تازہ تر ین

فاروق بندیال 15سال تک ن لیگ کا ہمنوالا ہم پیالہ رہا مریم نواز کو شال پہنائی تب کسی کو اس کی بد معاشی کا خیال کیوں نہ آیا؟خبریں میں چونکا دینے والی سٹوری

لاہور (ریاض صحافی) شبنم ڈکیتی اور عصمت دری کیس کا مرکزی مجرم فاروق بندیال تحریک انصاف میں شمولیت سے قبل ن لیگ کی آنکھ کا تارا تھا۔ ن لیگ سے س کی وابستگی 15 برس رہی‘ اس دوران اس کی ن لیگ سے میل ملاقات بھی ہوتی تھی۔ فاروق بندیال نے ایک تقریب میں نااہل وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے انہیں شال بھی پہنائی مگر تب کسی کو اس کی ڈکیتی‘ بدمعاشی اور اداکارہ شبنم کی عصمت دری کے بارے میں کچھ علم نہ تھا۔ وہ طویل عرصہ ن لیگ کا ہم نوالہ اور ہم پیالہ رہا۔ مگر جب وہ تحریک انصاف میں شامل ہوا تو اس کے جرائم کے حوالے سے ایک طوفان برپا ہوگیا۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان کو جب اس کے گھناو¿نے جرائم کا پتہ چلا تو انہوں نے فوری ایکشن لیتے ہوئے فاروق بندیال کو تحریک انصاف سے نکال پھینکا۔ ماضی کے بدنام زمانہ فاروق بندیال کے حوالے سے اخبارات و جرائد‘ ٹی وی‘ چینلوں اور سوشل میڈیا پر طرح طرح کی خبریں چل رہی ہیں۔ اس ضمن میں ماضی کے مشہور کرائم رپورٹر جمیل چشتی نے معروف ادیب اور کالم نگار رضی الدین رضی کی سٹوری سوشل میڈیا پر شیئر کی ہے۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی سٹوری انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ جو ”خبریں“ کے قارئین کی معلومات کیلئے چشتی صاحب کے شکریہ کے ساتھ شائع کی جا رہی ہے۔ جمیل چشتی کا کہنا ہے کہ فاروق بندیال کا نام 1978ءمیں اداکارہ شبنم گینگ ریپ کیس کے مرکزی مجرم کی حیثیت سے سامنے آیا تھا۔ فاروق بندیال اور اس کے 5 دوستوں نے 12 مئی 1978ءکو گلبرگ لاہور میں اداکارہ شبنم کے گھر واردات کی اور ان کے شوہر موسیقار روبن گھوشی اور بیٹے روفی گھوش کو رسیوں سے باندھ کر ان کے سامنے شبنم سے رات بھر شیطانی کھیل کھیلتے رہے۔ ملزمان صبح سویرے نقدی اور زیورات لیکر فرار ہوگئے۔ تمام ملزمان اعلیٰ اور بااثر گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے قریبی رشتہ داروں میں بیورو کریسی کے اعلی افسران بھی شامل تھے۔ واردات کے 5 روز بعد 17 مئی 1978 کو لاہور پولیس نے ملزمان کو گرفتار کرلیا۔ یہ جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاءکا دور تھا اور فاروق بندیال کے ماموں ایس کے بندیال صوبائی سیکرٹری داخلہ کے عہدہ پر فائز تھے۔ فاروق اور اس کے ساتھی مجرموں کو بچانے کی کوشش کی گئی مگر عوامی احتجاج اور فلم انڈسٹری کی ہڑتال کے باعث حکومت ان کے خلاف مقدمہ چلانے پر مجبور ہوگئی۔ 24 اکتوبر 1979 کو فوجی عدالت نے فاروق بندیال اور اس کے 5 ساتھیوں کو سزائے موت سنا دی۔ تاہم بعد میں شبنم پر دباو¿ ڈلوا کر ان کی سزا معاف کر دی گئی۔ فاروق کو کوٹ لکھپت جیل لاہور میں بی کلاس دی گئی۔ جیل میں موجود سیاسی قیدیوں کے مطابق وہ دوسرے ساتھیوں کے ساتھ عام قیدیوں کو بڑے فخر سے بتاتا تھا کہ ہم نے اداکارہ شبنم کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ مشرق وسطی کے ایک ملک کی اعلیٰ شخصیت کی سفارش پر ان کی پھانسی کی سزا عمر قید میں بدل گئی اور شبنم انہیں معاف کرنے کے بعد اپنے اکلوتے بیٹے اور شوہر کے ساتھ بیرون ملک منتقل ہوگئیں۔ یہ اداکارہ شبنم کے عروج کا زمانہ تھا اس نے 25 نومبر 1978 کو فوجی عدالت میں بیان ریکارڈ کرایا اور فاروق بندیال اور دیگر ملزمان کی شناخت کی یہ ساراحوال روز نامہ ”امروز“ اور دیگر اخبارات میں تفصیل کے ساتھ شائع ہوا۔ شبنم کے وکیل نامور قانون دان ایس ایم ظفر تھے۔ جبکہ فاروق بندیال کی طرف سے بھی معروف وکیل عاشق حسین بٹالوی کی خدمات حاصل کی گئیں۔ عاشق حسین بٹالوی کی وجہ شہرت یہ تھی کہ وہ اس زمانے میں نواب محمد احمد خان قتل کیس میں وکیل استغاثہ تھے۔ اس کیس کے مرکزی ملزم پیپلز پارٹی کے بانی و چیئرمین سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ اداکارہ شبنم نے بیان ریکارڈ کرانے سے قبل بائیبل پر حلف دیا۔ انہوں نے اردو زبان میں بیان دیا۔ شبنم نے عدالت کے روبرو کہا کہ ملزمان میرے بیٹے روفی کو اغوا اور قتل کرنے کی دھمکیاں دے رہے تھے میں بیٹے کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار تھی۔ شبنم نے انتہائی خندہ پیشانی سے مخالف وکیل کی جرح کا سامنا کیا اس موقع پر شبنم کی آنکھوں سے آنسو بہتے رہے جبکہ عدالت میں فاروق بندیال کے ہمراہ دیگر ملزمان وسیم یعقوب بٹ‘ طاہر تنویر بھنڈر‘ جمیل احمد چٹھہ‘ جمشید اکبر ساہی بھی موجود تھے۔ جمیل چشتی اس وقت سید عباس اطہر کی زیر ادارت نکلنے والے روز نامہ ”آزاد“ کیلئے کام کرتے تھے۔ وہ پہلے صحافی تھے جو واردات کے بعد شبنم کے گھر پہنچے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت گھر میں سامان بکھرا ہوا تھا۔ شبنم کی حالت غیر تھی روبن گھوش کا کرتا پھٹا ہوا تھا۔ شبنم اپنے بیٹے کو گود میں لئے سو رہی تھی۔ وہ بار بار بہوش ہو جاتی تھی۔ شبنم کے بیڈ روم میں پرفیوم کی بے پناہ خوشبو تھی جو ملزمان شبنم پر انڈیلتے رہے۔ جمیل چشتی کی موجودگی میں ہی اداکار محمد علی شبنم کے گھر پہنچے اور انہوں نے پولیس اور اعلی حکام سے رابطہ کئے۔ جمیل چشتی کے مطابق ایک ملزم جمشید اکبر ساہی کا تعلق پولیس سے تھا۔ اس لئے ملزمان پولیس کی نقل و حرکت سے بھی واقف تھے۔ اس زمانے میں پولیس صبح ساڑے چار بجے تک گشت کیا کرتی تھی۔ ملزمان نے واردات کے بعد ساڑھے چار بجے کا انتظار کیا اور پولیس گشت ختم ہونے کے بعد سارے اطمینان سے فرار ہوگئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملزمان کی گرفتاری بھی اس جمشید شاہی کی وجہ سے عمل میں آئی۔ واردات کے دوران جو زیورات لوٹے گئے ان میں اداکارہ شبنم کا ایک قیمتی ہار بھی تھا۔ جمشید شاہی واردات کے تیسرے روز وہی ہار ایک طوائف کو تحفہ دینے بازارحسن گیا تو وہاں پہلے سے موجود مجرموں کی نشان دہی پر دہر لیا گیا۔ اداکارہ شبنم کے وکیل ایس ایم ظفر نے شبنم ڈکیتی کی واردات اپنی کتاب ” میرے مشہور مقدمے“ میں بھی تفصیل سے درج کی ہے۔ ملزموں نے اس قسم کی واردات اداکارہ زمرد کے ساتھ بھی کی تھی۔ مگر اس نے ان کے ڈر سے خاموشی اختیار کئے رکھی۔

 


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain