لاہور ( این این آئی، آن لائن ) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے ہیں کہ جب تک یہ عدلیہ ہے کوئی سفارش یا رشوت نہیں چلے گی، احتساب سب کا ہوگا اور قوم کی پائی پائی وصول کرکے واپس قومیخزانے میں جائے گی، تمام کمپنیز کے سی ای اوز کو سرکاری ملازمت کے برابر تنخواہ ملے گی اور جنہوں نے کمپنیوں میں تقرریاں کیں پیسے ان سے وصول کیے جائیں گے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل دو رکنی بینچ نے اتوار کو چھٹی کے روز بھی سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں مفاد عامہ سے متعلق از خود نوٹسز کی سماعت کی۔ صاف پانی کمپنی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف سیکرٹری پنجاب، سی ای او صاف پانی کمپنی کیپٹن (ر) محمد عثمان، سیکرٹری ہاﺅسنگ خرم علی آغا، ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب بریگیڈئیر (ر) مظفر علی رانجھا اور ایڈوکیٹ جنرل پنجاب سمیت دیگر اعلیٰ افسران عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے صاف پانی کی تشکیل سے متعلق چیف ایگزیکٹو آفیسر کی رپورٹ مسترد کر دی۔ اس موقع پر چیف سیکرٹری پنجاب نے عدالت کو آگاہ کیا کہ منصوبے پر 400 کروڑ روپے کے اخراجات ہوچکے ہیں اور معاملات اوپر جانے کی بجائے نیچے آتے رہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اتنے اخراجات اشتہاری مہم پر خرچ کر دئیے گئے لیکن منصوبہ مکمل ہی نہیں ہوا، یہ قوم کا پیسہ ہے سب کا احتساب ہوگا اور یہ واپس قومی خزانے میں جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 400 کروڑ روپے خرچ ہوچکے ہیں لیکن شہریوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں آسکا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب تک یہ عدلیہ ہے کوئی سفارش یا رشوت نہیں چلے گی۔ یہ میرے بچوں کا پیسہ ہے، قوم کی پائی پائی وصول کی جائے گی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ زعیم قادری کے بھائی عاصم قادری اور بیگم عظمیٰ قادری کو کس اہلیت پر بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل کیا گیا۔ سابق سی ای او صاف پانی وسیم اجمل نے بتایا کہ وزیراعلی پنجاب شہباز شریف نے اختیارات نہ ہونے کے باوجود صاف پانی کمپنی میں احکامات دئیے اور ان کی ہدایات پر مقامی ماہرین کو ہٹاکر بیرون ملک سے ماہرین بلائے گئے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ کیوں نہ نیب کو بھجوا دیں اورحقیقت سامنے آجائے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تمام کمپنیز کے سی ای اوز کو سرکاری ملازمت کے برابر تنخواہ ملے گی اور جنہوں نے کمپنیوں میں تقرریاں کیں پیسے ان سے وصول کیے جائیں گے۔ کمپنیوں میں جن لوگوں کو نواز ا جارہا ہے اس معاملے کو ایسے نہیں جانے دیں گے۔ 14 لاکھ روپے تنخواہ دے کر سرکار کے ملازم کو نوازا جارہا ہے تاکہ اس سے کسی اور موقع پر کام لیا جاسکے۔ چیف جسٹس نے کیس کی مزید سماعت 14 اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے صاف پانی کمپنی سے متعلق نیب کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے پراسیکیوٹر جنرل نیب کو عدالت میں طلب کر لیا۔ ایک اور سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے چیف سیکرٹری سے استفسار کیا کہ آپ کو ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں سہولیات کے فقدان کی لسٹ مہیا کی گئی گئی اس میں کیا پیشرفت ہوئی ہے۔ جس پر چیف سیکرٹری نے جواب دیا کہ مجھے ایسی کوئی لسٹ نہیں ملی۔ عدالت میں وائس چانسلر نشتر میڈیکل یونیورسٹی ملتان کی تعیناتی کے خلاف از خود نوٹس کیس کی بھی سماعت کی۔ عدالت نے سرچ کمیٹی کے ممبران کو 14 اپریل کو طلب کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر تنویر کو بھی پیش ہونے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جن پر تکیہ کرتے تھے وہ ہی دغا دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر فیصل مسعود کو دو بیڑیوں میں پاﺅں نہیں رکھنے دیں گے۔ عدلیہ کے ہوتے ہوئے سفارشوں پر کام نہیں کرنے دیں گے۔ ذوالواجی کے پروفیسر کو میڈیکل یونیورسٹی کا وی سی لگا دیا گیا ہے۔ عدالت کے ساتھ چلنا ہے تو دیانتداری کے ساتھ چلیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کو ہدایات ملتی ہیں تو آپ سفارش پر لوگوں کو تعینات کر دیتے ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ سرچ کمیٹی کے نام بتائیں۔ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ سرچ کمیٹی میں فیصل محمود، عامر عزیز، ڈاکٹر ایس محمد ممبران ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کنگ ایڈورڈ کو جانوروںکا ہسپتال بنانے لگے ہیں۔ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ڈاکٹر ظفر تنویر پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں۔عدالت نے مزید سماعت 14اپریل تک ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے قائداعظم سولر پاور پلانٹ اور پاور کمپنیوں پر ازخود نوٹس لے لیاہے ، ایڈوکیٹ جنرل کو پلانٹ پر آنے والی لاگت، بجلی کی پیداوار اور اخراجات کی مکمل تفصیلات جمع کروانے کا حکم بھی دیا گیا۔ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار، جسٹس اعجاز الحسن کی سربراہی میں دو رکنی ڈویژنل بینچ نے مفادات عامہ مقدمات کی سماعت کی۔ وائس چانسلر نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے تقرر کے خلاف از خود نوٹس کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وائس چانسلر نشتر میڈیکل کالج کی تعیناتی کے مقدمے میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جن پر تکیہ کرتے تھے وہ ہی دغا دے رہے ہیں، اس عدلیہ کے ہوتے ہوئے سفارشوں پر کام نہیں کرنے دیں گے، زولوجی کے پروفیسر کو میڈیکل یونیورسٹی کا وی سی لگا دیا گیا ہے۔ جسٹس اعجاالحسن نے ریماکس دیے کہ میڈیکل کالج کو جانوروں کا ہسپتا ل بنانے لگے ہیں کیا اسی لیے زولوجی کا پروفیسر وہاں پر لگا دیا گیا ہے۔چیف جسٹس نے پروفیسر فیصل مسعود کے بارے میں نشاندہی کی اور افسوس کا اظہار کیا کہ جن پر تکیہ کر رہے تھے وہ دغا دے رہے ہیں۔انہو ں نے باور کروایا کہ ڈاکٹر فیصل مسعود کو دو بیڑیوں میں پاﺅں نہیں رکھنے دیں گے ،عدالت کے ساتھ چلنا ہے تو دیانتداری سے چلیں۔چیف جسٹس آف پاکستان نے دوران سماعت قائد اعظم سولر پاور پراجیکٹ میں بدعنوانی کا نوٹس بھی لیا۔ عدالت عظمی نے آئندہ سماعت پر ایڈوکیٹ جنرل کو پلانٹ پر آنے والی لاگت، بجلی کی پیداوار اور اخراجات کی مکمل تفصیلات جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے نشتر میڈیکل یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے تقرر پر سرچ کمیٹی کے ارکان کو طلب کر لیا ہے اور ریماکس دیے ہیں کہ جن پر تکیہ کر رہے تھے وہی دغا دے رہے ہیں ۔عدالت کے ساتھ چلنا ہے تو دیانتداری کے ساتھ چلیںچیف جسٹس جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے وائس چانسلر نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے تقرر کے خلاف از خود نوٹس کی سماعت کی چیف جسٹس پاکستان نے حیرت کا اظہار کیا کہ ذوالوجی کے پروفیسر کو میڈیکل یونیورسٹی کا وی سی لگا دیا گیا اس موقع پر جسٹس اعجاالحسن نے ریماکس دئیے کہ کیامیڈیکل کالج کو جانوروں کا ہسپتال بنانے لگے ہیں کیا اسی لیے ذوالوجی کا پروفیسر وہاں پر لگا دیا گیا ہے ۔چیف جسٹس نے پروفیسر فیصل مسعود کے بارے میں نشان دہی کی اور افسوس کا اظہار کیا کہ جن پر تکیہ کر رہے تھے وہ دغا دے رہے ہیں چیف جسٹس نے باور کروایا کہ ڈاکٹر فیصل مسعود کو دو بیڑیوں میں پاو¿ں نہیں رکھنے دے گے عدالت کے ساتھ چلنا ہے تو دیانتداری سے چلیں جسٹس اعجاز الحسن نے افسوس کا اظہار کیا کہ ہدایات ملتی تو سفارش پر لوگوں کو تعینات کر دیا جاتا ہے سماعت کے دوران ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر تنویر پی ایچ ڈی ہے۔سپریم کورٹ کے دورکنی بنچ نے سرچ کمیٹی کے اراکین اور ڈاکٹر ظفر تنویر کوآئندہ سماعت پر طلب کر لیا ہے۔