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک زمانے میں میں نوازشریف کو بہت پسند کرتا تھا۔ ایک کتاب لکھ رہا ہوں جس کا نام ہے ”میرا دوست محمد نوازشریف“ میرے ان کے ساتھ ایک زمانے میں گہرے دوستانہ طرز کے تعلقات تھے۔ اب تو ملاقات ہوئے بھی عرصہ گزر گیا۔ پرویز رشید نے ان کا بڑا ساتھ دیا، مخلص ہیں۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ آپ کو چابلوسوں نے گھیرا ہوا ہے۔ پرویز رشید چاپلو نہیں۔ وہ نوازشریف پر تنقید بھی کر لیتے ہیں۔ میرے ان سے اچھے تعلقات ہیں۔ میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ نوازشریف نے ہر قدم پر غلط فیصلے کئے، آپ تو بات کر سکتے تھے۔ 15 سال سے کسی ایک شخص نے بھی نواز پر تنقید نہیں کی۔ پانامہ انکشافات کے بعد نوازشریف نے ہر قدم پر غلط فیصلے کئے۔ اگر میں اس وقت ان کا کوئی جاننے والا ہوتا تو مشورہ دیتا کہ اپنے خاندان کے بیان ایک کریں۔ ہر کوئی مختلف بیان دے رہا ہے۔ ان کے کسی چاہنے والے نے مشورہ نہیں دیا کہ بیانات میں تضاد نہ آنے دیں۔ نوازشریف پھنس گئے ہیں، ان کے گرد منافقوں و بے وقوفوںکا ٹولہ جمع ہو گیا تھا، اردگرد کے لوگوں نے شریف آدمی کو مروا دیا۔ نواز کے بارے سب سے زیادہ مشہور ہے کہ کبھی کسی نے ان کو نقصان نہیں پہنچایا، انہوں نے ہر حکومت اپنی خراب کی، ناکام کیا اور حکومت سے نکلے۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کی آرمی چیف سے ملاقات ضرور ہوئی ہو گی کیونکہ تردید بھی گول مول آئی تھی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پچھلے 72 گھنٹوں میں ملاقات نہیں ہوئی اس سے پہلے ہوئی ہو تو معلوم نہیں۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ و وقت نوٹ کر لیں۔ شہباز شریف 3 دفعہ نواز شریف سے مختلف لائن لے چکا ہے۔ نواز دن رات برا بھلا کہتے ہیں جبکہ شہباز شریف فوج، عدلیہ و نیب کی تعریف کرتے ہیں۔ وہ زیادہ پریکٹیکل آدمی ہیں۔ تاریخ میں کوئی مائی کا لعل پیدا نہیں ہوئے جو بیک وقت فوج و عدلیہ دونووں سے بگاڑ کر حکومت چلا سکے۔ شہباز شریف ٹھیک کر رہے ہیں اگر وزیراعظم بننا ہے تو اسی طرح چل سکتے ہیں۔ اگر بھائی کی محبت میں بھتیجی کے انداز میں دھمکیاں دیں گے تو ایک دن بھی نہیں چل سکیں گے۔ ماہر معاشیات ڈاکٹر لال خان نے کہا کہ وزیراعظم کا ٹیکس اصلاحات کا اعلان ایسی کیفیت ہے جب آپ تنکے کا سہارا لے رہے ہیں اور ڈوب رہے ہیں۔ زرمبادلہ کے بیرونی ذخائر کا شدید خسارہ ہے۔ وزیراعظم کے اعلان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ جب بحران بڑھے گا تو بھی عام آدمی پر بوجھ پڑے گا جس کے پیسے باہر پڑے ہیں ان کا کچھ نہیں کر سکیں گے۔ حکومت جوں جوں ایسے اقدامات کی طرف بڑھے گی، پیسہ آنے کے بجائے باہر جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک ٹیکس بیس بڑھانے کی بات ہے تو یہ سرمایہ دار طبقہ ہے جو تاریخ میں اس وقت حاکمیت میں آیا جب اس کا وقت گزر چکا تھا اور سامراجیت کا غلبہ تھا۔ 1944ءکے بعد آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے اسی لئے بنائے گئے تھے کہ اس کی بنیاد پر عالمی طور پر سامراجی کنٹرول، استحصال اور لوٹ مار برقرار رکھی جا سکے۔ جتنی سیاسی جماعتیں افق پر ہیں پیسے کی وجہ سے ہیں۔ ان کے تمام لیڈر، پالیسی میکرز کالے دھن کے بیوپاری یا سرمایہ دار ہیں جن کی ساری دولت باہر ہے۔ ٹیکس دے کر سرمایہ دار یہاں نہیں رہ سکے گا کیونکہ چوری، خزانے پر ڈاکہ مار کر، غیر قانونی اقدامات سے ہی ان کا سماجی رتبہ و مالیاتتی حیثیت قائم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت چین دنیا کا سب سے بڑا سرمایہ برآمد کرنے والا ملک ہے۔ کسی ملک یا ریاست کے سامراجی کردار اختیار کرنے کی پہلی علامت ہی ”ایکسپورٹ آف کیپٹل“ ہوتی ہے۔ پاکستان کے 89.7 بلین ڈالرز کے خارجی قرضے، 22 فیصد چینی قرضے ہیں، ان پر شرائط اس سے کم ظالمانہ نہیں جو آئی ایم ایف و مغربی سامراجی کرتے ہیں۔ چین کا کوئی پروگریسو کردار نہیں ہے، ان کے و ہمارے حکمرانوں کے درمیان بیوپار کے رشتے ہیں اس کو سمندر سے گہری و ہمالیہ سے اونچی دوستی کہہ کر لوگوں کو بے و قوف بنایا جاتا ہے، یہاں دوستیاں نہیں مفادات ہوتے ہیں۔ ماہر معاشیات ڈاکٹر حسن صدیقی نے کہا کہ وزیراعظم کے ٹیکس اصلاحات کے اعلان کے پورا ہونے کے زیروفیصد سے زیادہ امکان نہیں۔ کچھ لوگوں کو فائدہ ہو گا۔ جنہوں نے ٹیکس چوری کی، دولت لوٹی، بینکوں سشے قرضے لے کر معاف کرائے، ناجائز طریقے سے پیسہ بنایا ان کو ایمنسٹی آفر کر دی ہے۔ وزیراعظم کے اس اعلان کے بعد نوازشریف کا نعرہ ”ووٹ کی عظمت“ ختم ہو گیا۔ نون لیگ کے منشور میں واضح لکھا ہے کہ کالے دھن کو سفید نہیں کریں گے، اسی کی بنیاد پر ووٹ ملے تھے وہ بات ختم ہو گئی۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہمارا مقصد ریونیو کرانا نہیں بلکہ کالے دھن کو سفید کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو باہر سے پیسہ لے کر آئے گا وہ واپس بھی لے جا سکتا ہے۔ ٹیکس اصلاحات کا اعلان فیصلہ، پہلے پارلیمنٹ میں زیر بحث آنا چاہئے تھا، اس سے بہتری کی کوئی توقع نہیں۔ یہ تمام جماعتوںکے منشور کے خلاف ہے۔ ایک اور رشوت کا بازار گرم ہونے والا ہے۔انہوں نے کہا کہ ساری دنیا میں انٹرنیشنل معاہدے ہوئے ہیں، دہشتگردی و منی لانڈرنگ کو روکنے کیلئے کچھ قوانین بنے ہیں۔ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ ٹیکس چوری کر کے جو پیسہ باہر چلا گیا، دونوں ممالک ایک دوسرے کو معلومات فراہم کریں لیکن اس میں پیش رفت نہیں ہو رہی۔ دبئی نے معلومات دینے سے انکارکر دیا ہے۔

 


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain