لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ مجھے پی ٹی آئی کے کچھ لوگوں نے بتایا کہ پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ کے لئے جو نام دیا گیا تھا اس پر بہت سارے رہنماﺅں کو اختلافات تھے کیونکہ ناصر کھوسہ پنجاب کے چیف سیکرٹری تھے اور ان کے ماتحت کام کرنے والا عملہ آج ان سے زیادہ عہدوں پر کام کر رہا ہے۔ بیورو کریسی ناصر کھوسہ کی جیب میں ہے۔ اس احتجاج کے پیش نظر نام واپس لے رہے ہیں۔ ابھی صرف زبانی کلامی بات ہوئی تھی کسی تحریری درخواست پر دستخط نہیں ہوئے تھے ایسے میں نام واپس لینے میں کوئی بڑی بات نہیں۔ پی ٹی آئی کے اس فیصلے کی وجہ سے ملک بھر میں تشویش پائی جاتی ہے کہ کل کو یہ جماعت بڑے بڑے فیصلے کیسے کرے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو بھی وجہ ہو پی ٹی آئی کو میچورٹی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ عمران خان نے نگران وزیراعظم و وزیراعلیٰ پر اعتماد کا اظہار کیا، پھر نام دیکر واپس لینا ایسی بات ہے جسے آسانی سے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ بعض حلقے کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو شاید کبھی کوئی بڑا فیصلہ کرنے کا موقع نہیں ملا اس لیے ابھی وہ سیکھنے کے مراحل میں ہے اور ایسی غلطیوں سے شاید ان کی تربیت ہو جائے۔ محمودالرشید کی وزیراعلیٰ سے ملاقات سے پہلے ہی یہ نام دئیے جا چکے تھے جو میڈیا پر بھی آ چکے تھے۔ اب نگران وزیراعلیٰ کے نام پر پی ٹی آئی کے ناراض اراکین پہلے کیوں خاموش رہے۔ جب نام دیا تھا تو اسی وقت کہہ دیتے کہ یہ مناسب نہیں۔ پروگرام میں محمود الرشید سے بھی ٹیلی فونک رابطہ کیا، آخر میں انہوں نے خود ہی شکریہ ادا کر کے خداحافظ کہہ دیا۔ ان کا طرز عمل ناظرین کے سامنے تھا وہ نہیں بتانا چاہتے کہ ناصر کھوسہ پر مخصوص الزام کیا ہے۔ ان کے بارے میں پہلے بھی معلوم تھا کہ وہ بیوروکریسی میں رہے ہیں۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اچانک کوئی واقعہ ہوا ہے۔ ان سے غلطی ہوئی اب وہ اس پر مٹی ڈالنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شہبازشریف کی چودھری نثار بارے ”بچے“ والی بات درست ہے۔ چودھری نثار نے زندگی میں اتنی غلط بیانیاں کی ہیں کبھی کہتے تھے یہاں نہیں رہوں گا کیونکہ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد نے میری جگہ خود ہی ڈان لیکس کی رپورٹ جاری کردی۔ وزیر میں تھا یہ میرا کام تھا، اس کے بعد پھر ڈھٹائی سے بیٹھے رہے۔ پنجاب ہاﺅس میں ڈان لیکس کے مسئلے پر جب پہلی بار ان سے ملنے گئے تو انہوں نے کہا کہ انکوائری کمیٹی سے میرا کوئی تعلق نہیں، دوسری میٹنگ میں کہتے کہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ یہ آپ ہی کریں، پھر مان گئے۔ چودھری نثار کب مان جاتے ہیں، کب روٹھ جاتے ہیں یہ ایسی بات نہیں کہ پورا ملک بیٹھ کر اس پر غور کرے۔ 2سیٹوں کا مسئلہ ہے جس دن شہباز شریف نے یہ 2سیٹیں ان کو پیش کر دیں وہ پھر مان جائیں گے۔ اصل مسئلہ مریم نواز کا ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کو چیلنج کر چکے ہیں۔ اب جس کمیٹی نے ٹکٹ دینے ہیں اس میں مریم نواز خود موجود ہے۔ چودھری نثار کا اصل جھگڑا یہ ہے کہ نواز شریف پر جو انہوں نے تنقید کی تھی، جواب میں مریم نواز نے جو کچھ کہا اور اس سے پہلے پرویز رشید نے جو ان کی بے عزنی کلاس کی تھی اس پر ان کو ناراضی ہے۔ نواز شریف پرویز رشید کو ساری عمر نہیں چھوڑ سکتے اور پرویز رشید اپنے مشن پر ہیں۔ ان کا جب بھی چودھری نثار سے مقابلہ ہو گا تو پرویز رشید جیت جائیں گے۔ پوری قوم کو عجیب مسئلے میں ڈالا ہوا ہے۔ حیران ہوں کہ میڈیا کا اتنا وقت ضائع کیا گیا کہ چودھری نثار نے یہ کہہ دیا، انہوں نے وہ کہہ دیا۔ کیا ہیں یہ چودھری نثار؟ انہوں نے پہلے نواز شریف کی جوتیاں سیدھی نہیں کیں اب پھر کر لیں بلکہ پرویز رشید و مریم نواز کے پاﺅں پکڑ لیں کہ مجھے معاف کر دیں۔ انہوں نے کہا کہ سنا ہے کہ 4 مزید شہروں میں حلقہ بندیوں کی بنیاد پر الیکشن روک لئے گئے ہیں شاید 12 تعداد ہو گئی ہے اور کہا جاتا ہے کہ 20 سے25 تک ان کی تعداد چلی جائے گی، کوئی ایک پارٹی بھی اس مسئلے پر سپریم کورٹ چلی گئی تو پھر ظاہر ہے وقت لگے گا۔ بلوچستان اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 25 جولائی جو الیکشن کی تاریخ ہے اس وقت حاجی حضرات کی واپسی کا عمل ہوتا ہے۔ بہت ساروں نے ابھی واپس آنا ہوتا ہے ایسے میں عام انتخابات کا انعقاد درست نہیں ہو گا۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ الیکشن ضرور ہوں گے، ملک کو منتخب حکومت ضرور ملے گی۔ ماہرین بھی کہتے ہیں کہ انتخابات میں زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سے دو ماہ کی تاخیر ہو سکتی ہے۔ اگر انتخابات 25 جولائی کو نہیں ہوتے تو ایسا نہیں کہ یہ دوبارہ ہوں گے ہی نہیں۔ آئین کے مطابق اگر کوئی کام وقت مقررہ پر کسی وجہ سے نہیں ہو پاتا تو وہی کام آئینی طور پر آگے کی تاریخوں میں ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب سے 2 نہریں بند ہونے کی شکایات موصول ہو رہی تھیں، کہا جا رہا تھا کہ گنے کی فصل کا وقت ہے کاشت میں بہت مشکل آ رہی ہے۔ جمشید دستی نوجوان و جذباتی ہیں۔ انہوں نے ایک بار ہیڈ ورکس پر جا کر خود نہر کو کھلوا دیا تھا۔ اس پر ان کے خلاف قانونی ایکشن بھی ہوا تھا۔ جمشید دستی کئی دنوں سے دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ سنا ہے کہ ضلعی انتظامیہ و محکمہ آبپاشی کے حکام سے ان کے مذاکرات بھی ہو رہے ہیں۔ وزیر شادی خیل سے میرا رابطہ ہوا انہوں نے کہا کہ جمشید دستی کبھی زبردستی ہیڈ کھلواتے ہیں، کبھی کسی تھانے میں مار پٹائی کرتے ہیں، بہت سخت زبان کا استعمال کیا۔ وزیر نے بتایا کہ پانی پیچھے سے ہی کم آ رہا ہے لہٰذا جتنا پانی ان کے حصے میں آتا ہے وہ ہم ان نہروں کو دیتے ہیں جہاں سے آبپاشی کے علاوہ لوگ پینے کے لئے بھی پانی استعمال کرتے ہیں تا کہ انسان و جانور پینے کا پانی تو لے سکیں۔ وزیر کا کہنا تھا کہ چونکہ الیکشن آنے والے ہیں۔ جمشید دستی اپنی مقبولیت بڑھانے کے لئے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ جتنا پانی تھا اس کی منصفانہ تقسیم کی ہے، جمشید دستی کو قانون ہاتھ میں نہیں لینے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی رپورٹ جس میں اقلیتوں کو نشانہ بنانے کا کہا گیا ہے اس میں صرف پاکستان ہی نہیں انڈیا کا نام بھی موجود ہے۔ امریکہ کی جانب سے وقتاً فوقتاً ہمیں خوراک دی جاتی ہے کبھی پابندیاں لگانے کی دھمکیاں ملتی ہیں۔ جب آپ کمزور ہیں تو پھر اس طرح سے دھمکیاں ملتی رہیں گی اور ایسی رپورٹیں بھی جاری ہوتی رہیں گی۔ تحریک انصاف کے رہنما محمود الرشید نے کہا ہے کہ ناصر کھوسہ کا نام پبلک نہیں ہوا تھا، دوسرے کئی نام ہوئے تھے۔ ہم سے غلطی ہوئی وزیراعلیٰ شہباز شریف نے درخواست کی تھی کہ جو نام ہم نے پیش کئے ان میں سے باقی تو ڈراپ ہو گئے تھے 2 نام طارق سلیم ڈوگر اور ناصر سعید کھوسہ رہ گئے تھے۔ شہباز شریف نے درخواست کی ان کو صیغہ راز میں رکھیں ابھی پبلک نہ کریں۔ اگلی میٹنگ میں فیصلہ کریں گے پھر نام پبلک کر دیں۔ اگر یہ دونوں نام پہلے پبلک کر دیئے کہ حکومت و اپوزیشن کی طرف سے ایک ایک نام آیا ہے تو شاید جو ردعمل آنا تھا وہ ایک آدھ دن میں آ جاتا اور یہ نوبت نہ آتی۔ ہم نے تو نیک نیتی سے ناصر کھوسہ کی قابلیت و اہلیت کی وجہ سے ان کا نام دیا تھا، توقع نہیں تھی کہ اتنا شدید ردعمل آئے گا۔ ناصر کھوسہ کے نام پر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر سے شدید ردعمل سامنے آیا، جس پر پارٹی نام واپس لینے پر مجبور ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ روز عمران خان کی زیر صدارت کور کمیٹی کا دوبارہ اجلاس ہوا جس میں پنجاب و خیبرپختونخوا کے نگران سیٹ اپ پر دوبارہ بات ہوئی۔ اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ ناصر کھوسہ کے نام پر چونکہ شدید ردعمل آ رہا ہے۔ لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ شریف خاندان کی حکومت کا تسلسل ہے اس لئے پارٹی نے سوچا کہ ابھی وقت ہے نوٹی فکیشن نہیں ہوا لہٰذا نام واپس لے لیا۔ اب سوچ بچار کے ساتھ نیا نام دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ناصر سعید کھوسہ کے حوالے سے ساری بات زبانی کلامی ہوئی تھی، تحریری نہیں۔ ہم سے بھی غلطی ہو سکتی ہے۔ نام واپس لینے سے کوئی طوفان نہیں آ گیا۔ انہوں نے کہا کہ ناصر کھوسہ کے بارے میں اعتراضات تھے کہ یہ موجودہ حکومت کا تسلسل ہے۔ اپنے لوگوں سے اور میڈیا پر بھی یہ بات بہت سامنے آئی جس کی وجہ سے پارٹی کو فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔ ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمیشن افضل خان نے کہا ہے کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ حلقہ بندیاں صحیح انداز میں ہو جائیں۔ آئین میں یہ نہیں لکھا کہ آئینی کام 25 جولائی کے بعد نہیں ہو سکتا۔ عوام و امیدواروں کا ایک دوسرے کو جاننا بہت ضروری ہے۔ حلقہ بندیاں اطمینان کے ساتھ ہونا بہت ضروری ہیں اور بعد میں انتخابات ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حلقہ بندیوں کی وجہ سے عام انتخابات کی تاریخ متاثر ہو سکتی ہے لیکن اس سے کوئی نقصان نہیں اور نہ ہی یہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔ تجزیہ کار محسن ظہیر نے کہا ہے کہ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ہر سال ایک رپورٹ جاری کرتا ہے۔ امریکہ میں 2002 میں ”بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ“ کے نام سے ایک قانون بنا تھا، جس کے تحت پابند کیا گیا کہ دنیا کے تمام ملکوں میں مذہبی برداشت و تشدد کے حوالے سے ہر سال رپورٹ جاری کئے جائے۔ اس رپورٹ کو پیش نظر رکھتے ہوئے وائٹ ہاﺅس انتظامیہ اپنی پالیسیاں مرتب کرتی ہے۔ حالیہ رپورٹ میں پاکستان، بھارت، افغانستان و روس سمیت 50 مختلف ممالک کے نام ہیں۔ رپورٹ میں مذہبی آزادیوں کے حوالے سے مختلف صورتحال کو بیان کیا گیا اور تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ رپورٹ پالیسی کو مرتب کرنے اور فیصلہ سازی کے عمل میں پیش نظر رکھی جاتی ہے لیکن واشنگٹن اس رپورٹ کو ایک ٹول کے ذریعے بھی استعمال کرتا ہے۔ ایک خاص ٹرمم ہے CPC اگر رپورٹ کے تحت واشنگٹن کی جانب سے کسی ملک کو سی پی سی نامزد کر دیا جائے تو پھر امریکہ کو اس پر پابندیاں لگانے کے لئے جواز مل جاتا ہے۔