تازہ تر ین

چیف جسٹس اور ججوں کا شکریہ، بھارت سے اپنے حصے کا پانی لینے کی رٹ سماعت کیلئے منظور کر لی : ضیا شاہد ، چوہدری برادران نے عمران کو مرکز اور پنجاب میں مکمل حمایت کا یقین دلا دیا : کامل علی آغا کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ اصولی طور پر بڑا مشکل ہوتا ن لیگ ق لیگ سے بات کر لیتی ہے10,8 سال تک دونوں جماعتیں ایک ہی جماعت کا حصہ تھیں ایک دوسرے کے خلاف لڑتی رہی ہیں۔ ان کے آپسی تعلقات ایک دوسرے سے متصادم رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں ہر شخص کم سے کم ضائع کرے اور زیادہ فائدے حاصل کرے۔ لہٰذا میں اب بھی یہ سمجھتا ہو ںکہ کوئی پتہ نہیں کہ کسی کو کسی وقت بھی اور بڑی آفر مل جائے تو عین وقت پر بھی کوئی اہم تبدیلی دیکھ سکتے ہیں۔ جو اے کے ساتھ کھڑا تھا اچانک وہ بی کو چھوڑ کر سی کے ساتھ مل جائے۔ اصل میں پاکستان جیسے حالات میں جہاں تک میں نے دیکھا ہے مجھے کوئی کم ہی لوگ سیاست میں نظر آئے جنہوں نے اصولی یا نظریے کی خاطر قربانی دی ہو یا انہوں نے نقصان کو برداشت کیا ہو عام طور پر نظر یہی آتا ہے ہے شخص بکاﺅمال ہے اس نے اپنے سامنے پلیٹ رکھی ہوئی اور وہ ہر ایک کے سامنے پلیٹ لے کر جاتا ہے کہ ڈالو بئی اس میں کیا ڈالتے ہو۔ جہاں وہ دیکھتا ہے کہ سب سے مراعات، اقتدار کا حصہ، سب سے زیادہ افسری یا سب سے پرکشش سیٹیں، یہی وہ مل رہی ہیں وہ اس کے ساتھ معاملہ طے کر لیتا ہے۔ پرویز الٰہی اور چودھری شجاعت کا ماضی سیاسی کافی اچھا رہا ہے چودھری شجاعت حسین نے دو مہینے پہلے اپنی کتاب کی تقریب رونمائی میں آواری ہوٹل لاہور میں ہوئی جو کتاب انہوں نے لکھی ہے جس میں انہوں نے زیادہ کھل کر نوازشریف صاحب کے ساتھ ان کے اختلافات کیوں اور کیسے ہوئے اور کن کن معاملات پر ہوئے اس پر سب سے بڑی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر مرتبہ انہوں نے کہا ایک مرتبہ نہیں دو مرتبہ 4 مرتبہ پرویز الٰہی کو پیش کش کی کہ ہم آپ کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیں گے عین موقع پر پھر وہ اپنے بھائی کو بنا دیتے تھے اور چودھری پرویز الٰہی جھنڈی دیکھتے رہ جاتے تھے ہو سکتا ہے اس مرتبہ کوئی نئی صورتحال سامنے آئے۔ لگتا ہے کہ پرویز الٰہی کو سابقہ تجربے کی روشنی میں اب کوئی ایسی غلطی نہیں کرنی چاہئے کہ وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ جس کو آزما لیا دوسری دفعہ نہیں آزمانا چاہئے یہ تو چوتھی، پانچویں دفعہ آزما رہے ہیں۔ پاکستان میں جوڑ توڑ کا عمل جاری ہے لہٰذا ایک ہفتہ اور چلے گا یہ اچھا ہے کہ ایک ہفتے میں بھی لوگوں کے چہروں سے مزید نقاب اتر جائیں گے اور نظر آ جائے گا کہ کون کہاں اور کس حد تک ننگا کھڑا ہوا ہے۔ ننگا ان معنوں میں کہ اختلاق شرافت اصول کی قسم کا نظریہ کوئی تہذیب، کوئی پابندی لگتا ہے کہ پاکستان میں ماضی میں اب تک ہی ہوتا رہا ہے کہ عین وقت ہر شخص جو ہے اپنے دائیں اور بائیں ہاتھ پھیلائے رکھتا ہے اور دیکھتا رہتا ہے کہ دائیں ہاتھ پر جو سکے پڑے تھے ان کا وزن زیادہ ہے کہ بائیں ہاتھ کے سکے گا اور اچانک وہ بدل جاتا ہے۔ میری دعا ہے موجودہ صورتحال میں جو سیاسی پارٹیاں جس سے بات چیت ہو رہی ہے وہ کوئی اچھی اخلاقیات کا کوئی مسلمہ قدروں کا کوئی دنیا میں جو ایک اصول ہیں عمرانیات کے، سیاسیات کے مختلف قسم کے جوسیٹلڈ ایشو ہیں ان پر بات طے ہو چکی ہے ان کا خیال رکھتے ہوئے انہی دوستیوں اور دشمنیوں کو حتمی شکل دیں۔ ایک زمانے میں منظور وٹو وہ مایوس ہو گئے بے نظیر کی وجہ سے بے نظیر صاحبہ نے ان کو کرپٹ قرار دے کر حکومت سے نکال دیا تو وہ دوبارہ چھم چھم کرتے ہوئے اور وہ واپس آنا چاہتے تھے نوامشریف کی صفوں میں۔ میں نے واقعہ پہلے بھی بیان کیا تھا کہ میں اور جاوید ہاشمی انہیں لینے گئے، تو جناب (کلب روڈ سے ماڈل ٹاﺅن پہنچنے تک 26 گاڑیوں کے ہم آئے تھے اور جب ہم وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ گیارہ رہ گئے ہیں 15 بیچ میں غائب ہو گئی ہیں اور گیارہ گاڑیوں میں سے بھی دو چار لوگ نکلے ان میں کچھ واش روم جانے کے بہانے کھسک گئے اور بالآخر یہ ہوا تھا کہ 12 یا 13لوگ رہ گئے تھے۔
کامل علی آغا نے کہا ہے کہ ہماری پارٹی کا ہائی لول وفد عمران خان کو مبارکباد دینے کے لئے اور عمران خان نے اچھا استقبال کیا۔ چودھری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی صاحب کا اور پارٹی کا شکریہ ادا کیا کہ ہمارے جانے کا مقصد یہ تھا کہ میڈیا میں بہت ساری خبریں ابہام پیدا کر رہی تھیں کہ شاید ہم شاید کسی سودہ بازی کرنے کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں ہم نے ثابت کیا ہے کہ ہم ہماری لیڈر شپ اور جماعت کبھی بھی سودے بازی میں شریک نہیں ہوتی ہم فیصلے جو بھی قومی مفاد میں فیصلے کرتے ہیں۔ الحمد اللہ ہم نے مبارکباد دی اور یقین دلایا کہ ہماری پارٹی بھرپور تعاون کرے گی مرکز اور صوبے میں بھی کرے گی۔ لگتا تھا کہ چودھری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی کی شخصیت پاکستان کے مروجہ سیاسی کردار کی حامل نہیں، بلکہ وہ بہرحال ان کے کچھ نہ کچھ اصول اور نظریات ہیں اور کس بنیاد پر انہوں نے رابطہ کیا ہو گا۔ یہ بہت اچھی بات ہے آپ اچھی بات کہی ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہی سمجھا جاتا کہ شاید آپ اس لئے وہاں گئے تھے کہ دیکھتے ہیں یہ کیا دیتے ہیں دوسری طرف سے تو ہمیں پیش کش ہو چکی ہے۔
کامل علی آغا نے کہا کہ دوسری طرف سے پیش کش ہوئی اور چودھری شجاعت حسین نے کہا کہ ملاقات کرنے میں تو ہمیں کبھی انکار نہیں ہوا اور کھلے دروازے کی سیاست کرتے ہیں لیکن چونکہ اس وقت معاملات حکومت سازی کے ہیں اس لئے ہم آپ سے ملاقات بعد میں کریں گے تو میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان صاحب نے کھلے سل سے چودھری صاحب کو ویلکم کیا اور یہ کہا کہ چودھری صاحب ہمیں آپ کی ضرورت رہے گی آپ کے تجربے کی ضرورت پڑے گی۔ چودھری پرویز الٰہی کے جو ترقیاتی کام تھے ان کی تعریف کی۔ 1122 کی تعریف کی۔ لاہور رنگ روڈ کی تعریف کی۔ ماس ٹرانزٹ منصوبہ جو انڈر گراﺅنڈ چلنا تھا اس کی تعریف کی خاص طور پر یہ کہا آپ کا جو منصوبہ تھا اس پر پنجاب حکومت یا پاکستان کا کوئی پیسہ خرچ نہیں ہوتا تھا۔ اور ملکیت بھی پنجاب حکومت کی بن جاتی اور کوئی سب سڈی بھی نہیں دینا پڑتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر بے نظیر بھٹو شہید نہ ہوتی تو آپ کو کوئی ہرا نہیں سکتا تھا لیکن بدقسمتی ہوئی کہ بے نظیر بھٹو شہید ہو گئیں جس کی وجہ سے آپ کو الیکشن میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ عمران خان نے کہا کہ حکومت سازی کے اندر آپ کی مشاورت ہر سطح پر شامل ہو گی۔ وفاق بھی اور صوبے میں بھی۔ آپ کا اور آپ کی جماعت کا اہم رول ہو گا اور اہم حصہ ہو گا۔ پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ کی حیثیت سے موضوع گفتگو بنانا ہمارا ایجنڈا نہیں تھا۔
ضیا شاہد نے مزید گفتگو کرتے ہوئے اپنی اسلام آباد میں موجودگی اور پانی کے حوالے سے دریاﺅں میں پانی بند ہونے کے خلاف عدالت میں دائر اپنے کیس کی شنوائی کے بارے میں کہا کہ اس لئے نہیں کہ یہ کیس میں نے کیا تھا بلکہ آنے والے چند روز میں پتا چل جائے گا کہ اس قدر اہمیت کے ایشو پر آج تک سپریم کورٹ میں کوئی رٹ نہیں ہوئی ہو گی۔ میری رٹ یہ تھی کہ پاکستان بڑی تیزی کے ساتھ دنیا کے ایسے زون میں شامل ہو رہا ہے جس میں پینے کا پانی، زیر زمین پانی کی سطح کا بہت نیچے ہونا، اس میں معدنیات اور زہریلی موادوں کا شامل ہونا اور رفتہ رفتہ پینے کے پانی کے علاوہ زرعی پانی کی مقدار میں بے اندازہ طور پر کمی شامل ہو رہی ہے۔ 1947ءمیں پاکستان بنا اور 1949ءمیں میں نے پنڈت نہرو کا بیان پہلی مرتبہ روزنامہ پاکستان ٹائمز کے لاہور ککے ایڈیشن میں جو انگریزی زبان کا اخبار تھا، اس میں پڑھا تھا کہ پاکستان بن تو گیا ہے لیکن اس کو تو پانی کی کمی ہی مار دے گی۔ یہ تو اس لئے ختم ہو جائے گا کہ پانی نہیں ہے۔ اس کے بعد جس طرح سے انہوں نے دریاﺅ ںکا پانی بند کیا جس کے نتیجے میں 1960ءکا معاہدہ سامنے آیا۔ میں اس 1960ءکے ہندوستان اور پاکستان کے معاہدے کو اس کی تشریف کے لئے سپریم کورٹ میں لے کر گیا تھا اور مجھے خوشی ہے، ڈاکٹر خالد رانجھا صاحب نے میرے لئے بڑی محنت سے یہ رٹ تیار کی اور اس میں پہلی مرتبہ میں نے یہ ثابت کیا، مختصر لفظوں میں بہت اہم بات ہے ہم نے 1960ءکے معاملات سے بھاگ رہے ہیں اور نہ کہہ رہے ہیں کہ اس پر عمل نہیں کریں گے۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ اس ٹریٹی میں انڈیا یہ لکھتا ہے اور اس نے ہم سے دستخط کروائے ہیں کہ راوی، چناب، جہلم اور دریائے سندھ تین بالائی دریا، جن کو شمالی دریا کہتے ہیں۔ یہ تینوں دریا جب تک بھارتی علاقے سے سفر کرتے ہوئے گزرتے ہیں انڈیا ان میں سے پینے کا پانی، گھریلو استعمال کا پانی، پن بجلی بنانے کے لئے پانی، ماحولیات اور آبی حیات پالنے کا ان 5 قسم کا پانی لے سکے گا۔ اس پر ہم نے اور انڈیا نے دستخط کئے ہوئے ہیں۔ وہ یہ کہتا ہے کہ یہ پانچ قسم کے پانچ قسم کے پانی غیر زرعی پانی ہیں اور یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے درمیان زرعی پانی کا معاہدہ تھا اور زرعی پانی کے علاوہ اس معاہدے میں انگریزی زبان میں یہ جملہ موجود ہے There are four atee urage of uatey یعنی چار پانی کے استعمال اور بھی ہیں جن کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں۔ تو میں یہ معاہدہ لے کر تیاری کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کے پاس یہ عرض لے کر گیا تھا کہ جناب! ان کو حق حاصل ہے کہ وہ چناب، جہلم اور سندھ سے ان چاروں مقاصد کے لئے پانی لے سکتے ہیں۔ مگر آپ نے ستلج کو مکمل بند کر دیا ہے، راوی، ستلج اور بیاس کو مکمل طور پر بند کر دیا ہے۔ راوی اور ستلج کے پانی میں سے ایک قطرہ نہیں چھوڑا ہوا۔ لکڑی کے تختے لگا کر ان کو بند کر دیا ہے۔ ہمارے حصے میں جب یہ دریا آتے ہیں تو پانی کی بوند بھی نہیں ہوتی۔ جس کی وجہ سے کھیتی باڑی تو ایک طرف رہی، پینے کا پانی بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح اور نیچے جا رہی ہے اور اس میں زہر اور سنکیا شامل ہو رہی ہے جس کے باعث ہیپاٹائٹس، کینسر پھیل رہا ہے، جلدی بیماریاں ہو رہی ہیں۔ پوری دنیا میں یہ رپورٹ پھیلی ہوئی ہے کہ 2025ءمیں یعنی آج سے سات سال بعد پورے پاکستان کا علاقہ دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہو گا جو پانی کے اعتبار سے قحط کے ضمن میں آتے ہیں۔ مجھے فخر ہے میں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر گزار ہوں کہ جن دوستوں نے میرے ساتھ محنت کی اور ڈیڑھ سال کی محنت کے بعد آج ہم اس نتیجے پر پہنچے۔ اور میں چیف جسٹس آف پاکستان، سپریم کورٹ اور ان کے چار ساتھی ججوں کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے رٹ کو سماعت کے لئے منظور کیا اور سب سے زیادہ یہ کہ اس کی مخالفت یوں ہو رہی تھی کہ اس میں انڈیا کا ذکر آتا ہے اور دیکھیں جی اس سے بین الاقوامی تعلقات خراب ہوں گے۔ تو میں نے خود وکیل صاحب کی جگہ کھڑے ہو کر، حالانکہ میرے وکیل ڈاکٹر خالد رانجھا وہاں موجود تھے۔ لیکن میں نے خود پندرہ منٹ تک اس پر آرگومنٹ کئے۔ میں نے کہا جناب ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ہم انڈیا کے ساتھ اس معاہدے کو نہیں مانتے۔ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ جو سہولتیں انڈیا اپنے ملک میں چناب، جہلم اور سندھ سے اپنے علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے لئے حاصل کر رہا ہے۔ وہ ہمارے ہیں تین دریا بیاس تو بالکل خشک ہو چکا ہے، ختم ہو چکا ہے، اب اس کے آثار بھی پاکستان میں نہیں ہیں۔ اس کا سارا پانی رخ موڑ کرراجپوتانہ میں ہندوﺅں کی شکل میں چھوڑ دیا ہے۔ ستلج اور راوی، راوی میں اس وقت بھی جا کر دیکھیں تو گندا اور سیوریج کا پانی ہے۔ صاف پانی یہاں دور دراز تک نہیں ہے۔ ہم نے کہا کہ جب وہ اپنے علاقے کے لوگوں کے لئے پینے کا صاف پانی، گھریلو استعمال کا پانی، پن بجلی کا پانی، آبی حیات اور سبزے کا پانی یقینی بناتا ہے، کسی قوم کو اس چار قسم کے پانی سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔ تو ہم یہ کہتے ہی ںکہ انڈیا صاحب! یہ جو ہمارے ستلج اور راوی اور بیاس تینوں دریا جو آپ نے مکمل طور پر ختم کر دیے بند کر دیئے ہیں۔ اس میں شٹر لگا کر ایک قطرہ آپ پاکستان میں نہیں آنے دیتے۔ تو جناب ہم چاہتے ہیں کہ ہم ثالثی عدالت میں جائیں۔ ہردفعہ ہمیں ایک ہی خوشخبری ملتی ہے کہ ورلڈ بینک نے روک دیا، انہوں نے اجازت نہیں دی۔ ورلڈ بینک کون ہوتا ہے ہمیں اجازت نہ دینے والا۔ ورلڈ بینک صرف ایک ثالثی ہے۔ ایک درمیانی واسطہ ہے۔ ورلڈ بینک صرف ایک فنڈ دینے والا ادارہ تھا۔ جس نے کچھ پیسے دے دیئے کہ لنک کینال بنا لیں۔ ورلڈ بینک نہ تو کوئی عدالت ہے جو ہاں اور نہ میں فیصلہ دے سکے۔ لہٰذا ورلڈ بینک پر پریشر پڑنا چاہئے، جس طرح نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر میں کشن گنگا دریا کے بارے میں اس پر پریشر ڈالا کہ آپ ہمارا معاملہ عالمی ثالثی عدالت میں بھکر جائیں۔ اس لئے میں آخر میں کہوں گا کہ ہم بھی دباﺅ ڈالیں انڈیا پر بھی۔ اور اگر انڈیا نہیں مانتا تو پھر یہی مطالبہ لے کر ہم ورلڈ بینک کے پاس جائیں اور ان سے کہیں کہ مہربانی فرما کر آپ ہمارا کیس ریفر کریں، آپ نہ نہیں کہہ سکتے۔ پچھلے دنوں بھی چار آدمیوں کو آپ نے انکار کر کے واپس بھیج دیا۔ آپ کو ہمارا کیس عالمی ثالثی عدالت کو بھیجنا پڑے گا۔ اور انشاءاللہ انشاءانشاءاللہ ہم ایک سال، دو سال، تین سال، ہم بھارت سے اپنے پانی میں مکمل بندش یعنی سو فیصد پانی کو بند کرنا۔ اس کو ختم کروا سکیں گے۔ اور ہم ستلج اور راوی میں اتنا پانی چھڑوا سکیں گے جو پینے کے پانی کے لئے استعمال ہو اور ہمارے زیر زمین پانی کی سطح بھی اوپر ہو سکے اور ان دونوں دریاﺅں میں سیوریج کے پانی کی جگہ صاف ستھرا پانی بھی رواں دواں ہو سکے۔ ہم کوششیں کریں گے۔ ہم سے مراد میری ذات نہیں ہے۔ یقین جانیں خدا کی قسم میرے پاس پورے پاکستان میں ایک انچ زرعی زمین بھی نہیں ہے۔ میرے پاس میرے باپ دادا کی جو زمین تھی کب سے بیچ کر اخبار میں لگا چکا ہوں۔ صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ صرف میری ذات کا مسئلہ نہیں۔ میرے ساتھ بچہ بیٹھا گاڑی چلا رہا ہے، میرے پیچھے میرا پی اے بیٹھا ہے۔ سامنے دروازہ کھلا ہے اور اب میں دفتر میں داخل ہو رہا ہوں۔ یہ اتنی دنیا جو باہر کھڑی ہوئی ہے۔ یہ لفٹ والا جو لفٹ کھول کر میرا انتظار کر رہا ہے۔ ان کے بچوں نے کہاں جانا ہے۔ آپ کے بچوں نے کہاں جانا ہے۔ ان سارے لوگ، جو آپ کے پاس سیٹ پر کھڑے ہیں ان کے بچوں نے کہاں جانا ہے کیا یہ پانی مانگنے افریقہ جایا کریں گے؟ کیا یہ کسی آسٹریلیا جایا کریں گے۔ ان کو کیوں ان کے اپنے ملک میں پینے کا پانی، زراعت کا پانی، ماحولیات کا پانی، گھریلو استعمال کا پانی اور سب سے بڑھکر یہ کہ ایسا پانی جس سے یہ اپنی زندگی کے حالات درست کر سکیں، وہ ملنا چاہئے۔ انڈیا یہ پانی نہیں روک سکتا ہے۔ کیونکہ 1960ءمیں ایک معاہدہ ہوا تھا انڈیا اور پاکستان کے درمیان جس کو انڈس واٹر ٹریٹی کہتے ہیں۔ اس کے بعد اب تک صورتحال یہ ہے کہ 1970ءمیں عالمی واٹٹر کنونشن ہوا۔ اس کے تحت کسی زیریں ملک کے حصے کا پانی اس کے بالائی ملک کے حصے کا پانی بند نہیں کر سکتا۔ انڈیا کو پانی چھوڑنا پڑے گا۔ پاکستان کے لئے پروگرام میں کسان اتحاد کے رہنما خالد کھوکھر نے ٹیلی فونک گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم زراعت میں بری طرح پیچھے جا رہے ہیں۔ نہروں میں 50 سے 70 فیصد تک اس بار پانی کی کمی رہی ہے۔ جس کی وجہ سے کپاس کاشت نہیں ہو سکی اور باقی فصلوں پر برے اثرات پڑے ہیں۔ زیر زمین پانی دن بدن نیچے جا رہا ہے جس کی وجہ سے بجلی اور ڈیزل کا خرچ بڑھ رہا ہے۔ ضیا شاہد نے انہیں پانی کے حوالے سے سپریم کورٹ میں اپنی رٹ کے حوالے سے بتاتے ہوئے کہا کہ اس وقت پورے ملک کو میرے اس کیس میں شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ جس پر خالد کھوکھر نے کہا کہ آپ جہاد کر رہے ہیں اور ملک کی سب سے بڑی خدمت کر رہے ہیں۔ یقین کر لیں کہ اس وقت پاکستان میں واحد آپ نظر آ رہے ہیں کہ جو پاکستان کے لئے کام کر رہے ہیں۔ یہ حکومتیں پاکستان کے لئے کوئی کام نہیں کر رہیں۔ پاکستان کے بارے میں کسی نے سوچا تک نہیں۔ آپ پاکستان کی سوچ رکھتے ہیں۔ اللہ آپ کی عمر دراز کرے۔ ہم لوگ آپ کے ساتھ ہیں۔ پاکستان کسان اتحاد آپ کے ساتھ ہے اور آپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ کل ہی لاہور پہنچ کر پرسوں آپ سے ملاقات کروں گا اور آپ کے ساتھ چلیں گے۔ جہاں بھی احتجاج کرنا پرا، سپریم کورٹ میں آپ کے کیس کا حصہ بنیں گے۔ اپنا وکیل کھرا کریں گے۔ آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ کیونک ہماری بقا اس میں ہے۔ ہماری آنے والی نسلوں ہماری زراعت کی بقاءاسی میں ہے زراعت میں ہم دن بدن پیچھے جا رہے ہیں۔ پینے کا صاف پانی نہیں مل رہا۔ حکومتی ترجیحات میٹرو اور دیگر چیزوں پر تھیں۔ پاکستان کے لئے کوئی ترجیحات نہیں تھیں کسی نے پاکستان کے لئے نہیں سوچا۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain