تازہ تر ین

جناب چیف جسٹس ،کالا باغ ڈیم کا مسلہ مشترکہ مفادات کو نسل لیکر جائیں میری رٹ سپریم کو رٹ میں ہے مسلہ آپ کے پاس لیکر آرہا ہوں ،بھارت راوی ،ستلج، کا ساراپانی نہیں روک سکتا اب کوئی دریا جو ملکوں میں بہتاہے ،آبی حیات ،پینے کے پانی کو ئی ملک بند نہیں کر سکتا کہنہ مشق صحافی ،دبنگ تجزیہ کار ضیاشاہد کی چینل ۵کے مقبول پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ “میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ سب ے اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ دو سال سے تو میرا دن رات اس مسئلے پر کام کر رہا ہے راوی جہاں سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے جسڑ وہاں گیا۔ سلیمانکی جہاں سے ستلج پاکستان میں داخل ہوتا ہے وہاں گیا۔ بھارت نے شٹر ڈال کر پانی بند کیا ہوا ہے۔ ایک قطرہ پانی کا بھی سوائے سیلاب کے۔ جب سیلاب آتا ہے تو اٹھا دیتے ہیں تا کہ پانی ہمارے علاقے میں آ جائے۔ میں نے جو تحقیق کی ہے اس وقت بھی میرے آفس میں ہو گی کل یا پرسوں سامنے ہو گی۔ چیف جسٹس کے میں نے رٹ فائل کر دی ڈاکٹر خالد رانجھا کے ذریعے۔ مختصراً بات یہ ہے کہ پاکستان میں پانی کے دو الگ الگ معاملات ہیں۔ ایک مسئلہ ہے پینے کے پانی کا کیونکہ دریاﺅں میں مشرقی دریا ان کو کہتے ہیں راوی اور ستلج ان میں پوار سال پانی کی بندش کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح بہت نیچے چلی گئی۔ آپ یوں دیکھیں کہ جب میں ملتان سے میٹرک پاس کر کے لاہور آیا بہت برس پہلے کی بات ہے تو لاہور میں 10 فٹ نیچےے ہینڈ پمپ سے پانی مل جاتا تھا کیونکہ راوی سارا سال بہتا تھا میں خود راوی میں کشتی رانی کرنے جاتا رہا ہوں۔ اب دریا سارا سال بند رہتے ہیں یہاں سے سیوریج کا گندا پانی کھڑا ہے اس کی وجہ سے پانی نیچے نیچے ہوتے ہوئے آج کل جو ہمارے گھروں میں واسا کا پانی سپلائی ہو رہا ہے لاہور سے اس سے پورے ملک کی حالت کا کہ وہ اب 650 فٹ نیچے سے آتا ہے ہر ٹیوب ویل سے۔ لیکن آخری ٹیوب ویل جو پنجاب اسمبلی کے پیچھے وہ 1350 فٹ پر جا کر پانی ملا ہے اللہ جانتا ہے میں نے اپنی زندگی میں دیکھا کہ بہاولنگر ہم دریا کے کنارے ہوتے تھے اور بڑی نہر چلتی تھی اس طرح سے ہاتھ، ڈبہ یا مگ لے کر پانی کنوﺅں میں اتنا قریب ہوتا تھا کہ ایک آدمی سے کہتے تھے میرا ہاتھ پکرنا دوسرا ہاتھ نیچے کر کے جگ بھر لیتے تھے۔ اس کے لئے ضرورت ہے کہ جو میں نے تجویز کیا تھا اور پچھلے ڈیڑھ سال سے یہ موومنٹ چلا رہا ہوں ستلاج راوی واٹر فورم کے نام سے اس میں بہت سے۔ یہ اخبار کا مسئلہ نہیں ہے یہ پاکستانی شہریوں کا مسئلہ ہے اس میں میرے ساتھ آبی ماہرین ہیں۔ سیاستدان ہیں زمیندار بھی ہیں۔ یہ خبر ہمارا بالکل مختصر بتاﺅں کہ ستلج اور راوی میں پاکستان کے لئے بھارت سو فیصد پانی بند نہیں رکھ سکتا ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ انڈس واٹر ٹرسٹی میں جو معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت دو دریا وہ لے گیا اور جہلم اور چناب ہمارے حصے میں آئے اس میں درج ہے کہ جن علاقوں سے جہلم اور چناب گزرتے ہیں وہاں بھارت پینے کے پانی اور گھریلو ضروریات کا پانی اور نمبر2 ماحولیات کا پانی نمبر3 آبی حیات کا پانی وہ درج ہے ایک شق میں کہ پانی جہلم اور چناب سے بھی جب یہ انڈین علاقے سے گزرتے ہیں ان مصارف کے لئے پانی لے سکتا تھا اب ہونا یہ چاہئے تھا کہ یہی جملہ اصول راوی اور ستلج کے حوالے سے بھی ہوتا وہاں ہمارے لوگوں میں ایک محی الدین صاحب ایک بزرگ ہوتے تھے اوور سینئر بیورو کریٹ تھے ایوب خان کے زمانے میں ہمارے ہاں یہ جملہ درج نہیں ہے لیکن سارے وکلا یہ کہتے ہیں کہ جب وہ اپنے لئے پینے کا پانی، ماحولیات کا پانی اورآبی حیات کا پانی یقینی بناتا ہے کہ ان دریاﺅں میں جو ان کے علاوں میں بہتے ہیں اور پاکستان کو ان کا پانی انڈس واٹر کے تحت تو ان تین مصارف کے لئے پانی لے رہا ہے اس طرح ہمارا کہنا ہے کہ ہم سپریم کورٹ میں جانا چاہتے ہیں سپریم کورٹ مجبور کرے وفاقی حکومت کو، ہم ان بنیادوں پر بین الاقوامی عدالت انصاف میں جائیں۔ میں نے خود شاہد خاقان عباسی کے پاس یہ کیس لے کر گیا انہوں نے کہا کہ ہم کیا کریں ورلڈ بینک نہیں مانتا۔ ابھی پچھلے دنوں کشن گنگا کے مقام پر مقبوضہ کشمیر میں دریائے نیلم پر مودی صاحب نے آ کر افتتاح کیا تو فوری طور پر میں نے یہ بات ان سے بھی کہی۔ آرمی چیف صاحب، میں نے یہ بات چیف جسٹس صاحب سے بھی کہی۔ اس کے نتیجے میں پاکستان نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کے ساتھ دو بندوں کے ساتھ ورلڈ بینک کے پاس بھیجا جو وہاں سے ناکام ہو کر آ گئے کہ نہیں جی وہ نہیں مانتے۔ پہلی بات ہم یہ رٹ کرنا چاہتے ہیں کہ جناب ورلڈ بینک کوئی عدالت نہیں وہ تو صرف ریوننگ اتھارٹی ہے کیونکہ وہ انڈس بین پلان کے تحت اور واٹر ٹرسٹی کے تحت ورلڈ بینک گارنٹر تھا۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کہ اگر کوئی اختلاف پیدا ہو جائے تو گارنٹر کے پاس جائیں کہ فلاں ملک ہم سے زیادتی کر رہا ہے۔ وہ ہماری کوئی بھی اپیل، استدعا، عرضداشت نظرانداز نہیں کر سکتا۔ وہ تھانیدار نہیں لگا ہوا۔ دوسری بات یہ کالا باغ ڈیم۔ آج اس پر بھی بہت بات ہوئی۔ کالا باغ ڈیم کے بارے میں آج 16 سال پہلے میں نے رٹ کی لاہور ہائی کورٹ میں جناب وہ رٹ 7 سال تک پینڈنگ رہی صوبوں کو جب یہ جاتا تھا کہ آپ جواب دیں کہ کالا باغ ڈیم پر کیا اعتراضات ہیں تو سندھ جواب دیتا تھا نہ کے پی کے (جو اس وقت صوبہ سرحد تھا) نہ وہ جواب دیتا تھا۔ پنجاب کی طرف سے رپورٹ آ جاتی تھی۔ پنجاب کی رپورٹ کا فائدہ کوئی نہیں کیونکہ ان دونوں صوبوں کو اعتراص ہے میں نے اس وقت ایک سیمینار کیا جنگ اخبار کے تحت کیا تھا جس میں ولی خان صاحب (میں اس وقت جنگ سے وابستہ تھا) آئے تھے صوبہ سرحد سے آئے تھے۔ عبدالحفیظ پیرزادہ، صوبہ سندھ کی طرف سے اس میں حنیف رامے حالانکہ سابق وزیراعلیٰ تھے لیکن غلام جیلانی صاحب نے کہا تھا کہ ان کو آپ پنجاب کا کیس نہیں کرنے دو۔ اس میں ولی خان نے اٹھ کر کھڑے ہو کر کہا کالا باغ ڈیم اگر بنا تو ہم اسے بم سے اڑا دیں گے اور ہمیں پنجاب پر اعتبار نہیں اور میں واک آﺅٹ کرتا ہوں۔ یہی موقف سندھ کا تھا کہ ہم نہیں بننے دیں گے۔ ٹھیک کہہ رہے چیف جسٹس صاحب لیکن اس کا بھی طریقہ یہ ہے کہ میری ایک پینڈنگ رٹ علی ظفر صاحب جو آج کل وزیر قانون ہو گئے ہیں ان سے میں نے کروائی تھی ایس ایم ظفر نے انہیں لکھا تھا وہ بھی پینٹنگ پڑی ہوئی ہے کالا باغ ڈیم کے لئے۔ وہ بھی سپریم کورٹ کے پاس موجود ہے میں اس کی کاپی نکلوا کر لے کر جاﺅں گا کہ جناب اس کی جلد سماعت کی جائے اس سے ہم نے پھر سے کہا تھا کہ چونکہ صوبوں کے درمیان اختلاف ہے اس لئے سندھ کے پی کے بلوچستان اور پنجاب ان چاروں کے موقف، یہ دیتے ہی نہیں، کسی معقول بات پر کوئی آنے کے لئے تیار نہیں اسے انہوں نے مسئلہ بنایا ہوا ہے۔ ہم نے گزارش کی تھی کہ سپریم کورٹ حکومت پاکستان اور فیڈریشن ااف پاکستان کو پابند کرے کہ وہ ہمارا کالا باغ ڈیم والا کیس (ڈیم بنتا نہیں بنتا ہے؟) کیا اعتراضات ہیں میں اس کے لئے اس کی مشترکہ مفادات کونسل میں لے لیا جائے۔ اس میں چاروں صوبوں کے ہوتے ہیں ان کی صدارت وزیراعظم پاکستان کرتا ہے ہمارا موقف یہ تھا کہ اگر اس سطح پر یہ ڈسکس ہو جب سارے بیٹھے ہوں تو پھر وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم جواب ہی نہیں دیتے۔ آخری بات یہ ہے کہ جناب کالا باغ 8 سال میں نے یہاں کیس کیا۔ اب کیس کیا ہوا ہے سپریم کورٹ میں کیس کیا ہوا ہے کالا باغ ڈیم کے لئے۔ اس معاملے میں میرا سندھی اخبار خبروں کے دفتر پر حملے ہوئے سکھر میں، اس کا چھ دن تک گھیراﺅ جاری رہا۔ جو سندھ کا انتہا پسند ہے یہ کہتا ہے کہ کالا باغ ڈیم کا نام ہی نہ ہو۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس علاقے کے اعتبار سے صرف کالا باغ وہ جگہ ہے جہاں ڈیم بن سکتا ہے۔ آخری بات ہم نے یہ کیا واپڈا نے یہ تجویز کیا پرویز مشرف کے دور میں اس وقت بھی میں نے بڑی بھاگ دوڑ کی تھی صدر صاحب سے ملاقات ہوئی۔ میں نے تجویز دی تھی کہ سندھ کے دانشوروں، کالم نویسوں کو بلایا جائے ان کو یہاں بلا کر بٹھایا جائے تربیلا اور منگلا بھیجا جائے اور ان سے گفت و شنید ہو کہ بغیر سنے ہوئے کیوں مخالفت کیوں کر دیتے ہیں۔ ہمارا نقطہ نظر اس وقت بھی یہ تھا کہ واپڈا نے جو ڈیزائن تھا وہ اتنے فٹ نیچے کر دیا تھا اور کہا تھا کہ اب جو ایک ہی اعتراض ہوتا تھا صوبہ سرحد کو کہ اگر سیلاب آیا گو نوشہرہ پانی میں ڈوب جائے گا تو انہوں نے اس کا لیول کم کر دیا اور کہا کہ اب کسی بھی طریقے سے زیادہ سے زیادہ سیلاب بھی آ گیا تو نوشہرہ پانی میں نہیں ڈوبے گا۔ سندھ والے کہتے تھے جب ڈیم بنے گا تو پنجاب اس میں سے نہریں نکال لے گا۔ جناب آخری فزیبلٹی یہ تھی اور نقشہ یہ بنایا گیا تھا کہ کالا باغ ڈیم کیری اوور بنے گا۔ کیری اوور ڈیم اس کو کہتے ہیں کہ جہاں نہریں نہیں نکالی جاتیں صرف بجلی پیدا کی جاتی ہے اور پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے اورجب پانی جوڑنا مقصود ہو تو اس سے اگلے علاقے میں کراچی تک سندھ میں جا سکتا ہے۔ اس پر بھی سندھ کے بعض دوستوں کا اعتراض تھا کہ جی ہمیں پنجاب پر اعتبار نہیں تو ایک سیمینار میں خبریں کی طرف سے پی سی کراچی میں کیا تھا اس میں نوید قمر کے والد قمر اللہ شاہ جو سنیٹر تھے اور بھٹو کے ذاتی دوست تھے ان کو بلایا تھا انہوں نے بھی آخر میں مجھے وہی بات کہی جو ولی خان نے کہی کہ ضیا صاحب کھانا کھلائیں کالا باغ ڈیم تو ہم نے بننے نہیں دینا ہمارا پانی بند ہو جائے گا۔ اس وقت کے وزیر آب پاشی جو خود سندھی تھے چانڈیو صاحب انہوں نے کہا کہ جناب یہ طے ہو چکا ہے کہ اس کی نگرانی جب ڈیم بن جائے گا تو کتنا پانی کس کو دینا ہے اس کی نگرانی ارسا کرے گی۔
ساڑھے 3ہزار ڈیم بھارت بنا چکا ہے، ہمارے 2ڈیم منگلا اور تربیلا ہیں۔ چودھ سال پہلے سنا تھا کہ بھاشا ڈیم بن رہا ہے اس پر بھی اعتراضات آئے، جس جگہ وہ بن رہا تھا وہ شاہراہ آبریشم کے پاس ہے وہاں انڈیا نے اعتراض کیا ہوا ہے کہ یہ متنازعہ لائن ہے جس کی وجہ سے ورلڈ بینک سمیت دنیا کا کوئی مالیاتی ادارہ قرض دینے کو تیار نہیں۔ بھاشا ڈیم پر 14 سال سے صرف زبانی جمع خرچ ہے۔ کالا باغ ڈیم آج شروع ہو جائے تو 8ویں سال بجلی دینے لگے گا اور پانی بھی جمع ہو جائے گا۔ چیف جسٹس کو پہلے بھی خراج تحسین پیش کیا تھا۔ ان سے کہتا ہوں کہ آپ کو جھولی پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ میری ہی رٹ کے مطا بق اس مسئلے کو مشترکہ مفادات کونسل میں لے جائیں تاکہ صوبے بیٹھ کر اور مل کر طے کریں۔ انہوں نے کہا کہ پانی کا مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہو گا جب تک بھارت پانی نہیں چھوڑے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرا خیال ہے پرویز مشرف واپس آ جائیں گے کیونکہ یہی خدشہ تھا کہ گرفتار کر لیا جائے گا۔ بہتر ہے وہ واپس آ کر عدالت کے سامنے پیش ہوں۔ نواز شریف پر اتنے مقدمات ہیں انہیں تو گرفتار نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ رانا ثناءنے حسن عسکری کے بارے بہت گھٹیا اور سخت الفاظ استعمال کیے۔ سیاست میں ناپسندیدگی کا اظہار مہذب انداز میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے ٹھیک کہا کہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے نام کو مسترد کرتے ہیں، ان کو غیرجانبدار تسلیم نہیں کر سکتے۔ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ جو نام بھیجے گئے تھے ان میں سے ایک کو منتخب کیا جو ہمارا اختیار ہے۔ حسن عسکری نے بھی کہا کہ مجھے الیکشن کمیشن نے نامزد کیا ہے کسی پارٹی کی طرف سے نہیں ہوں۔ ترجمان آل پاکستان مسلم لیگ ڈاکٹر امجد نے کہا ہے کہ پرویز مشرف کے پاکستان آنے کی حتمی تاریخ ابھی نہیں بتا سکتا۔ دو روز پہلے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ وہ وطن واپس آنا چاہتے ہیں اور ان کا پلان بن رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ان کی نااہلی کے فیصلے کو کینسل کرنے کی اپیل خود ہی دائر کی ہوئی تھی تاکہ وہ ملک میں واپس آ کر عام انتخابات میں حصہ لیں سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وکلاءسے مشاورت کر کے فیصلہ کریں گے کہ وہ 13تاریخ تک وطن واپسی کے تمام انتظامات پورے ہو سکتے ہیں یا عید کے بعد ہی آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ 2013ءمیں بھی مشرف نے انتخابات کےلئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے لیکن انہیں پشاور ہائیکورٹ نے تاحیات نااہل کر دیا۔ اس لیے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی کہ مشرف انتخابات میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کے کاغذات نامزدگی پر دستخط کروا لیے ہیں، اس بار بھی 4مختلف حلقوں سے ان کے کاغذات نامزدگی 3,2 روز میں جمع کروا رہے ہیں۔ پرویز مشرف کے کاغذات این اے 01 چترال، ملتان، این اے 247کراچی اور گوادر کےلئے تیار کر رہے ہیں۔ سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے کہا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کی ناکامی کے بعد الیکشن کمیشن کے پاس آئینی اختیار ہے کہ وہ نگران وزیراعلیٰ کا اعلان کرے۔ آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کا فیصلہ فائنل ہوگا کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہوگا۔ نواز لیگ کو اس طرح سے تنقید نہیں کرنی چاہیے تھی۔ الیکشن کمیشن کے پاس 4نام گئے تھے، انہوں نے ایک کا انتخاب کرنا ہی تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن کو آئینی تحفظ حاصل ہے، نواز لیگ کو اس انداز میں اعتراض نہیں کرنا چاہیے تھا۔ خیال ہے کہ ن لیگ نے حکمت عملی کے تحت اعتراض کیا ہے تاکہ بیوروکریسی میں تقرر و تبادلوں کے حوالے سے دباﺅ ڈالا جاسکے۔ یہ دباﺅ 2013ءمیں دوسری پارٹیاں نہیں کر سکیں۔ جیسے ہی نجم سیٹھی آیا سب نے مبارکباد کے قصیدے پڑھنے شروع کر دئیے۔ چند مہینوں بعد پتہ چلا تو اعتراض شروع کر دیا۔ نواز شریف کی دباﺅ ڈالنے کی حکمت عملی ہے جو کامیاب نہیں ہوگی۔ حسن عسکری دباﺅ میں آنے والے نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب اب الیکشن کمیشن کے نمائندہ ہیں۔ رانا ثناءکو گالیاں نکالنے پر طلب کرنا چاہیے۔ الیکشن کمیشن رانا ثناءکو عام انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کا اختیار رکھتا ہے، نااہل کرسکتا ہے۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain