تازہ تر ین

اداروں سے ٹکراﺅ ؟ مخالفین کا پراپیگنڈا

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) سابق وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ہم میں سے کسی نے ایک لفظ بھی پاکستان کے کسی ادارے کے بارے میں نہیں کہا خواہ اس کا تعلق ہماری قومی سلامتی کے ادارے ہوں یا اس کا تعلق ہمارے انصاف کے نظام سے ہو۔ ہم نے کچھ تنقید کی ہے تو وہ ایک فیصلے پر کی ہے۔ فیصلوں پر تنقید کرنے کا حق، اپنے تحفظات ظاہر کرنے کا حق پاکستان کا آئین سب کو دیتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے چینل ۵ کے پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں چیف ایڈیٹر خبریں ضیا شاہد کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کیا۔ انٹرویو سوالاً جواباً قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔
ضیا شاہد: جس طرح ٹاک شو ہو رہے ہیں۔ اس سے بالکل مختلف فکری انداز میں آپ سے چندباتیں کرنا چاہتاہوں۔ اس کی بنیاد یہ ہے کہ آپ ایک مدت سے اپنی سیاسی اپنی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کے شعبہ اطلاعات سے منسلک رہے ہیں اس کے میڈیا ایڈوائزر رہے۔ پی ٹی وی کے چیئرمین اور بعد ازاں وزیر اطلاعات بھی رہے لیکن غیر جانبداری جسے کہتے تھے وہ ہماری صحافت اور ہمارے میڈیا سے بالکل غائب ہو چکی ہے اور اب تو جو بندہ ملتا ہے جو کسی کے بارے میں گفتگو کر رہا ہوتا ہے یا تو اسے شیطان قرار دے دیتا ہے اور ساتھ ہی کسی دوسرے شخص کو جو اسے پسند آتا ہے اس کو فرشتہ قرار دیتا ہے اب درمیان بات کرنا بڑا مشکل ہو گیا ہے کہ کس کی بات کو سچ سمجھا جائے۔ لہٰذا میں آج کی نشست میں خاص طور پرانے دوست سے جس کا تعلق سیاست سے بھی رہا۔ شعبہ اطلاعات سے بھی رہا۔ پی ٹی وی سے بھی رہا۔ وزیراطلاعات بھی رہے۔ یہ جو موجودہ دور ہے اس کا شمار آپ کسدور میں کریں گے۔ مثال کے طور پر رات اتفاقاً ذکر آیا تومیں نے آپ کی بڑی تعریف کی۔ میں نے کہا بہت محنتی سیاسی ورکر رہے ہیں۔ سیلف میڈ آدمی ہیں۔ میاں محمد نوازشریف کے سیاسی معتقدین سے زیادہ ان کے عاشقوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اور میں نے آپ کا وہ واقعہ بھی سنایا جو آپ نے مجھے بتایا تھا اور لندن سے ہمارے نمائندے وجاہت علی خان نے بھی اس کی تصدیق کی تھی کہ جب میاں صاحب واپس پاکستان آ رہے تھے تو اگر پرویزرشید صاحب کچھ دیر کے لئے رک جاتے تو ان کے کاغذات فائنل ہونے والے تھے ان کو برطانیہ کی شہریت مل جاتی جس کے لئے لوگ بڑی کوشش کرتے ہیں لیکن پرویز رشید صاحب نے کہا کہ نوازشریف صاحب جا رہے ہیں میں بھی ان کے ساتھ جاﺅں گا۔ میں آپ کی اچھی باتوں کی تعریف کرتا ہوں البتہ جن باتوں پر اختلاف ہے کھل کر آپ کے سامنے بھی بات کرتا ہوں۔ آپ کے لیڈر نوازشریف کے سامنے بھی جس بات کو صحیح سمجھا ہے اس کو کیا ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ آج جو سچائی ہے وہ کسی جگہ پر دکھائی نہیں دیتی اور تین بندوں نے رات اور آج صبح سے 7,6 بندوں نے کہا کہ یہ آپ کو کیا ہوا ہے۔ آج کل تو لوگ مسلم لیگ ن کے کاموں پر تنقید کرتے رہتے ہیں اور آپ پرویز رشید صاحب کی تعریف کر رہے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ ہم سچائی سے قریب ترین جو میڈیا ہے اس کو کیسے فروغ دے سکتے ہیں۔
پرویز رشید: اس بات سے قطع نظر جو آپ میری ذات کے حوالے سے جو بات کی ہے اس کو ہم ایک لمحے کے لئے بھول جاتے ہیں۔ میں نے خود بھی اس کا ذکر کبھی نہیں کیا نہ اس کی ستائش کی تمنا کبھی نہیں کی۔ چونکہ یہ بات کچھ لوگوں کے علم میں تھی اس وجہ سے عام ہو گئی (آپ کے ساتھ بھی میرا بہت وقت گزرا ہے) اس کا ذکر نہیں کرتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس کو پروپیگنڈا کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے اور پروپیگنڈا بھی ایسا کہ ہم نے پاکستان کی زندگی کے نازک ترین لمحوں میں جب ہماری سلامتی داﺅ پر لگی ہوئی تھی (ذرا اخبارات اٹھا کر دیکھیں اس زمانے کے) یوں لگتا تھا کہ ہر طرف امن ہے سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ پاکستان کی سرحدیں محفوظ ہیں اور اچانک لوگوں پر بم گرتے تھے کہ ہم قومی سطح پر ایسے نقصانات اٹھا چکے ہیں۔ یہ وطیرہ آج کا تو نہیں ہے۔ آج سے نہیں ہے۔ ہم ایک طویل عرصے سے اس کا شکار ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم جمہوریت سے محروم ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم نے جمہوری نظم ونسق احتیار کیا ہے لیکن آج بھی ملک میں جو ویسٹرن انٹرس ہے اس کے گروہ حکمرانی کرتے ہیں۔ لہٰذا وہ اطلاعات کے شعبے کو بھی اپنے قبضے میں رکھتے ہیں اور لوگوں تک وہی بات پہنچاتے ہیں جو ان کے مقاصد کے حصول میں مدد دیتے ہیں۔ جب تک ہم جمہوریت حاصل نہیں کر لیں گے اس وقت ہم آزاد صحافت بھی حاصل نہیں کر سکتے اور اسی طرح پروپیگنڈے اور گمراہ کن اطلاعات کا شکار ہوتے رہیں گے۔
ضیا شاہد: آپ کی بات میں وزن ہے اور بہت ساری چیزوں کی آپ نے صحیح نشاندہی کی لیکن مصیبت یہ ہے کہ جب ہمیں موقع ملتا ہے۔ جیسے مجھے یا آپ کو۔ بات یہ ہےکہ آپ بھی اس دوڑ میں شریک ہوتے ہیں اور میں بھی اسی دوڑ میں شریک ہوتا ہوں۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ میں نے ایک زمانے میں آپ کے لیڈر محترم نوازشریف صاحب کو اور میرے ذہن میں کئی مرتبہ یہ آیا کہ پچھلے ادوار کے سارے پروگرام ایک ایک نقش یہاں محفوظ ہے۔ میں نے ہمیشہ یہ بحث کی کہ نوازشریف صاحب کے خلاف الزامات ہیں اور سوائے ایک الزام کے اس کو بھی انہوں نے چیلنج کیا ہوا ہے اور باقی الزامات ابھی ثابت نہیں ہوئے۔ میں اگر یہ کہوں کہ نوازشریف کرپٹ ہیں تو مجھے اصل میں یہ کہنا چاہئے کہ نوازشریف پر کرپشن کے الزامات ہیں جن کا وہ سامنا کر رہے ہیں۔ انہیں کرپٹ اس وقت قرار دینا چاہئے جب مجاز عدالت (جیسی بھی ہے) ان کے بارے میں سزا سنا دے یا فائنل فیصلہ دے دے۔ لیکن اس کے باوجود خود آپ نے بھی اپنے دور وزارت میں اور اس سے پہلے بھی آپ نے بھی ان لوگوں کی آبیاری کی، ان کے سر پر ہاتھ رکھا، ان سے محبت پیار کیا جو یکطرفہ طور پر آپ کی، آپ کی جماعت اور آپ کے لیڈر کی واہ واہ کرتے تھے اور مجھ جیسا شخص جس نے کبھی ان کی ذات کے حوالے سے بات نہیں کی۔ ہمیشہ ان کا احترام کیا ان کے بچوں کے بارے میں یہی کہا کہ کورٹ کا مسئلہ ہے عدالت جانے۔ مجھے امتنان شاہد صاحب نے اتنی دفعہ کہا میں پچھلے دس سال 22,20 مرتبہ آپ سے کہا کہ میرے بیٹے کی خواہش ہے کہ میں ایک انٹرویو کروں محمد نوازشریف صاحب کا۔ میں ان کے عروج و زوال کے ادوار کے میں ان کی سیاست میں آمد سے لے کر اب تک بہت قریب سے دیکھا ہے میرے پاس شاید زیادہ بہتر سوالات ہوں۔ آپ نے ہمیشہ یہ جملہ کہا کہ ہاں ٹھیک ہے ضرور کر لیں گے پر کبھی اس انٹرویو کا اہتمام نہیں کیا۔ آپ میرا موقف یہ ہے کہ آپ بھی اتنے ہی جتنا میں جانبدار ہوں جتنے میرے دوسرے ذاتی دوست ہیں۔ میری یہ خواہش ہے کہ بطور دانشور بطور سرخے سمجھے والے شخص کے میں یقین دلاتا ہوں میں آپ کو پسند کرتا ہوں بحیثیت ایک سوچنے سمجھنے والے اچھے جینوئن پولیٹیکل ورکر کے، لیکن عمل کا وقت آیا آپ کو اتنے ہی متعصب، اتنے ہی تنگ نطر، اتنے ہی جانبدارانہ سوچ کے مالک تھے یہ میرا الزام ہے۔
پرویز رشید: پہلے تو میں غالب کا سہارا لوں گا۔کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیبگالیاں کھا کے بھی بے مزا نہ ہوا.
ضیا شاہد: تین سال بھی اگر میری زندگی رہی تو میں آپ کو کبھی گالی نہیں دوں گا۔ آپ کے کسی بدترین مخالف کو کہتا ہوں میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ اس بندے میں یہ خوبی ہے یہ خوبی ہے۔
پرویز رشید: ضیا صاحب! میری اور آپ کی تو ذاتی طور پر ایک طویل رفاقت ہے ابھی تو ہم ایک اور حوالے سے گفتگوکر رہے ہیں اور اس میںآپ نے جو شکایت کی ہے اسے میں تسلیم کرتا ہوں۔ یہ کوتاہی ہے ہماری کہ ہم کوئی ایک بھی انٹرویو میاں صاحب پچھلے 4 سال میں نہیں کرا سکے اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔
ضیا شاہد: پرویز صاحب! پچھلے 9 سال میں، میرے نزدیک جب وہ لیڈر آف اپوزیشن تھے تو بھی اس موجودہ حکومت سے بھی ان کی شخصیت اہم تھی یہ ضروری نہیں ہوتا کہ حکمران ہی ہو تو اہم ہوتا ہے۔
ضیا شاہد: مختلف ادوار میں آپ کی جماعت کو، اس کے لیڈروںکو خاص طور پر آپ کے سربراہ کو بہت کرائسس میں دیکھا اور بہت ہمت اور حوصلے میں دیکھا اور میرے دل میں یہ ساری باتیں نقش ہیں میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ پہلی مرتبہ مری سے واپسی پر جب لاہور ریلی کے لئے نکل رہے تھے تو سینئر اخبار نویسوں کو انہوں نے بلایا تھا اور سی پی این ای اور اے پی این ایس کے صدور کے طور پر عہدیداروں کے طور پر ہم پنجاب ہاﺅس میں جمع ہوئے تھے۔ جب میں نے ایک صاحب کو دیکھا کہ وہ ایسی دھواں دار تقریر کررہے تھے کہ جناب یہاں سے چلتے وقت لاہور پہنچنے سے پیشتر اس سازش سے قوم کو آگاہ کر دیں آپ یقین جانیں جس طرح سے ترکی میں وہاں کے لوگوں نے وہاں کی فوج کا مقابلہ کیا تھا اور ٹینک الٹ دیئے تھے یہاں اس سے زیادہ بڑے مناظر سامنے آئیں گے۔ تو میں ان کی بات سنتا رہا بارہ منٹ انہوں نے گفتگو کی جب میری باری آئی تو میں نے ان سے کہا کہ مقدمات کو بالکل مقدمات کے طور پر عدالتوں میں لڑیں اور آپ کا کیس کمزور نہیں ہے یہ فسکل لاز کا کیس ہے آپ صحیح وکلا رکھیں آپ نے فوجداری کیسز کے وکلاءرکھے ہیں جیسے خواجہ حارث صاحب ہمارے بہت سینئر آدمی ہوتے تھے خواجہ سلطان یہ اس کے ہاﺅس کے ہیں۔ میں نے کہا جی فسکل لاز کے سارے معاملات مالی شکایات پر مبنی ہوتے ہیں۔ آخر میں میں نے کہا کہ میاں صاحب اگر آپ نے جوڈیشری اور فوج کے بارے میں کوئی ایک مہم چلائی تو اگر آپ کا میاب ہو گئے تو ہماری فوج کو نقصان پہنچے گا اور اگر ناکام ہوئے تو آپ کو نقصان پہنچے گا اور عدلیہ سے لڑائی لڑنے اور آشکارا کرنے کے لئے کہا جا رہاہے میرا دوستانہ مشورہ یہ ہے کہ آپ اس کی بجائے ٹیکنیکلی پروفیشنلی فسکل لاز کے ماہرین کے ذریعے اپنے کیس لڑیں اور آپ کا کیس کافی مضبوط ہے۔ پرویز رشید صاحب آپ خود اس کے ذمہ دار ہیں کہ قریب ترین ساتھی ہیں۔ ان کی عدلیہ کے بارے میں یلغار جتنی غیر ضروری تھی آہستہ آہستہ ان کو خود کم کرنا پڑی اور فوج کے بارے میں تو اب انہوں نے کہنا بھی چھوڑ دیا حالانکہ حلقہ این اے 120 کے الیکشن میں ان کی صاحبزادی مریم نواز نے جو کہا نہ آپ میں سے کسی نے ان کو منع کیا کہ یہ راستہ صحیح نہیں ہے اور آپ سارے لوگ ہلہ شیری کرتے رہے کہ ”پے جاﺅ“ اور اس کے نتیجے میں آپ نے اس شریف آدمی کو گھیر گھار کر ایسی تنگنائے میں دھکیل دیا ہے کہ وہ نکلے جوڈیشری کے خلاف مہم میں تو ادھر آرمی چیف کہتا ہے ہم تو سپریم کورٹ کا تحفظ کریں گے اس کا مطلب ہے اس ملک میں خانہ جنگی ہو گی جو کبھی نوازشریف چاہیں گے نہ آپ چاہیںگے۔ پھر میں نے اس سے بڑا سوال کیا کہ جناب محمد نوازشریف پر فلیٹوں والاالزام لگا اللہ کے بندے آپ پرویز رشید صاحب آپ ان کو مشورہ دیتے کہ گھر میں سارے لوگوں کو ایک جگہ جمع کر لیتے ان کا کیس میں سب سے زیادہ ٹیلی ویژنن چینلوں نے ان کے تضاد کو نمایاں کر کے خراب کیا ہے کہ جی انہوں نے اسمبلی میں ایک بات کہی، باہر دوسری کہی بیٹے نے تیسری کہی، بیٹی نے چوتھی کہی، داماد نے پانچویں کہی، سمدھی نے چھٹی کہی۔ دیکھیں آپ سیانے لوگ خود قانون سے واقف ہیں۔ تین دفعہ وہ وزیراعظم رہے، ایک دفعہ وہ وزیراعلیٰ رہے ایک ایک قانون کی موشگافی سے واقف ہیں لیکن آپ یہ نہیں کہہ سکتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ لوگ ان قصور واروں میں شامل ہیں جو اس شریف آدمی کو صحیح مشورہ نہیں دیا۔ آپ پانچ منٹ میں بیٹھ جاتے کہ پانچ بندے گھر کے کہ اس معاملے پر کیا نقطہ نظر اختیار کرنا ہے۔ آپ سارے چپکر کے بیٹھے رہے اور وہ ایک کے بعد دوسری غلطی کرتے رہے اور اب اس میں پھنسے ہوئے ہیں۔ آپ تاریخ کے سامنے تو آپ جوابدہ ہیں نا پرویز رشید صاحب! لیکن آپ اس بات کا جواب دینے کے پابند نہیں ہیں کہ جو غلط راستہ ہو سکتا تھا وہ آپ لوگوں نے اپنی موجودگی میں خاموشی اختیار کی یا ان کو ہلہ شیری دی حتیٰ کہ ان کو جو سارے راستے انہوں نے تجویز کئے تھے کہ وہ مہم چلائیں گے عدلیہ کے خلاف چلائیں گے فوج کو ایکسوز کریں گے۔ فرشتوں سے آ کر ووٹ ڈلوا رہے ہیں۔ یہ ساری چیزیں ان کو چھوڑنی پڑیں اور آج آپ کی سیاسی جماعت کے سربراہ محمد شہباز شریف کو یہ بھی کہنا پڑ رہا ہے کہ میں آرمی چیف سے ملا تھا، یہ بھی کہنا پڑ رہا ہے کہ آرمی چیف اچھا کام کر رہے ہیں ان کو بار بار کہنا پڑا کہ عدلیہ کے خلاف مہم نہ چلائی جائے۔
پرویز رشید: ہم میں سے کسی نے ایک لفظ پاکستان کے کسی ادارے کے بارے نہیں کہا۔ خواہ اس کا تعلق ہماری قومی سلامتی کے اداروں سے ہو، خواہ اس کا تعلق ہمارے انصاف کے نظام سے ہو۔ ہم نے کچھ تنقیدکی ہے تو وہ ایک فیصلے پر کیا ہے۔ فیصلوں پر تنقید کرنے کا حق، فیصلوں پر اپنے تحفظات ظاہر کرنے کا حق پاکستان کا آئین ہم سب کو دیتا ہے۔ اس لئے جب ایک عدالت سے آپ کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو آپ اس سے بڑی عدالت میں اپیل میں جاتے ہیں اور کہتے ہیں فیصلہ غلط ہے اس عدالت سے جو فیصلہ آتا ہے تو آپ تیسری عدالت میں جاتے ہیں اور وہاں جا کر کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ غلط ہے سابق اٹارنی جنرل جن کا تعلق ہماری مخالف جماعت سہے وکلا جو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدور رہ چکے ہیں۔ سیکرٹریز رہ چکے ہیں۔ بار کونسل کے اراکین رہ چکے ہیں انہوں نے اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار نہیں کیا۔ کسی فیصلے پر تنقید کرنا ہمارا حق ہے اس فیصلے کے بعد ہم جہانگیر ترین کے مقابلے میں کامیابی حاصل کی اور پھر جو ہم نے جلسے کئے ہیں ان میں لوگوں کی تعداد شامل ہوتی ہے اور جو سلوگن لوگوں نے اختیار کر لئے ہیں کہ ووٹ کو عزت دی جائے احترام دیا جائے۔ یہ بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ ہم نے جو راستہ اختیار کیا تھا وہ دوست ہے اور پاکستان کے عوام نے اس راستے پر لبیک کہا ہے آج سب ہم یہ کہتے ہیں کہ نوازشریف صاحب کو پانامہ کے بہانے میڈیا ٹرائل کیا گیا اور وہ تمام الزامات لگائے جس کا شروع میں آپ نے خود ذکر کیا کہ نہیں لگنے چاہئیں جب تک کہ وہ ثابت نہ ہو جائیں۔ اقامہ کے بہانے وزارت عظمیٰ سے محروم کیا گیا۔ یہ ایک شخص کو وزارت عظمیٰ سے محروم کرنے کا سوال نہیں۔ نوازشریف کی ذات کا سوال نہیں ہے یہ میرا حق ہے مجھے میرے وزیراعظم سے محروم کیا گیا اور میں پاکستان کا عوام ہوں۔ پاکستان کی عوام کی اس اکثریت سے تعلق رکھتا ہوں جنہوں نے اپنا وزیراعظم منتخب کیا تھا۔ ہم نے عوام کو ان کے وزیراعظم سے محروم کیا۔ پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کے صدر کو محروم کیا گیا۔ میری جماعت کو سینٹ میں بحیثیت جماعت کے انتخاب میں حصہ لینے سے محروم کیا گیا۔ پھر میں اس الیکشن کے بارے میں کہوں گا کہ میری جماعت کو الیکشن سے پہلے نقصان پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جو میں نے کہا اس پر فخر ہے اور تسلیم کرتا ہوں۔ عوام میں اپنا مقدمہ لڑتا رہوں گا اس کا نشانہ کوئی نہیں ہے لیکن اداروں کی طرح منتخب نمائندوں اور ایوانوں کی بھی عزت و احترام ہونا چاہئے۔ سب کو آئین کی حدود میں فریضہ انجام دینا چاہئے۔
ضیا شاہد: میں نے آپ کی توجہ دلائی تھی کہ آپ بھی اس گروپ میں شامل ہیں۔ ہر اہل اقتدار کے گرد بہت سارے لوگ جمع ہو جاتے ہیں۔ آپ تو خیر پرانے ساتھی ہیں۔ جو نئے آتے ہیں وہ ایسی گفتگو کرتے ہیں کہ ”جو شاہ کو ہو پسند، وہی بات کریں گے“ نوازشریف نے پارلیمنٹ سے احتساب عدالت و پریس کانفرنسوں سے مختلف جلسوں تک، میڈیا نے ان کے بیانات میں اتنے تضادات دکھائے اس کی کیا ضرورت تھی؟ آپ کی پلاننگ کی غلطی ہے یا انہوں نے خود یہ طریقہ کار اختیار کیا؟
پرویز رشید: انٹرویوز کا عرصہ 18,19 سال پر محیط ہے۔ پورے انٹرویو کو دیکھیں تو تضاد نہیں۔ مخالفین کوئی ایک حصہ اٹھا لیتے ہیں پھر کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ نوازشریف کے والد بہت بڑے کاروباری آدمی تھے، ان کا کاروبار پاکستان میں تھا۔ ماڈل ٹاﺅن والی 80 کنال زمین ہے جو 1960ءمیں خریدی گئی، وہاں 7 بھائیوں کے گھر بنے تھے۔ اس وقت وہ زمین کروڑوں کی تھی آج اربوں کی ہو گی۔ جو اس وقت اتنی مہنی زمین خرید سکتے ہیں ان کے لئے لندن میں دو دو کمروں کے فلیٹ خریدنا کسی بھی زمانے میں مشکل کام نہیں رہا ہو گا لہٰذا ان کے کسی اثاثے کو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کے کاروبار یا آمدنی سے زیادہ ہے۔
ضیا شاہد: میں نے ہر گز یہ نہیں کہا کہ نوازشریف کے والد صاحب مالدار نہیں تھے۔ ان کے کاروبار کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ میں نے یہ پوچھا ہے کیا وجہ ہے کہ نوازشریف ضد کرنے کے بجائے کیوں نہیں مانا جو چیزیں ٹی وی پر دکھائی گئیں ان میں اتنا تضاد تھا جس سے خوامخوہ معاملہ مشکوک ہو گیا۔ حالانکہ میں واقعی سمجھتا ہوں کہ ان کے لئے گھر خریدنا بڑی بات نہیں۔ اتنے مختلف بیانات کیوں دیئے، آپ میرے اس سوال کا جواب نہیں دے رہے۔
پرویز رشید: حسن و حسین نواز، بیگم کلثوم کے انٹرویوز، میاں صاحب کی اپنی تقریر ہے۔ کسی دن ان ساری چیزوں کو لے کر آپ کے ٹی وی پر بیٹھ جائیں گے، ان سب کے پورے حصے دکھائیں گے پھر مجھے بتایئے گا کہ تضاد کہاں ہے۔ کوئی تضاد نہیں، دادا کی جائیداد تھی جنہوں نے انتقال سے پہلے اپنے پوتوں کے نام کر دی۔ چھوٹی اور مختصر کہانی ہے جس کو افسانہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ضیا شاہد: کسی بھی دور میں نوازشریف کے منہ سے کوئی سخت بات نہیں سنی، وہ سخت و متشدد الفاظ استعمال نہیں کرتےے لیکن ان کے ساتھی عابد شیر علی سے رانا ثنا تک، دانیال عزیز سے طلال چودھری تک انہوں نے دائیں بائیں بہت حملے کئے۔ نہال ہاشمی نے تو حد ہی کر دی۔ کسی کو ایسے گالی دینا، ایسے لوگ آپ نے منتخب کئے۔ نہ جانے کراچی سے یہ سنیٹر آپ نے کیسے چنا۔ ان لوگوں نے نوازشریف کی خدمت نہیں کی بلکہ مسائل کھڑے کئے۔ آپ ایک بار نہیں کہہ سکے کہ شائستگی کی حدود میں رہو؟
پرویز رشید: آپ کی بات سے سو فیصد متفق ہوں۔ ایک غلط چوائس تھی، غلطی ہوئی تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن جو انہوں نے گفتگو کی اس کی گونج بھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ نوازشریف نے فیصلہ کیا کہ ان سے استعفیٰ لے لیا جائے اور لے لیا گیا۔ جو خود انہوں نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر چیئرمین سینٹ کو دیا اور دوسرے ہی دن واپس لے لیا اور پھر اپنے استعفیٰ دینے کے عمل سے ہی منکر ہو گئے۔ ہمارا ان کے ساتھ اس کے بعد کوئی رابطہ نہیں، ان تک واضح پیغام پہنچا دیا تھا کہ آپ نے انتہائی غلط گفتگو کی، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔
ضیا شاہد: مریم نواز کو بیٹی سمجھتا ہوں، نرم مزاج پڑھی لکھی خاتون ہیں۔ ان کی منطق عجیب ہے، کتنے جلسوں میں سنا وہ کہتی ہیں کہ عوام نے ووٹ دیا تھا کسی کو حق حاصل نہیں کہ اسے نااہل قرار دے دے۔ آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا یہ کوئی سند ہے، اگر نوازشریف کو عوام نے ووٹ دیا تھا تو اب رہتی دنیا تک اس کو 7 قتل و چوریاں معاف ہیں۔ یہ کیسی دلیل ہے؟ کون سی جمہوریت ہے؟ کہ عوام نے ووٹ دیا تھا لہٰذا ان پر کوئی الزام نہیں لگایا جا سکتا۔
پرویز رشید: نوازشریف نے احتساب عدالت کے باہر کھڑے ہو کر کہا ہے کہ اگر مجھ پر کوئی بدعنوانی کا الزام ثابت ہوجاتا اور عدالت بدعنوانی میں نااہل کرتی تو میں آئندہ کیلئے سیاست سے قطع تعلق کرتا اورشرمندگی سے سر جھکا کر گھر چلا جاتا۔ مریم کی شکایت عوام کی شکایت ہے، 70 سال سے ایسے ہی ہوتا آ رہا ہے، منتخب وزرائے اعظم کو حیلے بہانوں سے الزامات کی زد میں لایا جاتا ہے پھر اسی کی آڑ میں سیاست سے باہر نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہی ہمارے ساتھ ہوا، ماضی میں بھی ایسا ہوتا آیا ہے۔ اس لئے اس دفعہ مریم نواز کا ردعمل زیادہ تلخ ہے اور تلخی کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے۔ اس عہد کے ساتھ کہ آئندہ ایسا نہیں ہونے دیں گے اور ووٹ کی عزت و احترام بحال کرائیں گے۔
ضیا شاہد: شہباز شریف کے لئے وزیراعظم بننا اور پھر اسی طور پر کامیاب وقت گزارنا، اس کے لئے ضروری ہو گا کہ وہ اپنی سیاست کو نوازشریف سے الگ کریں۔ آپ کیا فرماتے ہیں؟
پرویز رشید: نوازشریف پر آج تک بدعنوانی کا کوئی الزام نہیں، نہ کوئی مقدمہ چل رہا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ ان کے بچوں کے اثاثے بظاہر ان کی آمدنی سے زیادہ نظر آتے ہیں۔ نون لیگ کا ایک بیانیہ ہے جو نوازشریف نے اختیار کیا ہے کہ ”ووٹ کی عزت و احترام ہو، منتخب وزرائے اعظم کو مدت پوری کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔“ آدھے راستے میں رکاوٹیں کھڑی نہ کی جائیں اور گھر واپس بھیجنے کے لئے اقامہ جیسے الزامات کا سہارا نہیں لینا چاہئے۔ یہ ہمارا موقف ہے، عوام اس سے متفق ہیں۔ نون لیگ اس موقف کو اختیار کئے رکھے گی۔ پاکستان کے کسی بھی ادارے کے ساتھ کسی سیاسی جماعت کا کوئی ٹکراﺅ نہیں ہونے جا رہا یہ ہمارے مخالفین کا پروپیگنڈا ہے۔ کوشش ہو رہی ہے کہ ہمیں انتخابات سے پہلے انتخابات سے باہر کر دیا جائے، جسے ہم کامیاب نہیں ہونے دیںگے۔
ضیا شاہد: نون لیگ پر اکثر الزام لگتا ہے خاص طور پر پنجاب میں کہ 35 سال سے حکومت میں ہیں لیکن کچھ کیا نہیں۔ آپ کی جماعت کو بہت عروج بھی ملا، میں نے خود بھی دیکھا لیکن کہا جاتا ہے کہ این اے 120 کے الیکشن میں حلقے میں آدھی رات تک سڑکیں بنتی رہیں، سوئی گیس لگتی رہی، نوکریاں تقسیم ہوتی رہیں۔ ہر گھر میں آپ نے لوگوںکو نوکریاں دی ہوئی ہیں، لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ کامیابی اس کو کوئی قبول نہیں کرتا۔ طویل عرصہ دور اقتدار میں رہنے کے باعث آپ کا یہاں اثرورسوخ اتنا زیادہ ہے کہ کوئی تسلیم نہیں کرتا کہ یہ اصل میں پسندیدگی ہے یا احسانات کی باراش ہے جس میں ہر شخص دبا ہوا ہے۔
پرویز رشید: ایوب، ضیا، مشرف کے پاس نوازشریف سے زیادہ اقتدار رہا۔ شجاعت حسین، پرویز الٰہی بھی اقتدار میں رہے۔ عمران خان کے پاس بھی اقتدار ہے۔ پی پی کے پاس بھی سندھ و پنجاب میں ہم سے زیادہ اقتدار رہا ہے۔ ہم نے خلوص دل سے عوام کی خدمت کی، اسی لئے ان کی محبت ملتی ہے۔
ضیا شاہد: لاہور، ملتان، بہاولپور، بہاولنگر،ساہیوال وغیرہ اکثر گھومتا رہتا ہوں۔ لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ ووٹ کس کو دو گے؟ کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے نوازشریف پر الزام لگا لیکن سچی بات یہ ہے کہ یہ اگر کوئی چار پیسے رکھتے بھی ہوں گے تو لوگوں پر کچھ لگاتے بھی رہے۔ نون لیگ نے کام بہت کئے ہیں۔ ترقی کے منصوبے بہت بنائے، عوام کیلئے بہت کچھ کیا۔ اب ان کے بیانات میں کچھ شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں، لوگ کہتے ہیں کہ اگر نوازشریف پر کوئی الزام بھی ہے تو انہوں نے خدمت تو کی ہے ناں؟
پرویز رشید: جو خدمت کی اس کا اعتراف کیا ہے۔ ہمارے خلاف پروپیگنڈے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ خدمت روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
ضیا شاہد: پروگرام کے آخر میں ضیا شاہد نے شکوہ کیا کہ نوازشریف کو صرف مریم نواز کے سیل سے کلیئر شدہ صحافیوں سے نہ ملایا کریں، ہمارے جیسے لوگوں سے بھی ملوا دیا کریں جو کوئی 4 سنجیدہ سوال پوچھ لے اس کا فائدہ ہو گا، درست جوافبات لوگوں تک پہنچیں گے۔ صرف واہ واہ نہ کروایا کریں۔
پرویز رشید:روز تو نہیں لیکن 10,8 دنوں میں کہیں نہ کہیں آپ کا ذکر ضرور ہوتا ہے۔ نوازشریف ہمیشہ آپ کی صحت کے بارے میں پوچھتے ہیں اور آپ کو سلام پہنچانے کا کہتے ہیں۔ آپ ہمیشہ دوستوں کی طرح یاد رہتے ہیں۔ میرے اور شریف برادران کے ساتھ بھی آپ کے ذاتی تعلقات ہیں۔ ہم آپ کا ذاتی طور پر بھی اور بطور اخبار نویس بھی بہت احترام کرتے ہیں۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ عدالتوں کے پھیروں سے نجات ملتے ہی آپ کی نوازشریف کے ساتھ نشست کرائی جائے گی۔

 


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain