تازہ تر ین

جنوبی پنجاب بارے ” خبریں “ کے چیف ایڈیٹر کا بڑا کردار ہے ، صوبوں میں پانی کا مسئلہ بہت بڑا ایشو بن جائیگا ، بھارتی پنجاب کے 3 صوبے بنے ہمارے کیوں نہیں ؟ پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماءشاہ محمود قریشی کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں اہم گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) سابق وزیرخارجہ، پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بھارتی پنجاب کے تین صوبے ہماچل پردیش، ہریانہ اور پنجاب بن سکتے ہیں۔ ہمارے پنجاب کی آبادی 11 کروڑ ہے اور یہ بڑا بے ہنگم ہو گیا ہے اس میں بہتری لانے کی اشد ضرورت ہے۔ جنوبی پنجاب محرومیوں کا شکار ہے اس خطے کے عوام کی محرومیوں کے خاتمے کا وقت آ گیا ہے۔ صوبہ محاذ کے لوگ جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے لئے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے سیاستدان اپنے مطلب کے پکے ہوتے ہیں وہ کسی خلائی مخلوق کے کہنے پر کسی گڑھے میں چھلانگ نہیں لگاتے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے چینل ۵ کے پروگرام میں ضیا شاہد کے ساتھ خصوصی مکالمہ میں کیا۔ گفتگو سوالاً جواباً پیش خدمت ہے۔ضیا شاہد:اچانک کہیں سے اشارہ ہوا ہے اور پنجاب کے وزیراعلیٰ نے تو خود پہلے ایڈیٹروں کی ملاقات میں مجھ سے یہ کہا کہ آپ یہ بتائیں کہ جنوبی پنجاب سے ہی ہمارے ایم این ایز کو پہلے پارٹی سے نکلوایا گیا اور پھر ان کو پی ٹی آئی میں شامل کروا دیا گیا ہے یہ تو ایک گرینڈ ڈیزائن کا حصہ ہے خواہ آپ اس کو خلائی مخلوق کے نام کچھ لوگ دیتے ہیں ہم اس کو کہتے ہیں کہ قوت ہے جو ن لیگ کے خلاف کام کر رہی ہے اور پی ٹی آئی کے حق میں کام کر رہی ہے۔ اس الزام کے جواب میں کیا کہتے ہیں۔شاہ محمود قریشی: جہاں تک جنوبی پنجاب صوبے کی ضرورت کا تعلق ہے یہ بات نئی بات نہیں اس کا آغاز 1970ءسے اس کا آغاز ہو گیا تھا اور مختلف لوگوں نے کالم لکھے، نظمیں ملیں گی کہ کس طرح اسش خطے کے ساتھ ناانصافی ہوئی۔ پھر کچھ ایسی وجوہات ہوئیں کہ جس سے کہ اس چیز میں اور تیزی پیدا ہوئی۔ ایک تو جو ایوب خان کے دور میں سندھ طاس معاہدہ ہوا اس میں جنوبی ریورز سرنڈر کئے گئے۔ ہندوستان کو اس سے یہ علاقہ متاثر ہوا اور یہاں پانی کی قلت پیدا ہوئی۔ ستلاج بیاس راوی جو یہاں سیراب کرتے تھے وہ بھارت کے حصے میں چلے گئے۔ اور یہ علاقہ متاثر ہوا اور دوسرا یہ 70ءکی دہائی میں بھٹو صاحب نے سندھ کی محرومی کو سامنے رکھتے ہوئے وہاں کے لوگوں کو احساس شمولیت دلوایا اور وہاں ایک رورل کوٹہ مختص کیا اس بنا پر کہ یہ علاقہ کراچی کی نسبت پسماندہ ہے تو یہاں بھی ایک آگاہی آئی کہ لاہور کی نسبت ملتان، ڈیرہ غازی خاں، بہاولپور محروم علاقہ ہے یہاں کالج، یونیورسٹیوں کا فقدان دیکھ لیں۔ تو کیا یہاں کوٹہ نہیں ہونا چاہئے تھا اور پھر جو ڈویلپمنٹ کے لئے رقمیں رکھی گئیں خاص طور پر مسلم لیگ کے ادوار نوازشریف صاحب، شہباز شریف صاحب غلام حیدر وائیں صاحب مختلف وزراءاعلیٰ آئے وائی صاحب نے کسی حد تک کوشش بھی کی ڈویلپمنٹ فنڈز دینے کا اس پر اس قدر ڈسٹارشن تھی کہ اس ضرورت میں زیادہ شدت پیدا ہوئی۔ جہاں تک پی ٹی آئی کا تعلق ہے عمران خان صاحب اس بات کی گواہی دیں گے کہ کم از کم دو ڈھائی سال میں ان سے مسلسل کہہ رہا ہوں کہ ہمیں اس طرف سوچنا چاہئے کیونکہ بنیادی طور پر آج پاکستان پر جو بات کی جا رہی ہے کہا جا رہا ہے بیڈ گورننس دنیا میں ڈیورلوشن آف پاور کا۔ اگر اختیار کو آپ کی دہلیز تک منتقل کرنا ہے تو پھر پنجاب 11 کروڑ کا صوبہ ہے بے ہنگم ہو گیا اسے مینج کرنا اس کو گورن کرنا اس کا ڈلیوری سسٹم کو اوورسی کرنا لاہور سے ناممکن ہو گیا تو تقاضا یہ ہے کہ ہم اس کو ازسرنو دیکھیں جیسے بھارت نے کیا۔ مشرقی پنجاب ہم سے چھوٹا تھا حصے کے لحاظ سے آبادی کے لحاظ سے آج وہ تین صوبے بن گئے۔ پنجاب، ہریانہ، ہماچل پردیش، جس طرح ضلع میں آپ بیٹھے ہیں ملتان میں یہ ایک زمانے میں ایک بہت بڑا ضلع ہوا کرتا تھا۔ آج ضرورت کے مطابق اس کے چار ضلع بن گئے۔ ملتان، خانیوال، وہاڑی، لودھراں تو جب ضرورت ایڈمنسٹریٹو اور مینجمنٹ کئے جاتے ہیں بہتر گورننس کے لئے یہ میرا ایک نقطہ نظر تھا کہ لسانیت سے پاک، بالاتر ہو کر عمران خان کو میں نے قائل کیا وہ مان گئے پھر ہم نے اپنی پارٹی کا فیصلہ کیا منشور کا اسے حصہ بنانا ہے اپنے پہلے 100 دن کے پروگرام میں۔ پھر اس کے ساتھ مسلم لیگ ن کے اس علاقے کے حضرات جو سمجھتے تھے ان علاقوں سے ایسا فیڈ بیک مل رہا تھا کہ ناانصافی ہو رہی ہے اور پارٹی سے ناخوش تھے انہوں نے اس ایشو کو اڈاپٹ کیا۔ میرے ان سے مذاکرات ہوئے خسرو بختیار کے ساتھ 15 مئی کو لاہور میں اور میں نے آپ مطالبہ کر رہے ہو تو یہ تو پی ٹی آئی کے منشور کا حصہ ہے۔ تو آپ پھر نہ سوچیں آپ ہمارا حصہ بنیں اور آیئے اور اس تحریک کو تقویت دیں تو وہ ہمارے ساتھ شامل ہوئے۔ خلائی مخلوق کا الزام لگایا جاتا ہے سیاست دان اپنے مطلب کا بڑا پکا ہوتا ہے خلائی مخلوق کا اس کو کہے تو وہ چھلانگ نہیں مارے گا جب تک اس کو اپنا مفاد دکھائی نہیں دے گا انہیں اپنا پی ٹی آئی میں آنے کا مفاد دکھائی دیا پی ٹی آئی کی مقبولیت کا گراف چڑھتا دکھائی دیا تو وہ آئے۔ اگر ان کو دکھائی نہ دیتا تو تقریروں سے ان کو قائل نہ کر پاتے۔ سیاست ضرورت ان کو مل گئی تو پی ٹی آئی میں آ گئے۔ ہمارے پاس بھی بہت سے علاقوں میں امیدواروں کی کمی تھی۔ ہمارے پاس موزوں امیدوار نہیں تھے یہ ایک ہوا اور وہ ہمارے ساتھ آ گئے۔
ضیا شاہد: میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس وقت اخبارات نکلتے رہتے ہیں۔ سب کی بڑی عزت کرتا ہوں۔ لیکن میں دیانتداری سے سمجھتا ہوں اور اب کافی لوگ مجھے کہہ بھی رہے ہیں کہ جنوبی پنجاب میں خبریں نے اپنی آمد سے پہلے دن سے لے کر آج تک اس علاقے کے لوگوں کے مسائل، سرائیکی زبان اور تہذیب اور ریگیرڈ لیس آف لینگوئج کی برادری کے یا کس سوچ کے اس علاقے کے رہنے والے سارے لوگوں کو خواہ وہ سرائیکی ہوں نان سرائیکی ہوں پنجابی ہوں پٹھان ہوں۔ اب تو بہت بلوچ اس میں آ گئے۔ پٹھان بہت سارے آ گئے یا مشرقی پنجاب سے مہاجر آ گئے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ میں آپ سے چاہتا ہوں۔ آپ ان مذاکروں کا حصہ رہے ہیں جن میں ہم مسلسل یہاں زراعت، پانی کا مسئلہ یہاں کے گورننس کے مسائل کا معاملہ۔ اگر کسی جگہ پر نشتر کھاٹ کا افتتاح اس کا آج ہوتا ہے لیکن اس پر اتنے لوگوں کا جب نقصان ہوا تو سب سے پہلا کلر پیج ہم نے چھاپا اور اس پر مسلسل ایشو کو لے کر چلتے رہے کہ جہاں پلوں کی ضرورت ہے۔ اسے پورا کیا جائے۔ آپ ہماری اس جدوجہد کو کسی پارٹی کی جدوجہد نہیں تھی۔ آپ اس کا حصہ تھے۔ اس میں آپ کے ریمارکس ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو خواب میں بہاولنگر سے پرائمری جماعت پاس، ملتان سے میٹرک کیا۔ یہ سارا علاقہ میرا علاقہ ہے۔ میرا تعلق بھی جنوبی پنجاب سے۔ میں آج جو محسوس کر رہا ہوں واقعی اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے وہ منزل قریب آتی ہوئی دکھائی دیتی ہے میں سیاست کی بات نہیں کر رہا۔ میں اس علاقے کے لوگوں کے الگ اور جدا صوبہ اس کے فنڈ مرکز سے منتقل ہوں اور وہ اپنے ضرورت کے حساب سے اس کو خرچ کر سکیں گے۔شاہ محمود قریشی: خبریں کا جنوبی پنجاب کے حوالے سے بڑا کردار رہا ہے۔ اب خیال آتا ہے کہ خبریں نے اپنا حصہ کیوں ڈالا کیونکہ ضیا شاہد کی شخصیت کا اس میں بڑا عمل دخل ہے۔ آپ جنوبی پنجاب سے ہیں آپ کو آگاہی تھی، مسائل سے واقف تھے آپ نے اس ایشو کو اٹھایا۔ جب کوئی اخبار آواز نہیں اٹھا رہا تھا تو خبریں نے جنوبی پنجاب کے ایک تشخص کی بات کی۔ کسان ٹی وی پر آپ نے متعدد پروگرام چلائے۔ وہاں کی اکثریت زراعت سے جڑی ہوئی تھی اور ہے۔ خبریں نے اس ایشو کو اٹھایا ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔ اب مجھے یہ سلسلہ آگے بڑھتا اس لئے دکھائی دے رہا ہے کہ قومی اتفاق رائے بن چکا ہے۔ تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب مسئلے کو اپنے پہلے 100 دن پروگرام کا حصہ بنا لیا ہے۔ پی پی نے اس کی تائید کی، بلاول کا شکریہ بھی ادا کیا۔ شاہد خاقان نے ایک جلسے میں کہا کہ نون لیگ کی اگلی حکومت جنوبی پنجاب کو صوبہ بنائے گی، حیرت کی بات ہے جو پارٹی ماضی میں رکاوٹ رہی وہی صوبہ بنائے گی۔ انہوں نے کہا کہ نواب صاحب آف بہاولپور کی پی ٹی آئی میں شمولیت اور ان کے بیٹے کا اس پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنا، دلیل ہے کہ بہاولپور نے بھی ہمارے موقف کو ذہنی طور پر قبول کر لیا ہے، یہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہے جو وفاق کو مضبوط کرے گی۔ مولانا فضل الرحمن سمیت تمام صوبے اس کی حمایت کریں گے۔ جنوبی پنجاب کے لوگوں کو چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے لاہور جانا پڑتا ہے۔ صوبہ بن گیا تو لاہور وہیں مل جائے گا۔ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ پی ٹی آئی کا وژن جنوبی پنجاب کو صرف صوبہ بنانا نہیں، لوکل گورنمنٹ سسٹم بھی دیں گے۔ اس علاقے کو زراعت کا حب بنانا ہے کیونکہ ملک کی 85 فیصد کپاس کی پیداوار اس خطے میں ہے۔ یہاں ایکسپورٹ کے بے تحاشہ مواقع ہیں۔ جنوبی پنجاب کو سی پیک منصوبے سے بھی بہت فائدہ ملے گا۔ یہاں روزگار ملے گا تو تقدیر بدل جائے گی۔ انہوں نے کہا گیلانی صاحب یہ درست کہتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کے لئے دو تہائی اکثریت چاہئے تھی وہ ان کے پاس نہیں تھی لیکن وہ سنجیدگی بھی نہیں تھی جو درکار تھی۔ کوشش کرتے تو اس وقت صوبہ بن سکتا تھا لیکن انہوں نے صرف سیاسی نعرے کی حد تک ہی بات رکھی۔ جہاں تک شہباز شریف کا تعلق ہے کہ میں نے بڑی ترقی کرائی یہ درست نہیں۔ اس سے زیادہ ترقی تو پرویز الٰہی دور میں ہوئی۔ بجٹ میں تو ہر علاقے کے لئے فنڈز رکھے جاتے ہیں مگر وفاق سے ان کی منصفانہ تقسیم نہیں ہوتی، یہیں ہوتا رہا ہے۔ جنوبی پنجاب کے بہت سارے ترقیاتی کام روکے گئے۔ پینے کا صاف پانی اس وقت بڑا مسئلہ ہے۔ ہیپاٹائٹس بتدریج پھیلتا جا رہا ہے۔ ملتان میں میٹروبس چلا دی میں اس کے خلاف نہیں لیکن جہاں بہت سارے مسائل ہوں وہاں ٹرانسپورٹ ترجیح نہیں ہوتی۔ آبی ذرائع بڑھانے کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا، زراعت بحران کا شکار، صوبے آپس میں لڑ رہے ہوں تو ایسے وقت میں اورنج ٹرین بنائی جا رہی ہے یہ تو سکھا شاہی ہے، ان کی ایسی ہی غلط ترجیحات کی وجہ سے آج یہ علاقہ پسماندہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ماہرین کہہ رہے ہیں کہ مستقبل میں جنگیں پانی کے مسئلے پر ہوں گی۔ بھارت کو اندازہ نہیں کہ جب پینے کے پانی کی قلت بڑھے گی تو اس کے خلاف کتنی نفرت بڑھے گی۔ فیڈریشن کی مختلف اکائیوں میں بدگمانی پیدا ہونے کے امکانات ہیں۔ سندھ میں پیپلزپارٹی ناقص کارکردگی کو چھپانے کے لئے پانی کی کمی کو ڈھال بنائے گی، بلوچستان سندھ پر الزام لگائے گا، سندھ پنجاب پر اور کے پی کے کہے گا میرے حصے کا پانی مجھے نہیں مل رہا یہ بہت بڑا ایشو بننے والا ہے۔ ورلڈ بینک یا انٹرنیشنل کورٹ میں ہم پانی کا مقدمہ ٹھیک طرح سے لڑ ہی نہیں سکے۔ مستقبل کا مسئلہ ہے۔ دن بدن پیچیدہ ہو رہا ہے۔کیا منتخب لوگ ملک کو لوٹ کر پیسہ باہر بھیجنے کا استحقاق رکھتے ہیں۔ یہ قوم کو فیصلہ کرنا ہے۔ عوام کو فیصلہ کرنا ہے کہ جو ان کے ووٹ سے منتخب ہو گیا کیا وہ قانون سے بالاتر ہو گیا جو چاہیں کریں، دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ شریف خاندان سیاسی کو سیاسی اور قانونی معاملات کو قانونی طور پر ہینڈل کریں۔ اگر پانامہ کا اشو نہ آتا تو یہ چیز زیر بحث ہی نہ ہوتی۔نواز بیانیہ کی پذیرائی بڑھ نہیں بلکہ کم ہو رہی ہے۔ ابتدا چودھری نثار کا بیان ہے کہ ”95 فیصد نون لیگ کے ممبران پارلیمنٹ مجھ سے متفق ہیں“ گزشتہ روز کے خبریں میں چھپا ہوا ہے۔ نواز جلسوں میں، ان کا ایک طبقہ تو ہے جو ان سے قائل ہے، سپورٹر ہے۔ جب بھی جلسہ کریں گے وہاں لوگ جائیں گے لیکن یہ مقبولیت کا پیمانہ نہیں۔ آنے والے دنوں میں نظر آئے گا کہ نواز کی مقبولیت کہاں کھڑی ہے۔ ان کا گراف تیزی سے گر رہا ہے اور ہم سے دانستہ یا غیر دانستہ کچھ ایسا ہو گیا ہے جس سے انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔ ختم نبوت کا ایشو، ممبئی حملوں سے متعلق مودی کا بیانیہ، معیشت بحران کی طرف آ چکی ہے۔ جتنے آپ مقروض ہیں، بے روزگاری ہے اور اب آئی ایم ایف یا دوست ممالک کے پاس دوبارہ کشکول لے کر جانا پڑے گا، اس سے نون لیگ کی کارکردگی ظاہر ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نون لیگ و پی پی سے مایوسی اور متنفر ہونے سے پی ٹی آئی کو جنم دیا ہے۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ پانی کے مسئلے پر3 سال سے بڑی محنت کی، سپریم کورٹ میں کیس بھی دائر کرنے لگا ہوں شاید اس ہفتے ہو جائے گا۔ آپ بھی جنوبی پنجاب کے ہیں وہاں پانی کی قلت سے واقف ہیں۔ انڈس بیسن معاہدے کے تحت ستلج، راوی و بیاس کا بھارت کو صرف زرعی پانی دیا گیا تھا۔ 70ءمیں انٹرنیشنل واٹر کنونشن منعقد ہوا جس میں طے ہوا کہ جو دریا مختلف ملکوں میں ایک سے زیادہ بہتے ہیں ان کے زریں حصے کے ملک ان کے پینے کے پانی کا حق ختم نہیں کر سکتے، پینے کا پانی ملنا چاہئے۔ یہ معاہدہ صرف آبپاشی پانی کا تھا سارے پانی کا نہیں تھا، آبپاشی پانی کا تھا سارے پانی کا نہیں تھا، آبپاشی کے علاوہ پانی کی 3 اشکال اور ہوتی ہیں جن میں پینے و گھریلو استعمال، ماحولیات و آبی حیات کا پانی شامل ہے۔ معاہدے میں لکھا ہے کہ دریائے جہلم و چناب جو پاکستان کے حصے میں آئے تھے وہ بھی جہاں تک بھارت میں بہتے ہیں اس میں سے بھی وہ ماحولیات، آبی حیات، پینے و گھریلو استعمال کا پانی استعمال کریں گے۔ میں نے اس پر بڑا کام کیا کتاب بھی لکھی کہ پانی کی یہی 3 اشکال جو بھارت ہمارے دریاﺅں سے حاصل کر رہا ہے۔ یہی چیز ستلج، راوی و بیاس کے حوالے سے معاہدے میں موجود نہیں۔ میں آپ کے لئے دُعا گو ہوں، خیر خواہ ہوں کہ آپ کی حکومت بنے تو آپ اس مسئلے پر کام کریں کیونکہ یہ کام حکومت کا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ورلڈ بینک و اقوام متحدہ کی جتنی رپورٹس آئی ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اگلے 5 برس میں پاکستان دنیا میں پینے کا پانی نہ ہونے والے 5 ممالک میں شامل ہو جائے گا۔ اگر آپ کو موقع ملا تو آپ باقاعدہ اس کا بیڑہ اٹھائیں، بھارت و ورلڈ بینک کو مجبور کریں کہ آپ میرے گارنٹر نہیں۔ معاہدہ صرف آبپاشی کے پانی کا تھا دوسرا سارا پانی چھوڑیں۔ دنیا میں میں نے نظریں تلاش کی ہیں 11 کیسز میں مختلف ممالک کیس جیت چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2 دریا ستلج و راوی میں سارا سال 10 سے 15 فیصد پانی تو حاصل کریں۔ پانی بہتا رہے گا تو زیر زمین پانی بھی بہتر ہو گا۔ گندہ پانی پینے کے باعث پورے پنجاب میں ہیپاٹائٹس بہت زیادہ ہے۔ نسلیں تباہ ہو رہی ہیں۔ میں نے اپنی سوچ عمران خان و شاہ محمود قریشی تک پہنچا دی اب آپ کا فرض بنتا ہے اور معاملہ آپ کے سپرد ہے۔

 


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain